زندگي کے رنگ
آخری قسط
میں جب گھر پہنچا تو دیکھا کہ گھر میں ایک ایسی خاموشی تھی کہ پہلے تو مجھے لگا گھر میں کوئی نہیں تھا ۔ پر گھر کا دروازہ کھلا بوا تھا - اس لیے مجھے ایک پریشانی سی ہونے لگی
جب میں اندر گیا تو دیکھا کہ ہماری کام کرنے والی گھر پر موجود تھی ۔ جو کہ کچھ عرصے سے اپنے گاوں گئی ہوئی تھی ۔ اپنے دادا کی وفات کی وجہ سے ۔ اور اس وجہ سے وہ شادی میں بھی شریک نہیں تھی
اس لڑکی کو ہمارے گھر کام کرتے ہوئے 6 سال ہونے کو آئے تھے .
امی نے اس کو اپنی بیٹی بنا رکھا تھا ۔ اور وہ بھی والدہ کی خدمت کچھ ایسے ہی کرتی تھی ۔ میں اس کو دیکھ کر کچھ پریشان بھی ہوا کیونکہ وہ صبح کے وقت میں ہمارے گھر کام کرتی تھی ۔ اور شام کو اس گورنمنٹ سکول جاتی تھی جہاں صبح اور شام کو کلاسز ہوتی تھیں ۔ کیونکہ یہ ہماری والدہ کی شرط تھی کیونکہ وہ خود تو پڑھی لکھی نہ تھیں اس لیے چاہتی تھیں کہ وہ لڑکی اپنی پڑھائی پوری کرے۔
اس لڑکی کی عمر تو زیادہ تھی مگر وہ ابھی 7th جماعت میں تھی .
مجھے دیکھ کر وہ بھی خوش ہو گئی کہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھی ۔ کیونکہ میں اس کا والدہ کے بعد سب سے زیاده خیال رکهتا تها۔
میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ امی اندر ہیں اور دوائی کھا کر سو رہی تھیں ۔ بھائی اپنے اپنے کاموں پر تھے ۔ ابو کے کوئی دوست آئے تھے تو وہ ان کے ساتھ کہیں گئے ہوئے تھے ۔
میں یہ سن کر حیران رہ گیا کہ والد کا ایسا کون سا دوست ہے جس کے ساتھ ابو باہر گئے تھے .
پھر پتہ چلا کہ بھابی اور بھائی صاحب ، بھابی کے گھر گئے ہوئے تھے ۔ اسی وجہ سے اس نے آج سکول سے چھٹی کی تھی ۔ تاکہ وہ امی کے پاس رہ سکے ۔ اور گھر کے کام بھی کر سکے
جس سے مجھے کوئی سروکار نہ تھا ۔ میں آمنہ ( کام کرنے والی ) کو بتا کر فرزانہ کے گھر چلا گیا ۔ پر وہاں پر بچے موجود نہیں تھے کہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ میری واپسی ہو گئی تھی .
میں ان کو نیا وقت بتا کر کہ کل سے وقت بدل جائے گا ۔ مس فاطمہ کی کزنوں کو پڑھانے چلا گیا ۔ ان کو پڑھانے کے بعد ان کو بھی بتا دیا کہ کل سے میں اب نئے وقت پر آوں گا .
یہ سب اس لیے کہ میں دوبارہ اپنی پریکٹس کے لیے جانا چاہتا تھا . اور اب دن بھی بڑے ہو گئے تھے ۔ اس لیے اب میں جلدی ان کو پڑھانے جانے کا پروگرام پہلے ہی بنا چکا تھا .
خیر وہاں سے گھر آیا تو ابو اور انکل بھی واپس آ چکے تھے ۔ بلکے والدہ بھی جاگ چکی تھیں ۔ انکل کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ یہ کیسے ہمارے گھر آ گئے ۔ کیونکہ وہ بہت دور رہتے تھے ۔ مگر وہ واحد شخص تھے جن کی میری والد سے بڑی گہری اور اچھی دوستی تھی ۔ میں بھی ان سے تقریبا 5 سال بعد ملا تها
پھر ان سے ملنے کے بعد کچھ دیر حال احوال کیا
انہوں نے پہلے تو مجھے مبارک دی کہ اب تم انٹرنیشنل کھلاڑی بن گئے ہو ۔ اور ایک بہت ہی اعلان گورنمنٹ جاب بھی مل گئی تھی . تم نے جو خواب دیکھے تھے پورے ہو گئے ہیں .
تو میں ہنس پڑا کہ نہیں انکل ابھی میری منزل بہت دور ہے تو انہوں نے مجھے دعا دی چلو ... تمھیں کامیاب کرے پھر میں امی کے پاس بیٹھ گیا ۔ کافی دیر ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد ، آصفہ کے گھر والوں کا بتا کر ماموں کے گھر کا بھی بتایا کہ سب کیسا رہا ۔ اس دوران مامی اور ماموں کا رویہ پھر سے مجھے یاد آیا پر ایک بار پھر سے مجھے کوئی وجہ سمجھ نہیں آئی ۔ اس لیے میں نے والدہ سے اس کا ذکر نہیں کیا
اتنے میں آمنہ آئی اور کہنے لگی کہ بھائی مجھے گھر چھوڑ آئیں . کیونکہ والدہ نے یہ طے کر رکھا تھا کہ اگر کبھی اس کو ہمارے گھر دیر ہو جائے گی تو ہم اس کو خود چھوڑ کر آئیں گے ۔ اور اسی وجہ سے اس کے گھر والے مطمن ہوتے ہیں
میرے بولنے سے پہلے والدہ نے آمنہ کو مخاطب کیا اور بولی کہ تم سالن بھی لے جانا ۔ اور پھر مجھے اشارہ کر کے پاس بلایا اور انکل کے لیے رات کے کھانے کے لیے کچھ خاص لانے کو کہا ۔ تو میں آمنہ کو لے کر اس کے گھر کی جانب چل پڑا ۔ جب ہم اس کے گھر جا ربا تھا جو کہ پیدل 15 منٹ کے فاصلے پر تھا ۔ کہ آمنہ نے پہلے کہا کہ ایک بات پوچھوں تو میں نے کیا کہ پوچھوں .
اس نے کہا کہ بھابی کا رویہ کچھ سمجھ نہیں آ رہی ۔ اور میرے پوچھنے پر بتایا کہ جانے سے پہلے بھابی نے امی کے ساتھ بہت لڑائی کی تھی ۔ اور ہر بار آپ پر ہی اپنی چین چوری کرنے کا الزام لگاتی رہی .
میں نے سب سن کر اس کو بولا کہ تم ان معاملات میں نہ پڑو ۔ اور اس کو چھوڑ کر واپس آتے ہوئے کھانے کے لیے چیزیں لیتے آیا . کھانا کھا کر ایک بار پھر سے میں چھت پر چلا گیا ۔ کہ انکل میرے کمرے میں رہائش پزیر تھے ۔ چھت پر جا کر میں پھر سے سوچ رہا تھا کہ پہلے بھائی کم تھے کہ اوپر سے بھابی بھی ایسی ہی مل گئی .
مگر مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ میں سوچتے سوچتے سو گیا .
اگلے دن میں جب اُٹھا تو سب ناشتہ کر چکے تھے ۔ اور میں بھی سکول سے لیٹ ہو چکا تھا ۔ مگر میں ناشتہ کر کے اپنی سائیکل پر سکول چلا گیا . مجھے سائیکل اس لیے بھی پسند تھی کہ میری آدھی سے زیادہ ورزش اس پر ہو جاتی تھی ۔ اور میرا اسٹیمنا بہت اچھا رہتا تها .
سکول میں اس وقت تک مالک نہیں آیا تھا اور نہ ہی میری چھٹی لگی تھی ۔ میں آفس میں ہی تھا کہ مس فاطمہ کسی کام سے آفس میں آئیں کہ سکول میں پیپر شروع ہو چکے تھے .
مجھے دیکھ کر وہ حیران بھی ہوئیں اور خوش بھی ۔ مجھ سے ہاتھ ملایا تو میں حیران رہ گیا ۔ مگر وہ جلدی میں تھیں اس لیے چیزیں لے کر آفس سے نکل گئیں ۔
میں بھی ان کے پیچھے ہی چلا گیا ۔ سب سے مل کر میں ایک طرف بیٹھ گیا ۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ 9th کلاس کے کچھ بچے میرے پاس آ گئے ۔ اور سوال سمجھانے کا کہنے لگے تو میں ان کو لے کر کلاس میں چلا گیا کہ ان کے بورڈ کے پیپر اگلے ہفتے سے شروع ہونے والے تھے ۔ ان میں فرزانہ تو موجود تھی ، پر مسرت غائب تهى .
جس کا بعد میں پتہ چلا کے وہ آج ڈاکڑ کے پاس گئی ہے ۔ میں نے موقع ملتے ہی فرزانہ سے ملنے کا کہا تو اس نے بتایا کہ آپ کو 7 دن انتظار کرنا پڑے گا ۔ کیونکہ میں نے اس کو کہا کہ کہیں تم ڈرامے تو نہیں کر رہی تو ناراض ہو گئی کہ اس کو ڈرامے کی ضرورت نہیں ۔ اگر وہ میرے ساتھ سب کچھ نہیں کرنا چاہتی تو کوئی مجھے مجبور نہیں کر سکتا ۔ اور یہ کہتے ہی وہ غصے سے گھر چلی گئی ۔
میں آفس جا کر بیٹھ گیا ، کہ اتنے میں مس فاطہ اندر آ گئیں ۔ ان کے ہاتھ چائے کا کپ تھا جو انہوں نے مجھے دیا ۔ اور ساتھ ہی پوچھا کہ آپ نے اس دن میرے سوال کا جواب نہیں دیا .
میں نے چونک کر پوچھا کہ کس سوال کا
تو فاطمہ بولی کہ آپ مجھ سے دوستی کیوں کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا سچی دوستی کے لیے یا صرف مجھے چودنے کے لیے .
میں بکا بکا رہ گیا کہ اب اس سوال کا جواب کیا دوں
وہ میری طرف دیکھ رہی تھی ، اور میری بولتی بند تھی ۔ کہ بات تو اس کی سچی تھی .
وہ تو بات کر کے نکل گئی مگر میری ایسی حالت کر گئی کہ میں چائے تک پینا بھول گیا
کافی دیر بعد مجھے چائے یاد آئی تو وہ بلکل ٹھنڈی ہو چکی تھی میں سوچ رہا تھا کہ کسی بچی کو بلا کر اس گرم کرنے کا بولوں کہ اتنے میں فاطمہ دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی .
مجھے دیکھ کر بولی کہ میری بات اتنی بری لگی کہ چائے تک نہیں پی . اور پھر خود بخود ہی ہنسنے لگی کہ آپ بلکل ویسے ہی ہو جیسے ہم سب سوچتے اور آپ کے بارے میں باتیں کرتے ہیں ۔ اور کپ اُٹھا کر باہر چلی گئی .
کچھ دیر بعد واپس آئی تو چائے دے کر بولی کہ پرسوں ( یعنی 2 دن ) ٹیوشن پڑھا کر میرے گھر آنا ۔ اور پھر گھر کا ایڈریس سمجھا کر واپس چلی گئی .
میں جب اگلے دن فرزانہ کے گھر پڑھانے گیا تو پہلی بار مجھے اس کے ساتھ اکیلے میں مستی کرنے کا موقع ملا
کہ اگلے دن بچوں کا ڈرائنگ کا پیپر تھا ، اور بچوں نے 20 منٹ میں ڈرائنگ کرکے دکھائی ، اور چلے گئے ۔ فرزانہ میرے لیے چائے لیکر آئی ۔ اس کے پاس دکھانے کو کتابیں بھی تھیں ۔
میں نے چائے کا گھونٹ لیا تو وہ بولی کیسی بنی ہے ۔ میں نے مذاق میں کہا دودھ کم ہے
وہ بولی میں لیکر آتی ہوں ۔ اور اُٹھ کھڑی ہوئی تو میں نے کہا یار تازه دودہ نکال دو
تو وہ میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اور قمیض اوپر اٹھائی اور ممے ننگے کر کے بولی ۔ خود نکال لو میں بھی مستی میں آ گیا ۔
آج پہلی بار اس کے ممے کو میں غور سے دیکھ رہا تھا ۔ اس کے ممے بلکل گول تھے ۔ اس کے Nipples براؤن رنگ کے تھے اور بس ایسے جیسے ابھار کے اوپر ابھار ہوں . اور مموں کے اوپر نیپلز Nipples کے نیچے براؤن رنگ بڑے بڑے سرکل بھی تھے ۔ جو میں نے پہلے بار کسی کے مموں پر دیکھے تھے ، اس سے پہلے جتنی بھی لڑکیاں میری زندگی میں آئیں تھیں ۔ کسی کے بھی مموں پر ایسے سرکل نہیں دیکھے تھے
اور پھر اس کے ممے کو پہلے تو ایسے مسلنے اور مٹھی میں بھر کر کهنچنے لگا جیسے بھینس کا دودھ نکالنے سے پہلے اس کے تھن کو تیار کرتے ہیں .
کچھ دیر میں فرزانہ گرم ہو گئی ۔ اس نے اپنے ہاتھ میرے سر پر رکھ دیے ۔ اور اپنا ممہ خود میرے منہ میں دے دیا ۔ اس دوران اس کے ممے پہلے سے بھی زیادہ سخت ہو گئے تھے ۔ ساتھ ہی اس کے نیپل Nipples بھی کچھ بڑے ہو گئے تھے
میں نے کافی دیر تک اس کے ممے سے کھیلتا رہا ۔ کبھی اس کا ایک مما ميرے منہ میں ہوتا تو کبھی دوسرا .
کبھی میں اس کے ممے کو پورا منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیتا تو کبھی اس کے ممے کو ہونٹوں میں پکڑ کھنچتا - کبھی اپنی زبان سے اس کے نیپل Nipples پر مالش کرتا
جب میں اس کے ایک ممے کو چوس رہا ہوتا تو کبھی کبھی اپنے ہاتھ سے دوسرے ممے کو دباتا اور مسل بھی دیتا
اس دوران میرا کو باتھ خالی ہوتا میں اپنا ہاتھ اس کی ننگی کمر پر پھیرنا شروع کر دیتا ۔ کبھی میں اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتا تو کبھی اپنے ناخنوں سے کجھلی کرتا .
کچھ دیر میں فرزانہ مچلنے لگی ۔ وہ اب اپنے منہ سے نکلنے والی سسکیوں کی آواز کو کنڑول کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر پھر بھی کبھی کبھی اس کے منہ سے آواز نکل جاتی .
مجھے اس کے مموں کے ساتھ کھیلتے ہوئے 7 سے زائد منٹ ہو گئے تھے ۔ مزید کچھ دیر میں اس کا جسم مجھے اکڑتا ہوا محسوس ہوا اور ساتھ ہی وہ فارغ ہو گئی ۔ جیسے ہی وہ فارغ ہوئی تو اس نے منہ سے لمبی لمبی سانسیں لینا شروع کر دی ۔ جیسے نہ جانے کتنی دور سے دوڑ کر آئی ہو اور پھر اس نے اپنا جسم میرے اوپر جیسے گرا دیا
اور اب حالت یہ تھی کہ میرا جسم صوفے پر تقریبا لیٹا ہوا تھا ۔ اور وہ میرے اوپر ایسے ہی لیٹی ہوئی تھی .
اور پھر تو جیسے وہ پاگل ہو گئی اور اس نے ایسے میرے ہونٹوں کو ایسے چوسا کہ مجھے اپنے ہونٹوں میں جلن اور درد محسوس ہونے لگی .
پھر وه یک دم مجھے چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی ۔
جب وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں چائے کا ایک اور کپ تھا ۔ اس نے وہ کپ مجھے دے دیا . اور پہلے سے موجود کپ سے خود چائے پینا شروع کر دی
پھر جب میں جانے لگا تو اس نے مجھے پہلے بہت پیار سے کسنگ کی اور پھر اس نے جو کہا اس کو سن کر میں حیران رہ گیا ۔ اس نے کہا کہ سر جس دن ہم پہلے دن کریں گے ۔ آپ نے وہ سارا یک دم میرے اندر کرنا ہے ۔ کیونکہ مجھ سے تھوڑا تھوڑا درد برداشت نہیں ہو گا ۔ پھر یہ نہ ہو کہ میں درد کی وجہ سے آپ کو کرنے نہ دوں ۔
آگے اب آپ کو پتہ ہو گا کہ آپ نے یہ کیسے کرنا ہے ۔ اور ساتھ ہی وہ جلدی سے گھر کے اندر چلی گئی
میں وہاں سے نکل آیا اور راستے میں سوچتا جا رہا تھا کہ یہ سب کیسے ہو گا ۔ شام کو جب گیم پر گیا تو وہاں موجود دوست سے جو سب کچھ جانتا تھا سے اس بات پر مشورہ لیا کہ کیا اور کیسے کروں تو اس نے کبھی کچھ اور کبھی کوئی بات کرنے شروع کر دی ۔ جو کہ سب کی سب میری سمجھ سے باہر تھیں
اگلے دن میں چھٹی کے بعد سکول سے سیدھا آصف قصائی کے پاس گیا اور اس کو ساری بات بتائی ۔ پہلے تو اس نے مجھے خوب تنگ کیا کہ لو جی استاد جی جوان ہو گیا ۔ اب بچیاں پھاڑنے لگا ہے ۔ پھر اس نے ایک ہی مشورہ دیا کہ لڑکی کو گرم کر کے ساتھی کنڈوم کا استعمال كرنا .
میرے پوچھنے پر کے ساتھی کنڈوم ہی کیوں ، کوئی اچھا اور امپورٹڈ کنڈوم کیوں نہیں
اس نے جواب دیا کہ ساتھی Shan اس لیے کہ وہ اتنا چکنا ہوتا ہے کہ ایک ہی جھٹکے میں پورے کا پورا اندر چلا جائے گا ۔ مگر یہ بھی یاد رکھنا کہ اس کو بہت تکلیف ہو گی ۔ اور اس کی چیخ اتنی اونچی ہو گی کہ سنبھالنا مشکل ہو گا ۔ اگر واقعی اس کا پہلا موقع ہے لن لینے کا میں اب سوچ چکا تھا کہ کیا کرنا ۔
اور پھر جب میں گھر پہنچا تو اچانک مجھے یاد آیا کہ آج تو فاطمہ نے بھی بلایا ہوا ہے ۔ تو میں فورا ہی وقت سے پہلے ہی فرزانہ کے گھر ٹیوشن پڑھانے چلا گیا .
آج میں نے سائیکل کی بجائے موٹر سائیکل کا استعمال کیا
وہاں سے فاطمہ کی کزنوں کو پڑھانے گیا . اور وہاں سے جتنی جلدی
ممکن ہو سکتا تھا فارغ ہو کر میں نے فاطمہ کے گھر کی راہ لی
کچھ دیر کی محنت کے بعد میں نے فاطمہ کا گھر تلاش کر لیا
ختم شد
0 Comments