Kuti shay - Episode 7

کُتی شئے

قسط 7



میں نے اس خیال کو ٹالنے کی کوشش کی مگر وہ برابر مجھے۔ تنگ کرتا  رہا ، پیجا چوت کے اندر زبان ڈال کے کھجا رہا تھا اور میں بے قرار ہو  کر اپنے کولہے اوپر نیچے پٹک رہی تھی ۔ میں نے اسے بالوں سے پکڑ کے اپنے اوپر کھینچ لیا اور اس کے ہونٹوں کو اپنے لبوں میں لے کر اپنی 

 چوت کا رس چوسنے لگی ۔ پیجے کا لن میری پھدی کے دروازے سے 

 ٹکرا رہا تھا میں نے اسے اپنے ہاتھ میں لے کر پھدی کی لکیر پر   

 رگڑا اور پھسل کے اندر ہوا ہی تھا کہ پیجے نے اک زوردار دھکا 

 لگایا اور اس کا لن پھدی کی راہداری کو رگڑتا آخر تک جا پہنچا ۔ 

 میرے منہ سے ایک لذت بھری سسکاری نکلی اور میں نے اس کے 

 ہونٹ چوستے چوستے اپنی زبان اس کے منہ میں دے دی تو پیجا 

 میری زبان کو چوسنے لگا ، اور اس کے ساتھ اس کے جھٹکوں    

 میں تیزی آنے لگی ۔ پیجا اک رات میں کافی کچھ سیکھ چکا تھا۔ اب وہ 

 مجھے بہت اچھی طرح چود رہا تھا میں بھی اس کا پورا ساتھ دے 

 رہی تھی اور نیچے سے اپنے کولہو اٹھا کر اس کے دھکوں کا جواب 

 دے رہی تھی ۔ میں آنے کے قریب ہوئی تو میں نے ٹانگیں اس کی 

 کمر کے گرد کس لیں جس سے اس کا لن اسانی سے مگر خوب 

 رگڑ کر میری پھدی میں جانے لگا ۔ پیجا کے سانسوں کی بے ترتبی 

 سے مجھے اس کے چھوٹنے کا اندازہ ہوگیا ۔ میں نے چوت کو   

 بھنچنا شروع کردیا اور پیجے نے آخری طوفانی جھٹکوں کے ساتھ   

 ڈکراتے ہوئے چوت کو اپنے رس سے بھر دیا جب تک وہ فوارا مارتا 

 رہا وہ ساتھ ساتھ جھٹکے بھی مارتا رہا ۔ اور أس کے منہ سیکسی 

 آوازیں بھی نکلتی رہیں ، میں اس کے گرم گرم فوارے کی بوچھار میں 

 خود بھی جھڑ گئی اور اسکے چوتڑوں کو پیچھے سے دبا کر اس کو 

 اندر ہی رہنے کا اشارہ دیا اور اپنی چوت کو لن کے گرد بھینچ کر 

 اس کے رس کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا ۔ پیجا ہانپتا ہوا میرے پہلو 

 میں آگرا ۔ میں بے سُدھ ہو کر یونہی لیٹی رہی ۔ تھوڑا سستانے کے 

 بعد میں نے پیجے کو چومتے ہوئے اور اس کے جسم پر ہاتھ پھیرتے 

 ہوئے بتایا ، جانی فجر ہونے والی ہے أٹھ جاؤ ، اس نے انگڑائی لے کر 

 مجھ اپنے سینہ سے لپٹاتے ہوئے کہا کہ اتنی جلدی فجر ، پھر وہ 

 أٹھنے لگا تو میں نے اسے کھینچ لیا ۔ اور اسکی پیشانی ناک ہونٹ   

 گردن کو چوما اور پھر اس کے لن کو اپنی شلوار سے پونچھ

 کر اپنی چوت کو پونچھا اور اس کے لن کو بوسہ دے کر اس    

 کے برابر لیٹ گئی ۔ پیجے نے مجھے لپٹا لیا اور چومنے لگا ۔ پھر میں أٹھ 

 بیٹھی ، وہ بھی أٹھ کر اپنی پھٹی شلوار کو پہننے لگا ، اس کے

 گھٹنے پر اب بھی سوجن تھی ۔ مگر اتنی زیادہ نہیں ،، وہ جانے لگا تو 

 میں دروازے تک برھنہ حالت میں ہی اس کے ساتھ گئی ۔ وہاں میں اس 

 سے لپٹ گئی ، اس نے مجھ خوب بھھینچا اور رات کو پھر آنے کا 

 بولا ۔ تو میں نے اسے بولا رات کو ہی کیوں ان دنوں میں دن کو 

 بھی گھر میں اکیلی ہوں ۔ چلے آنا جب موقع ملے ۔ اور ہاں شہر جا کر گولیاں 

 لیتے آنا ، ارے گولیاں کیسی گولیاں پیجے نے حیرت سے پوچھا ، تو میں نے اسے 

 بتایا بھلے آدمی مانع حمل گولیاں ۔ احتیاط لازمی ہے کہیں کچھ ہو گیا تو 

 خود کشی کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں ۔ تو پیجے نے کہا کہ اوکے 

 لیتا آونگا، اوہ ہاں گاؤں کی ڈسپنسری سے نہ لینا ورنہ لوگ قیاس لگائیں گے

 یہ گولیاں کس کے لئے ۔ اس لئے سٹی میں جانا اور وہاں سے لینا اور اپنے 

 گھٹنے کی بینڈیج بھی کروانا ۔ ٹھیک جان شہر سے لاؤں گا ۔ سائیکل پر 

 چلا جاؤں گا تاکہ جلدی واپسی ہو اس نے مجھے آنکھ مارتے ہوئے کہا 

 میں نے مُسکراتے ہوئے اسے بدمعاش کہا ، اور لپک کر دروازے کے پاس 

 پڑی چارپائی سے چادر أٹھا کر اپنے جسم پر لپیٹ لی اور دروازہ کھول کے 

 باہر دیکھا تو دنگ رہ گئی ۔ باہر پپی اور ٹائیگر ٹانگہ بنے کھڑے تھے 

 دونوں مست اور ہانپ رہے تھے أن کی زبانیں باہر کو نکلی اور رال 

 بہا رہی تھی ۔ پپی کی نظر مجھ پر گئی تو ٹیاؤں کر کے

 اس نے نظریں چرا لیں ۔ میں مسکرا دی ۔ میں نے پیجے کو اشارہ کیا   

 تو وہ دوپہر تک آنے کا کہہ کر باہر نکل گیا ۔ میں أسے جاتے    

 دیکھتی رہی ۔ کل اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میری 

 زندگی میں ایسی کوئی رات بھی ہوگی جس میں اپنے جذبات کے 

 ہاتھوں یرغمال ہو کر اپنے خاوند سے بے وفائی کر بیٹھوں گی ۔ 

 شادی سے پہلے نہ بعد میرا کسی سے اس قسم کا کوئی تعلق تھا نہ 

 میں نے کبھی ایسا سوچا خاوند سے دوری کے باوجود میں نے اپنے آپ 

 پر جبر بھی کیا اور صبر بھی ۔ خاوند ایک ماہ کے لئے آتے اور پھر 

 وہی جدائی کی اندھیری راتیں ۔ اور آج میں ایسی بہکی کہ میری 

 پارسائی کی چادر داغدار ہوگئی اور اب یہ داغ مٹائے نہیں مٹ سکتا ۔

 أف ۔ تُف ہے سیمو تُجھ پر ۔،

 ایسے ہی خیالات میں غلطاں میں نے غُسل کیا اور روز مرہ کے   

 کاموں میں مشغول ہوگئی ۔ مویشیوں

 کو چارہ ڈالنے کے لئے باہر نکلی تو برآمدے میں پپی اپنی چاٹ رہی 

 تھی ، میں ہنس پڑی ا ور خُود سے بولی سیمو یہ حرام ذادی گرم نہ ہوتی 

 تو میں بھی پٹڑی سے نہ أترتی ، ہائے میں نے کبھی کسی کو گالی نہیں    

 دی میری زبان پر حرام ذادی کیسے آ گیا ا ۔ اسی کے ساتھ میرا خیال 

 پینو کے بھائی شیدے کی طرف چلا گیا ، مگر جلد ہی أس کے خیال سے یہ کہہ 

 کر چھٹکارا پا لیا کہ وہ ایک شوھدا آدمی ہے او ر شھدے آدمی کے بارے 

 کیا سوچنا ، جانوروں کو چارہ ڈالا ، پھر پیجے کے لئے مرغی روسٹ کی 

 اور اس کا انتظار کرنے لگی ۔ وہ جلد ہی آگیا تھا ہمارے دو دن اور 

 دو راتیں عید او ر شب برات بن کر گذرے۔ ۔ تیسرے دن ممانی جان واپس 

 آگئیں او ر أسی شام میرے ماموں بھی آ گئے ۔ جو دو راتیں گذار کر

 پھر چلے جائیں گے ۔ ممانی جان کے آنے کا سُن کر میری سہیلی پینو 

 بھی ان سے ملنے کو آئی ۔ أسے دیکھ کر بے ساختہ أس کے بھائی 

 شیدے کا خیال آگیا جس کا اصل نام نو عبدالرشید تھا 

 مگر اسے بگاڑ کر شیدے کر دیا گیا ۔ أس کا خیال آتے ہی کچھ کچھ ہونے لگا



جاری ہے

*

Post a Comment (0)