Ishq Aawara - Episode 8

عشق آوارہ 


قسط 8


شام کو آنٹی مجھے کہنے لگیں چلو ایکبار شادی والے گھر سے ہو آتے ہیں۔۔ شادی کا جہیز پھیلا رہے ۔۔ ویسے تو سب دیکھا ہوا لیکن اچھے تعلقات ہیں ۔۔ روایتی طور پر جانا چاہیے۔۔ کچھ دیر بعد آنٹی اور میں تیار ہو کر شادی والے گھر کو چل دیے۔۔۔ آنٹی تو اندر زنان خانے میں گھس گئیں اور میں باہر ۔۔ اتنی دیر میں ناصر بھی نظر آگیا۔۔۔اسنے مجھے دیکھ کرخوشی کا اظہار کیا اور شکوہ کیا کہ مجھے امید تھی آپ بھابھی ساتھ رکیں گے۔۔۔ سامان کو ادھر ادھر لیجانے میں مدد کریں گے لیکن کہاں جی۔۔۔ میں نے شرمندگی سے معذرت کی تب وہ میرے شانے پر ہاتھ مار کر بولا چلیں جو ہونا تھاہو گیا۔۔اب چلیں میرے ساتھ تھوڑی مدد کر دیں ۔۔اور میں اسکے پیچھے پیچھے چل دیا۔۔کچھ دیر کے بعد بھاری سامان لوڈ ہونے لگااور میں ناصر کے ساتھ اٹھوا اٹھوا کر باہر ٹرک تک لانے لگا بیڈ ڈریسنگ شوکیس وغیرہ رکھا جا چکاتھا۔۔ ناصر ٹرک پر چڑھا سامان ایڈجسٹ کر رہا تھا میں نیچے سے ۔۔۔اچانک ناصر کو کچھ یاد آیا اور وہ ماتھے پہ ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔۔ بھائی آپ اوپر چھت پر بھاگھم بھاگ جائیں اور اوپر والے سٹور میں بیڈ کے گدے نے نیچے بچھانے والی لکڑی کی لڑیں اٹھا لائیں ۔۔ بھولنے لگے تھے ۔۔ اسکی بات سن کر میں سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلا گیا۔۔ سٹور کا دروازہ نیم وا تھا اور میں اپنی جلدی میں تیزی سے جیسے ہی اندر داخل ہوا مجھے شدید جھٹکا لگا۔۔سامنے ایک چارپائی پر بھابھی عمبرین ایک اور لڑکی کے چہرے پر سکرب کر رہیں تھیں۔۔غضب ڈھانے والا انکا حلیہ میرے سامنے تھا۔۔۔ وہ اپنے دھیان میں انکےدونوں ہاتھ سکرب والے تھے انکا دوپٹہ سائیڈ پر پڑا تھا۔۔۔ بالوں کی لٹ سامنے چہرے پر جھول رہی تھی۔۔۔ اور انکے سینے کا وہ سرخ تل ۔۔۔ بلکل کنواری لڑکی کی طرح کا تنا ہوا سینہ۔۔ مجھے ایسے اچانک دیکھ کر وہ سٹپٹا اٹھیں۔۔دوسری لڑکی چہرے پر سکرب کی وجہ سے پوری بھوتنی لگ رہی تھی ۔۔ میں خجل ہو کر جلدی سے دو لروں کو گھسیٹتا ہوا باہر نکالنے لگا۔۔ میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔۔۔بھابھی میں عجیب مقناطیسیت تھی ۔۔۔ سادگی میں عجب سا بانکپن ۔۔ایک عجیب مقناطیسی ہالہ تھا انکے گرد۔۔ٹرک کو روانہ کرنے کے بعد ناصر مجھے لیے لیے پھر اوپر آگیا۔۔ اوپر سٹور والی پیٹی سے رضائیاں نکالنی تھیں۔۔۔ اسکی دو پھپھو آج سے ہی آ گئیں تھیں۔۔۔ اسبار میں نے مہذب بنتے ہوئے زور سے کھانسا۔۔ اتنی دیر میں سکرب دھل چکا تھا۔۔۔ بھابھی اسبار دوپٹہ اوڑھ چکیں تھیں۔دوسری لڑکی جو انکی سہیلی ناصر کی بہن اور اس شادی کی دلہن نائلہ تھیں اسبار سکرب اترنے سے اسکا اصل چہرہ دیکھا۔۔بھابھی کے ببرعکس وہ مجھے تھوڑی تیز ہشیار لگی اس نے مجھے پر شوق نظروں سے دیکھا اور ہولے سے کچھ بات کی بھابھی سے مجھے اندازہ ہوا کہ اس نے تصدیق کی کہ میں ہی انکے گھر ٹپکا بھانجا ہوں۔۔ناصر ہنس ہنس کر بہن اور بھابھی سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔نائلہ نے مجھے سپیشل کہا کہ شادی پر وقت دینا ۔۔ سو کام ہوتے ہیں ۔۔ عمبرین کے دیور ہو ۔۔ تومیرا حق بنتا۔۔۔ میں جی ضرور کہتا ہوا چپ ہو گیا۔۔۔ ان لوگوں کے پر ضرور اصرار پر وہاں سے ای کھانا کھا کر ہم تینوں واپس آئے ۔۔۔راستے میں میڈیکل سٹور کے پاس سے گزرتے ہوئے خالہ نے اچانک سے کہا ارے رکو ۔۔ میں نے دوائی لینی ہے۔افففف خالہ آج پھر آپ نے بدہضمی کر لی نا ۔۔۔ بھابھی نے تشویش سے کہا اور آنٹی ہمیں رکنے کا کہہ کر اندر چلی گئیں۔۔۔ہم دونوں باہر کھڑے سٹور کی جلتی بجھتی بتیوں میں بھابھی کا جھلملاتا چہرہ۔۔۔ شیشے والے دروازے سے اندر خالہ کاونٹر پر انتظار کر رہی تھیں۔۔۔ دونوں میں کتنا فرق تھا ایک سورج جیسی جھلسا دینے والی دوسری چاند جیسی ٹھنڈک لیے۔۔۔ تھوڑی دیر بعد آنٹی باہر نکلیں اور ہم گھر کو چل دیے ۔۔۔

گھر پہنچ کر آنٹی ہم دونوں کو لیے کمرے میں آ گئیں ۔۔ آج صبح سے آنٹی کافی سنجیدہ سنجیدہ سی تھیں ۔۔۔ آنٹی نے بھابھی کو چائے بنا کر لانے کا بولا ۔۔ اور مجھ سے کالج شیڈول کی باتیں کرنے لگ پڑیں۔۔۔ جیسے ہی بھابھی کمرے سے نکلیں ۔۔میں بے تابانہ سویٹ سبق کا پلان پوچھا۔۔۔ انہوں نے مجھے گھرکا اور کہا جب کہہ دیا تو کہ دیا نا کہ سبق ملے گا۔۔مجھے یاد رہتا ہے۔۔ اب میری بات سنو۔۔ جو جو میں بولی تم نے طریقے سے تصدیق کرنی ہے اسکی ۔۔۔میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔کچھ دیر بعد بھابھی واپس آئیں ۔۔۔تو آنٹی نے کہا۔مجھے تم دونوں سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔ ہم دونوں سنجیدگی سے ان کی طرف دیکھنے لگے ۔۔۔ وہ بولیں۔۔۔ کل جب عمبرین نے میری مرحومہ بہن کا ذکر کیا اور اپنے پڑھنے کا خواب بتایا تو ساری رات میں ڈسٹرب رہی۔۔۔ اب میں چاہتی ہوں کہ تم پرائیویٹ پڑھو۔۔ بال بچہ تو ہے کوئی نہیں کہ ڈسٹربنس ہو تمہیں۔۔۔نا خاوند گھر کے اسکے کام۔۔ اتفاق سے نعیم بھی ہے تمہاری مدد کو۔۔بھابھی کچھ بولنے لگیں تو آنٹی نے اسے گھرک کر کہا۔۔ بس چپ۔ پھر آنٹی نے مجھے بتایا کہ بھابھی فرسٹ ائیر آدھا سمسٹر اٹینڈ کیا تھا۔۔ تم تو تیرہویں میں ہو گیارہویں کی تیاری کرا سکو گے۔۔ میں بھلا کیسے منع کر سکتا تھا۔۔بھابھی بس چپ سر ہلاتی رہیں جیسے ماضی میں گم ہوں ہلکی سی اداسی انکے چہرے پر چھا چکی تھی۔۔۔بھابھی کا موڈ دیکھ کر آنٹی بولیں ۔۔ اب جو میں نے کہا ہے اس پر عمل ہونا چاہیے ۔۔ نعیم کا کالج کھل لے اسکے شیڈول کے ساتھ ٹائم ٹیبل بنا لینا۔۔۔ اور اب ساری رات پرانی باتوں کو یاد کر جاگتی نا رہنا۔۔۔ سو جانا۔۔بلکہ تم آج میری گولی کھا لو ۔۔ اعصاب ریلیکس ہو جائیں گے۔۔میں آنٹی کے پلان کو سمجھ رہا تھا میں بھی فوری بولا بلکل ۔۔ ایزی ہو جائیں ۔۔ آپکو خوش ہونا چاہیے کہ آپکی اتنی اچھی ساس۔۔۔ تب آنٹی نے بھابھی کو ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔۔ یہ میری بہو نہیں بیٹی ہے بھانجی ہے میری بہن کی نشانی ہے اور میری سہیلی بھی ہے۔۔ مجھے اسکے اندر کے ہر دکھ کا پتہ ہے ۔۔۔بھابھی نے چونک کر آنٹی کو دیکھا۔۔۔ کچھ تھا جسکی پردہ داری تھی لیکن میں چپ رہا ۔۔۔ آنٹی نے اپنے سامنے انہیں گولی کھلائی اور ہم دونوں کو جانے کا کہا۔۔۔ ہم نکلنے لگے تو آنٹی بولیں ۔۔ نعیم اگر زحمت نا ہو تو کوئی اچھا سی مووی مجھے بھی دے جانا سنا ہے تمہارے پاس اچھی کلیکشن ہے بکس اور موویز کی۔۔ میں بات سمجھتت بولا جی کچھ دیر تک دے جاتا ہوں۔۔ باہر نکل کر ہم دونوں خاموشی سے بھابھی کے کمرےتک آئے ۔۔ میں نے انہیں کہا ۔۔ زندگی بار بار موقع نہیں دیتی ۔۔ آپ کو زندگی موقع دے رہی ہے۔۔ ہمت کریں اور اپنی زندگی کو بدل کر دیکھیں ۔۔ انہوں نے ہلکی سمائل دی اور کمرے میں چلی گئیں ۔۔ اوپر آ کر میں فریش ہوا اور سویٹ سبق کے لیے ذہن اس طرف لیجانے لگا۔۔۔ کچھ دیر بعد جب مجھے لگا اب نیچے بھابھی لیٹ چکی ہوں گی میں صحن میں آیا ۔۔ نیچے ابھی تک بلب روشن تھا۔۔ کچھ دیر گزری تھی کہ صحن کا بلب بند ہو گیا۔۔۔ یہ نشانی تھی کہ ماحول صاف ہے اور میں ہلکے قدموں سے سیڑھیاں اترتا آنٹی کے کمرے میں داخل ہوگیا

آنٹی نے مسکرا کر مجھے دیکھا ۔۔ پورے دن کے بعد پہلی بار۔۔۔ آنٹی نے میرا ہاتھ پکڑا اور بیڈ پر ساتھ بٹھاتے ہوئے بولیں ۔۔ آج میں بہت خوش ہوں نعیم ۔۔۔۔مجھے کبھی کبھی یہ احساس ہوتا تھا کہ عمبرین کے ساتھ زیادتی ہو گئی ۔۔ میرے میاں کے ڈرائیور ہونے کی وجہ سے دلاور شروع سے ہی سمجھو ٹرک پر پلا بڑھا۔۔سکول بھی چار جماعتوں کےبعد چھوڑ دیا اس نے۔۔۔عمبرین کے والد نے پسند کی شادی کی تھی ۔۔۔ اسکے گھر والے اس سے ناراض ہی رہتے تھے بس کبھی کبھی کا ملن تھا وہ بھی بس اسکے ابو کا۔۔۔ میں اسے اپنے گھر لے آئی۔۔۔ اسکے ماں باپ کا گھر گلبرگ میں ہے ۔۔۔ میرے میاں نے بہتیرا چاہا ہم وہاں رہیں لیکن بس میرا دل نہیں مانا۔۔۔ اپنے طور تو میں اسے اپنے سامنے رکھنے کے لیے اسکی شادی دلاور سے کی لیکن بہت جلد مجھے احساس ہو گیا کہ دلاور تو بہت ہی اجڈ اور بد تمیز ۔۔۔ اور یہ صابر بچی۔۔۔ تم حیران ہو رہے ہو گئے آج میں کیسے باتیں کر رہی ۔۔۔ میں ایسی ہی ہوں ۔۔ ہمارا وہ تعلق بس ایک سیکڑٹ بات ہے سب سے الگ۔۔ سمجھو اگر تمہارے انکل کو شوگر نا ہوتی تو شائد ہمارا یہ تعلق نا بنتا۔۔۔بےشک پیاس ہے لیکن عمر ڈھل رہی۔۔۔ تم مجھ سے وعدہ کرو جب تک یہاں ہو میری مدد کرو گے ۔۔ سبق پڑھنے میں بھی اور عمبرین کو پھر سے واپس لانے کے لیے اور خود بھی اچھے سے پڑھو گے ۔۔۔ میں نے فورا ہاتھ بڑھا کر وعدہ کر لیا۔۔۔ جیسے ہی وعدہ کیا آنٹی نے مجھے ساتھ لگایا اور بولیں تھینک یو نعیم۔۔ افففف انکا ساتھ لگنا تھا سمجھو جیسے بجلی کی دو تاریں آپسی ٹچ ہو گئیں ۔۔۔ میں نے انکا ہاتھ پکڑا اور انہیں صوفےپر بٹھا کر خود سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔۔۔ اور اپنا پاوں دراز کر کے انکی ٹانگوں میں رکھ دیا۔۔۔ وہ ادا سے بولیں ۔۔ ہم تمہاری استانی ہیں ۔۔ مشرقی بیوی نہیں جو پاوں دابیں گے۔۔ میں ہنسا اور کہا ارے نہیں ہماری کیا مجال۔۔۔ ہم تو بس سبق سنانے لگے اور کل کا بدلہ چکاتے ہوئے اپنے پاوں کا تلوہ انکی پھدی پر رکھا جیسے گاڑی کا کلچ ۔۔۔اورہلکے سے کلیچ کو چھیڑا ۔ افففف انکی رانوں کا نرم گرم لمس۔۔۔ میں انگوٹھے سے انکے پھدی کے اوپری دانے اور لبوں کو کریدنے لگا۔۔ آنٹی کو جیسے کرنٹ لگا اور بولیں بڑے ہی ذہین شاگرد ہو۔۔۔ تمہیں تو سارا علم دینا پڑے گا ۔۔۔میں ایسے ہی کریدتا گیا اور وہ آہستہ آہستہ مست سسکیاں لیتی لیتی صوفہ پر نیم دراز ہو گئیں ۔۔۔۔پھدی فل گیلی ہوچکی تھی ۔۔ اب انہوں نے بھی اپنا پاوں میری گود میں رکھ دیا اور پاوں سے لن کو سہلانے لگ گئیں ۔۔۔میں پاوں کے انگؤٹھے کو گول گول گھمانے لگا ہلکے سے لٹو کی طرح ۔۔ دونوں آمنے سامنے بیٹھے سرخ بہکتے ہوئے پاوں سے ایک دوسرے کو مست کر رہے تھے یسسسسس۔۔۔ ایسے ہی انگوٹھے کو ذرا دبا کر نیچے فل لائن میں کھینچو انہوں نے مجھے اور اکسایا۔۔۔ ہم دونوں ایک عجیب ماحول میں جا چکے تھے۔۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھیں اور مجھے اپنے اوپر کھینچا۔۔لبوں کو سیٹی کی طرح گول سکیڑ کر میری گردن اور سینے پر پھیرنے لگیں اففففف۔۔۔ میرا انگ انگ تڑپ اٹھا۔۔ دوسرے ہاتھ سے وہ شلوار کے اندر ہاتھ کر کے لن کو پکڑ کر اسے سہلاے جارہی تھیں ۔۔۔اور لن فل جوبن پہ آ چکا تھا۔۔۔ لبوں کو گھماتے وہ سرگوشی کرتی گئیں۔۔ میرا یہ روپ بھی تمہارے انکل کی مہربانی ہے۔۔۔ یہ پہلے یورپ تھے ۔۔ اس زمانے میں جب کوئی کوئی جاتا تھا۔۔۔ وہاں ڈرائیوری کرتے تھے ۔۔ ٹیکسی چلاتے تھے ۔۔ بہت رنگین مزاج ۔یہ جب آتے مجھےوہاں کے قصے سناتے گوریوں کے ۔۔ مسافروں کے اور مختلف طریقوں سے مجھے ساری ساری رات چودتے تھے۔۔۔ یہ تو دلاور کی پیدائش کے بعد مسلہ بن گیا ورنہ ہمارے کم سے کم نو بچے ہوتے ۔۔ وہ ساتھ ساتھ لن سہلاتیں ۔۔میری شرٹ کو اتارتے سرگوشی میں بتا رہیں تھیں۔۔۔ انہوں نے کافی پیسہ کمایا گھربنایا ۔۔ پہلے اور کام کیالیکن اسکا تجربہ نا تھا سو پھر یہاں ہی ٹرانسپورٹ میں چلے گئے کہ یہی کام آتا ہے یہی کرتے ہیں ۔۔۔ ہم پھر سے پاکستان میں رہتے مہینوں کے لیے دور ہو گئے ۔۔ انہوں نے میرے سینےپر فل زبان گھماتے سبق سکھایا اور اسکا فائدہ بتایا ساتھ ہی بولیں۔۔۔ یہاں کی ڈرائیوری نے انہیں جلد ہی کھوکھلا کر دیا۔۔۔ میں بھی ڈھل چلی تھی لیکن عادتیں بگڑ چکی تھیں۔۔۔ ہماراتعلق اسی لیے بنا کہ ان دنوں وہ آئے ہوئے تھے تمہیں یاد ہے نا۔۔۔ تین مہینے بعد آئے اور مجھے ادھورا چھوڑ کر خود تھک جاتے۔۔۔ جنہوں نے مجھے بگاڑا خود کتنے بگڑے ہونگے سوچو ۔۔ اسلیے پاس بھی آتے اور چھیڑ چھاڑ کر کے مجھے ادھورا چھوڑ جاتے ۔۔ اسی متواتر چھیڑ چھاڑ سے ہی میں فل گرم تھی ۔۔ لہو کی تاپ کا بہانہ تھا میں گرم تھی ۔۔ تم سے تب جھوٹ بولا تھا۔۔۔ سنیاسی نے ہی مجھے بتایا تھا کہ گرمی نکالو۔۔۔ تم آسان ہدف تھے چھوٹے تھے میں بہک گئی۔۔۔خود غرض ہو گئی۔۔۔ اگر تمہاری اماں نا آتیں تو مجھے احساس نا ہوتا ۔۔اس رات مجھے احساس ہوا جب انہوں نے مجھے تمہاری ذمہ داری سونپی خالہ سمجھ کر۔۔ ہماراتعلق بن چکا تھا۔۔وقت واپس نہیں جا سکتا تھا۔۔ اسلیے میں سارا دن سوچ کر پھر تمہیں سمجھایا۔۔ بس چھ دن میں تمہاری آنٹی اور ایک دن استانی ۔۔ انہوں نے میرے ننگے لن پر اپنی گانڈ کا کٹاو رگڑا اور کہا ۔۔۔ اب رہ بھی نہیں سکتی نا ۔۔۔ اب خالہ مجھے جسمانی رموز بتانے لگیں۔۔ انکے خاوند کے سکھائے ہوئے۔۔۔تجربے کے رموز۔۔ کیسے عورت کو مست کرتے ۔۔۔ کہاں کیسے ٹچ کرتے ۔۔ انکی سرگوشیاں بتاتی گئیں اور ہاتھ ہونٹ عمل کر کے بتاتے گئے اور میں سیکھتا سمجھتا محسوس کرتا رہا۔۔۔ اب میری بس ہو چکی تھی۔۔۔ میں وہیں آنٹی کو نیچے کو لایا اور خود اوپر ۔سے بہکتے ہاتھوں سے اپنی شرٹ کی طرح انکی شرٹ اتارنے لگا اور وہ پاگلوں کی طرح مجھے اکسانے لگیں ۔۔۔۔میں اوپر ہوا ۔۔۔اور انکے بتانے کے مطابق انہیں صوفہ پر سیدھا ایسے لٹایا کہ انکی ہپ صوفے کے بازو پر پر جمی ۔۔ باقی آدھاجسم سر صوفہ پر ۔۔ انکی ٹانگیں میری کمر کے گرد تھیں ۔۔ اس پوزیشن میں انکی پھدی کو اوپر کو بلکل میرےلن کی سیدھ میں تھی۔۔۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں تمہیں قینچی میں سنبھال کر رکھوں گی ۔۔ تم دونوں ہاتھوں سے نپلز کو مسلو گے ۔۔ اور اوپر سے سیدھا نیچے

کو فل سٹروک مارو گے۔۔ لیکن پہلے آرام سے آدھا اندر کر کے ۔۔ اس طریقے سے لن عورت کے بلکل اندر تک جاتا ہے اورجسم فل ساتھ لگ جاتا ہے۔۔ میں نے استانی کی ہدایت کے مطابق کیا۔۔۔ انکی اٹھی کھلی پھدی کے لپس پر لن کی ٹوپی رکھی ۔۔ افففف دہکتے لپسسس۔۔۔ فل گیلے ویل کم کو تیار۔۔ ہلکا سا پش کیالن باآسانی سے اندر گیا۔۔ تھوڑا آگے کر کے میں رکا اور جھک کر انکے نپلز کو مسلتے ہوے تیز جھٹکا مارا۔۔ لن پھدی میں ہھسلتا غڑاپ تقریبا سارا اندر۔۔۔ انکی تیز سسکاری نکلی ۔۔۔ہاااااے اممممی جی ۔۔اندر تک وڑگیا ای۔۔۔ میں رکا اور رہا سہا لن بھی اندر اتار دیا۔۔ ہم فل ساتھ جیسے ٹچ بٹنوں کی جوڑی۔۔۔ میں ہیچھے ہٹتا ۔۔ اور زورسے دھکا مارتا۔۔ وہ اور اکساتی ۔۔ یسسسسسس ایسے ہی۔۔میں باہر نکال کر پرانی حرکت کی ۔۔۔ پاس جو بھی کپڑا تھا اس سے لن کو صاف کیا اور فل اندر تک گھسا مارا۔۔۔ وہ اور ساتھ لگیں۔۔ اور کہنے لگیں اب اندر تک کر کے میرے ساتھ لیٹ جاواوپر۔۔ میں انکے اوپر ۔۔ لیٹ گیا لپس میں لپس۔۔ لن فل اندر اور انکی ہدایت کےمطابق ہلکا ہلکا ہلنے لگا جیسے سرمہ دانی میں سرمچو ہلاتے اور وہ اپنے ہاتھوں سے میری کمر کو سہلاتی ۔۔ ناخن چھبوتیں میری ہپ پر شاباشی جیسے تھاپڑے لگاتیں رہیں۔۔ انکا جوش بڑھتا رہا اور انہوں نے مجھے فل ساتھ چمٹا لیا وحشیوں کی طرح میرے لبوں اور زبان کو چوسنے لگیں ۔۔ پھدی کی دیواریں تیزی سے رگڑ کھا رہی تھیں ۔۔ اور کھل بند ہو رہیں تھیں انکی آنکھیں بند تھیں اور موٹر چلی ہوئی تھی ۔۔ دو چار تیز سسکیوں کے ساتھ انہوں نے پانی چھوڑ دیا۔۔۔ میں بھی آج بنا دودھ پیے تھا۔۔۔اور فل ٹوکن پر تھا ۔۔ انکے مدہوش چہرےکو چومتا میں نے دو چار تیز دھکے مارے اور انکی پھدی میں ہی چھوٹتا انکے اوپر گر گیا۔۔۔ کچھ پندرہ بیس منٹ بعد ہمیں ہوش آئی اور میں انکے اوپر سے ہٹ کر بیڈ پر جا گرا۔۔۔تھوڑی دیر بعد وہ بھی اٹھ کر ایسے ہی ننگی حالت میں چلتے ہوئے کیبنٹ تک گئیں ۔۔۔ انکی گوری ٹانگیں چمک رہیں تھیں اور کھڑا ہو کر چلنےسے پھدی انکا اور میرا رس واپس باہر پھینک رہی تھی ۔۔ کیبنٹ کھول کر ایک کپڑا نکالا۔۔ اپنی ٹانگوں کو صاف کیا اور میرے پاس آ کر لن کو صاف کرنے لگیں ۔۔ اففف مزہ آ گیا تم ہونہار شاگرد ہو۔۔بہت جلد سب سکھا دونگی ۔۔۔پھر جس عورت کے پاس بھی گئے وہ یاد رکھے گی۔۔۔ میں تو دو سال تک شائد ڈھل جاوں لیکن اگلی نسلوں کا بھلا کر جاوں گی انہوں نے میرے لن اور ٹانگوں کو صاف کرتے ہوے کمینی ہنسی میں کہا۔۔ اسکے بعد روم فریج سے دو جوس کے ٹن نکالے اور ہم وہ پینے لگے۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ میرے ساتھ لگ کر پیارسے مجھے بتانے لگیں کہ عورت کو عزت احترام کے ساتھ اچھے سیکس کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے خاوند کم ملتے جو دونوں کام کرتے ہوں ۔۔ تم عورت سے عزت احترام سے لازمی پیش آنا باقی سیکس۔۔۔ تو مجھے تمہارے لن اور اپنی تعلیم پہ اعتبار ہے۔۔ ایسے ہی وہ مجھےعورت کے ذہنی جسمانی اطمینان کے گر بتانے لگیں۔۔۔اور پھر کہا۔۔۔ تعلیم کے بعد تمہارا امتحان بھی ہو گا۔۔ اوور یہ امتحان سکول کا نہیں بورڈ کا ہوگا یعنی۔۔ تمہارا ٹسٹ کوئی اور لے گا۔۔میں یہ سن کر ششدر رہ گیا۔۔ میں نے کہا کیا مطلب۔۔وہ بولیں بس اس بات کو چھوڑو۔۔۔ تمہیں بتایا اسلیے کہ تم زیادہ جذب سے سیکھو۔۔۔ تمہارا امتحان ہو گا تو ساتھ نیا جسم نئی عورت بھی تو ملے گی ۔۔ تمہیں اسے مطمئن کرنا ہو گا۔۔ آنٹی کی بات نے مجھے بیک وقت شدید خوشی اور حیرت میں ڈال دیا۔۔ خوشی کہ یسسسس بہت جلد ایک اور عورت۔۔۔ حیرت کہ ۔۔ کون ہوگا ؟؟؟



جاری ہے

*

Post a Comment (0)