Ishq Aawara - Episode 9

عشق آوارہ 


قسط 9



اگلا دن اتوار تھا۔۔۔ اور سوموارسے کالج شروع ہونےوالا تھا۔۔۔ناشتہ کرنے کے بعد جیسے ہی چائے بن کر آئی آنٹی نے ہم دونوں سے کہا کہ اب تم اپنی سٹڈی کے حوالےسے باتیں کرو اور میں تب تک کچھ چھوٹے موٹے کام کر لوں اور اپنا کپ اٹھائے سامنے بیرونی بیٹھک کی سیٹنگ وغیرہ دیکھنے لگ گئیں۔۔ بھابھی نے بہتیرا کہا کہ آپ آرام کریں لیکن وہ نہیں مانیں ۔۔۔ ہم دونوں وہیں برآمدے میں کچھ دیر خاموشی سے چائے پیتے رہے۔۔سردیوں کی اتوار ۔۔ آخر میں نے ہی خاموشی توڑی اور کہا ۔۔ ایسا کرتے ہیں اوپر چھت پر دھوپ میں بیٹھتے ہیں۔۔میں بھی اپنی کتابیں بیگ وغیرہ نکالتا ہوں ۔۔ آپ بھی جو کچھ سنبھال کر رکھا اوپر ہی لے آئیں۔۔ بھابھی تھوڑا سا ہچکچائیں لیکن پھر ہمم کہتے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔۔ اور میں چھت پر۔۔۔

میں نے اوپروالے ہال سے تین کرسیاں نکالیں اور باہر چھت پر رکھ کر پلاسٹک ٹیبل نکالا۔۔۔ اور اپنا کالج بیگ ۔۔ کچھ پرانی نئی بکس وغیرہ نکال کر بھابھی کا انتظار کرنے لگ پڑا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد بھابھی بھی اوپر آ گئیں۔۔۔ انکے ہاتھ میں ایک فائل فولڈر اور ایک ڈائری تھی

بھابھی آ کر میز کی دوسری طرف بیٹھ گئیں اور فائل فولڈر میری طرف بڑھایا۔۔۔ اس میں انکے میٹرک کی سند رزلٹ کارڈ۔۔ انٹر کالج فرسٹ ائیر کا داخلہ فارم ۔۔ کشھ تقریری مقابلوں کی شیلڈز وغیرہ تھیں۔۔۔ میں حیران رہ گیا۔۔ بھابھی کے مارکس اے گریڈ میں تھے۔۔ سکول کریکٹر سرٹیفکیٹ میں انکو بہترین نصابی غیر نصابی سٹوڈنٹ بتایا گیا تھا۔۔۔ اور پورا نام عمبرین رانی تحریر تھا۔۔۔ میں نے زیرلب نام لیا عمبرین رانی ۔۔ سکول کارڈ سے ای مجھے پتہ چلا کہ وہ صرف بائیس سال کی ہیں۔۔۔ میں انکےمضمون نمبرز انکا رحجان دیکھنے لگ گیا۔۔۔وہ سرجھکاے سامنے ۔۔ فائل دیکھنے کے بعد میں نے ہاتھ بڑھا کر ڈائری اٹھائی اور اسے کھولا۔۔۔ پہلے صفحے پر ڈبل مارکر سے بہت پیارا انکا نام لکھا ہوا تھا۔۔ میں آگے دیکھنے ای لگا تھا کہ انہوں نے مجھ سے ڈائری واپس لے لی اور کہا یہ میری پرسنل ڈائری ہے ۔ نوٹ بک نہیں تھی تو یہ لے آئی۔۔تم مائند نا کرنا پرسنل ڈائری میری ذات تک ہے بس۔۔ میں نے سمائل دی اور کہا سوری مجھے پتہ نہیں تھا تب وہ کہنے لگیں تمہاری معذرت کرنے والی بات بہت اچھی ہے۔۔ ورنہ یہاں زندگیاں برباد کر کے بھی کوئی معذرت نہیں کرتا۔۔۔ وہ روانی میں بولیں اور احساس ہونے پر چپ ہو گئیں۔۔ میں نے بھی نا کریدا۔۔۔ پھر میں نے انہیں بتایا چونکہ فرسٹ ائیرمکمل نہیں اسلیے پھر سے انٹر کرنا ہو گا۔۔ آپ سبجیکٹس بدل سکتیں ۔۔ اور باہمی مشورے انکی پسند سے ہم دونوں نے مضمون منتخب کیے ۔۔ میرا دل تھا کہ وہ مضمون سلیکٹ کریں وہ جومجھے اچھے سے آتے ہوں۔۔ کچھ آدھ پونہ گھنٹہ گزرا تھا کہ آنٹی بھی اوپر آگئیں۔۔ ہم اسی بحث میں مگن تھے۔ وہ بہت خوش ہوئیں اور پاس بیٹھتے ہوئے بولیں ۔۔ پھر کچھ فائنل ہوا۔۔ بھابھی نے انہیں بتایا کہ جی ہو گیا بس بکس وغیرہ لینی ہیں۔۔ تب آنٹی بولیں لو۔۔ اس میں کیا ۔۔ تم نعیم کے ساتھ جاو اور لے آو۔۔۔ بلکہ ایسا کرو نعیم تم جا کر ناصر سے بائیک مانگ لاو اگر چلانا جانتے ہو تو۔۔۔ آسانی رہے گی ۔۔۔ جا کر بڑے بازار سے لے آو جو لینا۔۔۔ اورمیں جی کہتے باہر کو نکل گیا

ناصر کے گھرجا کر میں نےدروازہ ناک کیا تو دروازے کے پیچھےسےزنانہ آواز آئی کون۔۔ میں نے اپنا بتایا کہ آنٹی شازیہ کا بھانجا ہوں۔۔دروازہ فورا کھل گیا سامنے ایک بتیس تینتیس سالہ خاتون بچے کو اٹھائے کھڑی تھیں۔۔ بچہ انکی گود میں ہمک رہا تھا۔۔اور بے تابانہ انکے سینے پر ہاتھ مار رہا تھا۔۔ شائد وہ اسے فیڈ کرا رہی تھیں جب میں نے بیل دی ۔۔۔ سامنے قمیض بھی بوبز کے پاس سے ہلکی گیلی تھی۔۔جس نے میرے اندازےکی تصدیق کی۔۔۔میں نے انہیں بتایاکہ بائیک لینی ہے۔۔ انکے زبانی پتہ چلا کہ وہ ناصر کی بڑی بھابھی ہیں۔۔ اور میکے گئی ہوئیں تھیں آج صبح ہی واپس آئی ہیں۔۔۔ پھر بتانے لگیں کہ انکا بھی کافی آنا جانا آنٹی کے گھر اور آنٹی نے ہی انکو میرا بتایا تھا میرے آنےسے پہلے اور میرے آنے سے پہلے وہ میکے چلی گئیں۔۔۔ خاتون کافی باتونی تھیں جیسے عمومی خواتین ہوتیں۔۔۔ مجھے تو عمبرین کے ساتھ جانے کی جلدی تھی میں نے جلدی سے بائیک نکالی اور اسکا جائزہ لینے لگا۔۔ بائیک کافی اچھی حالت میں تھی اور اسکی سیٹ کا پچھلا کیرئیر نہیں تھا۔۔ جسکی اہمیت مجھے بعد میں پتہ چلی۔۔ گھر آ کر آنٹی کو بتایا کہ بائیک لے آیا۔۔۔ انہوں نے پوچھا کس سے ملاقات ہوئی ۔۔ میں نے بتایا کہ ناصر کی بھابھی سے۔۔۔تب وہ حیرت سے بولیں لو یہ کومل بھی پوری کمینی ہے۔۔ آتے وقت بتایا ای نہیں ۔۔ اور مجھے بتایا کہ کومل کی وجہ سے ہی اس گھرانے سے تعلق بنا۔۔ کومل کے میاں سعودیہ ہوتے تھے ۔۔ ابھی سال پہلے آیا تھا وہ ۔۔۔ بچے کی پیدائش پر۔۔۔ سعودیہ میں سال کےسال کہاں چھٹی ملتی اب شادی پر نہیں آ سکتا ۔۔ کومل کو کپڑے ڈیزائ کرنے کا شوق تھا اور آنٹی کو نئے نئے ڈیزائن کے سوٹ پہننے کا۔۔وہ شوقیہ اور محبت میں آنٹی کو سوٹ ڈیزائن کر دیتیں تھیں۔۔ تب ان سے آہستہ آہستہ دوستی ہوئی پھر عمبرین اور نائلہ کی بھی گہری دوستی ہو گئی۔۔۔ آنٹی نے پوری تاریخ ہی بیان کر دی۔۔۔ اتنی دیر میں بھابھی بھی اپنے کمرے سے باہر نکل آئیں ۔۔۔انہوں نے سفید سادہ سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔ کالی بڑی چادر کو اچھے سے لپیٹ کر سر پر سکارف لیا ہوا تھا۔۔۔ بلکل کسی کالج گرل کی طرح ۔۔۔ میں نے مسکرا کر کہا۔۔۔ آپ تو بلکل کالج گرل لگ رہیں ہیں۔۔ نقاب کے پیچھے انکی خوبصورت اداس آنکھیں پہلی بار مسکرائیں ۔۔۔ جیسے سیاہ رات کے بعد سورج کی پہلی کرن ۔۔۔ وہ بولیں ۔۔ ہاں میں جو کام بھی کرتی ہوں پورے دل دماغ سے کرتی ہوں۔۔ آنٹی سے پوچھ لو جب کن میں ہوتیں ہو تو پوری شیف اور جب ڈسٹنگ کرتی ہیں تو پوری ماسی میں نے ہنستے ہوئے انہیں مذاق کیا اور سب ہنس پڑے۔۔۔ آہستہ آہستہ عجیب سی تکون بن رہی تھی ۔۔۔ استانی اور میں ۔۔ایک سیکرٹ تعلق۔۔ ایک بہہہت گرم تعلق ہر حد پھلانگ چکا ہوا۔۔ میں اور بھابھی ایک نیا انس سا بنتا ہوا۔۔ ایک عجیب سی مقناطیسی کشششش جسے میں اسوقت سمجھ نہیں پا رہا تھا

میں نے بائیک سٹارٹ کی تو بھابھی میرے پیچھے بیٹھ گئیں ۔۔۔ اور بولیں آہستہ چلانا ۔۔ اسکا کا پچھلا سیٹ سیور نہیں ہے میں بلکل کچھ پکڑے بیٹھی ہوں۔۔ بھابھی نے کہا۔۔ میں نے بائیک آہستہ کی اور شگفتگی سے کہا پلیز گر نا جانا ۔۔ ایسا نا ہو آنٹی کہیں اچھے استاد ہو پہلے دن شاگردنی کو گرا دیا۔۔۔ وہ پہلے تو شاگردنی کہنے ہر زور سے ہنسیں ۔۔۔ اففف انکی ہنسی جیسے جلترنگ سی۔۔اور بولیں خبردار جو تم نے مجھ پر استادوں والا رعب جھاڑا ۔۔۔ بس ہم دونوں ہی بس طالبعلم ہیں۔۔۔ میں شوخی سے بولا منظور لیکن پھر آپ سب سے پہلے میرے سٹوڈنٹوں کی طرح میرے کندھے ہاتھ رکھ کر سہارا لیں۔۔ وہ پھر ہلکا ہنسیں اور اپنا ہاتھ میرے کندھے ہر رکھ دیا۔۔ لیکن ابھی بھی وہ قدرے فاصلے پر بیٹھی تھیں۔۔۔ تھوڑی دیر بعدوہ بولیں پتہ نعیم آج میں بہت سالوں بعد خوش ہوئی ہوں سمجھو جیسے پھر سے زندہ ہوئی ہوں ۔۔ اسلیے میں آج اتنا ہنس رہی۔۔۔ میں نے کہا یقین کریں آپ کی خوشی ہی ہمیں چاہیے مجھے آنٹی کو ۔۔۔ بس آپ خوش رہنا وہ مسکر دیں۔۔ تھوڑا آگے جا کر میں نے ایک سائیڈ پر بائیک کھڑی کی اور کہا۔۔ عمبرین پتہ ہے آپ نے کہا نا آج آپ بہت خوش ہو۔۔ جیسے سٹوڈنٹ زمانے میں تھی ویسے فریش ہو۔۔ تو اب جب کمبائن سٹڈی کرنی ہے ۔۔ اور آپ بھی نئی زندگی جینا شروع کر رہی ہو تو میں دو باتیں آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔۔بولو کیا۔۔ میں نے تھوڑا رک کر کہا۔۔ پہلا کہ آپ جیسے آج یونیفارم طرز کا سوٹ پہنا ۔۔۔ایسے ہی ذہنی طور پر صرف سٹوڈنٹ بن جائیں۔۔ہر فکر سے آزاد ۔۔ جیسے پہلے بیت بازی کرتی تھی میں دیکھا آپکا فولڈر ۔۔۔ جیسے تقریریں کرتی تھی ۔۔ ویسے دوبارہ سے۔۔۔ یہ میری ریکویسٹ ہے اور دوسری بات میرا وعدہ ہے۔۔۔ دوسٹوڈنٹس کا وعدہ ۔۔۔ آپ جانتی نا سٹوڈنٹس کا آپسی وعدہ اورعہد پکا راز ہوتا ہے ۔۔ وہ سر ہلاتے بولیں ہممم جانتی ہوں۔۔ میں نے کہا میرا وعدہ میں اس کمبائن سٹڈی کے دوران آپ کو مکمل گرل سٹوڈنٹ کی طرح عزت مقام دوں گا اور ہم بلکل سٹوڈنٹس کی طرح ۔۔۔ بس پڑھیں گے اور زمانہ طالبعلمی کی طرح باتیں کریں گے بلکل دوستوں کی طرح میرا پکا وعدہ کہ میں کبھی آپکو شرمندہ نہیں کروں گا۔۔ میں نے سیدھا ہاتھ کھڑا کر کے وعدہ کیا اور کہا۔۔۔ ویل کم ان سٹوڈنٹ لائف اور ہاتھ بڑھایا۔۔ وہ تھوڑا سا مسکرائیں اور اپنا ہاتھ بڑھا کر ہاتھ ملایا اور کہا ڈیل ڈن۔۔۔ اففف مجھے لگا جیسے کل جہان کی دولت مل گئی۔۔۔اور ہم دوبارہ بازار کو جانے لگے۔۔۔ بائیک چلاتے وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھے اپنے کالج سکول کی باتیں بتا رہیں تھیں اور میں بہت خوش۔۔۔ اس خوشی میں سیکس کا بلکل عمل نہیں تھا۔۔ انکا قرب انکا ہاتھ اور کبھی کبھی ہلکے سے چھوتا جسم مجھے ہوس کی بجائے ایک عجیب مقناطیسی کشش کی طرف لیجا رہا تھا جو میری عمر کا حصہ تھا۔۔۔ آنٹی سے سیکس میری عمر کا تقاضا نہیں ۔۔ بلکہ اپنی ایج کی لڑکی کے ساتھ اچھی دوستی میری عمر کا تقاضا تھا ایسی دوستی جس میں عزت بھی ہو اپنائیت بھی اور کششش بھی ۔۔۔

تب بھابھی بولیں۔۔۔بکس لینےکے بعد واپسی پر سموسہ چاٹ بھی کھائیں گے ۔۔اور مجھے یقین ہو گیا بھابھی مکمل ذہنی بوجھ سے آزاد ہو چکیں


جاری ہے


*

Post a Comment (0)