زندگی کے رنگ
قسط نمبر 03
میں نے وعدہ کیا کہ اگر تم مجھے مرضی سے کرنے دو گی تو میں ناراض نہیں ہوں گا ۔ تو وہ جیسے مطمن ہو گئی
ابھی ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ فرزانہ نے آواز دی کہ چائے بن گئی ہے ۔ تم لوگ باہر آؤ گی یا میں چائے لیکر اندر آ جاوں ۔
مسرت نے میری طرف دیکھا جیسے مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ کیا کرنا ہے ۔ میں نے بھی آگے سے کندھے اُٹھا کر اس کو کہا جیسے تمھاری مرضی ۔ تو مسرت نے میرا ہاتھ پکڑا اور باہر کو چل پڑی ۔ مگر باہر جانے سے پہلے اس نے کمرے میں گیس کا ہیٹر چلا دیا
باہر جا کر ہم برآمدے میں بیٹھ گئے اور چائے پی کر میں نے مسرت کا ہاتھ پکڑا اور واپس کمرے میں آ گیا ۔اس دوران کمرہ کافی حد تک گرم ہو چکا تھا ۔
کمرے میں آتے ہی میں نے اس کو اپنے گلے لگایا اور پھر اس کو کسنگ Kissing کرنا شروع کر دیا ۔ مسرت بھی میری کسنگ Kissing کا جواب دے رہی تھی ۔ کچھ دیر تو میں اس کو نارمل کسنگ Kissing کی پھر اس کے نیچے والے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں لیکر اس کو چوسنے لگا ۔
کچھ دیر کے بعد اس کے اوپر والے ہونٹ کو چوسنا شروع کر دیا ۔ کافی دیر تک ایسا کرنے کے بعد میں نے اس کی قمیض اتار دی جس کو اُتارنے میں اس نے میری مدد کی اور ساتھ ہی میں نے اس کی شلوار بھی اتار دی ۔ اب وہ صرف شمیز ( لیڈیز بنیان ) میں میرے سامنے کھڑی تھی ۔
میں تھوڑا سا پیچھے ہو گیا ۔ اور مسرت کو دیکھنے لگا ۔ اس کا سفید جسم سفید شمیز میں بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ اس کا جسم اتنا پتلا تھا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ میں ایک چھوٹی سی بچی کو دیکھ رہا ہوں ۔ شمیز ( لیڈیز بنیان ) میں اس کے چھوٹے چھوٹے ممے بہت اچھے لگ رہے تھے ۔ پھر میں نے آگے ہو کر اس کی شمیز ( لیڈیز بنیان ) بھی اتار دی
پھر میں نے دوبارہ پیچھے ہو کر مسرت کو دیکھنا شروع کر دیا ۔ اس کا پورا جسم ایسے لگ رہا تھا کہ ایک سانچے میں بنا ہے ۔ سوائے جسم میں مموں والی جگہ کے علاوہ کہیں پر کوئی ابھار ایسا نہ تھا جہاں سے لگے وہ ایک جوان یا شادی شدہ لڑکی ہے ۔ اس کی پھدی بلکل کنواری لڑکی کی پھدی کی طرح بند تھی ۔ لگ نہیں رہا تھا کہ اس پھدی کو اس کے شوہر نے ایک سال تک استعمال کیا ہے ۔ اور پھر میں نے اپنے کپڑے بھی اتار دیے
پھر میں نے اس کو آگے ہو مسرت کو پکڑا اور اس کو دوبارہ سے کسنگ Kissing کرنا شروع کر دی ۔
اس دوران میرے ہاتھ اس کی کمر پر تھے اور اس کی کمر کا مساج کر رہے تھے ۔ اس کا سینہ میرے سینے کے ساتھ جُڑا ہوا تھا ۔ اور نیچے میرا لن جو کہ پوری طرح کھڑا ہو چکا تھا ۔ اس کی پھدی کو ٹچ کر رہا تھا ۔ اور پھر میں نے مسرت کو چارپائی پر لٹا دیا ۔ اور خود اس کے اوپر آ گیا ۔ اور اس کو دوبارہ سے کسنگ Kissing کرنا شروع کر دی
پھر میں نے کچھ دیر بعد میں نے اس کے ہونٹوں کو چھوڑ دیا اور خود کو نیچے کرنا شروع کر دیا ۔ کچھ دیر بعد میرے ہونٹ اس کی گردن پر پہنچ گئے ۔ اور میں نے پہلے تو اس کی گردن پر چھوٹی چھوٹی کسیز Kisses کی ۔ پھر اپنی زبان سے اس کی گردن کی مالش کرنا شروع کر دی اور کافی دیر تک اس کی گردن پر اپنی زبان پھیرتا رہا ۔
پر اس سب کے دوران مجھے اس میں ذرا سی بھی سیکس کے لیے طلب یا اسکے جسم میں سیکس کی گرمی محسوس نہیں ہوئی ۔ جس سے میں کچھ پریشان تو ہوا ۔ پر اس وقت میرے سر پر صرف سیکس سوار تھا ۔ پھر میں نے خود کو کچھ نیچے کیا ۔ اور اس کے مموں پر پہنچ گیا ۔ اور ایک ممے کو منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیا ۔ اور دوسرے کو اپنے ہاتھ سے کبھی دباتا تو کبھی اس کو مسلتا ۔ کافی دیر ایسا کرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ابھی تک مسرت کے اندر کسی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑا تھا
میں نے آخری حربے کے طور پر اس کی پُھدی کو اپنے ہاتھ سے مسلنا شروع کر دیا ۔ اور جب میں نے اس کی پُھدی کو مسلنا شروع کر دیا ۔ تو مجھے پتہ چلا اس کی پُھدی سے اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی پانی نہیں نکلا تھا ۔ بس نہ ہونے کے برابر اس میں نمی محسوس کی ۔
اس کی پُھدی کو کافی دیر تک ایسے مسلنے کے بعد میں نے اس کی ٹانگوں کو کھولا ، کیونکہ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔ اس لیے اس کے اوپر آ گیا ۔ اور اپنے لن کو اس کی پُھدی میں ڈالنے اس کی پُھدی کے سوراخ پر رکھ کر دبانے لگا پر چونکہ اس کی پُھدی میں سے کچھ بھی نہیں نکلا تھا ۔ اور میں نے بھی لن پر کوئی کریم ، تیل یا تھوک نہیں لگایا تھا ۔ اس لیے میرا لن اندر نہیں جا رہا تھا ۔ اس لیے میں نے اوپر ہو کر پہلے اس کی پُھدی پر کافی سارا تھوک لگایا ، اور پھر اپنے لن پر بھی کافی تھوک لگایا ۔
اور دوبارہ سے لن کو اس کی پُھدی میں ڈالنے کے لیے لن کو پُھدی کے سوراخ پر رکھ دیا ۔ اور جیسے ہی میں نے لن کو تھوڑا سا زور لگا کر پُھدی میں ڈالا ۔ تو ایک طرف مسرت کہ منہ سے درد سے چیخ نکل گئی تو دوسری طرف مجھے بھی ایک جھٹکا لگا
مسرت کی پُھدی اتنی زیادہ گرم تھی کہ مجھے ایسا لگا کہ میں نے اپنا لن پُھدی میں نہیں بلکے کسی تندور میں ڈال دیا ہو ۔
اس کی پُھدی بہت زیادہ ٹائٹ تھی کہ مجھے لگا کہ اس کی پُھدی میں پہلی بار میرا لن گیا ہے
پھر میں نے لن کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا ۔ مسرت کے چہرے پر درد کے آثار نمایاں تھے ۔ میرے ہر جھٹکے پر اس کا منہ درد سے کھل جاتا ۔ اور میرا لن اس کے بچہ دانی سے ٹکراتا ۔
مجھے اس کو چودتے ہو 2 سے 3 منٹ ہی ہوئے تھے کہ اس کی پُھدی کی گرمی کی شدت سے میں اس کے اندر ہی فارغ ہو گیا ۔
لیکن اس سب کے دوران مسرت کی کسی حرکت سے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ میری کسی بھی حرکت سے سیکس کی ضرورت محسوس کر رہی ہے یا میرا کچھ بھی کرنا اس کو اچھا لگا ۔
میں فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر تو اس کے اوپر ہی لیٹا رہا ۔ پھر جب میں اس کے اوپر سے اُٹھا تو دیکھا کہ جیسے ہی میں نے لن کو باہر نکالا ۔ تو میرے لن کے ساتھ ہی میرا پانی جو کہ میرے لن نے اس کی پُھدی میں نکالا تھا ، اس کی پُھدی سے باہر آگیا ۔
جب میں نے اپنا سر اوپر اُٹھایا تو مجھے ایسا لگا پردے سے کوئی ہم کو دیکھ رہا ہے ۔ مگر اس وقت اس عجیب و غریب سیکس نے مجھے کچھ او سوچنے کا موقع نہیں دیا ۔
اُٹھ کر میں نے مسرت کی شلوار سے پہلے اپنا لن اور پھر اس کی پُھدی صاف کی ۔
فرزانہ جب باہر آئی تو اس کے چہرے کے تاثرات اس کی بات کی نفی کر رہے تھے کہ وہ دوسرے کمرے میں TV دیکھ رہی تھی ۔ مگر اس وقت میرے دماغ میں صرف یہ چل رہا تھا کہ یہ کیا ہے جو میں مسرت کے ساتھ کر کے آیا ہوں ۔ کیا اس کو سیکس یا چُدائی کہیں گے۔
میں باہر نکل کر باتھ روم میں گیا ۔ اور اپنے لن کو دھو کر واپس برآمدے میں آگیا ، اور چارپائی پر بیٹھ گیا ۔ مگر اس دوران دماغ میں تھا کہ شاہد مسرت دیکھنے میں لڑکی ، مگر اصل میں کُھسرا ہے ۔ مگر مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ میں سوچ میں گم سم بیٹھا تھا کیونکہ مجھے کھسروں کے بارے میں کچھ خاص معلوم نہیں تھا ۔ کہ مجھے مسرت نے ہلایا ۔
میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ بولی لگتا آپ بھی ناراض ہوگئے ۔ مجھے پہلے ڈر تھا کہ آپ کو جب مجھ سے کچھ نہیں ملے گا تو آپ بھی ناراض ہو جائیں گے ، اور رونا شروع ہو گئی ۔ میں نے اس کو اپنے گلے لگا لیا ۔ پہلے تو اس کو چپ کروایا ۔ اور پھر میں نے فرزانہ کو کہا کہ پانی لائے ۔
پانی پلا کر یں نے فرزانہ کو کہا کہ میں تم سے ناراض نہیں ، بس سوچ رپا ہوں کہ تمھارا مسلہ کیا ہے ۔ اور اس کو تسلی دیتا رہا ۔ پھر میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی اس مسلے کے لیے کسی ڈاکڑ سے رابطہ کیا ۔ تو وہ بولی کہ ہاں گاوں میں ایک ڈاکڑ کو دکھایا تھا ۔ اس نے کچھ عرصہ دوائی دی پر کچھ بھی فرق نہیں پڑا ۔ اس لیے تو شوہر نے چھوڑ دیا ۔
میں نے اس کو تسلی دی اور پھر اس سے اجازت مانگی تو وہ بولی کہ آج گھر میں کوئی نہیں ۔ آپ رک جاو ۔ اس نے میرے لیے کھانا بنایا ہے اور وہ چاہتی تھی کہ ہم ساتھ کھانا کھانئے اور 4 بجے چلے جاوں ۔ کیونکہ اس کی امی کے آنے کا وقت شام 6 بجے تک تھا ۔ اور باپ اور بھائی تو مغرب کے بعد آتے تھے ۔ مگر میں سچ میں ذہنی طور پر اتنا ڈسڑب تھا کہ اس سے پھر سے اجازت مانگی ۔ تو مسرت کی بجائے فرزانہ بولی ۔ جانے دو یہ بھی باقیوں کی طرح ہیں ۔ ان کو بھی بس چودنے تک دوستی کرنی ہے
تو مجھے بھی غصہ آ گیا ۔ اور میں نےغصے سے اس کو کہا کہ میں اس وقت صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ مسرت کے اس مسلے کا حل کیا ہے ۔ اور تمھیں بس اپنی پڑی ہے ۔ تو مسرت نے مجھے کہا کہ میرے مسلے کا کیا حل ہے ۔ پہلے بھی علاج کروایا تھا ۔ مگر کیا فائدہ
تو میں پھر سے اس کے پاس بیٹھ گیا ۔ اور اس کو تسلی دینے لگا ۔ کہ یہ لاہور ہے ۔ تم مجھے کوشش کرنے دو ۔ تو فرزانہ بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی اور اس کو کہنے لگی کہ یار کوشش کرنے دو ان کو بھی ، ہو سکتا ہے کہ کچھ ہوجائے ۔ اور مسلہ حل ہو جائے
اب یہ حالت تھی ۔ کہ مسرت کے ایک طرف میں اور دوسری طرف فرازانہ بھی بیٹھی تھی ۔ میرا ایک ہاتھ مسرت کے کندھے سے ہوتا ہوا ۔ دوسری طرف تھا اور دوسرے ہاتھ سے میں نے اس دوسرے کندھے کو تھام رکھا تھا ۔ اور جب فرزانہ ساتھ بیٹھی تو میرا ایک ہاتھ اس کے سینے کے پاس اس کو چھو رہا تھا
کچھ دیر ہم ایسے ہی بیٹھے رہے ۔ پھر مسرت نے کھانا بنانے کا کہا اور اُٹھ کر چولہے کے پاس چلی گئی ۔ مگر فرزانہ میرے پاس ہی بیٹھی رہی ۔ میں پھر سے مسرت کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ کہ فرزانہ نے پھر سے مجھے ہلا کر کہا کہ کدھر چلے گئے ۔ میں نے کہا کیوں کیا ہوا تو وہ بولی کہ میں آپ سے بات کر رہی تھی مگر آپ کی توجہ نہ جانے کہاں ہے ۔
میری نظر مسرت پر پڑی تو دیکھا کہ وہ ہماری طرف دیکھ کر ہنس رہی تھی ۔ میں نے فرزانہ کو کہا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میری دوستی مسرت سے نہیں تم سے ہوئی ہے ۔ مگر غلطی سے آج بستر پر مسرت آگئی ۔ اصل میں تو تم کو آنا چاہیے تھا ۔ تو فرازانہ تو کچھ نہ بولی مگر مسرت میرے پاس آ کر بولی کہ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم تینوں دوست بن جائیں ۔
میں نے کہا مجھے تو کوئی مسلہ نہیں ۔ اتنے میں فرزانہ بولی کہ وہ دوستی تو کر سکتی ہے ، مگر جو ان کو چاہیے وہ صرف تم دینا چاہو تو دو ۔ میں اس حد تک نہیں جاوں گی ۔ اگر ان کو منظور ہے تو ٹھیک ۔
میں نے کہا کہ میں کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا ، تمھارا دل چاہے تو ٹھیک ورنہ تمھاری مرضی
تو وہ بولی سیکس کے سوائے سب کچھ مجھے منظور ہے ۔
میرے دماغ میں شرارت آئی ۔ اور میں نے پھر کہا کہ سیکس کے علاوہ سب کچھ ، پھر ناراض نہ ہو جانا ۔ کیونکہ میرے دماغ میں کچھ تھا ۔ جو کہ میں اب فرزانہ کے ساتھ کرنا چاہتا تھا
فرزانہ جیسے چڑ کر بولی ۔ جی کہہ دیا کہ نہیں ناراض نہیں ہوں گی
اور یوں اب وہ بھی ہماری دوستی میں شامل ہوگئی ۔
کھانا کھانے تک ہم لوگوں نے خوب گُپ شپ کی ۔ کھانا کھا کر جب میں جانے لگا تو میں نے پہلے سے دماغ میں موجود پروگرام کے تحت پہلے فرزانہ کی طرف ہوا تو اس نے اپنا ہاتھ آگے کر دیا کہ جیسے کہہ رہی ہو کہ بس ہاتھ ملاو اور جاو ۔ تو میں نے بھی اس سے ہاتھ ملاتے ہی اس کو اپنی طرف کھینچ لیا ۔ وہ اس حرکت کے لیے تیار نہیں تھی ، اس لیے سیدھا میرے سینے سے آ لگی ۔ اور جیسے ہی اس کا جسم مجھ سے ٹچ ہوا میں نے اس کا ہاتھ چھوڑ کر اس کو اپنے بازوں میں قید کر لیا ۔
اور جب تک اس کو احساس ہوتا کہ میں کیا کر چکا ہوں ، میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیے ۔ مجھے ایسا لگا کہ اس کو میری اس حرکت سے بہت بڑا جھٹکا لگا ۔ کیونکہ میں نے اس کے جسم میں ایک عجیب سے ہلچل محسوس کی ۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی میری اس حرکت کے جواب میں کچھ کہتی یا کوئی حرکت کرتی ۔ میں نے اس کو چھوڑ دیا
اور مسرت کو گلے لگا لیا اور اس کو ایک بڑی سی کس Kiss کی ، جس میں میں نے اس کے ہونٹوں کو خوب چوسا ۔
اور گھر سے باہر نکل آیا ۔ میرا خیال تھا کہ وہ کچھ کہے گی ۔ مگر میں نے نہ تو اس کی آواز سنی اور نہ ہی اس کی طرف دیکھا
اگلے دن جب میں سکول گیا تو آج مسرت تو مجھے سلام کرنے آئی پر فرزانہ نہیں آئی تھی ۔ پر اس وقت اتنا وقت نہیں تھا کہ اس بارے میں سوچتا کہ وہ کیوں نہیں آئی ۔ پریکٹیکل کرواتے ہوئے مجھے پیغام ملا کہ پرنسپل صاحب نے کہا ہے کہ میں ان سے مل کر جاوں ۔
فارغ ہو کرمیں جب پرنسپل کے کمرے میں گیا تو وہاں پر ایک عورت بیٹھی تھی ۔ جس کے ساتھ ہی فرزانہ بھی بیٹھی ہوئی تھی ۔ میں یہ سوچ کر کہ بعد میں آتا ہوں واپس مڑنے لگا تو پرنسپل بولے کہ ظفر صاحب یہ آپ سے ہی ملنے آئی ہیں ان کو آپ سے بات کرنی ہے ۔ اور یہ ہمارے سکول کی 9th کلاس میں پڑھنے والی اسٹوڈنٹ فرزانہ کی والدہ ہیں ۔
یہ سنتے ہی ایک بار تو میں پریشان ہو گیا کہ کہیں اس نے اپنی ماں کو کو بتا تو نہیں دیا کہ کل میں نے اس کے ساتھ کیا حرکت کی تھی
جاری ہے
0 Comments