کُتی شئے
قسط 6
صراحی میں پانی ابلنے لگا تھا میں نے اس کے سینے سے چمٹتے ہوئے اس کی گردن پر بوسے دینے شرع کر دئیے میں پُر جوش ہو رہی تھی اور چاہتی تھی کہ پیجا أٹھ کر مجھے دُھنک کر رکھ دے نیچے آبشار آیا ہوا تھا اس سے پہلے سیلاب آجائے پیجے کے چپو کو میں نے پکڑ کے دبانا اور مسلنا شروع کر دیا اس کی آنکھ پر جو رسیلا آنسو اٹک گیا تھا اس کو انگوٹھے سے پونچھ کر خشک کرتی مگر پھر ایک قطرہ أمڈ آتا وہ أٹھا اور میری گولائیوں پر نظر جمائے میری دونوں ٹانگوں کے درمیان آ بیٹھا اور میری رانوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
آگے کی کہانی
وہ ہاتھوں کو میرے گھٹنوں سے لے کر رانوں سے گزرتا میری ٹانگوں کے
سنگم میں پؑھدی کے دانے کو ٹچ کرتا اور پھر رانوں پر مساج کرتا اور
کھبی کبھی چوم لیتا ۔ سیمو ، ’’سیمو جان ‘‘۔ اس کے منہ سے اپنا نام سن کر میں نہال ہو
گئی ، میں نے فرمائش کی ، جان ایک بار پھر میرا نام لو پلیز ۔ سیمو ، سیمو جان اس
نے دو تین بادھرایا تو میں نے بڑے پیار سے پوچھا ، جی مری جان میں ترے قربان
بولو ، کیا کہنا ہے ، سیمو جان تُمہاری رانیں بڑی سیکسی ہیں گول گول گوری سی
اور بھری ہوئی کسی ہوئ رانیں ، یہ کہہ کر پیجا میری رانوں کو چومنے لگا ، ایک
کو کبھی دوسری کو چُومتا ۔ مُجھے بہت اچھا لگ رہا تھا ، جہاں جہاں أس کے ہونٹ
چُھوتے أس جگہ کاف دیر تک سنسناھٹ سی ہوتی رہتی ، میں نے اپنی رانوں کو مزید
کھول دیا ، سیمو ایک بات کہوں ، ہاں جانی ، بولو میں نے اس کے ہاتھ کو اپنی پھدی
پر ٹکاتے ہوئے کہا ، تو پیجا بولا ۔ وہ سالا سچ ہی بولتا تھا ۔ کہ تم چیز ہو بڑی
مست مست ، ارے ایسا کون بولتا تھا ، میں نے پوچھا، تو پیجا غصے سے بولا وہی
کمینہ شیدا ۔ ارے وہ ایسا کیوں بولتا تھا ،، میں تو جانتی بھی نہیں أسے ۔ میرے سے
أسے کیا دشمنی ہے ، جو مجھے بیچ چوراہے بدنام کرنے پر تُلا ہوا ہے وہ ، میں
نے حیرت سے پوچھا تو پیجا کہنے لگا ۔ لگتا ہے اس کا دل تم پر آ گیا ہے ۔ بے
بس ہوگیا ہے وہ اپنے آپ کو تمہارے ذکر سے روک نہیں پاتا ، جب بھی کبھی ہم
لڑکے لوگ کسی لڑکی کی بات کرتے ہیں ، أس کی زبان پر سیمو آجاتی ہے ۔
ایک بُری عادت ہے أس کی ، ’’وہ کیا‘‘ ، میں نے جلدی سے وچھا ، وہ گالیاں
بہت دیتا ہے ہر ایک کو اور ہر بات پر گالی دینا اس کی عادت ہے کسی کی
تعریف کرنی ہو، تب بھی گالی أس کے منہ پر رہتی ہے ۔ ’’اچھا وہ کیسے ‘‘،
میں نے پوچھا ،۔ پیجا باتیں کرتے ہوئے بھی میری رانوں کو چومتا اور
چوتڑوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا ’’ جی ایک دن ہم سب أس کی بیٹھک میں بیٹھے
ہوئے تھے کہ سالا شروع ہوگیا ‘‘،،، ’’پٹاخہ ہے پٹاخہ سالی پٹاخہ‘‘ ۔ أس کی
تو ڈُگڈگی بجا کے رہوں گا حرام کی جنی نے جینا حرام کر رکھا ہے نہ
رات کو نیند آتی ہے نہ دن کو چین ۔ اس رات ازام سے سو سکوں
گا جس دن اس کو چود لیا ، مگر حرافہ کو پھنساؤں کیسے ، سالی اول تو
دکھتی نہییں اور اگر کہیں دکھ جائے تو نظر أٹھا کر دیکھتی ہی نہیں ۔
سالی کا خصم بھی گھر نہیں پ ھر بھی نہ جانے کس سے چھولا پھسواتی ہے
کہ کسی اور کی أسے پرواہ ہی نہیں بس ایک بار مجھے موقع دے تو پھر
وہ کس اور کو منہ بھی نہ لگائے ۔ ، ایسے میں اگر کوئی پوچھ لے شیدے
تو کس بارے بات کر رہا ہے تو مجنوں کی طرح ٹھنڈی آہ بھر کہنے لگا
میں اپنی سیمو کی بات کر رہا ہوں یار، اسی سالی نے مجھ پر جادو ٹونا
کیا ہوا ہے ۔ جو ہر وقت مرے دماغ پر سوار ہے ۔ پیجے نے ایک ہی
سانس میں شیدے کی رام کتھا ُسنا ڈالی اور میری چوت کی لکیر پر
أنگلی پھیرنے لگا جو پہلے ہی شیدے کی باتوں سے پانی پانی ہو رہی تھی
پیججے آخر أسے ایسی باتیں کرنے کا کیںا فائدہ ہوگا ، میں أسکی بہن کی
دوست ہوں آخر أسے اپنی بہن کا تو خیال رکھنا چاہئیے ۔ بہن کی سہیلی
بھی تو بہن ہی ہوئی ناں ۔ میں نے شکوہ کرنے کے انداز میں کہا ۔تو پیجا
کہنے لگا کہ وہ یہی تو کہتا ہے کہ سیمو اگر پینو بہن کی سہیلی
نہ ہوتی تو کب کا رانجھا راضی کر چکا ہوتا اور وہ اب میری منتیں
ترلے کر رہی ہوتی کہ آ مجھے چود ،، ’’ارے ارے أس کا لگتا ہے کوئی
پیج ڈھیلا ہے ۔ آخر میں کیوں اس کی منتیں ترلے کرتی ، میں تو اس پر
تھوکوں بھی نہیں مین زرا غصہ دکھاتے ہوئے کہا ۔ تو پیجا بولا اصل میں اس
کو خود پر بڑا مان ہے أس کا یہ قول ہے کہ جو ایک بار اس سے چدوا
لے پھر اپنے خصم سے بھی نہیں چدواتی ،، ہیں پیجے أس کو کس چیز کا
مان ہے میرے خیال میں تو آدھا پاگل ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے
،، اوہ جی أسے اپنے مال کا بڑا گھمنڈ ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ ساری
بکواس کرتا رہتا ہے، پیجے نے کہا تو میں نے استفشار کرتے ہوئے پوچھ
لیا ، کس مال کا أسے غرور ہے ۔ مال تو ہمارے پاس بھی کم نہیں ۔ زمین بھی
أس سے زیادہ ہ ہوگی کس چیز کا مان زکھتا ہے آخر ، میں نے پیجے کو
جواب دیتے ہوئے کہا تو پیجا ہنس کر کہنے لگا ، أسے اپنے لن کا مان
ہے ۔ دراصل ہم سب میں سے أسس کا ہتھیار تگڑا ہے لمبا بھی موٹا بھی ہم
سب سے زیادہ ، ، میں حیران سی ہو گئی کہ لن بھی چھوٹے بڑے ہوتے ہیں ،
میں نے تو اب تک دو ہی دیکھے اور برتے ہیں ۔ ایک اپنے گھر والے
کا اور دوسرا پیجے کا مگر مجھے تو دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں
محسوس ہوا یہ خیال آتے ہی میں نے پیجے سے پوچھا کہ تمہیں کیسے
پتا أس کا مال بڑا بھی ہے اور موٹا بھی تو ’’پیجے نے بتایا کہ جب
آٹھویں جماعت میں تھے ، أس وقت ہم سب مقابلہ کرتے تھے کہ کس کا بڑا ہے اور شیدا ہمیشہ جیت جاتا تھا ۔ اس کا نہ صرف بڑا ہے بلکہ
موٹا بھی ہے خصوصا أس کا ٹوپا تو ہم سب سے دگنا ہی تھا۔‘‘ نہ جانے کیوں أس کا سب سے جیت جانا مُجھے اچھا لگا خیر چاہے وہ جتنا بھی منہ پھٹ ہو ، ہے تو میری سہیلی پینو کا بھائی ہی ۔ شیدے کی باتیں اور أس کے مال متاب کا سُن کر میں بے خود ہو گئی میں نے پیجے کو بالوں سے پکڑ کر اس کا منہ اپنی چوت پر ٹکا دیا جو پہلے سے لیک ہو رہی تھی ۔ پیجا میری چوت پر منہ مارنے لگا اور میں مزے اور لطف کی وادی میں سیر کرتے شیدے کے خیالوں میں کھو گئی ۔
جاری ہے