ارم کی بالوں والی چوت
قسط نمبر 7
کسنگ کے دوران ہی انہوں نے میری شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کر دیئے تھے۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں ان سے بولا ۔۔کیا سارے کپڑے اتارنے ہوں گے؟ تو وہ کہنے لگے نہیں یار ۔۔۔ پورے کپڑے اتارنے میں رسک ہے ۔۔۔ پھر کہنے لگے ایسا کرتے ہیں۔۔۔۔ میں اپنی شلوار نیچے کر کے گھوڑی بنوں گا۔۔۔۔۔اور تم نے بھی ساری پینٹ نہیں اتارنی ۔۔۔۔ بلکہ صرف زپ کھول کر لن نکال لینا۔۔۔اتنا کہتے ہی وہ ایک بار پھر میرے ساتھ لپٹ گئے ۔اور کسنگ کے بعد ۔۔ انہوں نے اپنی زبان کو میری چھاتیوں کے گرد پھیرنا شروع کر دیا۔۔ اور پہلی دفعہ میں نے دیکھا کہ ان کے زبان پھیرنے سے میری چھاتی کے چھوٹے چھوٹے نپلز اکڑ گئے تھے۔۔۔۔
چھاتی پر زبان پھیرنے کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی زبان نے نیچے کا سفر شروع کر دیا۔۔۔۔ اور اسے میری ناف پر لے آئے ۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے میری ناف کے گڑھے میں زبان ڈالی۔۔۔۔اور اسے خوب گھمایا۔۔ جس سے مجھے عجیب سی گدگدی ہونا شروع ہو گئی ۔۔۔ اسی دوران انہوں نے میری پینٹ کی زپ کھولی ۔۔۔اور پھر انڈروئیر میں ہاتھ ڈال کر لن کو باہر نکال لیا۔۔۔۔۔اس وقت میرا لن تنا ہوا تھا چنانچہ اکڑے ہوئے لن کو دیکھ کر وہ کہنے لگے۔۔۔۔ یہ تو پہلے سے ہی ریڈی لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں اپنا ایک ہاتھ بڑھا کر اسے قابو کر لیا۔۔۔ اور پھر میرے ٹوپے کی طرف دیکھتے ہوئے وہی بات کی کہ ۔۔۔۔ اتنا موٹا ٹوپہ کہیں میری گانڈ ہی نہ پھاڑ دے۔۔۔۔ تو میں ان سے بولا۔۔ کچھ نہیں ہو گا جناب۔۔۔۔۔۔آپ بس شلوار اتاریں ۔۔تو وہ میرے لن کو آگے پیچھے کرتے ہوئے بولے۔۔۔شلوار بھی اتار دوں گا لیکن ابھی نہیں۔۔۔۔۔ اور پھر مُٹھ مارتے ہوئے۔۔۔ انہوں نے اپنی زبان کو وہیں پر جا رکھا کہ جہاں سے اسے اُٹھایا تھا۔۔۔۔ مطلب میری ناف پر۔۔۔۔ وہ اپنی زبان کو کچھ دیر تک میری ناف میں گھماتے رہے پھر ان کی زبان نے ڈھلوان کا سفر شروع کر دیا۔۔ اور ہوتے ہوتے ان کی زبان میرے تنے ہوئے لن پر پہنچ گئی۔۔۔ جیسے ہی ان کی زبان میرے لن پر پہنچی تو انہوں نے بڑی ستائشی نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر کہنے لگے۔۔۔ بڑے کمال کا لن ہے تمہارا۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے میرے ٹوپے پر زبان پھیرنی شروع کر دی۔۔۔ان کا ٹوپے پر زبان پھیرنے کا عمل اس قدر سیکسی تھا کہ میں تڑپ کر رہ گیا۔۔ اور وہ میرے لن پر زبان پھیرتے ہوئے بولے۔۔۔ کیا ہوا جان؟ تو میں ان سے بولا ۔۔۔۔ آپ لن بہت اچھا چوستے ہو۔۔۔۔۔تو وہ کہنے لگے۔۔۔ اس میں کیا بڑی بات ہے بہت سے لوگ
بہت اچھا لن چوستے ہیں تو میں ان سے بولا کہ آپ کے لن چوسنے سے مجھے بہت مزہ آ رہا ہے ۔میری بات سن کر وہ اٹھلاتے ہوئے بولے۔۔۔تمہارا مزہ اس وقت دوبالا ہو جائے گا کہ جب تم میری بنڈ مارو گے۔۔۔اتنا کہتے ہی انہوں نے میرے لن کو منہ میں لے لیا اور بڑے ہی جوش سے چوسنے لگے۔۔۔ میں مزے کے مارے آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔آہ ہ ہ ۔ کرتا رہا۔۔ کچھ دیر بعد انہوں نے لن چوسنا بند کر دیا ۔۔۔ کہنے لگے میرے خیال میں اب اسے اندر لیا جائے۔۔ اتنا کہتے ہی وہ اوپر اُٹھے اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنی شلوار کو نیچے کر دیا۔۔۔۔ اور ایک چٹان نما پتھر پر ہاتھ رکھ کر گھوڑی بن گئے۔۔ ۔۔۔ جیسے ہی میری نظر ان کی گانڈ پر پڑی تو اسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا ان کی گانڈ پیور وہائیٹ ۔۔۔ موٹی اور باہر کو نکلی ہوئی تھی۔۔۔ میں نے آگے بڑھ کر اس پر ہاتھ کر رکھ کر دبایا ۔۔۔تو فرزند صاحب بلکل زنانہ انداز میں سسکی لیتے ہوئے بولے۔۔۔ کیسی لگی میری گانڈ؟ تو میں اس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔۔۔ ایک دم فسٹ کلاس اور نرم و ملائم ہے ۔۔تو وہ کہنے لگے تم ایک بار اندر ڈال کر تو دیکھو ۔۔۔۔۔
تمہیں عورت کی گانڈ سے زیادہ مزہ نہ آیا تو جو مرضی ہے۔۔۔۔ مجھے سزا دینا ۔۔۔ تو میں ان کی نرم وملائم گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا ۔۔ اندر بھی ڈال دیں گے ۔۔۔۔ پہلے اس کا معاینہ تو کر لیں۔۔۔۔۔تو وہ خوشی سے کہنے لگے ۔۔۔ تمہاری اپنی چیز ہے جس طرح مرضی اس کو چیک کرو۔۔۔اب میں نے دو انگلیوں کی مدد سے گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو الگ کیا۔۔۔اور سوراخ چیک کرنے لگا۔۔۔ سوارخ کا منہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا ۔۔۔ لیکن اس کے آس پاس ایک بال بھی نہ تھا۔۔۔میں نے ایک انگلی پر تھوک لگا کر سوراخ میں داخل کی تو وہ بڑے آرام سے اندر چلی گئی ۔۔۔ لیکن جب اسے نکال کر اکھٹی دو انگلیاں اندر ڈالنے لگا۔۔۔۔ تو ۔۔۔ وہ اتنی آسانی سے اندر نہ گئیں کہ ۔۔۔۔ جتنی آسانی سے ایک انگلی اندر گئی تھی۔۔۔۔ واقعی انہوں نے بہت کم گانڈ مروائی تھی۔۔ اب میں نے اپنی انگلیاں ان کی گانڈ سے باہر نکالیں ۔اور انگلیوں کی مدد سے سوراخ پر مساج کرنا شروع کر دیا۔۔۔ تو وہ شہوت انگیز سسکیاں لیتے ہوئے بولے۔۔ اندر کب ڈالو گے؟ تو میں ان سے کہنے لگا ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد کرتا ہوں۔۔۔ تو وہ سسکی لیتے ہوئے بولے ۔۔۔ پلیززز ۔۔جلدی سے اندر ڈالو ۔۔ کہ میری گانڈ بہت ڈیمانڈ کر رہی ہے جیسے ہی انہوں نے لن لینے کی خواہش کا اظہار کیا تو اسی وقت میں نے ان کی گانڈ کا معاینہ ترک کر دیا۔۔۔ ۔۔۔اور جونہی لن پر تھوک لگانے لگا ۔۔تو وہ جلدی سے بولے یہ کام مجھے کرنے دو۔۔۔ اتنی بات کرتے ہی وہ واپس پلٹے اور ایک دفعہ پھر میرے لن کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔ اور تھوڑی دیر چوسنے کے بعد۔۔۔ اس کے چاروں طرف اپنے تھوک کی موٹی ایک موٹی سی تہہ لگا دی۔۔ خاص کر ٹوپے کو انہوں نے تھوک سے نہلا دیا۔۔۔۔پھر کچھ تھوک اپنی گانڈ پر لگا کر بولے۔۔ یہ بھی ریڈی ہو گئی ہے۔۔جلدی سے اندر ڈال۔۔۔ اور پھر اپنے ہاتھوں سے گانڈ کے دونوں پٹ کھول دیئے جس کی وجہ سے ان کا سوراخ نمایا ں ہو کر سامنے آ گیا ۔۔۔اب میں نے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا۔۔اور اس کا اگلا سرا ۔۔۔ ان کی موری پر رکھ کر بولا۔۔۔۔ میں ڈالنے لگا ہوں تو وہ دبی دبی آواز میں بولے۔۔۔۔احتیاط سے ڈالنا ۔۔۔ہاں ایک دفعہ جب اندر ہو گیا تو پھر جیسے مرضی گھسے مارنا ۔۔ لیکن پلیز۔۔۔۔۔ڈالتے وقت احتیاط کرنا ۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ میں نے ان کے سوراخ پر نے بڑی احتیاط کے ساتھ لن رکھا۔۔۔اور ہلکا سا دھکا لگا دیا۔۔ انہوں نے ایک سسکی لی۔۔۔سور قدرے اونچی آواز میں بولے اوووووو۔۔۔۔۔۔اور ان کی چیخ نما سسکی کے ساتھ ہی۔۔۔۔۔ لن پھسل کر ان کی خوب صورت گانڈ میں گھس گیا۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں نے دوسرا گھسہ مارا۔۔۔۔تو لن صاحب دندناتے ہوئے ان کی گانڈ کے آخر تک جا پہنچے۔۔۔۔۔ ۔۔اُف اندر سے ان کی گانڈ بہت ہی سافٹ اور گرم تھی۔ ۔۔ادھر جیسے ہی میرا لن ان کی گانڈ میں گھسا۔۔۔ انہوں نے ایک ہلکی سی چیخ ماری۔۔۔اُف ف فف ف ۔۔۔ تو میں لن کو ان آؤٹ کرتے ہوئے بولا۔۔۔ درد تو نہیں ہوا؟ تو وہ کہنے لگے۔۔۔۔ تھوڑا سا ہوا تھا۔۔
لیکن اب ٹھیک ہے۔۔۔پھر کہنے لگے اِن آؤٹ رواں ہونے کے باوجود بھی تیرا لن پھنس پھنس کر آ جا رہا ہے۔۔جس کی وجہ سے مجھے بہت مزہ مل رہا ہے ۔۔۔۔ اس لیے میری جان ۔۔۔۔۔ مجھے اور مزہ دے ۔۔۔ تیزی سے گھسے مار۔۔۔۔ چنا نچہ میں نے تیز تیز گھسے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔ اور وہ میرے گھسوں کو انجوائے کرتے ہوئے ۔۔۔۔ بار بار یہی کہتے رہے کہ مجھے اور مزہ دے۔۔۔ گھسہ تیز مار ۔۔۔مزہ دے۔۔ مزہ دے۔۔یس یس یس۔۔۔۔ آہ۔۔ اور۔۔۔ اور پھر ان آؤٹ کرتے کرتے ۔۔۔۔ میں ان کی گانڈ میں ہی ڈسچارج ہو گیا۔۔۔ جیسے ہی میں فارغ ہوا۔۔۔۔۔ فرزند صاحب نے اپنی جیب سے چار پانچ ٹشو پیپر نکالے۔۔۔۔ اور مجھے پکڑاتے ہوئے بولے۔۔۔۔ اس سےلن صاف کر لو۔۔اور خود زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے۔۔۔اور اپنی جیب سے کچھ اور ٹشو نکال کر اپنی گانڈ صاف کرنے لگے ۔۔جب انہوں نے گانڈ کو اچھی طرح صاف کر لیا۔۔۔تو۔ پھر وہ اوپر اُٹھے۔۔۔۔اور مجھے گلے سے لگاتے ہوئے بولے ۔۔۔ ۔۔ آج تو بہت مزہ دیا تم نے۔۔۔۔ان سے گلے ملتے ہوئے۔۔۔ میری نظر اسی بڑے سے چٹان نما پتھر پر پڑی تو وہاں پر کافی مقدار میں ان کی منی گری ہوئی ۔۔ تو میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ فرزند صاحب یہ کیا ہے؟ میری بات سن کر انہوں نے اپنی گردن موڑی اور اپنی منی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے ۔۔یہ میری منی ہے تو میں ان سے بولا۔۔۔ لیکن آپ کب چھوٹے؟ تو وہ کہنے لگے۔۔۔ عام طور پر گانڈ مرواتے ہوئے ۔۔۔ ہم لوگ مُٹھ مار کر فارغ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔لیکن آج پہلی دفعہ۔۔۔۔ تمہارے زبردست گھسوں اور موٹے لن نے مجھے اتنا زیادہ مزہ دیا کہ میں خود بخود ہی چھوٹ گیا تھا۔۔۔۔۔واپسی پر فرزند صاحب کا موڈ بہت خوش گوار تھا اور وہ بات بے بات پر ہنس رہے تھے اسی طرح بات چیت کرتے ہوئے ہم لوگ گھر پہنچ گئے۔۔۔یہاں بھی فرزند صاحب ویسے ہی چہکتے رہے۔۔ جلد ہی لڑکیوں نے یہ بات محسوس کر لی۔۔ ۔ ثانیہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولی۔۔ ۔۔۔ انہیں کیا کھلا کر لائے ہو کہ بھائی جان بہت فریش نظر آ رہے ہیں؟ ثانیہ کی بات سن کر میں خواہ مخواہ ہی سسپنس ڈالتے ہوئے بولا۔۔۔۔ یہ ہمارا ٹریڈ سیکرٹ ہے بچہ ۔۔۔ اس کے بارے میں ہر کسی کو نہیں بتایا جا سکتا ۔۔۔تو وہ بھی سیریس ہو کر کہنے لگی پھر بھی کچھ تو پتہ چلے؟ کہ آخر چکر کیا ہے ؟۔۔ ظاہر ہے میں اسے یہ تو نہیں بتا سکتا تھا کہ چونکہ میں نے اس کے بھائی کی ٹکا کر بجائی ہے اس لیے اس کا موڈ خوش گوار ہو گیا ہے ۔۔۔ بلکہ اس کی بجائے میں اس سے کہنے لگا۔۔۔۔ بی بی جی اس میں میرا یا آپ کے بھائی جان کا کوئی کمال نہیں۔۔۔۔۔ بلکہ کمال ہے تو موسم کا ہے ۔۔۔۔ اس لیے میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ بھی باہر نکل کر دیکھو تو پتہ چلے کہ موسم کس قدر خوش گوار ہے ۔۔۔۔پھر میں اس پر شاعری جھاڑتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ۔۔۔۔مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ۔۔۔۔ اتنے میں تانیہ فرزند صاحب سے مخاطب ہو کر بولی۔۔۔ بھائی آپ کے جانے کے بعد اشتیاق انکل آئے تھے تو فرزند چونک کر بولے کیا کہہ رہے تھے؟ تانیہ بولی۔۔۔ وہ کہہ رہے تھے کہ آج رات کا کھانا ان کی طرف سے ہو گا اور بھائی وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اگر آپ لوگ چاہو تو وہ رات کا کھانا یہاں بھی پہنچا سکتے ہیں لیکن اگر ان کے گھر آ کر کھائیں تو بڑی مہربانی ہو گی۔۔۔ اس پر فرزند صاحب کہنے لگے تم نے کیا جواب دیا ؟
تانیہ بولی۔۔۔۔جواب کیا دینا تھا ان سے یہی کہا کہ رات کا کھانا ہم آپ کے گھر آ کر کھائیں گے۔ تو فرزند اس کو شاباش دیتے ہوئے بولے۔۔ ویری گڈ تانیہ یہ تم نے بہت اچھا کہا ۔۔۔اس پر تانیہ کہنے لگی بھائی جان بچوں کے لیے اچھا سا چاکلیٹ کیک یا مٹھائی کا ڈبہ لے آئیں تو اس پر رمشا بولی۔۔۔۔۔ یار تانیہ یہ ایک تفریحی مقام ہے ۔۔۔۔یہاں سے اچھا کیک یا مٹھائی کا ملنا کافی مشکل ہو گا اس لیے میرا مشورہ ہے کہ آپ لوگ یا تو ان کے بچوں کو کچھ پیسے دے دیں یا پھر جاتی دفعہ کچھ فروٹس وغیرہ لے جائیں اور پھر کابینہ کی باہمی رضامندی سے یہ طے پایا کہ ہم لوگ ان کے گھر جاتے وقت فروٹس بھی لے جائیں گے اور واپسی پر بچوں کو پیسے بھی دے آئیں گے۔۔ ۔۔ حتمی پروگرام بننے کے بعد فرزند صاحب تو ریسٹ کرنے کے لیئے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے جبکہ مجھے پیشاب کی حاجت ہو رہی تھی اس لیے میں واش روم چلا گیا۔۔۔ ۔پھر اسی شام اشتیاق صاحب کے ہاں جانے سے پہلے مجھے تنہائی میں رمشا مل گئی تو میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔ مس جی یہ بتا ؤ کہ ہمارے جانے کے بعد تمہاری ان گوریوں کے ساتھ میٹنگ ہوئی؟ تو وہ بظاہر انجان بنتے ہوئے بولی۔۔۔ کون سی میٹنگ ؟ ۔۔۔ یو نو آج صبح ہی دوست میری طبیعت بہت خراب تھی اس لیے میں سارا دن کمرے سے باہر نہیں نکل سکی۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس کو بازو سے پکڑا اور اسے جھٹکا دیتے ہوئے بولا۔۔۔ گولی دینے کی کوشش نہ کرنا میں تیری ساری چوت چالاکیاں سمجھتا ہوں تو وہ ہنستے ہوئے بولی۔۔ ایک بات تو بتاؤ اور وہ یہ کہ تم اس معاملے میں اتنا انٹرسٹ کیوں لے رہے ہو؟ تو اس پر میں اس کی چھاتیوں کو دبا کر بولا۔۔۔ وہ اس لیے میری جان کہ ۔۔بقول شاعر ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔۔۔آپسی کام کرتے ہوئے کیا پتہ ان کو ایک مضبوط لوڑے کی ضرورت پڑ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسری بات یہ ہے ڈارلنگ کہ معاملہ سیکس کا ہو اور میں اس سے انجان رہوں یہ ہر گز نہیں ہو سکتا ۔۔۔ تو وہ مجھے چڑاتے ہوئے بولی۔۔۔ جہاں تک تمہاری پہلی بات کا تعلق ہے۔۔ تو منہ دھو رکھو ایک تم ہی نہیں تنہا ۔۔۔۔۔گوری چمڑی کے لیے تو سارے پاکستان کے لڑکے لائن میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔اور دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ ۔۔ بے شک یہ معاملہ سیکس کا ہے لیکن یہ زنانہ سیکس کا معاملہ ہے ۔۔۔ اس لیے تمہیں اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر کہنے لگی میری ان کے ساتھ ہیلو ہائے تو شروع ہو گئی ہے ۔۔۔لیکن غیر ملکی ہونے کی وجہ سے دونوں بڑی محتاط اور ایک ان دیکھی جھجک ابھی تک برقرار ہے ۔۔۔ ۔۔ پھر مجھے آنکھ مارتے ہوئے بولی۔۔۔ فکر نہیں کرو دوست ۔۔۔۔ یہ سالی گوریاں مجھ سے بچ کر نہیں جا سکتیں ۔۔۔
اشتیاق صاحب کی دعوت بہت سادہ مگر مزیدار تھی۔۔دعوت سے واپسی پر اتفاق سے ہم لوگ گھر میں داخل ہو رہے تھے۔۔۔ تو عین اسی وقت گوریاں گھر سے باہر نکل رہی تھیں ہمیں دیکھ کر وہ دروازے میں ہی رُک گئیں۔ تعارف پر پتہ چلا کہ وہ دونوں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھے عہدے پر کام کرتی ہیں ۔۔ اور آج کل چھٹیاں منانے پاکستان آئی ہوئی ہیں ۔ان میں سے بیضوی چہرے اور سرخی مائل گوری لڑکی کا نام کیرن تھا جس کی عمر 28/ 29 سال ہو گی جبکہ دوسری اس سے بڑی اور چہرے قدرے لمبوترا سا تھا۔۔ نام ڈیزی تھا اور عمر 35/ 36 سال کی ہو گی۔۔کیرن کی طرح وہ بھی گوری رنگت والی سرخی مائل گوری گوری تھی رسمی تعارف کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرزند صاحب نے پھر بھی ان کے ساتھ ساتھ کچھ بات وات کی لیکن پتہ نہیں کیا چکر ہے کہ ان گوریوں کو اپنے سامنے دیکھ کر ۔۔۔ہمیشہ ہی میری حالت کچھ عجیب ہو جاتی شاید اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ میں جس بھی گوری کو دیکھتا ہوں تو پتہ نہیں کیوں میرے ذہن میں بلیو موویز والی گوریاں گھوم جاتی ہیں جو کہ یا تو لن پر بیٹھی جمپیں مار رہی ہوتیں ۔۔۔۔۔۔ یا پھر میرا فیورٹ کام چوپا لگا رہی ہوتیں تھیں۔۔۔ اس کے علاوہ ان کے بارے میں ابھی تک کوئی دوسرا تصور میرے ذہن میں نہ بیٹھ سکا تھا۔۔۔ ۔۔ اسی لیے جب ڈیزی نے مجھ سے ہاتھ ملانے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا تو میں گھبرا سا گیا اور اسی گھبراہٹ کے عالم میں۔۔۔۔۔۔ میں بروقت اپنا ہاتھ نہ بڑھا سکا ۔ اور پھر ڈرتے ڈرتے ہاتھ بڑھایا بھی تو میرا سٹائل دیکھ کر ساری خواتین ہنس پڑیں اور ڈیزی میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے اردو میں بولی۔۔۔ ہاتھ ملانے سے تمہاری فیانسے کچھ نہیں کہی گی۔پھر وہ لڑکیوں سے مخاطب ہو کر بولی۔۔ ہم واک پر جا رہیں ہیں اگر کوئی انٹرسٹڈ ہے تو چلے ۔سو لڑکیاں بھی ان کے ساتھ ہو لیں۔۔ ان کے جانے کے دس منٹ بعد فرزند صاحب نے بنا کوئی بات کیے میری زپ کھولی اور لن کو نکال کر بڑی بے تکلفی کے ساتھ بولے۔۔۔کیا خیال ہے ایک اچھا سا چوپا نہ ہو جائے؟ میرے ہاں کرنے کی دیر تھی کہ انہوں نے ایسا مست اور زبردست چوپا لگایا کہ طبیعت خوش ہو گئی۔۔ انہیں چوپا لگا کر ۔۔۔۔۔اور مجھے لگوا کر اس قدر مزہ آیا کہ لڑکیوں کے آنے سے پہلے پہلے۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں سو چکے تھے۔۔
اگلے دن کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا وہ دن ہم سب نے اکھٹے ہی گزارا تھا۔۔۔۔۔ رات کی بات ہے کہ میں سو رہا تھا کہ اچانک مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی ۔۔ پہلے تو میں اسے ٹالتا رہا لیکن جب کام بہت تیز ہو گیا تو مجھے اُٹھنا پڑا۔۔۔ واش روم سے واپسی پر مجھے رمشا نظر آئی۔۔۔۔ ا س نے مجھے باہر آنے کا اشارہ کیا ۔ اور میں اس کے ساتھ کچن میں آ گیا وہاں پہنچ کر میں نے اس سے پوچھا گوریوں کی سنا؟ تو وہ آنکھ دبا کر بولی۔۔۔ دونوں پکی لیسبو ہیں۔۔ بلکہ یہ دونوں شادی کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچ رہیں ہیں تو میں اس سے بولا ۔۔اچھا یہ بتا کہ شادی میں دلہن کون ہو گی اور دلہا کون؟ کیونکہ لن تو دونوں کے پاس نہیں ہیں ؟ تو وہ ہنس کر بولی۔۔۔ تمہاری بات بالکل درست ہے لیکن یہ میرا دردِ سر نہیں ۔۔۔۔پھر سنجیدہ ہو کر بولی۔۔۔۔ کل فرزند بھائی اپنے بزنس کے سلسلہ میں ایک دن کے لیے ایبٹ آباد جا رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ وہ تمہیں بھی ساتھ لیتے جائیں لیکن میں نے انہیں منع کرتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ اگر اتفاق سے لڑکا لڑکی اکٹھے ہو گئے ہیں تو انہیں آپس میں انڈر سٹیڈنگ کا پورا موقع ملنا چاہیئے ۔
چنانچہ تمہیں مبارک ہو کہ کل کا دن تم تانیہ کے ساتھ اکیلے گزار گے۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بڑی ادا سے بولی چلو شاباش اب میرا شکریہ ادا کرو تو میں نے بجائے شکریہ ادا کرنے کے اس کا بازو پکڑا اور اسے مروڑتے ہوئے بولا۔۔۔ بہن چود سالی ۔۔۔۔تم کیا مجھے بے وقوف سمجھتی ہو؟ پھر میں اس کی گانڈ کو اپنے لنڈ کے ساتھ لگاتے ہوئے بولا۔۔۔۔یہ سب ڈرامہ تم نے تانیہ کو بیچ میں سے نکالنے کے لیے رچایا ہے ۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے اس کے گال پر ایک چمی دے کر بولا۔۔۔۔۔ جان جی شکریہ تو تمہیں میرا ادا کرنا چاہیئے کہ میں کباب میں سے ہڈی لے کر جا رہا ہوں ۔۔ میری بات سن کر وہ جل ترنگ سے ہنس کر بولی۔۔ کمال ہے یار تم نے یہ کیسے جج کر لیا؟ ۔۔۔۔۔تو میں اس سے بولا وہ سب چھوڑو یہ بتاؤ کہ ۔۔۔ تمہارا ان گوریوں کے ساتھ کیا پروگرام بنا ہے؟ تو وہ کہنے لگی ہمارا پروگرام فٹ ہے اور وہ یہ کہ ایک کمرے میں چھوٹی گوری میرے ساتھ ۔۔۔۔۔ جبکہ دوسرے کمرے میں ثانیہ اور بڑی گوری سیکس کریں گی ۔۔ اس کے بعد پھر ہم چاروں اکھٹے پروگرام کریں گے۔۔۔اس کے بعد اس نے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔اور پھر کہنے لگیں ۔۔ یہ تو تھا ہمارا پروگرام ۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف تانیہ اور تم نے ایوبیہ کے جنگل میں مست پروگرام کرنا ہے ۔۔اس کی بات ختم ہوتے ہی میں نے اسے اپنی بانہوں میں بھرا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ایک فل ڈیپ کسنگ کی۔
اگلی صبح کی بات ہے کہ ناشتے کے وقت فرزند صاحب مجھ سے کہنے لگے۔۔۔ سوری یار مجھے ایک نہایت ضروری کام کے سلسلہ میں ایبٹ آباد جانا پڑ گیا ہے۔۔ تمہارا کیا پروگرام ہے میرے ساتھ چلو گے؟ جس وقت فرزند صاحب نے یہ بات کی تو عین اس وقت میری آنکھوں کے سامنے تانیہ کی پھدی لہرا گئی۔۔۔چنانچہ میں ان سے بولا۔۔۔سوری بھائی میرا ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے ۔۔۔۔تو وہ کہنے کوئی بات نہیں یار ۔۔ تم انجوائے کرو۔۔۔ شام تک میں بھی واپس آ جاؤں گا۔ چنانچہ ناشتہ کرنے کے کچھ دیر بعد وہ ہمارے ساتھ رہے اور پھر انہوں نے گاڑی کی چابی پکڑی اور کہنے لگے۔۔۔۔ اوکے میں چلا۔۔۔۔۔ جس جس نے ایبٹ آباد سے کوئی چیز منگوانی ہو تو بتا دے میں واپسی پر لیتا آؤں گا تو اس پر تینوں لڑکیوں نے انہیں کھانے کی چند چیزوں کے نام لکھوائے اور وہ بائے بائے کرتے ہوئے وہاں سے روانہ ہو گئے۔۔
فرزند صاحب کے جانے کے بعد ہم لوگ صحن میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ثانیہ مجھ سے کہنے لگی بھائی ہمیں آئے کتنے دن ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک آپ میری بہن کو گھمانے نہیں لے گئے۔۔اس لیے آج آپ کو پورا موقع دیا جاتا ہے کہ تانیہ کو کہیں گھمانے لے جائیں۔۔ کہ بےچاری کئی دفعہ مجھ سے کہہ چکی ہے ادھر ثانیہ کی بات سن کر تانیہ چونک کر بولی۔۔۔۔ جھوٹی میں نے کب کہا؟ تو ثانیہ شرارت سے بولی بے شک بچہ تم نے منہ سے نہیں کہا ۔۔۔ لیکن ہم تمہارے دل کا حال اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ اس سے پہلے کہ تانیہ کچھ کہتی ۔۔۔۔۔ رمشا جلدی سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ شاہ صاحب سے درخواست ہے کہ ہماری پیاری دوست کو کہیں گھمانے لے جائیں۔۔۔۔خیر تھوڑی سی بحث و تمہید کے بعد تانیہ میرے ساتھ چلنے کے لیئے راضی ہو گئی۔۔۔ اور کہنے لگی ۔۔۔ میں ذرا چینج کر آؤں۔۔
کافی دیر بعد جب وہ تیار ہو کر آئی تو میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔۔۔اس نے ہلکے آسمانی رنگ کی پتلی سی قمیض پہنی ہوئی تھی۔جس کے نیچے کالے رنگ کی برا صاف نظر آ رہی تھی کہ جس میں اس کے چھوٹے چھوٹے ممے قید تھے۔۔۔ …۔۔۔ اور قمیض کے نیچے اس نے سفید رنگ کی ٹائیٹس پہنی ہوئی تھی اور اس ڈریس میں تانیہ بہت بھلی لگ رہی تھی۔۔باہر نکلتے وقت میں نے ایک دفعہ رمشا سے پوچھا کہ تم بھی ہمارے ساتھ چلو گی؟۔تو وہ ہنستے ہوئے بولی نا بابا ۔۔مجھے کباب میں ہڈی بننے کا کوئی شوق نہیں۔۔۔چنانچہ ہم ان کے بغیر ہی نکل آئے۔۔۔۔گھر سے باہر آ کر میں نے ایک نظر تانیہ کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔ اس ڈریس میں تم بہت گریس فل لگ رہی ہو۔۔تو وہ میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔آپ کو ایسا لباس پسند ہے ؟ تو میں اس سے بولا۔۔۔ آپ جو بھی لباس پہن لو وہی اچھا ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس سے بولا کیا خیال ہے ہم لوگ چئیر لفٹ پر نہ چلیں؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ نہیں میں آپ کے ساتھ واک کرنا پسند کروں گی۔۔۔ اس پر میں اوکے بول کر اس کے ساتھ چل پڑا۔۔۔ اس کے ساتھ چلتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ تانیہ کچھ زیادہ ہی سیریس ہو رہی تھی۔۔۔ چلتے چلتے ۔۔۔۔جب کافی دیر تک اس نے کوئی بات نہیں کی تو میں پریشان ہو گیا ۔۔۔چنانچہ میں اس سے بولا۔۔۔ تانیہ اگر تمہیں میرے ساتھ باہر آنا پسند نہیں تو ہم واپس مُڑ سکتے ہیں تو وہ سنجیدگی کے ساتھ بولی۔۔ واپس مڑنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔ بلکہ میں تو ایسا موقع ڈھونڈھ رہی تھی کہ جس میں۔۔۔۔میں تمہارے ساتھ کھل کر باتیں کر سکوں۔۔۔ میں ا س سے بولا۔۔ کوئی خاص بات کرنی تھی؟ تو وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ بولی۔۔۔۔۔۔ ہاں کچھ باتیں ایسی ہیں جو تم تک پہچانا ضروری تھیں ۔۔۔ آج موقعہ مل رہا ہے تو سوچا تمہارے ساتھ شئیر کر لوں ۔۔اس کے بعد وہ کہنے لگی ۔۔۔شاہ جی! جیسا کہ تم جانتے ہو کہ میری بچپن میں ہی تمہارے دوست کے ساتھ منگنی ہو گئی تھی۔۔۔ اس کے بعد اس نے بچپن کی منگنی کے بارے میں کچھ باتیں میرے ساتھ شئیر کیں ۔۔۔اور پھر کہنے لگی۔۔۔ میں نے اپنی زندگی میں جس شخص کے ساتھ ٹوٹ کر محبت کی تھی۔۔۔ اس کا نام عدیل ہے۔۔۔ پھر کہنے لگی کوئی وقت تھا کہ مجھے عدیل سے جڑی ہر چیز پیاری ہوا کرتی تھی۔۔۔ اس کے بعد اچانک ہی اس کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہوئے اور وہ دانت پیستے ہوئے بولی۔۔۔لیکن اب میں نے زندگی بھر جس شخص سے نفرت کرتی رہوں گی اس کا نام عدیل ہے۔۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔جس طرح میں عدیل سے شدید نفرت کرتی ہوں اسی طرح مجھے اس سے جڑی چیز سے نفرت ہے۔۔۔ تانیہ کے منہ سے نفرت بھرے الفاظ سن کر مجھے بہت شاک ہوا۔میں اس سے بولا۔۔۔ تو کیا اس ہیٹ لسٹ میں میرا نام بھی شامل ہے؟ میری بات سن کر اس نے بڑی گہری نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگی۔۔۔ ہاں مجھے عدیل اور اس سے جڑی ایک ایک چیز کے ساتھ نفرت ہے۔۔لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں جلدی سے بولا ۔۔لیکن کیا تانیہ جی! ۔۔۔۔تو وہ ایک گہرا سانس لے کر بولی ۔۔عدیل کے نام سے جڑی تم واحد شخصیت ہو کہ جس کے بارے میں ۔۔۔میں کشمکش کا شکار ہو جاتی ہوں۔۔۔۔۔پھر کہنے لگی پتہ نہیں کیا بات ہے کہ میرے ذہن میں جب بھی تمہارا نام آتا ہے۔۔۔ تو میں ایک عجیب شش و پنج کا شکار ہو جاتی ہوں۔۔۔ میں تم سے نفرت کرنا بھی چاہوں تو کرنہیں سکتی۔۔۔۔ ۔۔تم بہت اچھے اور ہمدرد انسان ہو ۔۔۔ تم نے فقط میری وجہ سے میری فیملی اور فرینڈز کے ایسے کام کیے ہیں کہ جن کا اعتراف نہ کرنا سراسر زیادتی ہو گی۔۔ شاید اسی لیے میں تم سے نفرت نہیں کر سکی۔۔۔ بلکہ تمہارے لیے میرے دل میں ایک نرم گوشہ موجود ہے لیکن اس نرم گوشے کے باوجود بھی میں تمہارے ساتھ شادی نہ کر سکوں گی۔۔۔۔۔ تانیہ کی بات سن کر ۔۔جہاں مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ وہ مجھ سے شادی نہیں کرے گی وہاں اس بات کا بھی از حد افسوس ہوا ۔۔ کہ شاید میں اس کی پھدی نہ لے سکوں لیکن اسی دوران مجھے لن صاحب کی طرف سے سگنل موصول ہوا ۔۔۔ شاہ جی۔۔۔ لڑکی کی باتوں پر نا جا ۔۔۔ بلکہ اس کے اس گوشے کی طرف توجہ کر ۔۔۔ جو بہت نرم ہے۔۔۔ اور جسے تو نے گرم کرنا ہے چنانچہ اسی نرم گوشے کا فائدہ اُٹھا ۔۔۔۔ اور لڑکی کی گرم پھدی مار۔۔۔۔دیٹس اِٹ۔ ۔۔۔۔۔
چنانچہ لن کی بات سنتے ہوئے میں نے تانیہ کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ اور پھر غمگین سی شکل بنا کر بولا۔۔۔ تم ٹھیک کہتی ہو دوست ۔۔۔ تمہاری جگہ اگر میں ہوتا کہ جس کے منگیتر نے اسے دھوکہ دیا۔۔۔تو شاید میں اس سے بھی سخت ردِ عمل دیتا ۔۔لیکن یہ تمہاری گریٹ نس ہے کہ تم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔بلکہ یہ تمہاری اعلیٰ ظرفی کی انتہا ہے کہ تم اس ذلیل انسان کے دوست کے لیئے اپنے دل میں ایک نرم گوشہ رکھتی ہو ۔۔ورنہ۔۔۔۔۔۔اس ورنہ کے بعد میں نے اس کی شان ۔۔۔اور خاص طور پر اس کی اعلی ظرفی کے بارے میں ایسے ایسے قصیدے پڑھے جنہیں سن کر۔۔۔ بڑی بڑی آنٹیاں پگھل جایا کرتی تھیں۔۔۔۔ جبکہ یہ تو صرف ایک ملوکڑی سی لڑکی تھی۔چنانچہ اپنی تعریف اور اوصافِ حمیدہ سن کر ۔۔ وہ نہ صرف یہ کہ بہت خوش ہوئی ۔۔۔ بلکہ اس کے چہرے کے تنے ہوئے عضلات (ٹشو) بھی ڈھیلے پڑ گئے۔۔جس سے وہ کافی حد تک نارمل ہو گئی تھی۔۔۔۔
پہلے مرحلے کو بخوبی سر کرنے کے بعد۔۔۔۔ پھر اس کو ٹریک نمبر 2 پر چڑھانے کے لیے کے لیے میں نے اپنی غمگین شکل کو مزید غمگین بنایا۔۔۔اور اس سے بولا۔۔۔ تانیہ ڈئیر محبت کے اس کھیل میں صرف تمہیں ہی دھوکہ نہیں ملا ۔۔۔ بلکہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو چکا ہے میری بات سن کر وہ چونک کر بولی۔۔۔ ۔۔۔کک۔۔۔کیا کہہ رہے ہو؟ تو اس پر میں نے میں بلیک اینڈ وہائیٹ فلموں کے رومانوی ہیرو کی طرح ایک سرد سی آہ بھری۔۔۔جس کی وجہ سے ایوبیہ کا موسم مزید سرد ہو گیا)۔اور اس سے بولا۔۔۔ مجھے بھی ایک لڑکی نے دھوکہ دیا تھا۔۔۔ کسی نے میرے ساتھ بھی فراڈ کیا تھا۔۔۔۔ میری جاندار ایکٹنگ اور دکھی بیان کو سن کر وہ پریشان ہو کر بولی۔۔۔ آ۔۔آ۔۔آپ۔۔۔تمہارے ساتھ بھی؟ تو میں اس سے بولا۔۔۔ ہاں دوست میرے ساتھ بھی۔۔۔۔۔۔۔تو وہ کہنے لگی مجھے بتاؤ پلیزززززززززززز۔۔۔۔ کہ تمہارے ساتھ کیا واقعہ ہوا؟۔۔تو میں اس سے بولا۔۔ نہیں دوست تم پہلے ہی بہت دکھی ہو اپنا واقعہ سنا کر میں تمہیں اور دکھی نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔تب وہ زور دے کر بولی۔۔۔دیکھو میں نے تم سے ہر بات شئیر کر دی ہے لیکن تم ہو کہ مجھ سے چھپا رہے تو میں اس سے بولا۔۔ میں چھپا نہیں رہا دوست ۔۔۔ بلکہ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے تم مزید پریشان ہو۔۔۔۔ لیکن پھر اس کے بے حد اصرار پر میں نے جھٹ سے دماغ کا کمپیوٹر آن کیا۔۔ دل کی میموری سے دکھی سین لیے۔۔اور زبان کی حلاوت سے اسے اس انداز میں سنانا شروع کیا ۔۔۔کہ جسے سن کر وہ حسینہ کہانی کے پہلے ہی ہالف میں ہی گھائل ہو کر بے اختیار میری نامعلوم منگیتر کو کوسنے دینا شروع ہو گئی۔۔۔ ادھر جیسے ہی اس نے میری نامعلوم محبت کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔تب میں نے بلیک اینڈ وہائیٹ فلموں سے لیے گئے ایک سین کو یاد کرتے ہوئے تانیہ سے بولا۔۔۔۔ تانیہ تمہیں قسم ہے مجھے جو مرضی کہہ لو لیکن پلیززززززززززززززز۔۔۔ اسے کچھ نہ کہنا۔۔۔میری اس بات سے وہ خاصی متاثر ہوئی اور قصہ مختصر ۔۔۔جب میں نے محسوس کیا کہ اب حسینہ پوری طرح سے میرے قابو میں آ گئی ہے تو میں سٹوری کا اینڈ کرتے ہوئے بولا۔۔۔ کہ بے شک اس نے مجھے دھوکا تو دے دیا۔۔۔ لیکن مجھے ایک بات کی بڑی خوشی ہے ۔۔۔۔۔ تو حسبِ توقع وہ جلدی سے بولی وہ کیا؟ تو میں لوہے کو گرم دیکھ کر چوٹ مارتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔ کہ میں نے اس کے ساتھ ایک بار ہی سہی۔۔۔ لیکن سیکس کر لیا تھا۔۔۔ سیکس کا نام سن کر اس کے حسین چہرے پر ایک شرماہٹ سی آ گئی تھی۔۔۔ اور وہ کہنے لگی۔۔۔محبت میں س۔س۔کیس؟ تو میں اس سے بولا۔۔۔ میرے خیال میں تو اس میں حرج کوئی نہیں۔۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی حرج تو واقعی ہی کوئی نہیں ۔۔۔ لیکن۔۔۔ ۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ میں اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔۔۔ میرے خیال میں تو اپنے دوست کے ساتھ بھی ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے ادھر ادھر دیکھا تو اتفاق سے ہمارے آس پاس کوئی خاص رش نہیں تھا۔ اس لیے میں جیسے ہی ایک موڑ آیا ۔۔۔۔تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا۔۔ اس پر وہ جلدی سے ہاتھ چھڑا کر بولی۔۔۔ارے ارے۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو؟ تو میں اس سے بولا۔۔۔سوری یار ۔۔۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔۔۔تو وہ کہنے لگی اس میں سوری کی کوئی بات نہیں لیکن پلیز دیکھ لیا کرو ۔۔۔تو میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔ ٹھیک ہے دوست اگلی کس میں دیکھ کر کروں گا ۔۔۔ میری بات سن کر اس کا چہرہ لال ہو گیا۔۔لیکن وہ منہ سے کچھ نہیں بولی۔۔اس کی خاموشی کو نیم رضا مندی جان کر میں اس سے بولا۔۔۔ تمہیں برا تو نہیں لگا؟ تو وہ میری طرف دیکھ کر ایک خاص ادا سے بولی۔۔۔ مجھے تمہارا کچھ برا نہیں لگتا تانیہ کی اس بات سے میں سمجھ گیا کہ لڑکی راضی ہو گئی ہے اس لیے اب میں نے ایک سٹیپ مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔ کچھ آگے جا کر میں اس سے بولا۔۔۔۔ کیوں نہ کچھ دیر سستا لیا جائے تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔ ہاں یار ہم کافی پیدل چل لیا۔۔۔۔اب کچھ دیر بیٹھنا چاہیئے۔۔۔۔ پھر ایک مناسب سی جگہ دیکھ کر ہم دونوں بیٹھ گئے۔۔اور میں اس سے بولا۔۔۔ تانیہ تم سے ایک بات کہوں؟ تو وہ خوش دلی سے بولی ایک نہیں دس بولو۔۔تو میں اس سے کہنے لگا۔۔۔ کہ یہ لباس تم پر بہت سوٹ کر رہا ہے تو وہ ہنس کر بولی ۔۔۔ یہ بات تو تم پہلے بھی کہہ چکے ہو تو میں بڑے رومینٹک لہجے میں بولا۔۔۔ کیا کروں یار۔۔۔۔ایسا بار بار کہنے کو جی چاہ رہا ہے تو وہ میری بات کا مزہ لیتے ہوئے۔۔۔۔ بولی۔۔۔ بار بار کہو ۔۔۔۔ ہزار بار کہو۔۔۔۔۔۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔۔۔ تب میں اوپر اُٹھا۔۔۔۔ اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔۔۔۔۔۔۔ آئی لو یو تانیہ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔۔۔ میرے کس کرنے سے اس دفعہ وہ بلکل بھی نہیں گھبرائی بلکہ کہنے لگی ۔۔۔ پبلک پلیس پر رومانس کرتے اچھا بھی لگ رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں ڈر بھی لگ رہا ہے۔۔۔ تو میں اس سے بولا اگر ایسی بات ہے تو تمہیں کہیں تنہائی میں لے چلوں؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولی۔۔۔ ۔۔۔۔تمہیں ایسی کسی جگہ کا پتہ ہے؟ تو میں بولا ۔۔۔ ڈھونڈھے سے تو بہت کچھ مل جاتا ہے دوست اور یہ تو فقط تنہائی ہے۔۔۔ اس کے بعد میں نے اس کا ہاتھ پکڑا تو وہ جذبات کی شدت سے ہلکے ہلکے کانپ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر میں اس سے بولا ۔۔ کیا ہوا ڈارلنگ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ کک کچھ نہیں ۔۔۔چلو۔۔۔۔۔ تب میں تانیہ کو لے ٹھیک اسی آن پہنچا کہ جہاں پر گزشتہ دنوں میں اس کے بڑے بھائی کو چود چکا تھا۔۔۔ بھائی کے بر عکس اس نے گڑھے میں اترنے سے انکار کر دیا۔۔ اس کی بجائے وہ میرے ساتھ چل کر ایک ایسی جگہ آ گئی کہ جہاں پر گھنے درختوں کا ایک جھُنڈ سا بنا ہوا تھا ۔۔
جاری ہے
0 Comments