زندگی کے رنگ
قسط نمبر 04
کچھ دیر تو میں چپ رہا اور پھر فرزانہ کی ماں سے کہا ۔ جی بولیں کیا بات ہے
جب وہ بولیں تو ان کی بات سننے تک جو حالت میری تھی میں بتا نہیں سکتا ۔ مگر ان کی بات سن کر حقیقت میں میرے منہ سے ایک لمبی سانس نکلی ۔
وہ کہہ رہی تھی کہ ان کے دونوں لڑکوں کو میں اگر ٹیوشین پڑھا دیا کروں تو ان پر بہت احسان ہو گا ۔ میں نے ان کو اپنی فیس اور شرائط بتا دئیں کہ اگر بچوں نے پیار سے نہیں پڑھا تو میں ان پر سختی بھی کروں گا ۔ اور یہ کہ فیس ایڈوانس لوں گا ۔ تو وہ میری تمام شرائط مان گئیں اور پوچھنے لگی کہ کس وقت آوں گا ۔ اور گھر کا کیسے پتہ چلے گا ۔ تو میں نے ان کو وقت بتا دیا ۔ اور یہ بھی کہ آج فرزانہ کے ساتھ چھٹی کے وقت آپ لوگوں کا گھر بھی دیکھ لوں گا ۔ اگر ان کو کوئی مسلہ نہ ہو تو وہ بولی کہ آپ استاد ہو ، کوئی بات نہیں آپ فرزانہ کے ساتھ ہی آ جانا اور گھر بھی دیکھ لینا
باہر نکل کر جب میں واپس لیبارٹری جا رہا تھا ۔ تو میں نے مسرت اور فرزانہ کو دیکھا ۔ فرزانہ مجھ سے پہلے باہر نکل گئی تھی ۔ دیکھا تو وہ دونوں میری طرف دیکھ ہنس رہی تھی ۔ میں نے ان کو گھور کر دیکھا اور آگے چلا گیا
پھر سامان جب میں نے اکٹھا کر لیا ، تو جان کر باہر نکل کر دیکھا تو مسرت اور فرزانہ ابھی تک وہیں کھڑی تھیں ۔ تو میں نے جان بوجھ کر فرزانہ کو آواز دی کہ ذرا میری مدد کرو ۔ تو مجبورا وہ میرے پاس آنے لگی مگر اپنے ساتھ مسرت کو بھی کھینچ لائی ۔
جب وہ میرے پاس پہنچی تو میں نے اس کو بازو سے پکڑ لیا ۔ مگر اس سے پہلے کوئی حرکت کرتا یا کچھ بولتا باہر سے مجھے آواز آئی کہ جیسے کوئی اندر آ رہا ہو تو میں نے ان کو کہا کہ یہ سامان الماری میں رکھ دو ۔ اور اتنے میں ایک ٹیچر اور ایک اسٹوڈنٹ لڑکی اندر آ گئیں ۔ ٹیچر مجھ سے اگلے دن کی بات کرنے لگی کہ کل میں زیادہ پیریڈ لے لوں ۔ اس کو کہیں جانا تھا اور اگر وہ چھٹی لیتی تو اس کی تنخواہ کٹ جاتی ۔ اس لیے وہ سکول آ کر جانا چاہتی تھی ۔
میں نے کہا کوئی بات نہیں ۔ میں آپ کے پیریڈ لے لوں گا
تو وہ خوش ہو کر چلی گئی ۔ اس کے جانے کے بعد مجھے مسرت نے بتایا کہ اس کا چکر سکول کے لڑکے سے چل رہا ہے ۔ اور پکا یہ کل اس کے ساتھ کہیں جا رہی ہے ۔ کچھ کرنے
فرزانہ بولی کہ ان کو بھی شوق ہے خدمت خلق کا ۔ کر لینے دو ۔ اس کے لہجے میں جلن کے آثار نمایاں تھے ۔
میں نے جواب میں کچھ نہیں کہا ۔ اور چھٹی کے بعد فرازانہ کے ساتھ جا کر اس کا گھر دیکھا ۔ اس نے مجھے کہا بھی کہ میں اندر آوں ۔ پر میں نے بعد میں آنے کا کہہ کر چلا گیا ۔ اور 3 بجے اس کے گھر پہنچ گیا ۔ مگر میں اس وقت ٹریک سوٹ میں تھا کیونکہ میں نے وہاں سے اپنی گیم کرنے جانا تھا ۔
کچھ دن ایسے گزر گئے ۔ اس دوران میں نے اہنے ایک کزن سے جو کہ باہر سے ڈاکڑی کر کے آیا تھا اور اس وقت اتفاق ہسپتال میں جاب کر رہا تھا ، سے مسرت کی بات کی ۔ کیونکہ ہم دونوں اچھے دوست بھی تھے ۔ اس نے اپنی ایک کولیگ سے بات کی اور مجھے کچھ مسرت کے کچھ میڈیکل ٹسٹ TEST کروانے کا کہا ۔
جب میں نے مسرت سے بات کی تو وہ بولی کہ ابھی ممکن نہیں کہ ان کے پاس پیسے نہیں ، تو میں نے کہا کہ کچھ ٹسٹ TEST تو فری ہوں گے ۔ باقی میں ہوں اگر کچھ پیسے لگے بھی تو میں ہوں نہ
تو اس نے اپنی امی سے بات کر کے مجھے جواب دینے کا کہا
2 دن بعد اس نے کہا کہ میری امی نے آپ کو بلایا ہے ۔ اور یہ کہ میرے بارے میں اس نے اپنی امی کو بتایا کہ مسرت کے متعلق مجھ سے بات فرزانہ نے کی ہے اور یہ کہ فرزانہ کے سب گھر والے مجھے بہت اچھے سے جانتے ہیں ۔
خیر اس کی امی سے جب ملاقات ہوئی تو وہاں پر اس کا باپ بھی موجود تھا ۔ دونوں واقعی شریف اور سیدھے سادھے لوگ تھے ۔ میری بات سن کر کے ان لوگوں نے مجھے ایسے سمجھا کہ میں ان لوگوں کے لیے فرشتہ ہوں ۔ مجھے یہ سب سن کر بہت عجیب بھی لگا اور شرمندگی بھی کہ یہ مجھے کیا سمجھ رہے ہیں اور میں کیا ہوں
خیر کچھ دنوں میں مسرت کے تمام ٹسٹ ہو گئے ۔ اس دوران کبھی فرزانہ تو کبھی مسرت کی ماں ہمارے ساتھ گئی ۔ رپورٹس آنے کے بعد مسرت کا علاج شروع ہو گیا ، اس کی زیادہ تر میڈیسن مجھے کزن کمپنی سے لے دیتا تھا ۔ مگر لیڈی ڈاکڑ نے مجھے کہا تھا کہ یہ علاج بہت لمبا اور صبر آزما ہو گا ۔ کیونکہ مسرت میں نہ تو مردانہ خاصیت تھی ، نہ زنانہ
مگر وہ کچھ عرصہ کے علاج سے مکمل طور پر عورت بن سکتی ہے ،
مگر اس میں بہت سی مشکلات آئیں گیئں ۔ مسرت کا کئی بار بہت عجیب سا ردعمل بھی آئے گا ، یہ سب اس کی ماں کے سامنے بتایا گیا ۔ ہم نے ڈاکڑ کو پورے تعاون کا یقین دلایا
ساتھ ہی ڈاکڑ نے یہ بھی کہہ دیا کہ اس کا شوہر کم از کم 6 ماہ تک اس کے ساتھ کوئی جسمانی تعلق نہیں رکھے گا ۔
ادھر اس کا علاج شروع ہو گیا ، اور دوسری طرف میں پھر سے لن کو ٹھنڈ دینے کے لیے پُھدی کی تلاش میں لگ گیا ۔ ایک دن مسرت نے مجھے کہا کہ تم فرزانہ سے تعلق کیوں نہیں بنا لیتے ، وہ مجھ سے زیادہ تمھیں پسند کرتی ہے ۔ اور میری تم سے دوستی بھی اصل میں فرزانہ نے ہی کروائی تھی کہ یہ بندہ دھوکے باز نہیں ، اس لیے تم باہر کی بجائے ادھر کوشش کرو ۔ اور یہ بھی کہ وہ بھی فرزانہ کو اس سلسلے میں منائے گی
میں اب فرزانہ کی طرف ہو گیا کہ اب مسرت سے تو کچھ نہیں ملے گا ۔ اور یہ بھی کہ بہت دن ہو گئے تھے مجھے کچھ کئے اور سیکس میرے سر پر سوار ہو رہا تھا ۔ میں نے اب اپنی پوری توجہ فرازانہ کی طرف کر لی
سکول ہو یا گھر جہاں موقع ملتا میں فرزانہ کو چھوتا ۔ اور کبھی کبھی گلے بھی لگا لیتا ۔ مگر ابھی تک اس سے آگے کچھ نہ ہوا تھا اور نہ ہی موقع مل رہا تھا حتی کہ اس کو کس Kiss تک نہ ہو سکی تھی
ان دنوں سکول میں پیپروں سے پہلے چھٹیاں ہو چکی تھیں ۔ اب سکول میں صرف نویں اور دسویں کلاس کے بچے ہی آتے ہیں
ایک دن پریکٹیکل کروانے کے بعد میں نے فرزانہ سے صاف بات کرنے کا سوچا ۔ کیونکہ اب میں اس کو چودنے کا سوچ رہا تھا ۔ میں نے مسرت سے بات کی تو اس نے کہا کہ وہ فرزانہ کو اکیلے میرے پاس بھجتی ہے ۔ اور میں دوبارہ سے لیبارٹری میں چلا گیا ۔ اور کچھ ہی دیر میں فرزانہ آئی کہ آپ نے بلایا ہے ۔ اتنے میں مسرت نے باہر سے دروازہ بند کر دیا ۔ جس پر فرزانہ ایک بار تو گھبرا گئی ۔
اس کے گھبرانے سے ایک بار تو مجھے بھی مسلہ ہوا ۔ مگر پھر میں نے خود کو ریلکس کیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کے اپنے پاس کھینچ لیا ۔ اور اس کو اپنی بازوں میں لیکر اس کو کسنگ کرنے لگا ۔ جس پر پہلے تو اس نے کچھ مزاحمت کی ۔ مگر جیسے ہی چند سکینڈ گزرے تو اس کی مزاحمت بھی کم ہو گئی اور اس کو میری کسنگ کا مزا بھی آنے لگا ۔
جس کا مجھے پتہ اس کی تیز ہوتی سانسوں سے جو کہ پہلے کی نسبت نہ صرف گرم ہوچکی تھیں ۔ بلکے وہ تیز بھی ہو چکی تھیں ۔ اور اس کا سینہ جو کی تقریبا میرے سینے کے ساتھ ہی تھا اب تیز تیز اوپر نیچے ہو رہا تھا ۔
پھر میں نے ایسے ہی کسنگ کرتے ہوئے کچھ دیر بعد اپنا ایک ہاتھ اس کے ممے پر رکھ دیا ۔ اور اس کو آہستہ آہستہ دبانے لگا ۔ میری اس حرکت نے تو جیسے اس کے جذبات کو آگ لگا دی ۔ اور وہ اب تو مچل گئی ۔ اس کے ہاتھ جو اب تک نیچے تھے اب میری کمر پر پہنچ گئے تھے ۔ اور اس نے مجھے اپنے ہاتھوں میں دبا کر اپنے سینے سے لگا لیا تھا ۔ جس کی وجہ سے مجھے اس کے ممے کو دبانے میں مشکل پیش آ رہی تھی
مگر میں نے اپنا کام جاری رکھا یعنی کسنگ بھی اور اس کے ممے کو دبانے کا ۔ جس کی وجہ سے اس کی حالت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بری ہوتی جا رہی تھی ۔
کوئی 5 منٹ کی لمبی اور ڈیپ کسنگ کے بعد میں نے فرزانہ کو چھوڑ دیا ۔ اور جب میں نے اس کا چہرہ دیکھا تو سرخ ہو رہا تھا ۔ اور اس کی آنکھیں لال ہو چکی تھیں ۔ اور سینہ بہت تیزی سے اوپر نیچے ہو رہا تھا ۔
اس کی آنکھوں کے لال ہونے کی وجہ مجھے بہت بعد میں چلی کہ وہ ان لڑکیوں کے قبیلے سے تھی جن کی آنکھیں سیکس کے شروع ہوتے ہی جذبات کے دباؤ کی وجہ سے لال ہو جاتی تھیں ۔
کیونکہ وہ سیکس کے لیے بہت جذباتی ہوتی ہیں ۔ اور جب کسی کے ساتھ بستر پر ہوتی ہیں تو وہ آپ کے ہر قدم پر آپ سے زیادہ سیکس کرتی ہیں ۔
مطلب یہ کہ اگر آپ ان کو ایک کس کریں تو وہ اس کے جواب میں 2 بار کسنگ کرے گی ۔
خیر کچھ دیر وہ خود کو سنبھالتی رہی اور میں خود کو ، کیونکہ میں بھی اس کی گرمی دیکھ کر جذباتی ہو گیا تھا پھر میں نے مسرت کے ساتھ طے شدہ طریقے کے مطابق ہلکی سی سیٹی بجائی تو باہر سے دروازہ کھل گیا ۔
جیسے ہی دروازہ کھلا تو فرازانہ نے اندر آتی ہوئی مسرت کو دھکا دیا اور باہر چلی گئی ۔ جس پر مسرت اور میں ہکے بکے رہ گئے ۔
مسرت نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ نے کچھ غلط کر دیا ہے تو میں نے بتا دیا کہ میں نے کیا کیا ۔ تو وہ ساری بات سن کر کچھ نہ بولی اور باہر چلی گئی ۔ میں بھی ان کے پیچھے باہر گیا تو دیکھا کہ وہ دونوں برآمدے میں کھڑی تھیں ۔ اور فرزانہ اس کو بہت غصے سے کچھ کہہ رہی تھی ۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ فرزانہ نے اپنا منہ دھویا ہوا تھا ۔ اور وہ اب کافی نارمل تھی
مگر اس کی آنکھوں میں لال رنگ کی لہر نظر آ رہی تھی ۔ مجھے پاس اتا دیکھ کر وہ اپنی کلاس کی طرف چلی گئی ۔ میرے پوچھنے پر پہلے تو مسرت نے کچھ نہ بتایا پر جب میں نے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا تو اس نے ساری بات بتا دی
کہ وہ بہت ناراض ہے کہ میں نے اس کے ساتھ یہ غلط حرکت کروائی ۔ تو میں نے بھی غصے میں کہہ دیا کو اس کو بتا دو کہ اگر ایسی بات ہے تو اج سے میری اس سے دوستی ختم
اور وہاں سے آفس چلا گیا ۔ شام کو میں فرزانہ کے گھر ٹیوشن پڑھانے بھی نہ گیا ۔ اگلے دن جب میں سکول گیا تو میں نے دونوں سے بات نہیں کی اور مسرت کی آواز کو بھی ان سنی کر دیا
شام کو میں فرزانہ کے گھر پڑھانے گیا تو اس نے بھی مجھ سے کوئی بات نہ کی ۔ میں نے بھی اس نظر انداز کیا ۔ اور پھر تو ایسا ہوتا کہ وہ جو چیز بھی لاتی میں اس کو ہاتھ بھی نہ لگاتا
کچھ دن ایسا ہی چلتا رہا ۔ حتی کہ سکول میں بھی نہ میں فرزانہ کو بلاتا ۔ نہ وہ میرے پاس آتی ۔
اس دوران مسرت کی مکمل رپورٹس بھی آ گئیں ۔ جس سے پتہ چلا کہ اس کے اندر مخصوص کروموسومز کی تعداد نارمل سے بہت زیادہ ہے جس کہ وجہ سے اس کی یہ پرابلم ہے ۔
اور اب اس کا علاج شروع ہو گیا ۔ مگر جب ہم ( میں ، مسرت اور اس کی ماں ) ڈاکٹر کے پاس گئے تو اس نے صاف بتا دیا کہ مکمل علاج کے بعد بھی زیادہ سے زیادہ 50 فی صد آرام آئے گا ۔ مگر مسرت کبھی ماں نہیں بن سکے گی ۔ اور نہ ہی سیکس کے لیے عام عورتوں جیسے جذبات رکھے گی ۔
ہم یہ سن کر پریشان ہو گئے کہ بہت امید تھی کہ وہ مکلمل علاج کے بعد ٹھیک ہو جائے گی ۔
میرے سوال جواب پر اس نے کہا کہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ یہ بلکل ٹھیک ہو جائے ۔ لیکن اس کا چانس 100 میں سے صرف 6 فی صد ہے ۔ لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ یہ جن چیزوں سے میں کہوں مکمل پرہیز کرے
جس کا وعدہ دونوں ماں بیٹی نے کیا کہ جیسا ڈاکٹر صاحبہ کہیں گی ہم ویسا ہی کریں گے
پھر میں نے ڈاکٹر صاحبہ کو بتایا کہ یہ لوگ بہت غریب ہیں تو میڈیسن کا کچھ ہو سکے گا ۔ تو اس نے کہا کہ وہ کوشش کرے گی کہ جو سیمپل آتے ہیں اس سے ہی ان کا مسلہ حل کرے گی ۔ ورنہ اگر ضرورت ہوئی تو آپ بھی وسیم کو کہنا ۔ میں بھی کہوں گی کہ وہ سینر ڈاکٹر ہے تو کمپنی والے ان کو لازمی سب سمپیل کے طور پر دئیں گے جو ہمیں علاج کے لیے ضرورت پڑے گی ۔
یہاں میں بتا دوں کہ وسیم میرا کزن تھا اور اس نے ہی ہمیں اس ڈاکٹر کے پاس بھیجا تھا
خیر ***** کے کرم سے مسرت کے لیے میڈیسن کا مسلہ بھی حل ہو گیا ۔ اور اب ڈاکٹر صاحبہ نے مسرت کو ہر 15 دن کے بعد نارمل چیک اپ کے لیے آنے کو کہا ۔ اور اس کو 15 دن کی دوائی بھی دی
جب ہم وہاں سے نکلے تو مسرت کی ماں نے ججوں میرا شکریہ ادا کرنا شروع کیا تو وہ گھر جا کر ہی چپ ہوئی ۔ آج پہلی بار تھا کہ اس کی ماں نے مجھے گھر کے اندر بلایا ۔ وہاں سے نکل کر میں فرزانہ کے گھر گیا ۔ آج میرا موڈ مسرت کی رپورٹس اور ڈاکٹر کی بات سن کر اچھا خاصہ خراب تھا ۔
جب میں فرزانہ کے گھر پہنچا تو آج ان کے گھر میں بہت زیادہ لوگ نظر آئے ۔ پتہ چلا کہ ان کی اپنے چچا سے جو لڑائی تھی وہ ختم ہو گئی تھی ۔ اور آج وہ سب اکھٹے ہوئے تھے
میں نے سوچا کہ مجھے واپس جانا چاہیے ۔ مگر اس کی والدہ نے مجھے روک لیا ۔ اور کچھ دیر کے بعد ایک لڑکی جس کی عمر کوئی 19 سال کی تھی چائے اور ساتھ مٹھائی اندر لیکر آئی ۔
اس کا چہرہ اتنا پیارا تھا کہ میں اس کو ہی دیکھتا رہا ۔ اور وہ بھی مجھے ہلکی سے مسکراہٹ سے جواب دے کر چلی گی ۔ جب تک وہ باہر نہیں چلی گئی میں اس کو ہی پیچھے سے دیکھتا رہا ۔
ابھی میں نے چائے پینا شروع بھی نہیں کی تھی کہ فرزانہ کا بڑا بھائی اؤر اس کے ساتھ تینوں چھوٹے بہن بھائی بھی کمرے میں آئے ۔ یہ میری فرزانہ کے بھائی سے پہلی ملاقات تھی ۔ وہ پڑھائی چھوڑ کر پچھلے 10سالوں سے موٹر سائیکلوں کا کام کر رہا تھا ۔ اور بقول اس کے گھر والوں کے کہ بہت ہی اعلی قسم کا مکینک تھا ۔
سلام دعا کے بعد اس نے کہا کہ کہ آج میں اگر بچوں کو چھٹی دے دوں تو مہربانی ہو گی ۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا میری نظر دروازے پر پڑی تو دیکھا کہ کافی سارے چہرے دروازے میں سے جھانک کر میری طرف دیکھ رہے تھے ۔ ان کے چہروں پر ایک امید سی تھی ۔ میں سمجھ گیا کہ کہ یہ فرزانہ کے کزن ہیں ۔ اور کھیلنے کے لیے دوسرے بچوں کو لے جانا چاہتے ہیں ۔
میں نے کچھ دیر تنگ کرنے کے بعد ان کو چھٹی دے دی ۔
تو فرزانہ کا بھائی سب کو باہر لے گیا ۔ اور یہ بھی کہا کہ جب آپ کو موٹر سائیکل ٹھیک کروانی ہوں تو اس کے پاس ہی آؤں
میں نے دیکھا تو چائے بلکل ٹھنڈی ہو گئی تھی ۔ اتنے میں فرازانہ اور اس کے ساتھ وہی لڑکی کمرے میں آئی ۔ فرزانہ۔ میرے سامنے بیٹھ گئی اور وہ لڑکی اس کے ساتھ۔ فرزانہ نے اس کا تعارف کروایا کہ اس کا نام عاصمہ ہے ۔ اور وہ اس کی چچا زاد کزن ہے ۔ اور بڑے بھائی کی منگیتر
میں یہ سن کر حیرت زدہ رہ گیا کہ اتنی پیاری لڑکی اور منگیتر کس کی
پھر فرزانہ نے بتایا کہ عاصمہ سکینڈ ائیر کی سٹوڈنٹ ہے اور اسلامیہ گرلز کالج صدر میں پڑھتی ہے ۔
پھر وہ دونوں میرے ساتھ باتیں کرنے لگے ۔ میں فرزانہ سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا پر عاصمہ کی وجہ سے اس کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا
کچھ دیر بعد وہ کسی کام کا کہہ کر چکی گئی ۔ اب کمرے میں فرزانہ اکیلی تھی ۔ تو فرزانہ نے کہا کہ آپ ابھی تک ناراض ہو ۔ میں نے کہا ناراض تو تم ہو ۔
وہ بولی کہ ایسا کچھ نہیں بس اس دن سمجھ نہیں آئی کہ وہ سب کیا تھا ۔ آپ تو مسرت کے ساتھ وہ سب کرتے تھے ۔پھر میرے ساتھ کیوں
خیر بہت سی باتوں کے بعد ہمارے درمیان صلح ہو گئی ۔ فرزانہ کی بس ایک شرط تھی کہ وہ مجھے چودنے نہیں دے گی ۔
باقی میری کسی بات پر ناراض نہیں ہو گی اور اٹھ کر کمرے سے جانے لگی ۔ مگر جاتے جاتے اس نے خود میرے ہونٹوں پر ایک اچھی سی کس کی
اب ہمیں جب موقع ملتا ہم ایک دوسرے کو کس بھی کرتے اور میں اس کے مموں کو بھی دباتا ۔ حتی کہ ایک دن میں نے سکول میں پہلی بار اس کے مموں کو دیکھا ۔ چاہتا تو میں یہ تھا کہ اس کے 36 سائز کے مموں کو میں چوسوں ۔پر اس نے سکول میں منع کر دیا کہ وہ گھر میں موقع ملتے ہی مجھے اپنے مموں سے کھیلنے کا موقع دے گی ۔ اور اب میں موقع کے انتظار میں تھا
مگر اس سے پہلے کہ میں یہ سب کر پاتا میرے سب سے بڑے بھائی کی شادی فکس ہو گئی ۔ اور اس کی تیاری کے لیے ہمیں اتنے کم دن ملے کہ کیا بتاؤں کہ کس چکر میں پڑ گئے تھے سب گھر والے ۔
اور میں سب کو فارغ نظر آتا تھا ۔ تو ہر وقت میری کم بختی ساتھ تھی
خیر شادی کے دن سے 3 دن پہلے سکول میں بھی 10 دسویں کلاس کو پارٹی دینے کا پروگرام بنا
اور پارٹی سے ایک دن پہلے میرے ، فرزانہ اور مسرت کے درمیان طے پایا کہ ہم پارٹی والے دن دوسرے ایک بات ایسی مانیں گے جو بھی فرمائش ہو گی پوری کی جائے گی ۔
میں رات بھی سوچتا رہا کہ کیا مانگوں ۔ اور پھر سوچ کر سو گیا۔
جاری ہے
0 Comments