Ishq Aawara - Episode 10

عشق آوارہ 

 · 

قسط 10



بھابھی مجھے راستہ بتاتے ایک معیاری بک سٹور پر لےآئیں۔۔۔ نئےسال کی ڈائریاں آ چکیں تھیں۔۔۔جیسےہی ہماری نظر پڑی ہم دونوں ہی ادھر کو لپکے اور پھر خود ہی اپنی بے تابی دیکھ کر ہنس دئیے ۔۔ تمہیں بھی ڈائری لکھنے کا شوق ہے انہوں نے نقاب کے پیچھے مسکراتی آنکھیں ملاتے ہوئے کہا۔۔ بہہت زیادہ بلکہ سمجھیں میں تو سال کا خلاصہ لکھتا ہوں۔۔واااو ۔۔۔ امیزنگ۔۔ میں بھی لکھتی ہوں۔۔ ہم دونوں نے ڈائریاں لیں اور میرے اصرار کے باوجود ساری پیمنٹ انہوں نےہی کی ۔۔۔ بکس لینے کے بعد ہم سموسہ چاٹ کھانے کے لیے قریبی فوڈ کارنر گھس گئے ۔۔ لہوری تھیں ۔۔ کھانےکا چسکا شہر کی روایت ہے۔اور لہوری لڑکی چٹوری نا ہو ۔تو بھلی نہیں لگتی۔۔۔

یہ ایک سٹوڈنٹ کارنر ٹائپ فوڈ پوائنٹ تھا۔۔۔ سادہ لیکن صاف سا۔۔ تھوڑا ایک سائیڈ پر ہم دونوں ایک آمنے سامنے بیٹھ گئے ۔۔ وہاں دو چار اور بھی سٹوڈنٹس تھے۔۔ اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے تھوڑا رش تھا۔۔۔ بھابھی وہیں بے تابی سے ڈائری کو کھول کر نئے نئے خریدے فینسی لیڈیز پینسل سے ڈائری پر اپنا نام لکھنے لگیں ۔۔ چمکتی روشنائی سے چمکتا ہوا نام عمبرین رانی۔۔۔ میں نے کہا آپکی رائٹنگ بہت پیاری ہے بھابھی ۔۔ اب انہوں نے سامنے سے نقاب اتار دیاتھا اور صرف سر کے گرد سکارف تھا۔۔ سیاہ سکارف میں انکا گورا اور معصوم حسن بلکل کسی تیرہویں چودھویں کلاس کی لڑکی کی طرح کا۔۔ لگتا ای نہیں تھا کہ وہ شادی شدہ ہیں ۔۔میرےایسے بھابھی کہنے پر انہوں نے تیکھی نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا کون بھابھی ۔۔ کیسی بھابھی۔۔میں منہ کھولے انہیں دیکھنے لگا۔۔ بدھو منہ بند کرو انہوں نے اسی پنشل سے میری ٹھوڑی کو دباتےہوئے کہا اور بولیں ۔۔ خود ہی بھول گئے سٹوڈنٹس ڈیل کے۔۔ اب ایسے بھابھی بھابھی کہو گے تو کیسے میں سٹوڈنٹ لگوں گی۔۔میں نے فوری کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا سسسوری ۔۔۔ تو کیا بولوں آپکو۔۔ تب وہ کچھ پر سوچ انداز سے بولیں ۔۔ جب میں بھابھی بن کر گھر کے کام کروں گی تب بھابھی اور جب ہم سٹوڈنٹ ہونگے تو نام ۔۔ تب میں نے بھی ہمت پکڑی اور کہا پھر میں آپکو رانی کہہ کے بلاوں گا۔۔ آپکا نام بھی ہے اور مختصر بھی۔۔ عمبرین تھوڑا زبان کو گھمانا پڑتا میں شوخا بنا۔۔۔ اچھاااا جی تو میرا نام بھاری ہے مطلب مجھے تم موٹو کہہ رہے وہ بھی شغل لگاتے ہوئے بولیں۔۔اتنی دیر میں ہماری پلیٹس آ گئیں۔۔ سروس بوائے کے جانے بعد میں بولا ۔۔ نہیں تو آپ تو بہہت ہی سویٹ سمارٹ سی بلکل ٹین ایجر سی۔۔بلکل رانیوں کی طرح ۔۔۔ جسکے گرد رانیوں جیسا رعب بھی لگتا اور دلکش بھی میں نے کسی ناول سے پڑھا ڈائیلاگ مارا۔۔۔ اچھا نا بس اوور نہیں ہونا۔۔ ورنہ بھابھی بن کر کٹ لگانی تمہاری اور میں فوری ڈرنے کی ایکٹنگ کی اور وہ پھر سے شوخا نا ہوو تو کہتی سموسہ کی طرف متوجہ ہوئیں۔۔ واپسی پر راستے سے ہی ہم نے بریانی لی اور گھر کو چل دئیے۔۔جب ہم گھرمیں داخل ہوئےتو سامنے ہی برآمدے میں ناصر کی بھابھی کومل آنٹی کےساتھ گپیں مار رہیں تھیں۔۔بھابھی انکو دیکھتے ہوئے ہلکی آواز میں بولیں لو جی آگئی خالہ کی سہیلی ۔۔اور وہ سیدھے انکی طرف بڑھ گئیں جبکہ میں اوپر چھت پر ۔۔۔ آجکا دن بہت اچھا شروع ہوا تھا۔۔۔ بھابھی یعنی رانی کے ساتھ گزارے پل انکی شخصیت پسند بات کا طریقہ ۔۔ میں ایک عجیب سی کیفیت میں تھا سرشاری سی۔۔۔تھوڑی دیر بعد آنٹی کی آواز پر میں نیچے گیا۔۔۔ بریانی میز پر سج چکی تھی۔۔ بھابھی واپس گھریلو حلیہ میں آ چکی تھیں۔۔وہ ہی سنجیدہ لیا دیا انداز۔۔ آنٹی نے کومل سے میرا تعارف کرایا اور انہیں بتانے لگیں بھئی یہ نعیم کے آنے سے سمجھو گھر میں رونق لگ گئی ۔۔ماشا ءاللہ بہت اچھا لڑکا ہے سمجھو باہر کی فکر ختم ہو گئی سب سنبھال لیا اس نے ۔۔ آنٹی نے کچھ زیادہ ہی تعریفیں کر دیں ۔۔اور مجھے بتایا کہ یہ انکی پکی سہییلی تب کومل آنٹی بولیں واہ جی۔۔ شازیہ تعریفیں کر رہی ہے تو لازمی کچھ بات تو ہوگی ۔۔ ایسا کیا کر دیا بھئی انہوں نے مجھے مخاطب کیا۔۔ باتوں کے ساتھ بریانی سےانصاف رکا نہیں تھا ۔۔میں نے جھکی نظروں سے کہا جی بس کچھ نہیں ۔ آپ کو کچھ کام ہوا تو آپ بھی بتا دیجیے گا۔۔ میں نے فرمانبرداری کے ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا۔۔ ساتھ آنٹی سے نظر بچا کر انہیں تاڑا۔۔۔ آنٹی کی طرف سے سخت تنبیہہ تھی کہ ادھر ادھر ابھی منہ مارنا منع ہے۔جب تک ٹیسٹ نا لے لیں وہ۔۔تبھی وہ ہلکا سا آگے کو ہو کر بولیں ۔۔یہ کوک تو ذرا ادھر پاس کرنا۔ انہوں نے بازو آگے کیا۔۔۔ ہلکا آگے ہونے سے انکا لاپرواہی سےلیا دوپٹہ ہلکا سا سرکہ۔۔۔دوسروں کو ڈیزائن کر کے دینے والی کا اپنا گھریلو سوٹ بھی تھوڑا فیشنی نا ہوتو کیا حاصل ۔۔ چادر ہٹنے سے میری نظر پڑی تو جیسے میں ساکت رہ گیا۔۔شرٹ کا سامنےسے سینہ بلکل فٹ چمٹا ہوا تھا اور گلے سے تھوڑا نیچے ایک چھوٹا سا دل جیسے شرٹ کے ساتھ لٹکے پھندنے ہو ۔۔ اس دل کی خالی جگہ میں انکا جھلکتا کلیویج۔۔ اور چمٹی شرٹ ۔۔ ہلکا جھکنے سے پھندنا تھوڑا ہٹ کر لٹکا ہوا تھا۔۔ ایسے میں انکے دونوں بوبز بلکل آپسی جڑے ہوئے میرا امتحان لےرہے تھے۔۔ یہ بس دو چار سیکنڈ کا نظارہ تھا جس نے میرے دل کو دھڑکا دیا۔۔۔میرے اس تاڑنے کو کسی نے محسوس نہیں کیا اور میں شکر کیا ورنہ آنٹی میری جان لے لیتیں اور رانی کیا سوچتیں۔کچھ دیر بعد کومل یہ کہتے ہوئے اٹھیں کہ انکا بیٹا جاگ گیا ہونا۔۔آنٹی نے مجھے کہا تمہیں برا نا لگے تو انہیں بھی چھوڑ آو اور بائیک بھی دے آو۔۔۔ اب تم آ گئے ہو تو بائیک لے لیتے پہلے اس لیے نہیں لی کہ کون چلائے ۔۔۔ میں فرمانبرداری سے سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ کومل آنٹی بے تکلفانہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اچک کر سیٹ پہ بیٹھیں۔۔ اور ایسے بیٹھتے انکا جسم ہلکا سا میرے ساتھ ٹکرایا ۔۔ اففف بہت ہی گداز تھا انکے جسم میں ۔۔ پھریری سی آ گئی۔۔ عمبرین کے برعکس وہ بلکل ساتھ لگ کر بیٹھیں اور سارے راستے بہت کام ہے بھئی کا رونا روتی رہیں۔۔۔حالانکہ ابھی شادی میں پورا ہفتہ پڑا ہوا تھا۔۔۔انکو گھر اتار کر بائیک دیکر میں نکلنے لگا تھا تب وہ بولیں ۔۔ جتنی تمہاری شازیہ نے تعریفیں کیں ۔۔۔اب حق بنتا ہے کہ کچھ کام ہمارے بھی کرو۔۔۔ شادی پہ تیار رہنا۔۔۔ناصر کے ساتھ کافی کام سنبھالنے تم نے بھی اورمیں جی اچھا کہتے واپس بھاگ آیا۔۔ اس وقت مجھے بس رانی کا ہی خیال تھا

سردیوں کے چھوٹے دن۔۔۔ شائد تین بجے ہوں لیکن ایسا لگتا شام کا وقت۔۔سامنے ہی حلوائی کی دکان پر گجریلے کے تھال دھرے تھے۔۔۔ اور مجھے گجریلا بہت مرغوب۔۔ سردیوں میں اماں لازمی مجھے بنا کر کھلاتیں ۔۔ میں کچھ سوچا جب سے آیا تھا سب یہ لوگ کر رہے تھے یہ۔مناسب نہیں تھا میں نے تکلف کی دیوار گرانے کا سوچا اور گجریلا خرید کر گھر کو چل دیا۔۔۔ آنٹی تو تھیں ہی شکر خوری وہ تو خوش ہوئیں لیکن بھابھی نے کہا لو میرے جیسا گجریلا کون بنا سکتا بھلا۔۔۔ کیا ضرورت تھی تمہیں خرچ کرنے کی ۔۔ تب میں نے بھی اسی سنجیدگی سے کہا میں اس گھر کو اپنا گھر سمجھ کر لایا ہوں ۔۔ اب مجھےرہنا ہے یہاں اور جیسے ہم فیملی بن چکے بلکل مجھے احساس نا دلائیں کہ میں مہمان۔۔ ارے ارے میرایہ مطلب نہیں تھا انہوں نے شاپر پکڑا اور کہا تم بیٹھو میں ساتھ گرم گرم چائے بناتی۔۔ میں منہ بسورتا بیٹھا تو آنٹی نے میرا بازو پکڑ کر ساتھ لگا کر سرگوشی کی ۔۔ کون کافر تمہیں پرایا سمجھتا جتنے تم اپنے ہو اتنا کوئی نہیں ۔۔۔ اس وقت وہ بیک وقت استانی اور خالہ لگیں مجھے

سردیوں کے چھوٹے دن۔۔۔ شائد تین بجے ہوں لیکن ایسا لگتا شام کا وقت۔۔سامنے ہی حلوائی کی دکان پر گجریلے کے تھال دھرے تھے۔۔۔ اور مجھے گجریلا بہت مرغوب۔۔ سردیوں میں اماں لازمی مجھے بنا کر کھلاتیں ۔۔ میں کچھ سوچا جب سے آیا تھا سب یہ لوگ کر رہے تھے یہ۔مناسب نہیں تھا میں نے تکلف کی دیوار گرانے کا سوچا اور گجریلا خرید کر گھر کو چل دیا۔۔۔ آنٹی تو تھیں ہی شکر خوری وہ تو خوش ہوئیں لیکن بھابھی نے کہا لو میرے جیسا گجریلا کون بنا سکتا بھلا۔۔۔ کیا ضرورت تھی تمہیں خرچ کرنے کی ۔۔ تب میں نے بھی اسی سنجیدگی سے کہا میں اس گھر کو اپنا گھر سمجھ کر لایا ہوں ۔۔ اب مجھےرہنا ہے یہاں اور جیسے ہم فیملی بن چکے بلکل مجھے احساس نا دلائیں کہ میں مہمان۔۔ ارے ارے میرایہ مطلب نہیں تھا انہوں نے شاپر پکڑا اور کہا تم بیٹھو میں ساتھ گرم گرم چائے بناتی۔۔ میں منہ بسورتا بیٹھا تو آنٹی نے میرا بازو پکڑ کر ساتھ لگا کر سرگوشی کی ۔۔ کون کافر تمہیں پرایا سمجھتا جتنے تم اپنے ہو اتنا کوئی نہیں ۔۔۔ اس وقت وہ بیک وقت استانی اور خالہ لگیں مجھے

چائے گجریلہ کھاتے ہم بلکل فیملی کی طرح تھے۔۔بھابھی نے انہیں کتابیں دکھائیں قلم دکھائے ۔۔ اور پھر یہ طے ہوا کہ میں صبح کالج جایا کروں گا۔۔ اور بھابھی دوپر تک گھر کے کام کاج۔۔۔ اسکے بعد کچھ دیر ریسٹ۔۔شام کو ہم دونوں بس پڑھیں گے اور چھوٹا موٹا کام آنٹی کریں گئے۔۔۔

اگلے دن میں جلدی اٹھکر تیار ہو کر کالج کو روانہ ہونے لگا تب آنٹی بولیں۔۔ نعیم اچھے سے راستے آتے ہیں نا۔۔۔کہیں گواچ ای نا جانا۔۔ میں نے ہنس کر کہا نہیں ۔۔بے فکر رہیں اور گھر سے باہر نکل آیا۔۔۔چونکہ۔اندر رنگ و خوشبو کا سیلاب تھا۔۔ رنگ برنگے چہرے آنچل لہراتیں لڑکیاں۔۔۔ چونکہ میں پہلے سے وزٹ کر گیا تھا اسلیے کسی سے پوچھنا نہیں پڑا۔۔۔اور فول بھی نہیں بنا۔۔ہماری کلاس میں چھ کے قریب لڑکیاں اور باقی سارے لڑکے تھے۔۔۔وہ چھ لڑکیاں بھی پورا دن چند لڑکوں کی ٹولی کےساتھ ہی گپیں مارتی رہیں ۔۔کلاس میں تعارف کے دوران پتہ چلا وہ سب اس دوسرے کالج سے اس کالج شفٹ ہوئے ہیں اور انکا فرینڈ سرکل الگ سے ہے۔۔ ان میں قابل ذکر بس ایک بوٹے قد کی لڑکی تھی جسکا نام نبیلہ تھا لیکن اسے سب بیلا بیلاکہہ کر بلا رہےتھے۔۔اس نے تعارف میں اپنا شوق ٹینس بتایا آف کےبعد میں باہر نکلا تو سامنے ہی بیلا اینڈ گروپ کسی بحث میں الجھے ہوئے تھے بیلا نے سٹیپس میں بال کٹوا رکھے تھے۔۔ بلکل کچھ کچھ ہوتا ہے کی کاجل جیسا حلیہ۔۔۔ ایک ہاتھ میں ریکٹ کو اپنی ٹانگوں سے ہلکا ہلکا مارتے ہوئے وہ ایک دوسرے لڑکے کو زور و شور سے کچھ بتا رہی تھی۔۔۔پہلا دن تعارفی مراحل اور ہلے گلے میں گزر گیا۔۔۔

گھر پہنچ کر کھانا کھا کر کچھ دیر ریسٹ کرنےکےبعد میں نیچے آیا اور آنٹی کو پہلے دن کا مختصر حال سنایا۔۔۔ تب آنٹی نے بھابھی کو جلدی سے اپنی بکس لانے کا کہا اور جیسے ہی وہ کمرے میں گئیں تو ہولے سے مجھے پوچھا۔۔۔تیرےکالج میں لڑکیاں بھی ہیں۔۔ میں نے محتاط انداز سے کہا جی ہیں تو۔۔۔ تب انہوں نے کہا دیکھو نعیم ۔۔ ان شہری لڑکیوں سے دور رہنا۔۔ یہ بیڑا غرق کر دیتی تیرے جیسے پینڈو لڑکوں کا۔۔۔ ویسے بھی تمہیں کیا ضرورت ادھر ادھر منہ مارنے کی۔۔۔ تمہارے لیے ویک اینڈ گفٹ ہےنا انہوں نے ہلکی انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔۔۔ میں نے شریفانہ انداز سےکہا کہ جی بے فکر رہیں میں دونوں وعدہ کا پابند ہوں ۔۔۔ نو مستی اور بس تعلیم ۔۔۔ اور شرارتی انداز سے کہا۔۔ ویسے بھی مجھے وعدہ پورا کرنا ہے تاکہ آپ امتحان لےسکیں ۔۔ جانے کتنی سخت پرنسپل ہو گی جس نے آپکے سکھائے کا امتحان لینا ۔۔۔ تب وہ ہنسیں اور کہا ۔۔۔ مجھے چالاکیاں نا لگا۔۔۔ نام تو تمہیں تب ہی پتہ چلنا جب امتحان ہونا۔۔۔اور ویسے بھی کیا پتہ وہ اس قابل ہی نا سمجھے تمہیں انہوں نے الٹا مجھے ستایا۔۔ اور اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا بھابھی کتابیں اٹھائے اندر سے نکلیں اور وہیں کرسی پر بیٹھ گئی۔۔ آنٹی نے کہا لو جی تم لوگ پڑھو میں پاس بیٹھی بور ہوتے رہنا یا تمہیں الٹا باتوں میں لگا دینا۔۔۔ میں جا کر ٹی وی دیکھتی ۔۔ انکے جانے کےبعد ہم دونوں کتابیں کھولے آپسی ڈسکشن کرنے لگے۔۔۔میں نے شرارتا کہا تو کہاں سے شروع کریں بھابھی اور جب انہوں نے روٹھنے کی ایکٹنگ کی تو میں فورا منانے لگ گیا کہ نہیں نہیں آپ تو سویٹ سکسٹین میں ہو کیوٹ سی رانی ۔۔۔ میرے مسکہ لگانے پر وہ شوخا کہہ کر پڑھنے لگیں۔۔۔ اگلے دو چار دن اسی روٹین میں گزرے بس اتنا فرق پڑا کہ کالج میں ایک آدھ لڑکے سے قدرے شناسائی بڑھی ۔۔ انہی دنوں کالج کے آرٹس اور سپورٹس شعبے نے دو اہم اعلان اناونس کیے اناونس کیے پہلا دس جنوری سے سپورٹس میلہ اور دوسرا کالج میگزین کا اجرا۔۔۔کرکٹ تو خیر میرا شوق تھا ہی اور میں ٹینس بال کا اچھا پلئیر تھا میری بیٹنگ لائن اور ٹائمنگ کافی اچھی تھی۔۔ لیکن جانے کیوں میں میگزین کے لیے کوئی افسانہ لکھنے کے لیے بھی اپنا نام دے آیا۔۔۔ میری کلاس سے بس دو لوگ ہی سپورٹس میں حصہ لے رہے تھے۔۔ ایک میں کرکٹ میں اور دوسری بیلا ٹینس میں ۔۔۔ پتہ چلا وہ اچھی پلئیر ہے اور سکول لیول سے ٹینس کھیل رہی ہے۔۔پچھلےکالج میں اسکے ٹینس کے جھنڈے گڑے تھے لیکن جانےکیوں اچانک اس نے کالج بدل لیا۔۔۔

گھر آ کر پڑھائی کےدوران میں نے بھابھی یعنی رانی کو بتایا کہ میں یہ نام لکھوا بیٹھا ہوں اور اب پھنس گیا کہ افسانہ کون لکھے ۔۔ تب وہ قدرے جھکیں ۔۔ انکے بالوں کی مہک اور انکے جسم کی مدھر خوشبو جیسے ہر طرف موتیے کی مہک۔۔ انہوں نے کہا سمپل تم نقل کر لو۔۔ میں بولا لیکن کس کی۔۔ تب انہوں نے رازدارانہ لہجے میں کہا۔۔۔ میں لکھوں گی نا۔۔ یسسسس میں بےساختہ اونچی آواز میں بولا اور انکے گھرکنے پر پھر سے منہ بند اور انہوں نے عادتا مجھے پھر شوخا لڑکا نا ہو تو کہہ کر بات بدلتے ہوئےکتاب نکال لی

دو دن گزرے تھے کہ ایڈمن ہیڈ کا ہارٹ اٹیک سے اچانک انتقال ہو گیا ۔۔ پورے کالج میں افسردگی کا سماں ہو گیا پرانےسٹوڈنٹس اور سب ٹیچرز انکے آبائی علاقے اطلاع انکی لاش کی منتقلی اجتماعی سفرکی تیاریاں کرنےلگ گئے جمعرات آ گئی میری چونکہ ان کےساتھ بس دو چار دن کی شناسائی تھی وہ بھی بس مجھے انکا نام معلوم تھا اور انہیں بس میرے نیو سٹوڈنٹ کا۔ ویسے بھی سال کا آغاز تھا ابھی کلاسز سیٹ ہو رہیں تھیں تو باقاعدہ چھٹی نا ہونےکے باوجود کالج سمجھو دو تین دن کے لیے بند ہی ہو گیا اور میں جلدی گھر آیا تو آگے عمبرین اور انکی سہیلی نائلہ کہیں سے بس واپس آئی ہی تھیں ۔۔ انکا لایا سامان ابھی وہیں برآمدے میں بکھرا پڑا تھا۔۔۔ مجھے دیکھ کر آنٹی نے جلدی آنے کی وجہ پوچھی اور وجہ سن کر کچھ دیر افسوس کیا اور عجب منطق سے کہنے لگیں چلو یہ بھی اچھا ہی ہوا کالج کچھ دن بند رہے گا۔۔ آج جمعرات ہے اور اتوار کو نائلہ کی بارات۔۔ نائلہ آج سے گھر پکا بیٹھ جائے گی ۔۔ شادی سر پر آ گئی سو کام ہونگے تم بھی آج شام کو جا کر کوئی کام اپنے ذمہ لے لینا۔۔۔ نائلہ اور عمبرین ہم سے لاپرواہ کسی اہم پریشانی میں مشغول تھیں۔۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ نائلہ بی بی سوٹ ٹیلرسے لانا بھول ہی گئیں ۔۔میں نے شغلیہ انداز میں کہا گڈ ہوگیا اب دنوں فٹا فٹ جائیں اور لے آئیں ۔۔ میں تو اوپر میں کھسکنے لگا تھا کہ بھابھی نے مجھے کہا رکو رکو ذرا ۔۔۔ تم جا رہے ہو نائلہ کے ساتھ ۔۔ میں نفی میں سر ہلانے ای لگا تھا کہ انہوں نے ایسے بےچارگی سے مجھے پھر پلیز کہا کہ میں تو جیسے کھو گیا ۔۔ اتنے میں نائلہ بولی تم جاو نا ہمارے گھر سے بائیک لے آو اور خبردار جو انہیں کچھ بتایا ۔۔۔ اماں پہلے ہی بہت غصے کہ میں گھر سے باہر جا رہی۔۔۔ جب میں نے انکے گھر کا کی بیل بجائی تو ناصر کے ابا نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھ کر اندر آنے کا بولتے واپسی غڑاپ گم ہو گئے۔۔ پتہ چلا اندر لڈو کی گیم چل رہی تھی ۔۔میں نے بائیک مانگی ۔۔ چابی پکڑ کر سپیڈو سپیڈ واپس جانے لگا تو کچن اسے کومل آنٹی باہر آ رہیں ۔۔ بائیک کی چابی دیکھ کر کہنے لگیں پھر سونپ دیا شازیہ نے کوئی کام ۔۔ بھئی کوئی ہماری مدد بھی کرئے ۔۔سب لڈو کھیل رہے اور ہم کچن میں سڑ رہے۔۔ اوہو تو آپ کو لڈو سے باہر ہونے کا دکھ ہے یا کچن میں کام کا۔۔ مجھے نکلنے کی جلدی تھی۔۔دل تھا کہ جلدی سے سب کام ختم ہوں ۔رانی ہو میں ہوں اور وہ کمبائن سٹڈی ۔۔ ہاں ہاں اڑا لو تم بھی مذاق ۔۔۔انہوں نے روہانسے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔اتنا بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ بولیں کوئی کام میں کر دوں گا۔۔ اچھا جناب آپ جذباتی نا ہوں میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپکا کہا کام لازمی کروں گا ہیلپ کروں گا۔۔ اس وقت مجھے کیا پتہ تھا کہ وعدہ جلد ہی نباہنا پڑ جانا۔۔ٹیلر سے بھاگم بھاگ سوٹ لیکر جب واپسی بائیک پہنچانے گیا تو سب لوگ سامنے ہال میں براجمان صلاح مشورے کر رہے تھے۔۔ ناصر ٹینٹ والوں کے پاس گیاہوا تھا میرے پوچھنے پر اسکی اماں بولیں میں واپس مڑنے لگا تو بولیں بیٹا ایک تو اگر فرصت ہو تو شام کو عمبرین کے ساتھ تم بھی آجانا ۔۔ یہاں صلاح دینے والے بہت اور کرنے والا ایک ۔۔۔ دوسرا اوپر سٹور میں پیٹیوں پر بڑا سوٹ کیس پڑا ہو گا وہ تو نیچے لا دے میرا پتر۔۔۔میں جی اچھا کہتے ہوئے تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر گیا اور جیسےہی سپیڈ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا مجھے لگا جیسے کسی نے میرے سر پر لٹھ دے ماری ہو۔۔۔ سامنے کوئی خاتون اپنی شرٹ چینج کر رہی تھیں ۔۔ اسکے دونوں بازو اوپر تھے اور چہرہ شرٹ میں گم تھا۔۔ گورا چٹا لشکارے مارتا جسم ۔۔ قدرے بھاری لیکن تنے ہوئے بوبز پتلی کمر۔۔بازو اوپر ہونے کی وجہ سے بوبز فل تن کر ابھرے ہوئے تھے ۔۔۔ افففففف میری ساری تیزی ہوا ہو گئی اور میں جیسے جم کر رہ گیا۔۔ یہ بس تین چار سیکنڈ کا سین تھا ۔۔۔ جس نے میرے ہوش اڑا کر رکھ دئیے ۔۔ ادھر خاتون بھی دروازہ اچانک کھلنے سے وہ بھی سٹپٹا چکیں تھیں شائد انہوں نے تیزی سے اتارتی شرٹ کو تیزی سے واپس گھسیٹا اور جب میری نظر انکے چہرے پر پڑی تو میری سٹی گم ہو گئی۔۔ وہ کومل آنٹی تھیں۔۔۔میں تیزی سے واپس پلٹا اور سب بھول کر گھر کو دوڑا۔۔۔۔شکر ہے گھر میں سب بزی تھے اور میں اوپر چھت پر جاکر آنکھیں موندے لیٹ گیا۔۔۔ میرا دل ابھی تک دھک دھک کر رہا تھا۔۔ اور آنکھوں میں وہ ننگا جسم ۔۔ ننگا تنا ہوا سینہ۔۔۔ گوری بے داغ کمر۔۔آنٹی شازیہ کا جسم گولو اور سینہ بھاری اور ڈھلکا ہوا تھا لیکن کومل کا جسم جیسے فل کھنچا ہوا۔۔ عمر بھی تو تیس سال کے آس پاس تھی۔۔۔ افففف جانے اب وہ کیا سوچیں گی ۔۔شازیہ آنٹی کو ہی نا شکائت لگا دیں۔۔ وہ تو سمجھیں گی میں جان بوجھ کر کیا مجھے متضاد خیالات گھیر رہے تھے


جاری ہے

*

Post a Comment (0)