عشق آوارہ
قسط 11
کچھ دیر کے بعد میں نے خود کو تسلی دی کہ کون سا مجھے پتہ تھا یا کون سا میں نے پھر بدتمیزی کی۔۔بتاتیں ہیں تو بتائیں آنٹی شازیہ کو۔۔ انہی سوچوں میں جانے کتنا وقت گزر گیا مجھے ہوش تب ٰآیا جب انٹرکام کی بیل بجی۔۔۔ دوسری طرف عمبرین تھیں۔۔ انہوں نے مجھے کہا کہ جلدی سے نیچے آ جاو۔۔۔ نائلہ گھر جانا ہے ادھر ڈھولکی رکھی ہے آج۔میں انگڑائی لیتا ہوا اٹھا ۔۔۔ جسم ہلکا بوجھل تھا۔۔ میں واش روم گیا ۔۔ گرم پانی سے نہایا اور تیار ہو کر نیچے آ گیا ۔۔۔ بھابھی اتنی دیر میں دوبارہ بلا چکیں تھیں۔۔ ہم تینوں پیدل چلتے انکے گھر گئے تو بےچارہ ناصر اکیلا ہی صحن میں کھڑ لائٹنگ والوں سے بحث کررہا تھا لیڈیز ساری اندر باتوں تیاریوں میں بزی تھیں آنٹی اور بھابھی اندر چلی گئیں اور میں ناصر پاس رک گیا۔۔مجھے دیکھ کر وہ خوشی بولا شکر ہے بھائی آپ آ گئے۔۔ اب جلدی سے میری مدد کروائیں۔۔یا تو لائٹنگ والے کے ساتھ لائٹیں لگوائیں یا پھر بازار جائیں ۔۔اتنی دیر میں ناصر کی اماں نے کہا لو ۔۔ اس کو کیا پتہ لہور کے بازاروں کا اور دکانوں کا تم جاو اور اسکے ذمہ لائٹنگ لگا دو۔۔ناصر مجھے پورے گھر کی سیٹنگ بتاتا تیزی سے باہر کو نکلا اور کہا میں بس آیا گھنٹے تک ۔۔ اسکے جانے کے بعد میں نے لائٹنگ والے سے کہا کہ ایسا کرتے ہیں سارا سامان پہلے اوپر پہنچا آو۔۔ تب پھر ڈیزائن کرتے کیسے لگانی۔۔میں اسکے ساتھ اوپر کھسکنے لگا تھا کہ مجھے آنٹی شازیہ کی آواز آئی رکو ذرا تم سے ایک بات کرنی ۔۔ ججی مجھے لگا کہ جیسے شکائت ہو گئی آنٹی مجھے ایک سائڈ پر لیجا کر بولیں خو سامان نا اٹھانا ۔۔ کمی تھوڑی ہو شہزادے ہو ہمارے اور پہلے اندر آکر چائے پی لو پھر اوپر جانا میری سانس میں سانس آئی ۔۔ اندر کمرہ لیڈیز سے پر تھا۔۔ یہ دیکھ کر میں مجبورا پلٹنے لگا کہ آنٹی نےپھر سے کہا چلو تم کچن میں جا کر وہیں پی لو چائے اور میں سر ہلاتے کچن کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔سامنے ہی کومل بھابھی ساتھ ایک اور خاتون کو لگائے کچن میں بزی تھیں۔۔ ہماری نظریں ملیں انہوں نے مجھے دیکھا ۔۔ایک لمحہ ہماری نظریں ملیں انکے چہرے پر سنجیدگی تھیکچھ دیر کی سنجیدگی کے بعد اچانک وہ مسکرائیں اور بولیں ادھر بیٹھ جاو چائے یہیں پی لو۔۔۔ اسی بہانے ہمارے لیے وقت تو نکالا نا
مجھے تسلی ہوئی اور بولا چلیں کسی دن وقت نکالتے آپ کے لیے بھی
بتاوں گی ابھی تو تم چائے پیو اور جاکر لائٹنگ دیکھو۔۔ شام کا دھندلکا پھیل چکا تھا۔۔ میں اسی سٹور کی چھت پر بیٹھا لڑیاں پھیلا رہا تھا۔۔ اور لائٹنگ والا انکو کنیکشن کے لیے نیچے گیاہوا تھا۔۔ میں اپنے کام میں مگن تھا جب مجھے لگا کوئی مجھے گھور رہا ہے میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو نیچے صحن میں کومل آنٹی اپنے بچے کو لائٹنگ دکھا رہی تھیں اور وقفے وقفے سے نظر اٹھا کر مجھے دیکھ رہیں تھیں۔۔۔ میرےاندر ایک مستی سی طای ہو گئی ۔۔ کافی دن ہو گئے تھے عورت کو چھوا تک نا تھا۔۔ آنٹی شازیہ نے مجھے جو لت لگائی اب وہ نشہ بن رہی تھی۔میں نے اوپر سے اترتے ہوئے کہا۔۔۔ اسکے پاپا نہیں آئے بہن کی شادی پر ۔۔وہ افسردگی سے بولیں نہیں آئے ۔۔۔ پچھلی بار بھی بچے کو دیکھنے آئے تب میں میکے تھی چلہ کاٹنے ۔۔سو باتیں کرنی ہوتیں ۔۔ لیکن اب یہ شادی ۔۔ وہ آتے تو اتنا خرچہ ہو جاتا ٹکٹ وغیرہ کا۔بس دوسروں کی خوشیوں کا سب کو ہے میرا کسی کو نہیں۔۔وہ روہانسی ہوئیں۔۔۔ میں ادھر ادھر دیکھا اور بولا ۔۔میں انکے تھوڑا قریب ہوا اور منڈیر سے نیچے جھانکا ۔۔۔ناصر اور اور اسکے ابا گلی میں سٹریٹ لیمپ لگوا رہے تھے۔۔ سکون ماحول دیکھ کر میں نے ہمت کرتے ہوئے کہا۔۔۔ہم نے عرض کی نا۔۔ آپ کو جو کام ہو مجھے بتادینا آپ۔میں بہت خوشی سے آپکاکام بھی کر دوں گا اور کسی کو ہو نا ہو مجھے ہے نا آپکا احساس۔۔۔ میرے جملوں نے انہوں مسکرانےپرمجبور کر دیا اور بولیں چلو دیکھتے ہیں نا ۔۔ میں نے بات بڑھائی۔۔ سب لوگ تیار ہو رہے آپ نہیں ہوئی تیار دوسروں کو ڈیزائن کر کے دیتی ہیں اور خود تیار ای نہیں ہوئی۔۔ وہ بولیں بس ایسے ای ۔۔ ویسے تمہیں کیا لگتا کونسا ڈریس اچھا لگنا مجھ پہ انہوں نے آنکھیں مٹکاتے سوال کیا۔۔۔میں کچھ دیر چپ رہااور ہمت کر کے کہا۔۔ مجھےتو آپ آج سٹور والے لباس میں قیامت لگیں تھیں۔۔ وہ یکدم سرخ ہوگئیں اور بولیں بہت بدتمیز ہو تم ۔۔ میری ہی غلطی ہے جو لاک نہیں لگایا تھا۔۔۔ میں نے بات سنبھالی ارے نہیں جو شرٹ آپ پہن رہی تھیں اسکا کہا تب وہ معنی خیز انداز میں بولیں پتہ ہے پتہ ہے مجھے ۔۔۔کیا پسند تمہیں۔۔انکےرسپانس کو دیکھتے ہوئے میں نے تھوڑا قریب آتے ہوے کہا ۔۔ جب پتہ ہے تو پھر سے دکھائیں نا تب تو حادثاتی دیکھا تھا ۔۔ وہ بلکل چپ ہو گئیں ۔۔مجھے لگا کہ جلدبازی نے بات بگاڑ دی ۔۔۔۔میں چہرےپر مسکینی لا کر سوری کرنے ہی لگا تھا کہ وہ بولیں ۔۔۔ کبھی دکھاوں گی ۔۔ اگر تم نے میرا خیال رکھا تو۔۔۔ میرا دل یوں اچھلا جیسے کسی ننگے تار کو چھو لیا۔۔ میں مسرت سے اچھلا اور کہا وعدہ ۔۔ تب وہ مجھے ستاتے ہوئے بولیں۔۔تم بڑے تیزہو ویسے لگتے نہیں ۔۔۔ چلو کہا ہے نا وعدہ اب چلو جاو تم بھی ۔۔میں بھی نکلتی ۔۔۔ اور میں بھی موقع کی مناسبت دیکھتے ہوئے وہاں سے کھسک گیا
اگلے دو دن ایسے ہی شادی کےکاموں میں بزی رہے یہ ہفتے کی دن کی بات ہے۔۔۔ آج نائلہ کی مہندی تھی ہر طرف مہمانوں کی ریل پیل۔۔ آج عمبرین نے پیلے رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا اور آفت لگ رہیں تھیں۔۔ پیلے سوٹ ۔۔ کانوں میں آویزے ۔۔ جیسےاپسرا کوئی۔۔ انکا تو مقام ہی الگ تھا نا۔۔۔ وہ جیسے جھیل کا صاف پانی ۔۔۔جھلمل کرتا ہوا ۔۔ جنہیں دیکھ کر ہوس نہیں بلکہ چاہ ابھرتی تھی۔۔۔میں نے انہیں دیکھا ۔۔ اور آنکھوں سے دوست کو سراہا اور کہا بس ایک چیز کی کمی ہے وہ بولیں کونسی ۔۔۔ میں نے کہا بس لاکر دوںگا تو دیکھ لینا۔۔۔اچھا جی وہ بولیں چلو دیکھتے نا۔۔۔ میں بہانےسے نکلا اور باہر سے موتیےکے گجرے اخبار میں لپیٹ کر واپس آیا۔۔اور جب انہیں دئیے تو وہ بلکل ٹین ایجر لڑکیوں کی طرح خوش ہوئیں اور کہا ۔۔ ہاے اللہ تمہیں کیسے پتہ چلا۔۔ انہوں نے فورا اپنے کلائی اور بالوں پر گجرے سجاتے ہوئے کہا ۔۔ بس آپ دوست ہیں اور دوست کو کیا پسند خبر ہوتی ۔۔انکی آنکھیں خوشی سے جھلملا اٹھیں اور کہا یہ بات نا۔۔ دوست وہی جو بنا کہے جان جائے ۔۔۔اتنی دیر میں باہر سے شور اٹھا کہ لڑکے والی مہندی لیکر آ گئے ۔۔بھابھی بھاگم باہر کو نکلیں۔۔ اور میں انکےعکس انکی چوڑیوں کی چھن چھن میں کھوتا گیا۔۔باہر شدید رش تھا ۔۔ میں اندر ہی دبکا رہا اور جب باہر لگا کہ سب بیٹھ گئے ہونے میں آرام سے باہر نکلا اور چھت پر جاکر کچھ دیر سستانے لگا۔۔ نیچے ہلکی ہلکی ڈھولک کی آواز آ رہی تھی ۔۔ اور اس ڈھولک میں ایک دلکش آواز گونجی ۔۔۔بلاشبہ وہ عمبرین تھیں۔۔۔ میں حیران رہ گیا ۔ ہر قدم پر وہ حیران کرتی جا رہیں تھیں۔۔میں ہلکے قدموں سے صحن کی طر منڈیر پر آیا ۔۔۔ اور نیچے جھانکا۔۔۔سب عورتوں کے جمگھٹے میں بھابھی آنکھیں موندے پنجابی ٹپے گا رہی تھیں ۔۔۔ انکی آواز کی گونج جیسے سات سر۔۔۔ میں عجیب سی کیفیات کا شکار تھا۔۔ ایک طرف بھابھی سے ہوس کے بنا بڑھتا لگاو اور دوسری طرف لت لگنے سے جسم کی طلب اور نشہ ۔۔اتنے میں کوئی بچہ کہیں سے مٹی کا گھڑا لے آیا اور بھابھی چمچ سے اس گھڑے کو بجانے لگیں۔۔۔ ہلکا جھک کر وہ چمچ سے گھڑا بجاتیں ۔۔۔ ٹپہ سناتیں اورپھر دوسری پارٹی یعنی لڑکے والوں کو موقع دیتیں کہ وہ برابر کا ٹپہ گا سکیں۔۔۔ لڑکی والوں کی طرف سے بھابھی لیڈ کر رہی تھیں۔۔۔ ہلکا سا گھڑے پر جھکنے کی وجہ سے میں اوپر سے انکا لشکارے مارتا حسن دیکھ سکتا تھا۔۔ وہ بہت ہی مناسب کباس پہنتیں تھیں لیکن اسوقت زنانہ ماحول میں انکا دوپٹہ ایک طرف تھا ۔۔ جوش سے چہرہ لال اور ہلکے کھلے گلے سے جھلکتا ہلکا شانہ بیوٹی بون اور وہ سرخ تل ۔۔۔ اورمیں جیسے ساکن۔۔اور آخر ایک شور کے ساتھ لڑکی والوں نے لڑکے والوں کو ناک آوٹ کر دیا ۔۔ عمبرین کا چہرہ تمتما رہا تھا۔۔ کھانا وغیرہ کھانے کے بعد ۔۔۔ باقاعدہ مہندی لگانے کی رسم شروع ہوئی ۔۔۔ ناصر مجھے بھی کھینچتا ہوا لے گیا کہ چلو بھائی ۔۔ باجی نائلہ کی ایک نند ہے دولہا بھیا کی کزن۔۔ مجھے بہت اچھی لگتی آپ کو دکھاتا
ناصر مجھے لیے لیڈیز میں گھستا دلہن والے صوفہ کے پاس لے گیا۔۔ جہاں نائلہ مایوں کے سوٹ میں بیٹھی ہوئی تھی۔اور اسکے گرد اسکے سسرالی اور صوفہ کے پیچھےمیکے والے آپسی شغل مستی میں مصروف تھے۔۔۔ وہ جو ریڈسوٹ میں ہےنا وہ ۔۔۔ اس کے اشارے پر میں نےدیکھا تو وہاں ایک الٹرا ماڈرن سی لڑکی تھی ۔۔ جو اس سردی میں بھی ریشمی سوٹ پہنے ہوئے کم از کم مجھے تو عجیب ہی لگی۔۔ لیکن میں نے ناصر کو کافی اچھے الفاظ سےرائے دی۔۔۔ اب شائد لڑکی کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ ناصر مجھے اسکا بتا رہا ہے۔۔ اسنے ناصر کو سمائل پاس کی۔۔۔ ناصر تو جیسے اسکی سمائل سے ہی بےسدھ ہوگیا اور قریبی ایک کرسی پر بیٹھ کر اسے تاڑنے لگا۔۔ اور میں نائلہ کے سسرالیوں میں گھرا ہوا باہر نکلنےلگا تھا کہ مجھے آنٹی نے اشارے سے پاس بلایا۔۔اور میں مختلف آنٹیوں لڑکیوں کی گانڈوں اور بوبز کے درمیان پھنستا بچتا صوفے کے پیچھے انکے پاس چلا گیا۔۔۔ کہتیں ادھر ہی رک۔۔۔ دیکھ کتنے کنجوس ہیں نائلہ کے سسرالی۔۔۔ ہزار ہزار دے رہے صرف مہندی لگاتے انکی زنانہ حس جاگی ہوئی تھی میں نے انکی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔کچھ دیر گزری کہ اچانک لائٹ چلی گئی آنٹی لو دسو۔۔ پرے ہونا ۔۔۔ ہر طرف ہڑبونگ سی مچ گئی ۔۔سب واپڈا کو کوسنے لگ گئے اور جنریٹر والے کو جنریٹر چلانے کے لیے اوپر چھت پر جانے کی کسی مرد نے آواز لگائی۔۔۔اسی ہڑبونگ میں مجھے تھوڑا سا دھکا لگا اور میں آنٹی سے تھوڑا پیچھےکو دیوارکےساتھ لگا۔۔کچھ ہلچل کے بعد اچانک مجھے عجیب سا احساس ہوا۔۔کوئی انتہائی نرم سی گانڈ بلکل میرے ساتھ لگی تھی۔ میں سمجھا آنٹی ہی ہیں۔۔ میں تھوڑا پیچھےکوکھسکا اور انہیں جگہ دی۔۔ اتنے رش میں میرے ذہن میں اس وقت تک کچھ خیال نا تھا ویسے بھی آج تو ویک اینڈ تھا۔۔ پھر کاہے کی جلدی۔۔ جیسے ہی میں پیچھے کھسکا رش سے وہ گانڈ دوبارہ سے میرے سامنے آئی لیکن یہ زاویہ خطرناک تھا۔۔ اب اسکی گانڈ بلکل میرے لن کےسامنے تھی سامنے کیا ہلکی چھو رہی تھی ۔۔۔ اتنی دیر میں کہیں سےآواز آئی ۔۔ سارے نالائق ہو تم لوگ ۔۔ جنریٹر کے لیے پٹرول کس کنجر نے لانا تھا۔۔۔ پھر سے اک شور مچا لو جی ۔۔۔ اسی مرد کی آواز دوبارہ آئی ۔۔دس منٹ تک آیا پٹرول بس۔۔۔ گیا ہے ناصر۔۔۔اوئےہوئے جگہ دینا ذرا ۔۔ میرا سانس گھٹ رہا اب تو۔۔ ایک نخریلی سسرالی عورت کے نکلنے سے آنٹی بلکل میرے لن کے ساتھ پریس ہوئیں ۔۔ اففففف انکا لمس اورگداز ۔مجھے پھریری سی آ گئی میرے لن نے ہلکی سی انگڑائی لی اور جیسے ہی اس کی انگڑائی کا احساس اگلی خاتون کو ہوا وہ جیسے کسمسائیں انکے ایسے کسمسمانے سے انکی ہپ جیسے رگڑکر پھری ۔۔۔۔ یہ جیسے آگ پر پٹرول کی دھار۔۔ میں جو سانس روک کر لن کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا اس حملےسےسانس چھوڑ بیٹھا ادھر میری گہری سانس انکی گردن سے ٹکرائی۔۔۔ اور سانس کا گردن پہ کیا احساس ہوتا ہے یہ بہت بعد تجربوں سے پتہ چلا۔۔ ابکے وہ تھوڑا سا آگے کو ہوئیں معمولی سا جھری برابر فاصلہ بنا ۔۔ پٹرول کی اس دھار اور کسمساہٹ نے جو میرے لن کو آگ لگائی تھی اس سے لن اکڑنے لگا اور یہ ابھار جھری کو چیرتے پھر سے انکی ہپ سے ٹکرایا۔۔۔ پٹرول کا سنکر مجھے بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ دس منٹ تو گولی کرائی گئی ہے سیدھی سیدھی۔۔۔بیس منٹ تو پکے۔۔۔مجھے شرارت سوجھی ۔۔۔ ویک اینڈ تھا تھوڑی مستی بنتی تھی ۔۔۔ سویٹ سبق سے پہلے تھوڑی سی سپیشل تیاری کی طرح۔۔۔ میں نے جان بوجھ کر ابھار کو انکی گانڈ پر دائیں بائیں پھیرا اور ساتھ ہاتھ کو ہلکے سے انکے بوبز کو چھوا۔۔۔ میری اس حرکت نے شائد ادھر ایسی ہی دھار کا اثر کیا۔۔ آنٹی نے گہری سانس سی بھری ۔۔ میں نے ہاتھ سے لن کو پکڑا ۔۔۔ وہ تو جیسے منتظر تھا ایسا کوئی سین بنے آخر پورا ہفتہ گزر چکا تھا۔۔میں نے کیپ کو سیدھا کیا اور مارکر کی طرح ہپ کی لائن میں پھیرا۔۔ آنٹی کانپ کر رہ گئیں۔۔ انہی کے بتائے سبق انہی پر آزما رہا تھا۔۔میں نے ہاتھ کو ہلکا سا دائیں والے دودھ کے ساتھ مساج کے انداز میں پھیرا ۔ وہ پھر کانپیں اگلی بار جیسے ہی میں نے یہ حرکت کی انکی گانڈ نے ویل کم کیا۔۔۔انہوں نے گانڈ کی گرپ سے لن کی ٹوپی کو تھوڑا سا بھنچا اففففف جیسے ہی انہوں نے ایسا کیا میرا حال برا ہو گیا ۔۔۔ لن فل سیدھا ۔۔۔نیا نیا ٹرینڈلن تھا۔۔ کچھ دیر انتظار کے بعدجب وہ ایسے ہی رہیں تو میں نے ہاتھ آگے کیا اور بوبز سے سیدھا کلیویج پر ہلکا ہلکا مساج کرنے لگا میری ہتھیلی انکی کلیویج اور پورے سینےپر رگڑ کھاتی یہ جیسے اور پٹرول۔۔۔آس پاس کیا ہو رہا تھا خبر نہیں ادھر جیسے عجیب سا ماحول تھا اسی نشے میں میں نے شرٹ کے اوپر سے ہی انکے نپلز کو مسلنا شروع کر دیا۔۔وہ جیسے میرے ساتھ لگ گئیں ۔۔ میں نے انکا ہاتھ پکڑکر اپنے لن پر رکھا تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے میں سبق کے لیے تیار۔۔۔ جیسے ہی انکا ہاتھ میرے لن پر لگا اور لن پر پھرا انکےمنہ سے گہری آہ جیسی سانس نکلی۔اور ان کا ہاتھ کانپا ۔۔ لن فل تنا انکے لرزتے ہاتھ سے کرنٹ کھایا۔اور مٹھی میں لیکر ہاتھ سے جیسے دبا کر سختی چیک کی۔۔۔ کچھ دیر ہاتھ روکنے کے بعد انہوں نے خود ہی لن کو اپنی ٹانگوں میں رکھ کر دبا ہی لیا اففففف مجھے لگا جیسے میرا لن کسی دہکتی بھٹی میں آگیا انکی پھدی فل تپ رہی تھی۔۔ میں نے مستی سے نپلز کو فل مساج کرنے لگے کلیویج پر ہتھیلی پھیر کر انگلی نیچے لائن تک ۔ اور ہلکا ساہلا لن بھٹی کے نیچے سےرگڑ کھائی۔۔ افففف آب وہ بھی ہلکا ہلکا دبا کر ہلنے لگیں ۔۔۔ شلوار کے اوپر سے ہی انکی فلویٹنس لن پر محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ انکی پھدی کی گیلی ہو چکی تھی۔۔ایسے ہی وہ دبا کر بھنچ رہی تھیں کہ آگیا پٹرول کی آواز آئی اور آنے والا بھاگتا سیڑھیاں چڑھا۔۔۔ یہ آواز ہمیں ہوش میں لائی۔۔ انہوں نے طریقے سے میرا ہاتھ بوبز سے ہٹایا اور تھوڑا آگے کو ہوئیں۔۔ تاکہ شک نا ہو۔۔ لیکن کتنا آگے جا سکتی تھیں پھر وہی جھری برابر فاصلہ۔۔ میں نے لن کو اپنی ٹانگوں میں بھنچا تاکہ کسی اور سے نا جا ٹکرائے۔۔۔ ساتھ ہی بجلی آئی۔۔۔ ادھر بجلی آئی تو سمجھو جیسے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔۔ روشنی آتے ساتھ ہی اس عورت نے
بھی فورا پیچھے
دیکھا۔۔ وہ کومل بھابھی تھیں۔۔ میں ساکت سن سناٹا ۔۔۔ انہیں شائد اندازہ تھا کیونکہ میں سب میں سے گزر کر ادھر آیا تھا۔۔ انکی آنکھیں لال ہو رہیں تھیں۔۔ میں جو پہلے نیم بے ہوش تھا میرے اصل ہوش تب اڑے جب میری ان کے آگے ہماری طرف دیکھتیں آنٹی شازیہ پر پڑی۔۔ انکی تجربہ کار نگاہوں نے ہماری حالت پوزیشن اور رنگت سے کافی اندازہ لگا لیا تھا۔۔ انکے چہرے پر ہلکے غصے کی لہر دوڑی جیسے وعدہ خلافی کا دکھ۔۔جیسے میرے ہوتے دوسرےپر لائن کی جلن۔۔انہوں نے مجھ اشارے سے بلایا۔۔ میں جل توجلال تو کا ورد پڑھتے ہوئے انکی طرف بڑھا وہ مجھے لیے باہر کو نکلیں میں مرے مرے قدموں سے انکے پیچھے چلا ۔۔ انہوں نے مجھے کہا بائیک پکڑ گھر تک جانا ہے جلدی کر۔۔۔ میں جو کچھ اور سمجھا تھا ایمرجنسی سمجھ کر جلدی سے سامنے ناصر کی بائیک پکڑی اور فوری گھر کو روانہ آنٹی گھر کا دروازہ کھولتے سیدھی کمرے میں گئیں میں حیرت سے باہر برآمدے میں کھڑا رہ گی تب انکی آواز آئی اندر نا آنا میں آئی بس۔ کچھ دیر کے بعد وہ آئیں اور سکون سے کرسی پر بیٹھیں ۔۔ میں نے کہا خیر تو ہے نا کیا لینا تھا۔۔۔ وہ اکتا کر بولیں لینا تو آج رات کچھ اور تھا لیکن ماہواری ہو گئی اچانک۔۔۔ پیڈ پہننے آئی تھی ۔۔ اوہ میں نے سوچا لو جی اب پڑا سیاپا۔۔۔ لن کھڑا کر گئی کومل ادھر ان سے سبق لینا تھا یہ بھی گئیں ۔۔ میرے مایوس چہرے کو دیکھ کر بولیں کیوں تمہیں کیا ہوا ہے منہ کیوں لٹکا لیا۔۔ میں نے کہا وہ سبق ۔۔۔ وہ ہنس کر بولیں سبق نہیں کہو سیکس کی طلب۔۔ اور اس طلب کے لیے تم وعدہ خلافی کر چکے ۔۔۔ توبہ بھئی مجھے یہ تو پتہ تھا کہ کومل بہت گرم مال۔۔ دو سال سے کیا بھی کچھ نہیں۔۔ پچھلی بار بندہ آیا تو اسکی نئی نئی ڈیلیوری ہوئی تھی لیکن ایسے سب میں۔۔۔ توآپ کو پتہ چل گیا میں نے تھوڑاساشرمندگی سے کہا۔ اور انہیں بتانے لگا کہ سب کیا اور کیسے ہوا۔۔ چلو پھر تمہاری غلطی نہیں ہے لیکن اسکی تو ہے نا اس کو خیال کرنا چاہیے تھا۔۔ اب کیا ملا سوائے اور گرمی کے ۔۔۔ تب میرے دماغ نے کام کیا اور میں نے کہا ۔۔۔ اسے سزا بھی مل سکتی ہے اور مجھے ویک اینڈ کا گفٹ بھی ۔۔ دیکھیں نا میں گیا نا کالج تین دن ۔۔ اب آگے ایڈمن والا مر جاے یا آپکو ڈیٹ ہو میرا کیا قصور۔۔کیا مطلب میں سمجھی نہیں۔۔آنٹی نے پوچھا۔۔ اور میں نے انہیں اپنا پلان سمجھایا۔۔ خلاف توقع وہ مان گئیں لیکن شرط رکھی کہ وہ یہ سب لائیو دیکھیں گی ۔۔۔ انہوں نے بتایا کہ جب انکل باہر تھے اور جب وہ آتے ۔۔ یعنی سال دو سال بعد پہلا ملن ۔۔ انکی حالت بہت مستانی ہوتی تھی ۔۔۔ وہ دیکھنا چاہتی تھیں کومل کیا ری ایکشن دیتی۔۔ واپس جا کر حسب معمول آنٹی شازیہ نے بہترین طریقے سے پلان بنا لیا۔اب عمبرین جو نائلہ کے پاس اس گھر میں شادی سے پہلے کی آخری رات ملکر گزارنا چاہتی تھیں۔۔اور خالہ کی وجہ سے اسے واپس جانا تھا اب ادھر ہی رکیں گی۔۔۔آنٹی ۔۔ کومل بھابھی اور کچھ دوسرے شہر کےمہمان ہم اپنے گھر لیجائیں گے۔۔۔ البتہ کومل بھابھی کو منصوبے کا بلکل اندازہ نہیں تھا۔۔ میں حسب پروگرام اس دوران منظر سے غائب رہا۔۔ میں منصوبےکے مطابق سب کے سامنے وہیں رکا۔۔ اور جب سب اپنے اپنے بستر میں سردی اور تھکن سے نڈھال گرے میں چپکے سے وہاں سے کھسک آیا۔۔۔ ڈپلی کیٹ چابی سے دروازہ کھولا اور اندر چلا آیا۔۔۔ہر طرف سکون ماحول تھا۔۔ میں سیڑھیاں چڑھتا ہوا چھت پر آیا۔۔میرے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی اور سامنے آنٹی بیٹھیں تھیں جیسے ہی میں اندر داخل ہوا اور کومل سے میری نظر ٹکرائی۔۔۔انکا ایکبار رنگ اڑا پھر جیسے وہ سنبھلیں اور ہلکا سا جھجھک کر بولیں تم بھی ادھر ہی ہو میں سمجھی ناصر ساتھ۔۔۔میں نے مسکرا کر کہا جی ایسا ہی تھا لیکن بس مجھے وہاں نیند نہیں آ رہی تھی تو چلا آیا۔۔ آپکو برا لگا۔۔۔ نہیں ویسےہی وہ مسکرائیں۔۔۔ آنٹی کام بہت کروائے آج اور چائے بس ایک کپ پلائی آپکی سہیلی کومل نے میں نے ماحول کو ایزی کیا۔۔ اور کہا پلیز مجھے چائے بنا دیں۔۔ آنٹی شازیہ چائے کے لیے جانےلگیں تو کومل بھی فورا ساتھ اٹھیں ۔۔ آنٹی نے اسے اٹھتے دیکھ کر بولا لو تم بیٹھو ادھر باتیں کرو ۔۔ کھا تھوڑی جاے گا۔۔ کہتی آنٹی یہ جا وہ جا۔۔۔انکے جانے کے بعد گھور خاموشی ۔۔۔ آخر میں نے چپ توٰڑی اور اٹھ کر تھوڑا انکے پاس فاصلے پہ بیٹھا۔۔ انہوں نے گھبرا کر کہا پلیز نعیم ۔۔ شازیہ آ جاے گی ۔۔۔میں ایسی نہیں ہوں بس ۔۔ تھوڑا بہک گئی۔۔ وہ بے ترتیبی سے گھبرا کر بولیں۔۔ انکی بات سےخوف جھجھک جھلک رہاتھا بدنامی کا ڈر۔۔ شازیہ آنٹی کے آنے کا دھڑکا اور مجھ سے تنہائی میں جھجھک۔۔میں نے کہا۔۔ میں آپکو کب برا کہا یا ایسا ویسا کہا۔۔۔ آپ میرےلیے بلکل پہلے کی طرح باعزت ہیں۔۔ اور وہ بات۔۔ ہماری دوستانے کی ہے آپ ڈریں مت ۔۔دوست ہیں نا ہم ۔۔ میں نے ادھر اعتماد دیا انہیں ادھر دوستی کا جال پھینکا۔۔۔وہ مسکرا کر بولیں شکریہ ۔۔ تب میں نےکہا اب جب دوست ہیں ۔۔تو یہ بتائیں مزہ آیا نا۔۔ وہ شرما گئیں ۔۔اور سر جھکا کر بولیں ہمممم۔۔۔ یہ ہممم کیا ہوتا ہے ۔۔ تب وہ ہلکے سے بولیں بہہت۔۔ میں نے کہا مجھے بھی بہت آیا۔۔ میں یقین نہیں کر سکتا کہ میں آپ جیسی خوبصورت لڑکی و چھوا۔۔ آپ واقعی کومل ہیں۔۔۔ وہ جیسے میری تعریف سے کھل اٹھیں۔۔ میں تھوڑا ایزی ہوا اور ٹانگون کو تھوڑا پھیلایا۔۔ اور ان سے ہلکے پھلکے سوال کرنے لگا تھوڑی دیرتک آنٹی چائے لائیں ۔۔ وہ دونوں پی چکیں تھیں۔۔ میں چائے پیتے کومل سے باتیں کر رہا تھا۔۔ جب آنٹی جان بوجھ کر بولیں ۔۔اگر تم لوگوں کو باتیں کرنی ہیں تو باہر جا کر گپیں مارو میرا تھکن سے برا حال۔۔ درد ہو رہی کمر میں۔۔ نہیں نہیں ہم سوتے ہیں کومل نے ٹالنا چاہا لیکن میں نے آخری داو مارا۔۔۔ ہاں جی اتنی کہاں قسمت کہ اتنی اچھی دوست ملی اور ابھی کچھ بتانے لگا تھا کہ وہ سونے لگیں ۔۔ میں نے کچھ بتانے کا کہہ کر انکی زنانہ سسپنس کو چھیڑا۔۔۔ اور انہوں نے دانہ چگ لیا۔۔۔ کیا بتانے لگے تھے۔۔ میں نے ہاتھ بڑھایا اور کہا آئیں بتاتا ۔۔ بات تھوڑی لمبی ہے۔۔۔ اسبار وہ تھوڑا سا جھجھک کر ہاتھ پکڑتے ہوے بولیں چلو کیا یاد کرو گے۔۔ میں انہیں
لیے ساتھ والے ہال نما کمرے میں لے آیا۔۔۔۔ اور نارمل انداز سے ہاتھ پکڑے انہیں صوفہ کم بیڈ پر بٹھا کر کہا آپ رکیں میں لاتا ۔۔۔ اور انہیں سمجھ آنے سے پہلےواپس اپنےکمرے آیا۔۔آنٹی انکے بچے کو کھانسی کا سیرپ پلا کر سلا چکیں تھیں میں نے انہیں لائیو آنے کا بولا۔۔ اب انہوں نے ہال نما کمرےاور میرے کمرے کے درمیانی باتھ روم سے سب دیکھنا تھا۔۔۔ فورا واپس آیا ۔۔کومل صوفہ پر بیٹھی باہر کو دیکھ رہی تھیں۔۔ جلدی بتاو نا کیا بتانا ہے ۔۔ وہ بے صبری سے بولیں۔۔ میں نے کہا آپ کو پتہ ہے مجھےکیا محسوس ہوا اسوقت۔۔۔ وہ جھجک کر بولیں کیا۔۔ میں نے کہا جیسے کوئی خوابوں کی ملکہ آپ کے پاس۔۔۔ وہ سرخ ہوئیں میں نے انکے ہاتھوں کو پکڑ کر ہلکا سہلانا شروع کیا اور کہا آپکو پتہ ہے آپ بہت خوبصورت ہیں ۔۔ جب سے سٹور میں آپکو دیکھا ہوش گم تھے۔۔ اوور۔۔ وہ سرخ آنکھوں سے گھورتے بولیں اووور۔۔۔ میں نے کہا اور آپکا فگر قیامت ہے یہ جو کلیویج ہے نا۔۔ میں نے تیزی سے ہاتھ بڑھا کر انکے کلیویج کو انگلی سے چھیڑا۔۔ وہ جیسے کانپ گئی۔۔ اور کہا نا کر نا ۔۔۔ شازیہ جاگ گئی تو۔۔ گویا انہیں شازیہ کا ڈر تھا صرف۔۔ میں تھوڑا اور پاس کھسکا اور جھکتے ہوئے سرگوشی کی وہ دوائی لیکر سو چکیں۔۔ لللیکن وہ بولنے لگیں تھیں جب میں نے فائنل راونڈ کھیلتے ہوئے انکے لبوں پر انگلی رکھ کر انہیں کہا بسسسس چپ نا۔۔ سنیں نا۔۔ ہلکے سے انگلی کو لپس پر پھیرا وہ گہرا سانس لیکر سسکیں۔۔ میں نے کہا میرا پتہ کیا دل کیا اس وقت۔۔ وہ مدہوش بولیں۔۔ میں نے کہا میں کلیویج کو لبوں سے چھو لوں پتہ کیسے۔۔۔ وہ ٹرانس میں بولیں کیسے انکا دھک دھک کرتا سینہ میرے سامنےتھا ۔ لیکن اسبار میں بتانے کی بجائے ایسے کہتا ہوا اچانک جھکا اور لبوں کو دائیں بوب کے اوپر رکھ کر کلیویج تک پھیرا۔۔ اس کام نے گویا پٹرول کی پوری بوتل چھڑک دی ہو۔۔ انہوں نے بے تابی سے میرے بالوں میں ہاتھ پھنسا اور گہری آہ بھری ۔۔ کمرے میں ہلکا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔ باہر سے آتی روشنی ۔۔ اور سامنے باتھ روم کی جھری سے جھانکتی آنٹی شازیہ ۔ وہ جیسے بلکل پسپا ہونے والی تھیں میں نے لبوں کو فل دوسرے بوب تک پھیرا اور۔ہلکی سی لپ بائٹ کی۔۔ انہوں نے مدہوش اپنا سر پیچھے صوفہ سےٹکادیا۔۔ میں کسی فاتح کی طرح لبوں سے فصیل جسم کو گراتا گیا میرے ہونٹ بوبز سے انکی دراز ہوتی گردن۔۔اوپر نیچے ہوتے سینے ۔۔ پر گھوم رہے تھے۔۔ میں نے زبان ی نوک سے کلیویج لائن کو ہلکا سا چاٹا۔۔اور ایسے ہی جب میری کھردری زبان نے انکی گردن کو چھوا تو وہ کانپ کر مجھ سے لپٹ گئیں ۔۔ میں نے انہیں فل بازووں میں سنبھالا اور انہیں صوفہ کم بیڈ پر گراتا گیا ۔۔ وہ مست ناگن کی طرح سسک رہیں تھیں مچل رہیں تھیں انکے کھلتے بند ہوتے ہونٹ میں جھکا اور نچلے ہونٹ کو لبوں میں لیکر گھمانے لگا۔۔۔وہ جیسے صدیوں سے پیاسی تھیں۔۔گول گول زبان میرےلبوں میں پھیرنے لگیں ۔۔ میرے ہاتھ انکی کمر پر بہکتے ہوئے نیچے تک آئے اورمیں نے کمر سے ہاتھ شرٹ میں ڈالا جیسے ہی میرے ہاتھ کا لمس انکی کمر سے لگا افففف جیسے تیز کرنٹ انکا لمس انکا جسم جیسے نرم آگ سی۔۔۔وہ آہ ہاے کرتی سسک رہی تھیں میرے بالوں میں انگلیاں چلا رہیں تھیں۔۔ میں نے ہاتھ انکی پوری کمر تک پھیرنا شروع کیا اور ایسے ہی گھماتا سامنے پیٹ پر لایا اور ہاتھ پھیرتا انہیں تڑپاتا برا تک آیا۔۔ انکے بوبز برا کی قید میں پھڑک رہے تھے۔۔نئے فاتح نے جھٹکے سے قیدیوں کو آزاد کیا اور شرٹ کے نیچے سے ہی برا اوپر کر دی اور انگلیوں میں نپلز کو مسلنے لگا وہ مکمل خود سپردگی میں مدہوش ۔۔سپر ڈالی مفتوح پر فاتح پیٹ سے بوبز تک لبوں سے مہریں لگاتا گیا اور ہر ہر مہر پر انکا آتشیں جسم ہلکی مزاحمت اور اس سے زیادہ اکسانے والی سسکیاں بھرتا گیا۔۔۔ میں نے انکے ساتھ لیٹتے ہوے انکے ہاتھ کو اپنے ہتھیار پر رکھا۔۔۔ ہتھیار فل جوبن پر تھا۔۔ انکے منہ سے ہاے مر گئی نکلا۔۔۔وہ تیزی سے اسے سہلانےلگیں۔۔ میں نے ہاتھ پیٹ سے نیچے کو کھسکایا اور انکی پھدی کو ہاتھ سے رگڑنا شروع کیا۔۔ پھدی تھی کہ کوئی گرم پانی کا پھوٹتا چشمہ ۔۔۔ فل بہت ویٹ ہو رہیں تھیں۔۔ جیسے ہی ہاتھ انکی پھدی سے لگا انہوں نے اپنی ٹانگیں فل بھنچ لیں۔۔ جیسے ہی انہوں نے ٹانگیں بھنچیں مجھےخطرےکا احساس ہوا۔۔ اگر یہ ڈسچارج ہو گئی تو بھاگ جاے گی۔۔ میں نے سوچا پہلے ایکبار کر لو۔۔۔ افتتاح فوری ضروری ہو گیا تھا۔۔۔ میں طریقے سے ہاتھ انکی پھدی سےہٹایا ۔۔ انہوں نے واپس کھینچنا چاہا لیکن میں ہاتھ انکی رانوں پر لے گیا افففف کیا کمال لمس تھا انکا ۔۔میں ہاتھ گھماتا شلوار کو طریقے سے نیچے کھسکاتا گیا اور ہلکا اوپر ہوا اب وہ میرے بلکل ساتھ۔۔ انکی ٹانگیں میرے اوپر سے گزر رہی تھیں۔۔ میں نے اپنا ٹراوزر کھول کر ہتھیار باہر نکالا اور ہاتھ کی جگہ لن کا ٹوپا جب پھدی سے ٹکرایا تب انہیں پھریری آ گئی۔۔ ااااااف وہ سسکیں میں نے ٹوپے کو ہلکا سا پھدی لپس میں پھیرا ۔۔ اور ہلکا سا آگے پیچھے کرتا تھوڑا سا پش کیا۔۔ اففف ٹوپا سلپ ہوتا اندر پھنسا وہ سسکیں ۔۔ آاااااہ ۔۔ آرام سے نا۔۔ میں نے انکے لبوں کو لبوں میں لیا اور تھوڑا سا تیز پش کیا۔۔ پھدی کی چکناہٹ نے ویل کم کیا لن آدھے تک اندر گھسا۔۔۔ اااافففففف ۔۔ وہ ہلکا سا چیخیں ۔۔آہیں بھرتے ہوے میری کمر کو سہلاتے ہوے ۔۔ میں ہلکا سا رکا اور تیز جھٹکے سے انکے انکے داتھ جا لگا۔۔ لن فل اندر تک گھس چکا تھا انکی تیز چیخ میرے لبوں میں ہی گم ہوگئی۔۔۔ انکی ٹانگیں انکا جسم میرے ساتھ چمٹ چکا تھا کانپتا جسم۔۔ پھدی کی گرپ اور گرمی ۔۔ میں تھوڑا رکا ہلکا سا نکال کر سافٹ موو کیا۔۔۔ وہ ہر پش پر سسکتیں ۔۔ آہستہ آہستہ انکے لب میرے لبوں کو چوسنے لگیں۔۔ انکے آہ میں سرشاری شامل ہوئی اور وہ خود بھی ہلکا ہلکا ساتھ ہونےلگیں۔۔ میں نے تھوڑا گئیر بدلا اور انکے ساتھ ۔۔ لبوں میں لب ۔۔ ہاتھوں میں بوبز۔۔ ٹانگیں میرے جسم کے اوپر سے ۔۔ وہ کمان کی طرح۔۔۔ اور لن اندر تک گھسا ہوا۔۔ میں باہر نکالا کیپ تک اور ایک فاتحاانہ جھٹکا مارا اسبار انکی چیخ کی جگہ سرشاری والی سسکی نکلی ہااااے اندر تک لگتا ہے
اففففف۔۔۔ وہ مجھے اکسا رہیں تھیں۔۔ انکی سسکیاں تیز ہو رہیں تھیں ۔۔ پھدی لن کو جکڑ رہی تھی۔۔ میں باہر ٹوپے تک نکالتا اور غڑاپ سے اندر تک۔۔ وہ اب مست اور ایک تیز سسکی کے ساتھ جیسے انکی پھدی کا بند کھل گیا ۔۔ وہ مکمل فارغ ہو رہیں تھیں۔۔۔ میں ایسے ہی لن کو ہلکا ہلککا گھماتا رہا۔۔
جاری ہے