ads

Zindagi ke Rang - Episode 5

زندگی کے رنگ 

قسط نمبر 05 




اگلے دن جب میں پارٹی کے لیے سکول پہنچا تو طے شدہ طریقے کے مطابق میں اور وہ دونوں وقت سے 1 گھنٹہ پہلے سکول پہنچے اور اندر داخل ہوتے ہی وہ مجھے نظر آئیں ۔ مسرت تو سادہ سے حلیے میں تھی جب کہ فرزانہ مکمل تیار ہو کر آئی تھی ۔ اس کا گلابی چہرہ کیے ہوئے میک اپ میں گلاب کی طرح کھل رہا تھا 

ہمارے علاؤہ بھی چند لوگ سکول میں وقت سے پہلے آئے ہوئے تھے ۔اور کسی نہ کسی کونے میں اپنی اپنی کے ساتھ مصروف تھے۔

فرزانہ اور مسرت نے باہر تو سب کے سامنے مجھے صرف سلام کیا ۔ مگر جیسے ہی مجھے موقع ملا ہم کچن یعنی سکول کی لیبارٹری میں گھس گے ۔ 

سب سے پہلے فرزانہ نے کہا کہ میری اور مسرت کی ایک ہی فرمائش ہے آپ ہمیں ایک دن گھومانے لیکر جائیں سارا دن کے لیے 

جو میں نے مان کی کہ شادی سے فارغ ہو کر یہ وعدہ پورا کروں گا 

اب جو میں نے مانگا وہ سان کر دونوں کی بولتی بند ہو گئی 

میں نے کہا کہ دونوں آج میرے لنڈ کو باری باری چوسے گئیں ۔ اور میں ساتھ فرزانہ کے ممے بھی چوسوں گا

 کچھ دیر تو خاموشی سے کبھی میری طرف اور کبھی ایک دوسرے کی طرف دیکھتی رہیں ۔ پھر پہلے فرزانہ بولی کہ بات ایک شرط ماننے کی ہوئی تھی تم تو مجھ سے 2 چیزیں مانگ رہیے ہو ۔ تو جو ایک چیز کرنی ہے وہ بولو

میں نے کہا ٹھیک ہے مسرت میرا لنڈ چوسے گی اور تم اپنے ممے مجھے دو گی ۔ 

مسرت نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔ تو میں اس کی بات سن کر فرزانہ سے پوچھا تمھارا جواب کیا ہے ۔ تو وہ بولی دل تو نہیں مان رہا پر دوستی کی ہے تو نبھاؤں گی ۔ مگر اگر آپ امن جاو تو ہم یہ جیسے ہی موقع ملے گا کریں گے ۔ 

میرے پوچھنے پر اس نے کہا کہ سکول ہے کسی وقت کوئی بھی آ سکتا ہے ۔ اور دوسرا اس نے کپڑے ایسے پہنے ہیں کے مموں تک پہنچنے کے لیے مجھے اس کی فراک اتارنی پڑے گی ۔ باقی فیصلہ آپ کا 

تو میں مان گیا ۔ میری بات سن کر فرزانہ اتنی خوش ہوئی کہ فورا میرے گلے آ لگی ۔ اور اس نے خود مجھے ایک لمبی اور گہری کس کی ۔ جس سے اس کی اپنی حالت پھر سے خراب ہو گئی ۔ اس نے جب مجھے کسنگ کرنا چھوڑی اور مجھ سے علحیدہ ہوئی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تو اس نے صرف اتنا کہا ۔ 

آج فنکشین ہے ۔ زیادہ کرو گے تو میں خود کو سنبھال نہیں پاؤں گی ۔ پلیز ۔آج اور کچھ نہ کرو

تو میں نے اس کو چھوڑ دیا ۔ اور باہر جانے لگا ۔ تو مسرت نے مجھے کہا ناراض ہو گئے ۔ تو میں بولا کہ میں کون ہوتا ہوں ناراض ہونے والا ۔ تمھاری مرضی تم کچھ کرو یا نہ کرو ۔ میں مجبور تو نہیں کر سکتا کسی کو بھی ، کسی بھی کام کے لیے

اور باہر چلا گیا ۔ فنکشن کے بعد میں گھر گیا تو دیکھا کہ گھر میں بہت سے مہمان نظر۔ رہے ہیں ۔ ابھی میں سوچ رہا تھا کہ مجھے اپنے ماموں زاد کی آواز سنائی دی ۔ جس نے مجھے دیکھ کر میرے انے کا اعلان کیا تھا ۔ جب میں اپنی والدہ کے کمرے میں گیا تو دیکھا کہ وہاں ممانی ان کے دونوں لڑکے اور ایک انجان لڑکی جس کی عمر کوئی 18 سال کے قریب تھی ۔والدہ کے موجود تھے

کچھ دیر ان کے ساتھ گزارنے کے بعد میں چھت پر سونے چلا گیا کیونکہ میرے کمرے میں مہمان موجود تھے ۔ اور میں رات کو سکون سے سونے کا عادی تھا اور سونے سے پہلے میں کتاب پڑھنے کا عادی تھا ۔ اور ویسے بھی 3 دن بعد گھر میں شادی کے فنکشن شروع ہونے والے تھے۔ اس لیے چھت پر ہم نے جو لڑکی چھت سی بنائی تھی اس کے نیچے میں نے چارپائی لگا لی تھی 

کچھ دیر میں میرے دونوں کزن جن کی عمر 12 اور 9 سال تھی اسی لڑکی کے ساتھ چھت پر آگئے ۔ کہ بھائی یہ کیا بات ہے آپ سونے لگے ہو ہم آئیں ہیں کہ مزا کریں گے ۔ 

پھر انہوں نے تعارف کروایا کہ یہ رخسانہ باجی ہیں ۔ ہماری خالہ کی بیٹی ۔ ان کو لاہور دیکھنے کا بہت شوق ہے اس لیے ضد کر کے ہمارے ساتھ آ گئی ہیں ۔ 

وہ لڑکی بہت باتونی تھی ۔ جو بولنے لگی تو 1 گھنٹے تک چپ ہونے کا نام نہیں لیا ۔ اس ایک گھنٹے میں اس نے نہ صرف اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا ۔بلکے اپنی دوستوں ، اپنے گھر والوں کے بارے میں بھی میں سب کچھ جان چکا تھا کہ اس کی عمر 18 سال ہے ۔ وہ کالج کے پہلے سال میں ہے ۔ وغیرہ وغیرہ

دل تو کر رہا تھا کہ اس کو چھت سے دھکا دے دوں ۔ پر مجبوری تھی کہ وہ مہمان تھی ۔ ابھی ہم باتیں کر رہے تھے کہ مجھ سے بڑا بھائی جو کہ راولپنڈی گیا ہوا تھا کے آنے کا شور ہوا تو میرے دونوں کزن نیچے بھاگ گے ۔ 

مگر رخسانہ وہیں بیٹھی رہی ۔ اور اس نے اچانک کہا کہ آپ نے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا ۔ 

تو میں نے کہا کچھ خاص نہیں ہوں میں بس گیم گرتا ہوں ۔ دوستیاں کرتا ہوں ۔ زندگی انجوائے کرتا ہوں ۔ 

وہ بولی دوستیاں کن سے 

میں نے کہا کہ جو دل کو اچھی لگ جائے ۔ 

اس نے کہا کہ صرف دوستی 

تو میں بھی جو موڈ میں آ رہا تھا کہا کہ نہیں جو مان جائے اس کے ساتھ سب کچھ کرتا ہوں ۔ 

تو وہ جیسے سکتے میں آگئی ۔ اور چپ ہو کر نیچے چلی گئی ۔ 

اگلے دن سے مہمانوں کا آنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تو پھر بارات والے دن تک ختم نہ ہوا ۔ مگر بچے بہت کم آئے تھے کہ زیادہ تر کے پیپر ہو رہے تھے ۔ جس کا گلہ سب نے کیا ۔ پر مجبوری جان کر سب چپ کر جاتے ۔

مگر اس دوران نہ جانے مجھے ایسا کیوں لگا کہ رخسانہ کسی خاص مقصد سے آئی ہوئی تھی شادی میں 

دن بہ دن وہ میرے قریب آنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ اور جیسے اس کو سوائے اس کام کے کچھ کام نہ تھا کہ میرا ہر کام وہ کرنے کی کوشش کرتی 

ان دنوں میں میں نے فرزانہ کے گھر جانا چھوڑا ہوا تھا 

بارات والے دن رخسانہ کی حرکتیں دیکھ کر میری چچی ، جن سے میری دوستی تھی نے مجھے بہت تنگ کیا کہ لگتا ہے کہ تم نے ہمارے لیے بہو پسند کر لی ۔ بتاتی ہوں ابھی بھابی کو وغیرہ وغیرہ 

میں ان کے مذاق کو برداشت کرتا رہا ۔ مگر جب بس میں بھی رخسانہ میرے ساتھ آ کر بیٹھی تو مجھے غصہ آ گیا ۔ کیونکہ جیسے ہیں وہ میرے ساتھ آ کر بیٹھی تو بس میں ہنسنے کی آواز کے ساتھ سیٹوں کی آوازیں بھی آنے لگی ۔ حالانکہ میری سیٹ ایسی تھی کہ سب سے الگ رکھی گئی تھی ۔ تاکہ میں سب مہمانوں کو دیکھ سکوں 

میں نے اس کو کہا کہ تمھیں کیا مسلہ ہے ۔ میں مہمان سمجھ کر تمھیں کچھ نہیں کہہ رہا ۔ تم سر پر چڑھتی جا رہی ہو۔ 

وہ بولی مسلہ آپ ہو ۔ پر آپ کو سمجھ نہیں آ رہی

تو میں نے کہا کہ اچھا ایسی بات ہے تو رات کو چھت پر آ جانا ۔ 

وہ بولی اگر آ گئی تو کیا کرو گے ۔ 

میں نے کہا کہ بھابی کے ساتھ تمھاری سہاگ رات بھی منائی جائے گی ۔ تمھیں چدائی بھی ہوگی ۔ 

یہ سن کر اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔ اور کچھ دیر میں وہ چپ چاپ آگے چلی گئی اور نہ جانے کہاں اور کس کے ساتھ جا کر بیٹھ گئی ۔ 

رات سب فنکشن ختم ہونے تک وہ دوبارہ میرے پاس نہیں آئی ۔ میں نے بھی جان چھوٹنے پر **** کا شکر ادا کیا ۔ 

کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ ماں کو ایک بار بھی شک پڑ گیا تو رشتہ تو ہونا پکا تھا ۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ بھائی کے ساتھ میرا بھی نکاح اسی دن پڑھا دیا جاتا ۔

رات کو جب سب کو لٹا دیا تو میں بھی جب اوپر جا کر لیٹا تو کوئی 12 بجے کا وقت تھا ۔ میں ابھی کچھ نیند میں ہی گیا تھا کہ مجھے لگا کہ میرے ساتھ کوئی آ کر لیٹ گیا ہو ۔ مجھے ایک بار تو ٹینشن ہوئی پھر مجبوری سمجھ کر لیٹ گیا ۔

اچانک مجھے آواز آئی کہ کیا ہوا چودنے کا پروگرام نہیں ہے اب ۔ تو مجھے ایسا لگا کہ یہ آواز نہیں تھی جیسے کسی نے گولی مار دی ہو ۔



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments