ارم کی بالوں والی چوت
قسط نمبر 8
آپس کی بات ہے کہ مجھے اس لڑکی کی ابھی تک سمجھ نہیں آئی تھی جو گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ ہو جاتی تھی۔۔۔ اب یہی دیکھ لیں۔۔۔ گھر سے چلتے وقت یہ مجھ سے محبت اور نفرت کے چکر میں تھی پھر درمیان میں میرے لیے نرم گوشہ رکھ رہی تھی ۔۔۔۔اور اس وقت وہ فل شہوت میں نظر آ رہی تھی۔۔۔اسے موڈ میں دیکھ کر میں نے زیادہ سوچنے پر لعنت بھیجی۔۔۔۔ اور تانیہ کی طرف دیکھنے لگا جو کہ درخت سے ٹیک لگائے۔۔۔۔ بڑی ہی شہوت بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی ۔ پھر جیسے ہی میں اپنے منہ کو اس کے ہونٹوں کی طرف لے جانے لگا۔۔۔۔۔تو اس نے اپنی دو انگلیوں کو میرے ہونٹوں پر رکھ کر بولی۔۔ تم میرے ساتھ کیا کرنے لگے ہو؟ تو میں اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔۔۔۔ میں تم سے پیار کرنے لگا ہوں ۔۔۔تو وہ میرے ہونٹوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ لیکن میں تو تم سے پیار نہیں کرتی۔۔۔۔
تو میں اس سے بولا ۔۔ ۔۔۔ ۔ تم نہ کرو لیکن میں تو تم سے پیار کرتا ہوں نا۔۔۔۔اور اس کے نرم ہونٹوں پر ایک ہلکا سا بوسہ دے دیا۔۔۔پھر ہونٹوں کو چومنے کے بعد میں اس سے بولا۔۔۔ میرے پیار کا اظہار کیسا لگا؟ تو وہ مست ہو کر بولی ۔۔۔ پیار اتنا زیادہ اور اظہار اس قدر کم کیوں؟ میں سمجھ گیا کہ لڑکی شہوت میں فل “ٹیٹ ” ہو گئی ہے ۔۔۔تب میں نے ایک نظر جنگل کی طرف دیکھا ۔۔۔اور پھر اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنا شروع ہو گیا۔۔ اُف اس کے ہونٹوں میں ایک عجیب سی چاشنی تھی اور اس کے منہ سے ایک عجیب سی مہک آ رہی تھی۔۔۔اس کے کنوارے جسم کو پانے کی آرزو میں۔۔۔۔۔ میں پاگل ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔ ۔ سو میں اس کے ہونٹوں کی چاشنی پیتا گیا پیتا گیا ۔۔۔۔طویل کسنگ کے بعد ۔۔۔جب میں نے اس کے منہ سے منہ ہٹایا تو اس وقت تک میرا شیر بھی ہوشیار باش ہو چکا تھا۔۔۔ چنانچہ سانس لینے کے بعد میں نے جب دوبارہ اس کے منہ میں منہ ڈالا۔۔۔۔تو اس نے اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیانے حصے کو میری پینٹ کے ابھار کے ساتھ رگڑنا شروع کر دیا۔ادھر ہونٹوں کو چوسنے کے بعد۔۔۔۔ اب میر ی زبان اس کے منہ میں جا چکی تھی۔اور ہماری زبانیں بڑی بے تابی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا رہی تھیں۔۔۔جبکہ دوسری طرف تانیہ اپنی پھدی والے حصے کو میرے لن کے ساتھ رگڑ تی ہی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔جبکہ زبان چوسنے کے ساتھ ساتھ میں نے اس کی چھاتیوں کو بھی دبانا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی اثنا میں اس نے میرے منہ سے اپنے منہ کو ہٹایا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔اور مست لہجے میں بولی۔ ۔۔اُف تم کتنے گرم ہو۔۔۔تو میں اس کی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا تم بھی بمب شیل ہو۔۔۔تو وہ اسی لہجے میں کہنے لگی ۔۔ میں کہاں سے بمب شیل ہوں؟ تو میں اس کے ہونٹوں کو چاٹ کر بولا۔۔۔ ۔۔ یہاں سے۔۔۔تو وہ اسی شہوت بھرے لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔اور کہاں سے ہوں؟۔۔۔تو میں اس کی چھوٹی چھوٹی چھاتیوں کو دبا کر بولا ۔۔۔یہاں سے۔۔تو وہ کہنے لگی اتنے چھوٹے سے بریسٹ بھلا بمب شیل ہو سکتے ہیں؟ ۔۔۔اس پر۔۔ ۔ میں نے اس کی قمیض کو اوپر اُٹھایا ۔۔۔ قمیض کے نیچے کالے رنگ کی برا میں اس کی چھاتیاں قید تھیں سو میں نے برا کو بھی اوپر کر دیا۔۔۔ اور اب میرے سامنے اس کی دونوں چھاتیاں ننگی ہو گئیں تھیں۔۔۔ میں آگے بڑھا ۔۔۔اور اس کی ایک چھاتی کو اپنی مُٹھی میں بھرا ۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔یہ سمارٹ بمب شیل ہیں۔۔۔۔۔ پھر میں انہیں دباتے ہوئے بولا۔۔۔۔ تانیہ ڈارلنگ کیا میں تمہارا دودھ پی سکتا ہوں ؟ تو وہ مست لہجے میں بولی ۔۔۔دودھ سے پہلے ملائی نہیں پیو گے؟ اس کی بات سن کر میں حیران رہ گیا۔۔۔اور اس سے بولا ۔۔ ملائی کہاں ہے؟ اس پر اس نے ترنت ہی اپنی پھدی کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا۔۔۔ یہاں آ کر دیکھو کتنی ملائی جمع ہے۔۔۔۔
تانیہ کی بات سن کر میں اس سے بولا ۔۔تمہارا مطلب ۔۔۔ چھاتیاں چوسنے سے پہلے میں تمہاری چوت چاٹوں؟ تو وہ بڑے ہی جوش سے بولی۔۔۔۔ یس ۔۔۔میری پھدی چاٹ!۔۔۔اور سن ۔۔۔ میرے ساتھ ڈرٹی باتیں بھی کرنی ہیں۔۔۔۔۔ تانیہ کی بات سن کر میں مسکراتے ہوئے بولا۔۔تیری پھدی میں کتنی ملائی جمع ہے؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولی۔۔۔۔ تم کو جتنی چایئے اس سے کچھ زیادہ ہی ملے گی۔۔اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی دونوں ٹانگیں پوری طرح کھول کر کہنے لگی میری ٹائیٹس کو نیچے کرو گے تو تمہیں میری چست پھدی نظر آ جائے گی۔۔۔ میں نے اس کی ٹائیٹ کو نیچے کیا لیکن دونوں ٹانگیں پوری طرح کھلنے کی وجہ سے اس کی ٹائیٹس پوری طرح نیچے نہیں ہو رہی تھی۔۔ یہ دیکھ کر وہ کہنے لگی ٹائیٹس کو ایک طرف سے اتار دو۔۔اور میں نے ایسا ہی کیا ۔۔۔اب میرے سامنے تانیہ کی ننگی اور بقول اس کے چُست پھدی آ گئی تھی۔۔۔ میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا تو وہ بالو ں سے پاک تھی جبکہ چوت کے دونوں لب آپس میں ملے ہوئے تھے ایک نظر دیکھنے پر معلوم ہوا کہ چوت کی لکیر اوپر سے نیچے تک کافی لمبی واقع ہوئی تھی۔۔۔۔ میں چوت کا معائینہ کر رہا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں تانیہ کی آواز گونجی وہ کہہ رہی تھی ۔۔میری پھدی کو ایسے کیوں گھور رہے ہو؟۔ تو میں اس کی بالوں سے پاک پھدی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔۔۔ کیسی شاندار اور چست پھدی ہے تمہاری۔۔۔۔اتنی بات کرتے ہی میں نے اس کی تنگ لکیر پر زبان پھیری۔۔۔تو تانیہ سسکاری مارتے ہوئے بولی۔۔۔۔ پھدی چاٹ جان! مجھے پھدی چٹوانا بہت اچھا لگتا ہے تو میں اس سے بولا۔۔۔ چاٹ ہی تو رہا ہوں ۔۔۔تو وہ مست لہجے میں بولی یہ تم اوپر اوپر سے چاٹ رہے ہو۔۔۔ زبان کو پھدی کی گہرائی تک لے جاؤ۔۔۔۔ پھر میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولی چوت کو اندر تک چاٹو۔۔۔۔ تب میں نے اس کی پھدی کی دونوں پھانکوں کو انگلیوں کی مدد سے الگ کیا ۔۔۔اور اپنی زبان کو پھدی کے اندر تک لے جا کر اسے چاٹنا شروع ہو گیا۔۔۔ تانیہ کی چوت پانی سے لبالب بھری ہوئی تھی۔۔۔اس لیئے جیسے ہی میری زبان اس کی پھدی میں داخل ہوئی تو شہوت کے نشے میں چوُر تانیہ کہنے لگی ۔۔ میری ملائی کھا جا۔۔۔۔ ایک قطرہ بھی پھدی میں نہیں رہنا چاہئے۔۔۔ میری پھدی کی ملائی چاٹ۔۔۔ اور میں نے جی بھر کے اس کی پھدی چاٹی ۔۔۔۔۔ اس دوران تانیہ نے کافی دفعہ آرگیزم بھی کیا۔۔۔ لیکن نہ تو اس کے جوش میں کوئی فرق آیا اور نہ ہی میرے۔۔
چوٹ چٹوانے کے کچھ دیر بعد اس نے مجھے بالوں سے پکڑ کر اُوپر اُٹھایا اور کہنے لگی
چل مجھے اپنا ڈنڈا دکھا۔۔۔چنانچہ اس کے کہنے پر میں اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔تو میری جگہ اب وہ پتھریلی زمین پر اکڑوں بیٹھ گئی ۔۔۔۔ میں نے جیسے ہی پینٹ سے لن کو باہر نکالا۔۔ او ر اس کے سامنے لہراتے ہوئے بولا۔۔۔ میرا شیر کیسا لگا۔۔۔ ۔۔۔۔اپنی آنکھوں کے سامنے لن کو لہراتے دیکھ کر ۔۔۔۔۔اس نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری ۔۔۔اور پھر کہنے لگی۔۔۔ ۔شاہ جی! تیر ا لن تو ایک دم سالڈ ہے یار۔۔۔۔ یہ کہتے ہی اس نے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔اور ٹوپے پر انگلی پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔ تیرے لن سے بھی بالائی نکل رہی ہے۔۔۔ تو میں اس سے بولا۔۔۔ اتنی دیر سے تیری پھدی چاٹ رہا تھا اتنی بالائی کا نکلنا ۔۔۔۔۔ تو بنتا ہے۔۔۔میری بات ختم ہوتے ہی اس نے اپنے منہ سے زبان کو باہر نکالا ۔۔۔اور ٹوپے خاص کر پیشاب والی نالی کو چاٹتے ہوئے بولی۔۔۔۔مجھے یہ بالائی بہت پسند ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ لن کو چاٹنا شروع ہو گئی۔۔۔ اُف ف ف فف۔۔۔ وہ بھوکی شیرنی کی طرح میرے لن کو چاروں اطراف سے چاٹے جا رہی تھی۔۔اور مزے کی وجہ سے مجھے اپنی سسکیوں پر کنٹرول نہ رہا ۔۔۔ چنانچہ میں اونچی آواز میں آہیں بھرنا شروع ہو گیا۔۔۔ ۔۔۔۔
وہ میرے لن کو کچھ دیر تک چاٹتی رہی ۔۔۔ پھر اسے ہاتھ میں پکڑ کر بولی عجیب آدمی ہو ۔۔۔بڑے مزے سے لنڈ چٹوائے جا رہے ہو اور ایک دفعہ بھی نہیں کہتے کہ اب اسے چوسو۔۔تو میں اس سے بولا۔۔۔۔ مجھے بڑا مزہ آ رہا تھا اس لیئے نہیں بولا۔۔۔ تو وہ شہوت سے بھر پور لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔۔۔ اب دوسرا مزہ لینا ہے تو مجھے بول کہ تانیہ میرا لن چوس۔۔۔۔ تو ۔اس پر میں نے تانیہ کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔ تانیہ پلیز اب میرے لن کو اپنے منہ میں لے لو۔۔۔میری بات سنتے ہی اس نے اپنا منہ کھولا ۔۔۔اور لن کو چوسنا شروع ہو گئی۔۔۔اس کے ساتھ ہی میرے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلنا شروع ہو گیا۔۔۔یہ دیکھ کر اس نے لن کو اپنے منہ سے باہر نکالا اور کہنے لگی … اچھا چوس رہی ہوں نا؟ تو میں اس سے بولا۔۔۔ یس جان تم بہت اچھا لن چوستی ہو۔۔۔۔۔اس لیئے۔۔۔۔ پلیزززز۔۔ تھوڑا اور چوسو ۔۔۔ میری بات سن کر اس نے اپنے منہ سے لن کو باہر نکالا اور کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔ تمہارا لن اتنا شاندار ہے کہ اگر یہ ڈسچارج نہ ہو تو میں اسے ساری رات چوس سکتی ہوں ۔۔۔ لیکن اب نہیں چوسوں گی تو میں اس سے بولا وہ کیوں جی؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولی۔۔۔کیونکہ مجھے تمہارا لن ادھر یعنی چوت میں چاہیئے۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ اُٹھ کھڑی ہو ئی۔۔۔اور اپنے دونوں ہاتھ درخت کے تنے پر رکھ کر گانڈ کو باہر کی طرف نکال دیا۔۔اور میرے طرف منہ موڑ کر بولی۔۔ ۔۔۔۔ فک می شاہ!!!!!!!!!!!!!!۔۔۔۔ میں تانیہ کے پیچھے آ کر کھڑا ہوا ۔۔۔اور لن اندر ڈالنے سے پہلے میں نے ایک نظر ادھر ادھر دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اس کی چوت کو اپنے لن کے ساتھ ایڈجسٹ کر تے ہوئے بولا۔۔۔۔۔تانی ڈارلنگ ۔۔۔ میں اندر ڈالنے لگا ہوں۔۔۔۔تو وہ شہوت بھرے لہجے میں بولی۔۔ مجھ سے مت پوچھ۔۔۔۔بس اندر ڈال ۔۔۔ ایک انیچ بھی باہر نہیں چھوڑنا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے ٹوپے کو تھوک سے تر کیا اور کچھ تھوک اس کی پہلے سے چکنی پھدی پر مل کر ایک جھٹکے سے لن کو اندر کر دیا۔۔ جیسے ہی لن اس کی تنگ چوت میں اترا ۔۔۔تو مزہ آ گیا کیونکہ تانیہ کی چوت اندر سے بہت ہی تنگ اور چست تھی اس لیئے میرا لن پھنس پھنس کر آ جا رہا تھا۔۔۔۔۔جس کی وجہ سے مجھے بڑا مزہ آ رہا تھا۔۔۔۔دوسری طرف لن اندر جاتے ہی تانیہ نے ایک طویل سسکی لی۔۔۔۔یس یس یس یس۔۔۔ س۔ س۔ س۔ س۔ س۔۔۔ پھر کہنے لگی میرے ہپس۔۔۔ پکڑ کر سپیڈی گھسے مار ۔۔۔۔چنانچہ میں نے اسے ہپس سے پکڑا ۔۔۔ اور چوت کی دھلائی شروع کر دی۔۔۔ اس کی چپ چپی پھدی تنگ ہونے کی وجہ سے لن بڑے ہی سویٹ ردھم سے آ جا رہا تھا ۔۔۔اتفاق سے میرے گھسے مارنے کی ساؤنڈ اس قدر دل کش تھی کہ وہ پھدی کو مزید ٹائیٹ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔آہ۔۔۔شاہ!!!۔۔۔۔۔اسی ردھم سے چوت مارر۔۔۔مجھے ان آؤٹ کی ساؤنڈ اور دھکے بڑا مزہ دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔اس لیے۔۔۔۔۔۔اور۔۔ مار۔۔۔۔اور میں اسی انداز میں اس کی پھدی کو مارتا رہا۔۔۔۔ وہ سسکیاں لیتے ہوئے بس۔۔۔۔ایک ہی فرمایش کرتی۔۔۔۔۔۔اور مار۔۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد ۔۔۔ وہ شہوت کے عروج پر پہنچ گئی۔۔۔۔۔۔۔اب وہ خود بھی آگے پیچھے ہونا شروع ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔ وہ چوت میں لن لیے۔۔۔۔ فل مزہ لے رہی تھی ۔۔۔۔کہ ہپس کو آگے پیچھے کرتے ہوئے۔۔ اچانک ہی اس نے اپنا منہ میری طرف کیا اور کہنے لگی ۔۔ اندر نہیں چھوٹنا۔۔۔۔ میں کنواری ہوں۔۔۔تو میں اس سے بولا ۔۔ تانیہ ۔۔بری بات ۔۔ پھدی میں لن لے کر بھی کہتی ہو کہ میں کنواری ہوں۔۔۔۔ تو وہ سسکی لیتے ہوئے بولی۔۔۔ اے مسٹر میں کنواری نہیں بلکہ ٹیکنکل کنواری ہوں ۔۔اس لیے خبردار۔۔۔۔ میری پھدی میں پانی نہیں ٹپکانا ۔۔۔۔ تو میں بھی مست لہجے میں بولا۔ کیوں ۔۔ کنواری پھدی میں پانی نہیں ٹپک سکتا ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔ ٹپک تو سکتا ہے لیکن پلیزززززززززززززز۔۔۔۔۔۔ تم نہ ٹپکانا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر لن کو اپنی تنگ چوت سے باہر نکال دیا۔۔۔۔اور میرے سامنے اکڑوں بیٹھ کر بولی۔۔۔ پانی میرے منہ میں ٹپکا۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا منہ کھولا۔۔۔اور لوڑے کو منہ میں لے کر چوسنا شروع ہو گئی۔۔۔۔اور ۔۔۔ پانی کا آخری قطرہ نکلنے تک چوستی رہی۔۔۔۔اور جب لن سے پانی نکلنا بند ہو گیا۔۔۔۔ تو اس نے لن کو منہ سے نکلا۔اور میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی شوخ لہجے میں بولی۔۔۔۔۔مزہ آیا۔۔ ؟؟
رات کا پتہ نہیں کون سا پہر تھا کہ میں آنکھ کھل گئی۔۔۔۔۔دیکھا تو کوئی مجھے بری طرح سے جھنجھوڑ رہا تھا۔۔ میں آنکھیں ملتا ہوا اُٹھا تو مجھے جگانے والا اور کوئی نہیں بلکہ فرزند صاحب تھے۔۔۔مجھے بیدار ہوتے دیکھ کر وہ کہنے لگے۔۔۔ سوری شاہ جی ۔۔۔۔۔۔لیکن ایک ایمرجنسی ہو گئی ہے۔۔۔ میں نے آنکھیں مل کر ان کی طرف دیکھا تو تینوں لڑکیاں میری چارپائی کے گرد کھڑی تھیں ۔۔۔ سب کے چہرے اترے ہوئے تھے ۔۔۔اور وہ بہت پریشان لگ رہیں تھیں
۔۔بلکہ ثانیہ تو باقاعدہ رو بھی رہی تھی ۔۔ اسے روتے دیکھ کر مجھے صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔۔۔۔اور میں جمپ مار کر چارپائی سے اُٹھا اور فرزند صاحب سے مخاطب ہو کر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وہ رُندھی ہوئی آواز میں بولے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ فرزند صاحب کچھ کہتے ہیں میں بڑی حیرانی سے بولا۔۔۔ کیا ہوا بھائی؟ آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟ تو اس پر وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولے کہ گھر سے ماما کا سے فون آیا ہے کہ نانا جان فوت ہو گئے ہیں اس پر میں تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے بولا۔۔۔بہت افسوس ہوا۔۔۔ کب فوت ہوئے ؟ تو وہ کہنے لگے۔۔۔۔ تفصیل کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن اتنا معلوم ہوا ہے کہ ان کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اس لیئے ہم لوگ اسی وقت پنڈی کے لیئے نکل رہے ہیں پھر کہنے لگے شاہ جی!! اگر آپ یہاں رہنا چاہیں تو بے شک رہ لیں ۔۔۔ تو میں ان سے بولا نہیں بھائی میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گا چنانچہ اسی وقت لڑکیوں نے پیک اپ کیا اور ہم لوگ واپس پنڈی آ گئے۔۔۔۔ آتی دفعہ میں نے فرزند صاحب کو آفر بھی کی تھی کہ کہو تو میں آپ کے ساتھ لاہور چلا جاتا ہوں لیکن انہوں نے شکریہ کہہ کر بات ختم کر دی۔
دن کا پتہ نہیں کون سا پہر تھا کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی۔۔ دیکھا تو فون بج رہا تھا ۔۔ چنانچہ میں نے نیم خوابیدہ نظروں سے فون کی طرف دیکھا تو لائن پر عدیل تھا رسمی علیک سلیک کے بعد وہ کہنے لگا تمہیں معلوم ہی ہو گا کہ رات نانا جان کا انتقال ہو گیا ہے تو میں اس سے بولا ہاں فرزند صاحب نے مجھے بتایا تھا ۔۔۔ تو وہ کہنے لگا جس وقت نانا جان کی ڈیتھ ہوئی اتفاق سے میں ان کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا تو اس پر میں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ۔۔۔۔ ویسے ہی اس سے پوچھ لیا کہ ڈیتھ کی وجہ کیا بنی؟ ۔ تو وہ کہنے لگا ویسے تو بڑھاپا بزاتِ خود ایک بیماری ہے۔ لیکن جیسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ کافی دنوں سے ان کی طبیعت ناساز چلی آ رہی تھی کل رات سینے میں درد اُٹھا اور پھر اس سے پہلے کہ ہم کچھ کرتے وہ ایکسپائر ہو چکے تھے۔ عدیل کی بات سن کر میں ایک دفعہ پھر اس سے دکھ کا اظہار کیا تو وہ شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ یار تمہارے ذمہ ایک کام ہے تو اس پر میں بولا ۔۔۔ حکم سائیں!۔۔۔ بندہ حاضر ہے تو وہ کہنے لگا تمہیں معلوم ہی ہے کہ ماموں جان اسٹیٹس ہوتے ہیں تو جیسے ہی ان کو نانا کے انتقال کی اطلاع ملی تو اتفاق سے اسی وقت انہیں لاہور کی فلائیٹ مل گئی تھی۔۔۔۔ مگر کوشش کے باوجود بھی مامی کو لاہور کی فلائیٹ نہ مل سکی ۔ بلکہ انہیں کراچی کی فلائیٹ ملی تھی اس میں قباحت یہ تھی کہ وہاں پر انہیں 6/7 گھنٹے کے سٹے کے بعد لاہور کی فلائیٹ مل رہی تھی جو کہ انہوں نے رد کر دی دوسری فلائیٹ جو کہ دستیاب تھی وہ اسلام آباد کی تھی۔۔۔ اور یہاں بھی انہیں پانچ چھ گھنٹے سٹے کے بعد لاہور کی فلائیٹ مل رہی تھی۔۔۔ تو میں نے مامی کو مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ اسلام آباد اتر کر ائیر پورٹ سے ہی بزریعہ ٹیکسی موٹروے سے لاہور آ جائیں تو آپ پانچ گھنٹے سے پہلے گھر پہنچ جائیں گی۔ مامی کے ذکر پر میں اس سے بولا یہ وہی مامی ہے ناں کہ جن کے ہاں امریکہ میں تم ٹھہرے تھے؟ تو وہ ہنس کر بولا اور کیا گانڈو اتنی دیر سے میں کیا فارسی بول رہا تھا۔ پھر کہنے لگا ہاں جان جی یہ وہی مست مامی ہے کہ جس کی تمہیں سٹوریاں سنائی تھیں۔۔۔پھر کہنے لگا ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ٹیکسی تو وہ سالی خود بھی کروا سکتی تھی لیکن تمہیں معلوم ہی ہے کہ باہر سے آنے والے تھوڑا بہت پروٹوکول مانگتے ہیں اس لیئے انہوں نے مجھے اسلام آباد سے لاہور تک ٹیکسی وغیرہ کا ارنیج کرنے کو کہا ہے۔ تو میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ آپ اسلام آباد اتریں ۔۔۔آگے کا سارا بندوبست میرا دوست کروا دے گا۔ اس کے بعد وہ ندرت مامی کی فلائیٹ نمبر اور وقت بتاتے ہوئے کہنے لگا فلائیٹ آگے پیچھے ہو سکتی ہے اس لیئے تم نے اس کا ٹائم چیک کرتے رہنا ہے پھر نہایت لجاجت سے بولا۔۔۔یار اگر ہو سکے تو مامی کو ٹھیک ٹھاک پروٹوکول دلا دینا ۔۔۔ تو میں اس سے بولا ۔۔۔اس سے کیا ہو گا؟ تو وہ کہنے لگا مامی کے آگے میری ٹوہر (عزت) بن جائے گی۔۔۔ اس پر میں عدیل سے بولا اگر ایسی بات ہے تو میری جان ۔۔۔۔ بے غم ہو جاؤ میں اسلام آباد ائیر پورٹ پر ۔۔۔ تمہاری مامی کا ایسا شاندار پروٹوکول کراؤں گا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے گی۔۔ اس کے بعد ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔ اور میں دوبارہ پلنگ پر لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔۔ابھی میری آنکھ لگی ہی تھی کہ فون پھر سے بجنا شروع ہو گیا۔۔۔ میں نے ایک آنکھ میچ کر دیکھا تو سکرین پر صائمہ باجی کا نام چمک رہا تھا ۔۔۔اور صائمہ کا نام پڑھ کر میرا دل باغ باغ ہو گیا سو میں نے جلدی سے فون آن کیا اور ہیلو کہا۔۔۔۔ تو آگے سے ان کی وہی شوخ و شنگ آواز سنائی دی ۔۔کہ جسے سن کر بندہ فریش ہو جاتا ہے۔۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔۔۔ توبہ توبہ اب تو دوپہر بھی ڈھل گئی ہے اور تم ابھی تک بستر میں گھسے ہوئے ہو۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا چھٹی والے دن دیر تک سونے کی عادت ہے اس لیئے آپ سنائیں لاہور کا موسم کیسا ہے؟؟ تو وہ سرد آہ بھر کر کہنے لگی ۔۔۔لاہور جانا تو تھا لیکن ۔۔۔۔ پھر اچانک جوش سے بولیں۔۔۔ لیکن!!! ۔۔۔پھر ایسا لگا کہ جیسے انہیں کوئی بات یاد آ گئی ہو اور وہ لاہور والی بات بھول کر۔۔۔۔۔بڑے ہی جوش سے کہنے لگیں۔۔ ۔۔ اوئے ظالم ۔۔۔۔ تم نے ہماری نازک سی لڑکی کا کیا حشر کر دیا ہے؟ تو میں حیرانی سے بولا۔۔۔ باجی میں سمجھا نہیں ۔۔۔تو وہ کہنے لگیں۔۔۔۔ میں ثانیہ کی بات کر رہی ہوں بے چاری کو اس بے دردی سے چودا ہے کہ ابھی تک وہ بخار میں پھونک رہی ہے اس پر میں ان سے بولا ۔۔۔ میرے خیال میں اسی لیے آپ لاہور نہیں جا سکیں تو وہ کہنے لگی جی آپ نے درست سنا ہے ۔۔۔۔۔۔ میں ثانیہ کی وجہ سے رک گئی ہوں جیسے ہی یہ ٹھیک ہو گی تو میں اور ثانیہ بھی لاہور چلی جائیں گی تو میں ان سے کہنے لگا کہ بعد میں جانے کا کیا فائدہ؟ بابا جی تو دفن ہو گئے ہوں گے۔۔۔ تو وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ ہم لوگ بابا جی کے واسطے تھوڑی جا رہی ہیں۔۔ میں ان سے بولا تو پھر آپ کس لیے جا رہی ہو؟ تو وہ تلخی سے کہنے لگی ۔۔۔یوں سمجھ لو کہ ہم گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے جا ئیں گی۔۔۔ باجی کی بات مجھے سمجھ نہیں آئی اس لیے میں ان سے بولا سوری باجی میں نہیں سمجھا ؟ تو وہ کہنے لگیں مطلب یہ میری جان کہ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ ہمارے نانا جی ایک بہت بڑی آسامی مطلب امیر آدمی تھے اور اتنے بڑے آدمی کی مرگ پر ہم نہ جائیں۔۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا تو میں ان سے بولا اسی لیئے آپ گونگلوں سے مٹی جھاڑنے کا کہہ رہی ہو ؟ تو وہ کہنے لگیں جی ہاں۔۔۔۔ لیکن مٹی جھاڑنے کے ساتھ ساتھ وہاں فیشن شو بھی تو دیکھنا ہے نا تو میں حیران ہو کر بولا۔۔۔ فیشن شو؟؟؟؟؟؟؟تو وہ کہنے لگیں بزرگ آدمی کے مرنے پر سوائے اس کی بیٹیوں کے ۔۔۔۔ کسی کو دکھ نہیں ہو گا اس لیئے ان کی بہوئیں اور نواسیاں پوتیاں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر شو آف کریں گی۔ تو میں ان سے بولا آپ ٹھیک کہہ رہی ہو باجی۔۔۔۔ عام طور پر بڑے لوگوں کی مرگ پر یہی کچھ ہوتا ہے میری بات سننے کے بعد ۔۔۔۔ اچانک ہی وہ کہنے لگی سوری یار میں تو بھول ہی گئی تھی ۔۔۔۔وہ بھائی (عدیل) کہہ رہا تھا کہ ندرت مامی اسلام آباد ائیرپورٹ اتر کر۔۔۔۔ یہاں سے بزریعہ ٹیکسی لاہور جائے گی تو میں ان سے بولا آپ نے ٹھیک سنا ہے باجی تو وہ کہنے لگی یاد رکھنا مامی کے ساتھ ثانیہ اور میں نے بھی جانا ہو گا ۔۔۔۔ پھر وہ کہنے لگی ثانیہ سے یاد آیا۔۔۔ ظالم انسان تم نے اس کچی کلی کو کس بے دردی کے ساتھ مسلہ ہے تو میں ان سے کہنے لگا یقین کرو باجی میں نے تو اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔۔۔۔۔ تو وہ بڑی حیرانی سے بولیں ۔۔ میں نہیں مان سکتی ۔۔۔ کیونکہ بچی کی کنڈیشن اور میرا تجربہ بتا رہا ہے کہ اس بے چاری کو بڑی بے دردی سے چودا گیا ہے ۔۔۔ پھر تھوڑا سا وقفہ دے کر بولیں۔۔۔۔ اور زرا مجھے یہ سمجھاؤ کہ تمہارے سوا اسے چودنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟ تو میں نے ان کو بتایا کہ باجی جان میرے علاوہ بھی کافی لوگ پڑے ہیں راہوں میں ۔۔۔ میری بات سن کر وہ بڑے تعجب سے بولیں ۔۔۔
تمہارے جیسے شکاری کے ہوتے ہوئے ۔۔۔ بچی کوئی اور چود جائے۔۔۔ یہ بات ۔۔۔کم ازکم۔۔۔مجھ سے ہضم نہیں ہو رہی تو میں ان سے بولا۔۔۔۔ یقین کرو باجی سیکس کی راہ میں میرے علاوہ بھی بہت سے فنکار پڑے ہیں تو وہ دل چسپی سے بولی۔۔۔ صاف بتاؤ کہ اس بے چاری کے ساتھ یہ ظلم کس نے کیا ؟۔۔۔۔ اس پر میں نے انہیں مختصراً گوریوں کے بارے میں بتایا۔۔۔ سن کر کہنے لگیں ۔۔۔ میری بات لکھ لو جس گوری کے ساتھ اس لڑکی نے سیکس کیا تھا وہ یقیناً اذیت پسند ( فیٹش) ہو گی تبھی تو پھول سی بچی کا یہ حال ہو گیا ہے اس کے بعد وہ بڑی لگاوٹ سے بولیں ۔۔۔۔سیکس کے ذکر پر یاد آیا ۔۔۔۔تم کیا کر رہے ہو؟ تو میں ان سے کہنے لگا ایوبیہ کے ٹرپ کے لیے چھٹیاں لیں تھیں۔۔ لیکن جلدی آ گیا ۔۔۔۔ اس لیے آج کل فارغ ہوں ۔۔۔تو وہ بڑی بے تکلفی سے کہنے لگیں اگر فارغ ہو تو میرے پاس آ جاؤ۔۔۔ ہم دونوں مل کر ایک دوسرے کو ” فارغ” کریں گے۔۔۔ باجی کی آفر سن کر میرا دل خوشی سے جھوم گیا۔۔۔۔۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر میں ان سے بولا۔۔۔۔ ثانیہ کے ہوتے ہوئے کیسے کریں گے؟ اس پر وہ کہنے لگی ۔۔۔ بات تو تمہاری ٹھیک ہے ڈارلنگ۔۔۔۔لیکن اس وقت وہ پین کلر لے کر سو رہی ہے اس لیے تم جلدی سے آ کر۔۔۔۔ میری (چوت کی) پین کو کِل کر دو۔پھر کہنے لگی میرے خیال میں تو تم نے ابھی تک کھانا بھی نہیں کھایا ہو گا ۔۔تو میں ان سے بولا۔۔۔ ابھی ابھی تو اُٹھا ہوں۔۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگی ۔۔۔پھر جلدی سے آ جاؤ کھانے کے ساتھ ساتھ کھلانے والی فری ملے گی ۔ باجی کی اتنی ننگی آفر سن کر میرے لن نے ایک فلک شگاف نعرہ مارا اور میں عالمِ شہوت میں بولا۔۔۔ آپ تیار ہو جاؤ میں فریش ہو کر آتا ہوں۔۔۔
جاری ہے
0 Comments