ads

Zindagi ke Rang - Episode 2

زندگی کے رنگ 

قسط نمبر 02



اس لیے میں اس ہلکی ہلکی بارش میں باہر نکل آیا ۔ اور جب تک میں سکول پہنچا تو میری پینٹ ہلکی سے گیلی ہو چکی تھی ۔ کیونکہ اوپر میں نے ٹریک سوٹ کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی ۔ جو کہ پیراشوٹ کی بنی ہوئی تھی ۔ اس وجہ سے میں صرف نیچے سے ہی گیلا ہوا تھا ، اور اس وجہ سے ہی مجھے ٹانگوں پر ہلکی سی سردی کا احساس بھی ہو رہا تھا ۔

اس دن جب میں سکول پہنچا تو 2 دونوں سے ہونے والی بارش کی وجہ سے پہلے دن سے بھی کم اسٹوڈنٹ آئے تھے اور استایذہ کی تعداد 3 ہی تھی ۔ اس دن جب میں پریکٹیکل کروانے لیبارٹری پہنچا جو کہ اس عمارت کا اصل میں باورچی خانہ تھا ۔ تو پتہ چلا کہ 10th کی صرف 2 بچیاں ہی آئیں تھیں ۔ تو میں نے کہا کہ آج پریکٹیکل نہیں کرواتے ۔ اور میں ان کے ساتھ کلاس روم میں چلا گیا جہاں جا کر معلوم ہوا کہ صرف 2 اسٹوڈنٹ 10th کلاس کی سائنس والی تھیں ۔ اور 3 لڑکے اور 4 لڑکے آرٹس کے تھے اور 3 اسٹوڈنٹ 9th کے تھے اور ان میں 1 لڑکا اور 2 لڑکیاں تھیں۔ تعداد کم ہونے کی وجہ سے سب ایک ہی کلاس میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے ۔

میں وہاں سے نکل کر آفس چلا گیا ۔ جہاں پر تینوں خواتین بیٹھیں چائے پی رہی تھیں ۔ انہوں نے 1 کپ مجھے بھی دیا ۔ میں چائے پی کر واپس باہر چلا گیا کہ خواتین میں بیٹھ کر کیا کروں گا ۔ اور جب باہر گیا۔ باہر دوبارہ بارش شروع ہو چکی تھی ۔ میں نے دیکھا تو مسرت باہر ہی کھڑی نظر آئی اور اس کے ساتھ اس کی وہی دوست تھی جس کو میں نے کبھی اس سے علحیدہ نہیں دیکھا ۔ مسرت نے مجھے بلڈنگ کے ایک طرف آنے کا اشارہ کیا ۔ اور خود بھی اس طرف چل پڑی ۔

پہلے تو میں نے سوچا کہ جاوں یا نہ جاوں ۔ پھر ادھر اُدھر دیکھتا ہوا ۔ اس کے پیچھے چل پڑا ۔ میں نے جب ایک بار مڑ کر پیچھے دیکھا تو مجھے سوائے مسرت کی دوست کے کوئی نظر نہیں آیا اور وہ بھی ہمارے پیچھے پیچھے آ رہی تھی۔ اور پھر جب دوبارہ آگے دیکھا تو دیکھا کہ مسرت نے ایک دروازہ کھولا ۔ اور اس کے اندر چلی گئی ۔ میں بھی جب اس دروازے سے اندر گیا تو دیکھا کہ مسرت دروازے کے ساتھ کھڑی تھی ۔

اور آگے سڑھیاں تھیں ۔ جب میں اندر گیا تو اس نے دروازے سے سر باہر نکالا اور اپنی دوست کو کہا کہ جب سیٹی کی آواز سنے تو دروازہ کھول دینا ۔ اور دروازہ اندر سے بند کر دیا ۔ اور ساتھ ہی میں نے باہر سے کُنڈی لگنے کی آواز سنی ۔ جس پر مجھے یقین ہو گیا کہ باہر سے اس کی دوست نے جس کا نام ابھی تک معلوم نہیں تھا ۔ نے دروازہ بند کر دیا ۔ ایک بار تو اس کی دیدہ دلیری دیکھ کر میں پریشان ہوگیا ۔ پر اس وقت تک میرے دماغ میں پھدی لینے کا جوش سوار ہو گیا تھا ۔ اور میں نے مسرت کو جو کہ میرے آگے تھی اب ۔ کو میں نے اس کو پیچھے سے پکڑ لیا ۔ اور اب حالت یہ تھی کہ مسرت کے پیٹ پر میرے ہاتھ تھے ۔ اور اس کی بلکل سیدھی گانڈ ( اس کی گانڈ پر پیچھے کی طرف بھی کوئی خص اُبھار نہیں تھے ) میرے لن والی جگہ سے کچھ اوپر تھی ۔

وہ میرے ایسے کرنے پر ہنس پڑی اور بولی کہ کچھ دیر صبر کرو ۔ اور پھر مجھے اوپر آنے کا اشارہ کرکے ، سڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر چلی گئی ۔ جہاں ایک کمرہ سا بنا ہوا تھا ۔ جس میں ٹوٹا ہوا فرنیچر پڑا ہوا اور اس کمرے میں ایک طرف ایک میز موجود تھا ۔ جو بلکل ایک طرف علحیدہ رکھا ہوا تھا ۔ مجھے ایسا لگا کہ میز پر چودائی کا کام ہوتا ہے۔

بعد میں میرا یہ اندازہ درست ثابت ہوا ۔ خیر جیسے ہی ہم میز کے قریب پہنچے تو مسرت نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا ۔ اس کا قد میرے قد سے 4 انچ کے قریب چھوٹا تھا ۔ اس کا جسم بہت پتلا تھا ۔ میرا اندازہ ہے کہ اسکی کمر 27 انچ سے زیادہ نہیں ہو گی اور وہ اوپر سے نیچے تک بلکل ہی سیدھی تھی ۔ اور اس کے ممے جیسے بلکل ایک چھوٹی بچی کے ہوں ۔ ایسے تھے ۔ کل بھی جب میں نے کسنگ Kissing کے دوران اس کے ممے کو پکڑا تھا ۔ تو مجھے پتہ چلا تھا کہ اس نے اپنے ان چھوٹے چھوٹے مموں پر برا Bra نہیں پہنا ہوا تھا ۔ مگر جرسی کی وجہ سے کسی کو پتہ نہیں چل رہا تھا ۔

کچھ دیر تو ہم دونوں گلے لگے کھڑے رہے ۔ اور اس کا سر میرے سینے پر تھا ۔ جس کو میں نے اوپر کیا اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے ۔ اور اس کے ہونٹوں کو بہت پیار سے چومنا شروع کر دیا ۔ اس کے ہونٹ بہت پتلے تھے ۔ کچھ دیر بعد میں نے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنا شروع کر دیا ۔ اور کافی دیر تک میں ان کو چومتا اور چوستا رہا ۔

اس دوران مجھے ایک عجیب سی فیلنگ Feeling ہو رہی تھی اور کوئی چیز مجھے کٹھک رہی تھی ۔ مگر مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ اور چونکہ مجھے اس وقت صرف پھدی کی طلب تھی ۔ کیونکہ اس وقت 3 ماہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا کہ میرے لن نے پھدی کا مزا نہیں لیا تھا ۔ اس لیے مجھے کسی اور چیز کے بارے میں سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی تھی

کچھ دیر بعد میں نے اس کی جرسی کے بٹن کھول کر اس کو اتار دیا ۔ اور پھر اس کی قمیض کو اوپر کیا ، تو میں دیکھا کہ اس نے قمیض کے نیچے صرف شمیز ( عورتوں والی بنیان ) پہن رکھی تھی ۔ جس کو جب میں نے اوپر کیا ۔ تو اس کو سفید ممے جو کہ ایک 12 سال کی بچی کے مموں سے زیادہ بڑے نہیں تھے ، نظر آئے جو کہ میرے اندازے کے مطابق 30 سائز کے تھے ۔ میں نے بغیر وقت ضائع کیے ۔ ان میں سے ایک کو اپنے منہ میں لے لیا ۔ اور وہ پورا میرے منہ میں چلا گیا ۔ تو میں نے اس کو چوسنا شروع کر دیا ۔ اور دوسرے کو اپنے ہاتھ سے دبانا شروع کر دیا ۔ کافی دیر تک کبھی ایک ممے کو چوستا تو کبھی دوسرے کو ۔

اس دوران اس کے دوسرے ممے کو اپنے ہاتھ سے مسلسل دباتا رہتا ۔ میں کافی دیر تک اس کے مموں کے ساتھ کھیلتا رہا ۔ مگر اس کی طرف سے کوئی ایسا رسپانس نہیں تھا ۔ جس سے مجھے ایسا لگے کہ اس کو سیکس کی طلب ہو رہی ہے ۔ یا اس کو اینجوائے کر رہی ہو ۔ کچھ ہی دیر میں وہ سردی سے کانپنے لگی ۔ پر اس نے مجھے روکا نہیں

مگر اس وقت یہ سب سوچنے کا وقت نہیں تھا ۔ میرا لن انڈروئیر کے اندر کھڑا ہو چکا تھا ۔ اور اب مجھے تنگ کر رہا تھا ۔ میں نے اپنی پینٹ کی زپ کھول کر انڈروئیر کو نیچے کرکے لن کو باہر نکال دیا ۔ اور مسرت کو میز پر لٹانے کی کوشش تو اس نے کہا کہ یہ ابھی نہیں ہو سکتا ، تو میں نے حیران ہو کر پوچھا کیوں ، کیا کسی کے آنے کا ڈر ہے ۔ تو وہ بولی کہ نہیں پر مجھے ماہواری آئی ہوئی ہے ۔ اس لیے کچھ نہیں ہو سکتا

میں نے کہا کہ یار اس کو کیا کروں ۔ یہ اب تنگ کر رہا ہے ۔ تو وہ بولی مجھے بتاو کہ کیا کروں ۔ تو میں نے کہا کہ اس کو چوس لو ۔

تو اس نے صاف انکار کر دیا ۔ کہ وہ یہ گندہ کام نہیں کرے گی ۔ تو میں چپ کر گیا کہ اب کیا کروں ۔ تو اس نے آگے بڑھ کر میرے لن کو ہاتھ میں لے لیا ۔ اور اس کو مٹھ مارنے لگی ۔ جو مجھے چاہیے تھی یعنی پُھدی وہ تو نہیں ملی مگر اس کے مٹھ مارنا بھی مزا دے رہا تھا ۔ اور اس کی مسلسل مٹھ مارنے سے کوئی 4 سے 5 منٹ کے اندر میں فارغ ہو گیا ۔ کیونکہ ایک عرصے سے میں فارغ نہیں ہوا تھا اس لیے میرے لن سے بہت زیادہ پانی بھی نکلا ۔

اور جب میں فارغ ہو گیا تو ہم دونوں نے ایک بار پھر سے ایک دوسرے کو تھوڑی دیر کسنگ Kissing کی ۔ اور پھر کپڑے ٹھیک کر کے نیچے آگئے ۔ میں دیکھا کہ کسی کو بھی پتہ نہیں چلا کہ ہم کافی دیر کہیں اور گزار کر آئیں ہیں۔ اور میرے پوچھنے پر مجھے مسرت نے بتایا کہ کس ٹیچر کا کس کے ساتھ چکر چل رہا ہے اور کس لڑکے کا کس لڑکی سے ۔ ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ سکول مالک کا ایک اسٹوڈنٹ کے ساتھ اور اور ایک ٹیچر سے بھی چکر ہے ۔ اور یہ بھی کہ وہ سکول میں ہی ان دونوں کو جب ملتا ہے چودتا ہے ۔ اور یہ بھی کہ اوپر والے کمرے میں بھی جس کو موقع ملتا ہے چدائی کرتا ہے ۔

یہ سب سن کر ایک بار تو میری بولتی بند ہو گئی کہ 1 ماہ ہونے والا تھا اور مجھے ان باتوں کا پتہ ہی نہیں تھا کہ اس سکول میں یہ سب ہوتا ہے ۔ اور مالک بھی ایسے کرتا ہے ۔ مگر پھر میں نے سب کو غور سے دیکھا تو مجھے پتہ چلا کہ مسرت کی تقریبا ساری باتیں درست ہیں

چند دن کے بعد ایک دن مسرت نے کہا کہ کہیں باہر گھومنے چلیں ۔ میں نے کہا کہ کب ۔ تو وہ بولی کل ۔ کیونکہ دھوپ نکل رہی تھی ۔ اور موسم بہت اچھا ہو رہا تھا ۔ تو میں نے کہا ٹھیک ہے مگر کب جانا ہے تو وہ بولی بتایا تو ہے کل ۔ میں نے کہا میرا مطلب کس وقت ۔ اگلے دن بدھ تھا اور 3 بجے کا وقت طے ہوا تھا

۔ اور جب میں مخصوص جگہ پرپہنچا تو دیکھا کہ مسرت اور اس کی دوست وہاں پر میرا پہلے سے انتظار کر رہیں تھی ۔ آج مسرت کی دوست نے اسی کالی چادر سے نقاب کیا ہوا تھا ۔ جو وہ ہمیشہ ہی سکول میں پہن کر رہتی تھی۔

ہم وہاں سے ریس کورس پارک میں آگئے ۔ جہاں پر بہت سے لوگ تھے ۔ پھر ہم نے وہاں پر تقریبا 2 گھنٹے گذارے ۔

مسرت نے مجھے اپنے بارے میں بتایا کہ اس کی عمر کیا ہے اور کیوں وہ لوگ گاوں چھوڑ کر شہر آئے تھے ۔ جبکہ گاوں میں وہ زیادہ اچھی زندگی گذار رہے تھے

اس نے بتایا کہ آج سےتقریبا ڈیڑھ سال پہلے اس کی شادی اس کے کزن سے ہوئی ۔ کیونکہ گاوں میں کم عمر لڑکیوں کی شادی ہو جاتی تھی اور وہ بچپن سے اپنے کزن کے ساتھ منصوب تھی ۔ وہ پڑھنے میں بہت اچھی تھی پر جب وہ 7th میں پہنچی تو خاندان والوں نے اس کی تعلیم چھڑوا دی

اس کے والدین نے تو بہت چاہا مگر خاندان والوں کی وجہ سے تعلیم چھوڑنی پڑی۔ جب اس کی شادی ہوئی تو اس وقت اس کی عمر ساڑھے 16 تھی ۔ اس کا کزن اس کے چچا کا بیٹا تھا ۔

مگر شادی کے 1 سال بعد اس نے مجھے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میں لڑکی نہیں ،اور نہ میرے اندر عورت والی کو خاصیت ہے ۔ اور نہ ہی میں اس کی بیوی بن کر اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔ اور اس کے بعد سارے خاندان والوں نے میرا مذاق اُڑانا شروع کر دیا ۔ میری زندگی مشکل ہو گئی ، تو میرے بابا نے گاوں چھوڑ کر شہر آنے کا فیصلہ کیا ۔ صرف صرف میرے لیے کہ میں دماغی مریض بنتی جا رہی تھی

یہ سب سناتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ اور اس کی دوست اب اس کو تسلی دے رہی تھی ۔

میں وہاں سے اُٹھ کر ایک دوکان پر گیا ۔ اور وہاں سے سب کے لیے جوس لے کر واپس آیا ۔ اتنی دیر میں مسرت سنبھل چکی تھی ۔ اور اس نے مجھے سوری کہا ۔ تو میں نے کوئی بات نہیں یہ ہی زندگی ہے ۔ مگر سچ میں اس دوران میں سوچتا رہا کہ اس نے یہ کیوں کہا کہ اس میں عورت والی کوئی خصوصیت نہیں ۔ اور آخر کار میں نے اس سے یہ پوچھ ہی لیا ۔

تو اس نے مجھے کہا کہ آپ میری زندگی کے پہلے دوست ہو ۔ اور یہ دوستی صرف اس دوست کی وجہ سے ہے جو اس وقت ہمارے ساتھ ہے ۔ سکول میں کافی لڑکوں نے مجھ سے دوستی کی کہ سارے سکول کو معلوم ہے میں شادی شدہ ہوں ۔ تو ان کو آرام سے چودنے دوں گی ۔ آپ سے ایک درخواست ہے کہ اگر کبھی کوئی بات بری لگے تو بھی ۔ مجھے چھوڑنے سے پہلے مجھ سے بات کر لینا ۔ اور یہ کہ وہ کبھی مجھے نہیں چھوڑے گی

پر میں ڈرتی ہوں کہ جیسے ایک لڑکی کو اپنا بتایا تو سارے سکول کو معلوم ہو گیا کہ میری زندگی کیا ہے ۔ اور اگر کسی سے دوستی کر لی تو نہ جانے کیا کیا کہانیاں بن جائیں گئیں ۔ بس یہ فرزانہ ہی ہے ، جس نے مجھے نہ صرف دوست بن کر سہارا دیا بلکہ میرے لیے بہت سے لوگوں سے لڑائی بھی کی ۔ باقی کہ مجھ میں عورت والی کوئی خاصیت نہیں ۔ آپ کو جلد خود اس بات کا پتہ چل جائے گا کہ میں نے یہ کیوں کہا ۔

پھر ہم نے ایک اچھا وقت گذارا اور اس دوران پہلی بار فرازانہ بھی مجھ سے کافی فری ہو گئی ۔ اور پھر میں نے ان کو واپس چھوڑ دیا ۔ اگلے دن مسرت سکول نہ آئی اور ایک وقت میں جیسے ہی میں اکیلا ہوا تو فرزانہ نے کہا کہ آج آپ نے سکول چھٹی کے بعد موڑ پر میرا انتظار کرنا ۔ مسرت نے آپ کو گھر بلایا ہے ۔ اور یہ کہتے ہی وہ میرے پاس سے دور ہو گئی ۔ اس دن جمعرات تھی اور ان دنوں جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی ۔ اور اسکولز میں جمعرات کو آدھے دن پڑھائی اور آدھے دن کی چھٹی ہوتی تھی

میں نے جیسے ہی چھٹی کا وقت ہوا تو سکول سے جلدی سے نکل گیا ۔ تاکہ سکول کا مالک مجھے روک نہ لے ۔ اور مؤڑ پر فرزانہ کا انتظار کرنے لگا ۔ کوئی چھٹی کے 5 منٹ کے بعد جب سب بچے نکل گئے تو فرزانہ بہت آہستہ آہستہ آتی ہوئی نظر آئی ۔ جیسے وہ چاہتی ہو کہ سب بچے پہلے ہی نکل جائیں ۔ پھر میرے پاس سے وہ ایسے گزر گئی ۔ جیسے وہ مجھے جانتی نہ ہو ۔

اور پھر جیسے ہی وہ کچھ آگے گئی تو میں بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔ اور مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے وہ ایک گھر کے سامنے جا کر رک گئی ۔ اور پھر اس نے دروازہ بجایا ۔ اور جب دروازہ کھل گیا تو وہ اندر چلی گئی ۔ مگر دروازہ دوبارہ بند نہ ہوا ، بلکے کھُلا ہی رہا ۔ میں اب وہی کھڑا سوچ رہا تھا کہ کیا کروں ۔ پھر کچھ ہی دیر میں مسرت نے سر باہر نکالا اور ادھر اُدھر دیکھا اور جب گلی میں کوئی نظر نہ آیا تو مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا ۔

اور میں ہمت کرکے اندر چلا گیا کہ میں اندر سے ڈر بھی رہا تھا ۔ جب میں اندر گیا تو دیکھا کہ دروازے کے اندر مسرت کھڑی تھی ۔ اور میرے اندر آتے ہی اس نے دروازہ بند کر کے کُنڈی لگا دی ۔ اور پھر مجھے لیکر اندر چل پڑی کہ دروازے کے سامنے صحن تھا ۔ اور آگے ایک برآمدہ بنا ہوا تھا ۔

جس کے آگے لوہے کے فریم میں جالی لگا کر اس کو بند کیا ہوا تھا ۔ صحن میں ایک طرف 2 باتھ روم میں بنے ہوئے تھے ۔ اور جب ہم اس برآمدے میں پہنچے تو دیکھا کہ اندر 2 کمرے بنے ہوئے تھے ۔ اور برآمدے میں ہی ایک طرف چولہا رکھ کر اُسے کچن کی شکل دی ہوئی تھی ۔ جہاں فرزانہ بیٹھی چائے بنا رہی تھی ۔ پھر مسرت نے مجھے گلے لگا لیا تو فرزانہ نے شرارت سے کھانسی کی تو میں شرمندگی سے مسرت سے دور ہو گیا ۔ تو مسرت فرزانہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تجھے کیا ہے ، بعد میں تو مزے لے لے کر پوچھتی ہو کہ ظفر نے کیا کیا ۔ کیسے کیا ۔ اور جب تک میں بتا نہ دوں ، میری جان نہیں چھوڑتی ۔ اب کیا ہوا دیکھ لو ۔ کہ بعد میں پوچھنا نہ پڑے

میں نے یہ سن کر فرزانہ کو دیکھا تو اس نے اپنا سر نیچے کر لیا ۔ پھرمسرت نے مجھے بتایا کہ ایک کمرہ امی ابو کا ہے ۔ جبکہ دوسرے کمرے میں وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ہوتی ہے ۔ پھر وہ مجھے ساتھ لیکر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ جہاں ایک طرف ایک بیڈ لگا ہوا تھا ۔ اس کے ساتھ 2 چارپائیاں تھیں ۔ جبکہ ایک طرف 2 کرسیاں بھی رکھی ہوئی تھیں ۔ دونوں دروازں پر پردے لگے ہوئے تھے ۔ جس سے اندر یا باہر کچھ نظر نہیں آتا تھا

جیسے ہی ہم کمرے میں پوری طرح داخل ہوگئے اور کمرے کا جائزہ بھی لے لیا تو میں نے مسرت کو پکڑ کر گلے لگا لیا ۔ اور کسنگ Kissing کرنا شروع کر دیا ۔ جس کے جواب میں وہ بھی آج بھرپور طریقے سے جواب دے رہی تھی ۔ کافی دیر تک ہم ایک دوسرے کو کسنگ Kissing کرتے رہے ۔ پھر جب ہم نے کسنگ Kissing کرنا چھوڑی تو مسرت نے میرے گلے لگے ہوئے پوچھا کیا موڈ ہے ۔

میں نے کہا کہ چودنے کا

تو وہ جیسے پریشان ہو گئی ۔ اور اس نے کہا کہ اگر آپ کو مزا نہ آیا تو آپ ناراض تو نہیں ہوں گے

میں نے کہا کہ جب تم چودنے دو گی تو مزا کیوں نہیں آئے گا

وہ بولی ۔ بس آپ وعدہ کرو کہ اگر آپ کو مزا نہیں آئے گا تو آپ ناراض نہیں ہوں گے ، اورنہ آپ مجھے چھوڑو گے



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments