بھائی بنا اپنی بہنوں کا دلال
قسط 2
اگلی صبح میں گھر سے نکلا اور ایک PCO سے اسد کو کال کی تو آگے سے کوئی لڑکی بولی، "ہیلو۔"
میں نے کہا، "ہیلو جی، وہ اسد سے بات کرنی تھی۔"
لڑکی بولی، "آپ کون بول رہے ہو؟"
میں نے جواب دیا، "جی، میں سنی بول رہا ہوں۔ کل اسد نے مجھے یہ نمبر دیا تھا کہ میں اس سے بات کر لوں۔"
لڑکی نے کہا، "ایک منٹ ویٹ کرو۔"
لڑکی نے مجھے رکنے کا بولا اور ساتھ ہی اسد اسد بھائی، تمہاری کال ہے۔ تبھی اسد کی قریب سے ہی آواز سنائی دی، "کون ہے اس وقت؟" تو اسد کی بہن نے کہا، "کوئی سنی ہے، بات کر لو۔"
اسد نے کہا، "ہاں یار سنی، کیا سوچا پھر تم نے؟"
میں نے کہا، "یار، میں تیار ہوں، کب سے آنا ہے کام پہ؟"
اسد بولا، "یار، ہمارا کام رات کا ہے، دن میں ہمارا کیا کام؟ تم ایسا کرو، میں ایڈریس بتاتا ہوں، شام 5 بجے آ جانا۔" اور ساتھ ہی اس نے پتہ بتا دیا جسے میں نے یاد کر لیا اور کال اینڈ کر کے گھر آ گیا۔ تو سعدیہ جو کہ سب سے چھوٹی ہے، بولی، "بھائی، کیا بات ہے آج آپ نے ابھی تک ناشتہ نہیں کیا؟ کام پہ نہیں جانا کیا آپ نے؟" تو میں نے کہا، "نہیں بیٹا، آج سے میری ڈیوٹی رات کی ہے۔" سعدیہ بولی، "اچھا بھائی، آپ بیٹھو، میں ناشتہ لاتی ہوں۔" اور کچن میں جا گھسی جہاں فری ناشتہ تیار کر رہی تھی۔ اس نے سعدیہ کو میرا ناشتہ دیا اور اس نے میرے سامنے لا کر رکھ دیا۔ تو میں ناشتہ ختم کر کے پھر سے اپنے روم میں آ گیا اور لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا کیونکہ مجھے رات کو جاگنا تھا، پتہ نہیں کتنی دیر تک، اس لیے ابھی سے نیند پوری کر لینا بہتر تھا۔
خیر، باقی کا دن جیسے تیسے گزر ہی گیا اور شام کو 5 بجے تک میں تیار ہو کر اسد کے بتائے ہوئے جگہ پہ پہنچ گیا جو کہ ایک پوش ایریا تھا۔ وہاں جا کے میں نے بیل بجائی تو اسد ہی باہر نکلا اور مجھے دیکھ کر خوش ہو گیا اور بولا، "آ جا میری جان، اچھا کیا جو تو آ گیا آج کام بھی کافی ہے۔" اور میرا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گیا اور مجھے ایک صوفے پہ بیٹھنے کے لیے بولا اور خود میرے سامنے بیٹھ گیا اور بولا، "دیکھو سنی، یہاں تم جو کچھ دیکھو گے یا سنو گے، اسے اپنے سینے میں ہی دفن کر لینا۔ کبھی بھولے سے بھی اپنی زبان پہ مت لانا، سمجھ گئے؟"
میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اور بولا، "یار اسد، اب میں بھی تمہارا ساتھی ہوں اور تمہارا ہر راز میرا ہو گا جسے میں کبھی اپنی زبان پہ نہیں لاؤں گا۔" اسد نے ہاں میں سر ہلا دیا اور مجھے ایک چٹ پکڑا دی جس میں 6 ایڈریس لکھے ہوئے تھے اور بولا، "آج تم نے 9 بجے تک یہاں ہر حال میں لڑکیوں کو پہنچانا ہے، لیکن باری باری اور صبح 4 بجے تک واپس بھی لانا ہے۔"
میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اور لسٹ کو پاکٹ میں ڈال لیا اور بولا، "تو ٹھیک ہے، یہ بتاؤ سب سے پہلے جسے پہنچانا ہے وہ کہاں ہے؟" تو اسد نے پیچھے مڑ کر آواز لگائی، "شمع، جلدی کرو، ٹائم ہو گیا ہے۔" اسد کی آواز کے جواب میں دوسری طرف سے آئی، "آآآآآآآئی، بھیا بس 5 منٹ اور۔" یہ جواب سنتے ہی میرے کان کھڑے ہو گئے اور میں نے حیرانی سے اسد کی طرف دیکھا تو وہ بھی میری ہی طرف دیکھ رہا تھا اور پھر ہلکا سا مسکرا دیا اور بولا، "اتنا حیران کیوں ہو رہے ہو سنی؟ شمع میری سگی بہن ہی ہے۔"
اسد کی بات سے مجھے حقیقت میں ایک جھٹکا لگا کیونکہ مجھے اسد سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اپنی ہی سگی بہنوں سے یہ کام کروانا شروع کر دے گا۔ لیکن میں کچھ بولا نہیں تو اسد نے کہا، "کیا سوچ رہے ہو سنی؟"
میں نے سنی کی بات سن کر کہا، "یار، یہ شمع سچ میں تمہاری سگی بہن ہے؟" تو اسد نے کہا، "ہاں سنی، اور اس کے ساتھ ہی سمیرا بھی میری بہن ہے جسے تم اس کے بعد لے جاؤ گے۔ لیکن اب جب کہ تم پہ میں نے اعتماد کر کے سب بتا دیا ہے، تو یاد رکھنا کہ اس بات کا کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے، سمجھے؟"
میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اور بولا، "ٹھیک ہے یار، مجھے اس بات سے مطلب نہیں ہے کہ تم لوگ کیا کر رہے ہو اور کیوں، لیکن مجھے اپنے پیسوں سے مطلب ہے جو کہ مجھے تمہارے ساتھ مل کر کام کرنے سے ملا کریں گے۔"
اسد نے ایک "ہووووووں" کی آواز نکالی اور بولا، "ان کی تم فکر نہیں کرو بس کام دل لگا کے کرو، باقی کا کام میرا ہے۔" ابھی ہم یہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ سامنے کے ایک روم کا ڈور کھلا اور ایک لڑکی وہاں آ گئی اور آتے ہی بولی، "بھائی، میں تیار ہوں۔" اور میری طرف دیکھ کر مسکرا دی۔
میں بھی اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا تو اسد نے کہا، "شمع، یہ میرا دوست ہے سنی، آج سے تمہیں یہ لے جایا کرے گا۔" تو شمع نے کہا، "ٹھیک ہے بھائی، تو چلیں سنی جی، یا کچھ ٹائم ہے ابھی؟"
میں جلدی سے اٹھ گیا اور بولا، "چلو، نکلتے ہیں۔" اور شمع کو ساتھ لے کر اسد کے دیے ایڈریس کی طرف چل دیا اسد کی دی ہوئی بائیک پہ۔ تو وہاں سے نکلتے ہی میں نے شمع سے پوچھا کہ "آپ کب سے کر رہی ہو یہ سب؟" تو شمع نے ہنستے ہوئے کہا، "کیوں سنی جی، آپ کو اس سے کیا مطلب؟" تو میں نے کہا، "ویسے ہی پوچھا ہے۔"
شمع نے کہا کہ "3 مہینے ہو گئے ہیں۔" تو میں نے کہا کہ "آپ کو کتنے پیسے مل جاتے ہیں ایک نائٹ کے؟" تو شمع ہنستے ہوئے بولی، "سنی جی، کہیں آپ بھی تو اپنی بہن کو اس کام میں نہیں لانا چاہتے؟" اور ہاہاہاہاہا کرنے لگی۔
مجھے شمع کی بات کافی بری لگی جس کی وجہ سے میں خاموش ہو گیا تو شمع نے کہا، "دیکھو سنی، اگر اس کام میں رہنا اور 4 پیسے کمانا ہے نا، تو اپنے دماغ سے شرم و حیا سب نکال پھینکو کیونکہ اس کام میں پیسہ تو بہت ہے لیکن شرم و حیا والے کے لیے نہیں۔ سمجھے آپ؟ اور باقی مجھے 1 فل نائٹ کے 25 سے 30،000 تک ملتے ہیں اور کچھ پوچھنا ہے تو پوچھ لو۔"
میں نے کچھ نہیں پوچھا اور شمع کو پہنچا کر باقی لڑکیوں کو بھی پہنچا دیا اور واپس اسد کے پاس چلا گیا کیونکہ اب مجھے کوئی اور کام نہیں تھا اور اب انہیں واپس ہی لانا تھا اور اس میں اب کافی ٹائم تھا۔
میں اسد کے پاس بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ تبھی اچانک میں نے اسد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "یار، ایک بات تو بتاؤ کہ آخر یہ سب کیسے شروع ہوا؟" (مطلب) "تم نے اپنی بہنوں کو کیسے اس کام کے لیے راضی کر لیا؟"
میری بات سن کر اسد ہنس دیا اور بولا، "یار، یہ جو یہاں تم نے میری دونوں بہنوں کے علاوہ لڑکیاں دیکھی ہیں، ان کو اور مجھے اس کام میں لانے والی میری بہن سمیرا ہے کیونکہ وہ غربت کی زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی اور یہ جو سب کچھ تم دیکھ رہے ہو، یہ سب اسی کا کمال ہے، پہلے پہل مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن پھر سمیرا نے مجھے ٹھنڈا کر دیا۔"
میں اسد کی بات سن کر خاموش ہو گیا اور کچھ دیر ٹی وی دیکھنے کے بعد اسد سے بولا، "کیا تم بھی ان میں سے کسی کے ساتھ چدائی کر چکے ہو یا ابھی تک بس انہیں چھوڑنے ہی جاتے رہے ہو؟" تو اسد نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور بولا، "یار، خوب بچی ہے مجھ سے یہ تھا۔ صحیح سوال، تو بات یہ ہے کہ میری جان، یہاں جو بھی لڑکی آتی ہے مجھ سے ضرور چدواتی ہے۔ سمجھے؟"
میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اور بولا، "مطلب سمیرا اور شمع کے ساتھ بھی تم کر چکے ہو؟" تو اسد نے ہاں میں سر ہلا دیا اور بولا، "ہاں یار، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جو مزہ مجھے شمع اور سمیرا کے ساتھ آتا ہے وہ کسی اور کے ساتھ نہیں ملتا۔"
اس کے بعد ہمارے بیچ کوئی بات نہیں ہوئی کیونکہ اسد اٹھ کر اندر روم میں جا چکا تھا اور میں اب باہر اکیلا ہی رہ گیا تھا۔ اسد کے جاتے ہی میں سوچ میں پڑ گیا کہ اسد جو کر رہا ہے یہ ٹھیک ہے؟ تو مجھے 2 جواب ملتے اپنے آپ سے جن میں سے ایک یہ ہوتا کہ ہاں، اگر وہ یہ سب نہیں کرتا تو آج اتنی آسانی اور خوشحالی سے کیسے رہ پاتا؟ لیکن ساتھ ہی یہ جواب بھی ملتا کہ نہیں، اس نے اپنی بہنوں کو اس راہ پہ ڈال کر غلط کیا، اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ان سب سوچوں کے ساتھ ایک خواہش جو کہ بڑے زور سے میرے دل میں ابھر رہی تھی وہ یہ تھی کہ کاش میں بھی ایک ایسا گھر بنا سکتا جہاں ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی، پیسے ہوتے جنہیں ہم کھلا خرچ کرتے، لیکن یہ بھی بس سوچ ہی تھی۔ بھلا 1500 سے میں گھر کا خرچ چلاتا یا عیشیاں کرواتا سب گھر والوں کو، دونوں کام ساتھ تو ہو نہیں سکتے تھے۔ ایک کام ہی ہو سکتا تھا اور وہ یہ تھا کہ گھر کا خرچہ اٹھا لوں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خواہش بھی شدت پکڑتی چلی گئی کہ اگر کبھی مجھے موقع ملا تو میں ایسا ایک گھر ضرور بناؤں گا چاہے مجھے اس کے لیے کچھ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
خیر، میں نے صبح 4 بجے تک سب کو واپس لایا تو وہ سب ایک ایک کر کے کسی نہ کسی روم میں جا گھسیں۔ تو اسد جو کہ ان کے آنے پہ اٹھ گیا تھا، باہر آ گیا اور مجھے 2000 پکڑا دیے اور میری طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے بولا، "اگر تمہارا دل کر رہا ہو تو دن میں جلدی آ جانا کیونکہ اس وقت سب تھکی ہوتی ہیں۔" تو میں نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ جب میں گھر پہنچا تو ہلکی ہلکی صبح کی روشنی ہونے لگی تھی۔ میں نے جاتے ہی گھر کی بیل بجائی تو گیٹ فری نے کھولا اور مجھے دیکھ کر خوش ہو گئی اور بولی، "آپ آ گئے بھائی؟" تو میں نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے فری کو اوپر سے نیچے تک گھورتے ہوئے گھر میں داخل ہو گیا اور سیدھا اپنے روم کی طرف چل دیا۔ تو فری نے گیٹ بند کر دیا اور بولی، "بھائی، آپ نہا لو تب تک میں آپ کے لیے ناشتہ تیار کرتی ہوں، بنا ناشتے کے نہیں سونا۔" تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ روم میں آتے ہی میں نے اپنی دھوتی اٹھائی اور باہر بنے باتھ روم میں جا گھسا نہانے کے لیے اور نہا کر میں نے دھوتی باندھ لی اور اپنے کپڑے اٹھا کر روم میں آ گیا۔ تو کچھ ہی دیر میں فری بھی میرے لیے ناشتہ لے آئی۔ تو میں نے ناشتہ اپنی طرف کھینچ لیا اور ناشتہ کرنے لگا۔ تو فری میرے سامنے ہی بیٹھ گئی اور بولی، "بھائی، کام کیسا ہے آپ کا؟ کافی محنت کرنا پڑتی ہو گی نا آپ کو؟" تو میں ہنس دیا اور بولا، "نہیں فری، کام تو بہت آسان ہے اوپر سے بائیک مل جاتی ہے جہاں بھی جانا ہو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اور ہاں، میرے کپڑوں میں 2000 ہیں وہ نکال لو اور امی کو دے دینا، یہ میری آج کی کمائی ہے۔" فری اٹھی اور میرے کپڑوں میں سے پیسے نکال لیے اور میرے پاس آ بیٹھی اور اپنے ہاتھ میں پکڑے 2000 کو دیکھتی رہی اور پھر سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور بولی، "بھائی، کہیں آپ کسی غلط کام میں تو نہیں پڑ گئے ہو؟ اتنے پیسے وہ بھی ایک دن کے؟" تو میں نے کہا، "فری، یہ کام کمیشن پہ چلتا ہے، جتنا مال بکتا ہے، ہمیں بھی اسی حساب سے پیسے مل جاتے ہیں لیکن اس میں سر پہ سوار ہو کر کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہلکی سی بے احتیاطی سارا مال خراب کر دیتی ہے جس سے ہمارے پیسے مارے جاتے ہیں۔ اب سمجھی؟"
فری نے نہ سمجھنے والے انداز میں ہاں میں سر ہلا دیا لیکن اب کی بار کچھ بولی نہیں۔ تو میں نے ناشتہ ختم کیا اور برتن فری کی طرف بڑھا دیے۔ تو فری نے برتن سائیڈ میں رکھی ٹیبل پہ رکھ دیے اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولی، "چلو بھائی، آپ لیٹ جاؤ میں آپ کو دبا دیتی ہوں۔" تو میں تھوڑا بوکھلا گیا اور بولا، "کیوں فری، کیا بات ہے، کیوں دبانا چاہتی ہو مجھے؟" تو فری نے اپنی آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا، "کیوں بھائی، آپ ہماری خاطر اتنی محنت کرتے ہو اور میں آپ کو تھوڑا سا دبا بھی نہیں سکتی؟" تو میں نے کہا، "ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن فری یہ ٹھیک نہیں ہے، تم اب جاؤ، سمجھی؟"
فری نے غصے سے میری طرف دیکھا اور اٹھ کر برتن اٹھا کر روم سے نکلنے لگی تو میں نے نہ جانے کیوں فری کو آواز دے کر روک لیا اور بولا، "اچھا، اب اپنا یہ منہ ٹھیک کرو اور برتن رکھ کر آ جانا، دبا دینا مجھے، تمہارا یہ سوجا ہوا فیس اچھا نہیں لگ رہا ہے۔" میری بات سن کر فری خوش ہو گئی اور جلدی سے برتن رکھ کر واپس آ گئی اور میرے پیروں کی طرف بیٹھ گئی اور میری ٹانگ اٹھا کر اپنی جھولی میں رکھ لی اور دبانے لگی۔ تو مجھے اپنی بہن فری کی نرم رانوں کا جو کہ میرے پاؤں کے نیچے تھیں، احساس ہوتے ہی میرا دوران خون بڑھنے لگا اور اوپر سے فری کی نرم نرم فنگرز جن سے میری بہن میری ٹانگ دبا رہی تھی، قیامت ڈھا رہی تھیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ میرے سامنے اسد اور شمع اور سمیرا کی بھی یاد آنے لگی کہ وہ بہن بھائی ہونے کے باوجود کتنے خوش ہیں اور سب کچھ بنا کسی ڈر کے کرتے ہیں۔ ان سوچوں اور فری کی رانوں پہ رگڑ کھاتے میرے پاؤں اور فری کی نرم فنگرز نے مل کر ایسا جادو جگایا کہ میرا لنڈ دھوتی میں ہی کھڑا ہو گیا کیونکہ میں نے دھوتی کے اندر کچھ پہنا نہیں تھا تو میں نے جھٹ سے اپنی ٹانگیں اکٹھی کیں اور تھوڑا فولاد کر کے ساتھ ہی اپنے لنڈ کو اپنی رانوں میں دبا دیا۔
میرے اس طرح کرنے سے فری نے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور بولی، "کیا بات ہے بھائی، آپ نے اپنی ٹانگیں کیوں کھینچ لی ہیں؟" تو میں نے کہا، "نہیں کچھ نہیں، بس اب دبا لیا نا تم نے، تو جاؤ مجھے سونا ہے لیکن فری نہیں مانی اور بولی، "یہ کیا بھائی، ابھی تو میں ایک ٹانگ کو ٹھیک سے نہیں دبا سکی۔" اور اتنا بولتے ہی فری نے پھر سے میری ٹانگ کھینچ لی لیکن فری کے ایسا کرنے سے میری دھوتی کو جھٹکا سا لگا اور وہ تھوڑی ہٹ گئی اور میرا لنڈ جو کہ پہلے ہی کھڑا ہوا تھا ٹانگ سیدھی ہوتی ہی رانوں سے نکل آیا اور کیونکہ دھوتی بھی ہٹ گئی تو بالکل ننگا فری کے سامنے آ گیا جسے دیکھتے ہی فری کا فیس شرم سے لال
جاری ہے
0 Comments