Kuti shay - Episode 8

کُتی شئے

قسط 8



ممانی جان کے آنے کا سُن کر میری سہیلی پینو بھی ان سے ملنے کو آئی ۔ أسے دیکھ کر بے ساختہ أس کے بھائی

 شیدے کا خیال آگیا جس کا اصل نام نو عبدالرشید تھا مگر اسے بگاڑ کر شیدے کر دیا گیا ۔ أس کا خیال آتے ہی کچھ کچھ ہونے لگا ۔ ۔۔ پینو کے ساتھ میری اچھی بنتی تھی کیونکہ میں جس قصبہ سے بیاہ کر اس پنڈ میں آئی ہوں پینو کے ننھیال وہیں ہیں یعنی پینو کی امی بھی أسی گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اس لئے ہمارا ایک قسم کا خاص تعلق ہے کیونکہ میرا میکہ اور پینو کے ننھیال ایک ہی قصبہ سے ہیں  

پینو ممانی سے اپنے ننھیال کا حال احوال پوچھ چکی تو میں پینو کو لے کر اپنے کمرے میں آگئی اور ہم دونوں باتوں میں مشغول ہو گئے ۔ باتوں باتوں میں نے پینو کو بتایا کہ پپی ( کتیا) کا ملاپ ہو گیا ہے کتا بھی اسی کی نسل سے ہے ۔ ،

واؤ یہ تو اچھا ہوا ، ہمیں بھی ایک پپی دینا ، بھائی عبدالرشید کو بہت شوق ہے ، ایک کُتا تھا جو ہمارا کزن ملنے آیا تو اس کو بھائی نے أسے دے دیا ۔ اب بھائی کوئی نسلی ڈاگ تلاش کر رہا ہے

میں نے پینو سے ایک پلا دینے کا وعہدہ کر لیا اور اپنے تجسس کو دباتے ہوئے سرسری پوچھا

پینو تمہارا بھائی کرتا کیا ہے ، رہتا تو وہ یہیں گاؤں میں ہی ہے ،، بھائی عبدالرشید نے اردو ادب میں ماسٹر کر لیا ہے 

وہ پرائیویٹ ہی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں اب بھی زمینوں کی دیکھ بھال کے ساتھ انگلش لٹریچر میں ماسڑکی تیاری کررہا ہے ، پروین اپنے بھائی کے بارے بڑے فخریہ لہجے میں بتا رہی تھی اور میرا

خیال پیجے کے شیدے کے بارے انکشافات کی طرف چلا گیا ۔ ایک ہی شخخص کے بارے متضاد رائے 

جان کر میں حیران ہوگئی اور پینو سے پوچھا 

آخر تمہارے بھائی کا مستقبل میں کیا کرنے کا ارادہ ہے تو پینو کہنے لگی ، اصل میں بھائی کوئی تعمیری کام کرنا چاہتے ہیں ، ان کا ارادہ ہے کہ کوئی ایسا تعلیمی ادارہ بنائیں جس میں غریب اور متوسط خاندانوں کے طلبا کو ارزاں تعلیم دی جائے ، واہ یہ تو بہت ہی عمدہ سوچ ہے ۔ ایسا ادارہ کس جگہ بنے گا اور کب تک ان کا بنانے کا خیال ہے ان کا ،میں نے تجسس سے مجبور ہو کر معلوم کرنا چاہا تو پینو

کہنے لگی ، صاف ظاھر ہے اس چھوٹے سے گاؤں

میں تو نہیں بناسکتے ، بھائی نے ننھیالی قصبہ میں

بنانے کا قصد کیا ہوا ہے ، اور اپنے وہاں ہماری امی کےحصہ کی کافی جائیداد بھی ہے اور خوش قسمتی

سے وہ قصبہ کے کنارے پر ہی ہے جس کی وجہ سے

آس پاس کے مضافات بھی مستفید ہو سکیں گے ۔ پینو نے اپنےبھائی کا پورا پروگرام ایک ہی سانس میں

بتادیا

 ، یقیننا وہ کافی پُرجوش نظر آرہی تھی اور ہونا بھی چاہئیے تھا ، بھائی کا

 مثبت اور تعمیری منصوبہ بہنوں کے لئے قابل فخر ہوتا ہے ،

پینو ، یہ تو بہت ہی اچھا پروجیکٹ ہے اور یہاں واقعی

اتنا سکوپ نہیں جتنا ایک شہر نما قصبہ میں ہو سکتا ہے ، میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا ، وہ قصبہ جہاں

میرا میکہ ہے ، آپ أسے دیہات بھی کہ سکتے ہیں اور

شہر بھی ، دس ھزار سے زیادہ ابادی کا ایک چھوٹا

شہر جس میں دیہاتی رسم و رواج اور میل جول کا کلچر کی وجہ سے اسے ایک خصوصی مقام حاصل تھا

وہاں

  ایسا ادارہ اگر بن جائے تو نہ صرف أس قصبہ بلکہ آس پاس کے مضافات کے لئے

مفید ثابت ہوسکتا تھا ۔ پینو اور میں کافی دیر تک باتیں کرتی رہیں ، اور

پینو کے جانے کے بعد میں شش و پنج میں مبتلا ہوگئی

            پینو کے جانے کے بعد میں میں شش و پنچ میں مبتلا ہو گئی کیو ں کہ پیجے

نے مجھے شیدے کے بارے کچھ اور بتایا تھا اور پینو اپنے بھائی کے بارے کچھ

اور بتا رہی تھی ۔ جب سے میری ساس آئی تھی میری اور پیجے کی مُلاقات

نہ ہوئی تھی ۔ ہم نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ ہم احتیاط برتیں گے اور جب تک میں

پیجے کو نہ بلاؤں وہ ملنے کی کوشش نہ کرے گا ۔ ہم نے اشارہ مقرر کیا تھا

کہ جب شیدے کو دیکھ کر میں اپنا دوپٹہ تین بار سر سے ڈھلکا کر سیدھا کروں

وہ سمجھ جائے کہ مجھے أس کی ضرورت ہے ۔ اب میں پیجے سے بات کرنے

کے لئے بے چین تھی کہ شیدے کے بارے کسی صحیح نتیجے تک پہنچ سکوں ۔

شام کو مجھے پیجا نظر آگیا ، میں نے أسے اشارہ کیا تو اس نے بھی اپنی پیشانی

کو کُجھا کے رضا مندی کا اشارہ دیا ۔۔ اور جب ساس ماں عشا کی نماز پڑھنے لگی

تو مجھے ٹائم مل گیا اور میں باھر نکل کے گائے باندھنے کے لئے کونے میں بنے کوٹھڑی

میں لے گئی ۔ مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا ۔ پیجا آہستگی سے کوٹھڑی میں آگیا

اور میں لپک کے أس کے سینے سے جا لگی ۔ ہمیں ملے کافی دن ہو گئے تھے ۔ اور

چوت اپنے اندر لن لینے کو بے چین تھی ۔ پیجے نے مُجھے گلے سے کر خوب بھینچا

اتنے زور سے کہ میرا سانس تک رک گیا میرے ممے اس کی چھاتی کے ساتھ دب کر رہ

گئے ۔ جب ہماری دھڑکنیں کچھ سنبھلیں تو پیجے نے میری ٹھوڑی اوپر کی اور میرے

لبوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر ایک بھرپور بوسہ دیا میں نے اس کے نچلے ہونٹ کو اپنے

لبوں میں دبا لیا اور چوسنے لگی ۔ پیجے نے میری شلوار کے نیفے سے ہاتھ کرکے میری

چوت پر مساج کرنے لگا چوت تو پہلے سے گیلی تھی ، اور چاہتی تھی کہ جتنا جلدی ممکن

ہولن اس کو چود دے ، اس کا لن میرے جسم سے ٹکرا کر اپنی بے چینی کا رونا رو رہا تھا

میں نے اسے ہاتھ میں لے لیا وہ لوہے کی طرح سخت تھا اور گرم ایسا کہ ابھی دہکتی بھٹی

سے نکلا ہو ۔ میرا من تو چاہا اسے چوس لوں مگر ہمارے پاس ٹائم نہی ، میں نے پیجے

سے کہا جو کرنا ہے جلدی کرلو اور اس نے میری شلوار کا ازار بند کھول کے اپنی شلوار بھی

نیچے کھسکا دی ، اس نے میری بیک سائیڈ اپنی طرف اور مجھے جھکنے کو کہا سامنے گائے

کی کُھرلی تھی اس پر ہاتھ کر میں گھوڑی بن گئی اور پیجے نے اپنا میری گیلی چوت پر

رگڑنا شروع کردیا جس سے مجھے مزا آنے لگا اور میں نے اپنی ٹانگیں مزید کھول دیں

رگڑتے مسلتے پیجے نے اپنا لن ایک جھٹکے سے چوت کے اندر آخر تک پہنچا دیا میرے منہ سے

لذت بھری سسکاری سن کر پیجا دھکے پر دھکا لگانے لگا ۔ مجھے آنے لگا اور میں بھی اس

کا ساتھ دینے لگی پیجے کے ہاتھ میرے سے کھیل رہے تھے میں چھوٹنے والی ہو گئی تھی

میں نے گردن موڑ کر پیجے کی طرف دیکھ تو اس نے جھٹ اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر

رکھ دیئے اس کا اک بازو میری گردن کے گرد تھا اور دوسرا ہاتھ میرے ممے کو دبا رہا ۔

میرے اس کے ہونٹ کو چوسنے لگی ۔اب پیجا جوش میں آکر بے دردی سے چودنے لگا

جب اس کے جھٹکوں کی سپیڈ تیز ہو گئی تو میں سمجھ گئی کہ میری طرح پیجے کی بھی

چُھٹی ہونے لگی ہے میں مزید جُھک گئی تاکہ لن کا سواد لے سکوں ، میں نے پیجے کے کان میں کہا مجھے بھر دے اور اندر ہی اپنا لاوا ڈالے اس نے ایسے ہی کیا اس کا گرم گرم شیرے

میں چوت میں گرا تو ایسا لگا جیسے چوت کی انگیٹھی بجھ گئی ہواور چوت میں لگی آگ ٹھنڈ ی پڑگئی ہو میری چوت پیجے کے لن کو بھیچنے لگی اور جب تک أس کا آخری قطرہ

تک نچوڑ نہ لیا اسے وہ بھینچتی ۔ پیجے کا لن الوداعی دھکے لگاتے ہوئے آہستہ آہستہ چوت سے

باھر کھسک آیا ۔ میں نے اپنی شلوار جو میرے پاؤں میں ہی پڑی تھی اوپر کرکے ناڑہ باندھا

او پلٹ کر پیجے کو چومنے لگی اور چومتے چومتے اس کی گردن اس کے پیٹ کو چومتے

اس کو پکڑا تو وہ اپنے اور میر ے شیرے میں لت پت لگا ، میں نے جھٹ سے اسے اپنے منہ میں لے اور اس پر سارا رس صاف کردیا ۔ پھر اس کی شلوار اوپر کی اور اس کا آزار باندھا

اور اس کے گلے لگ گئی ۔ پیجا مجھے اپنے ساتھ چمٹا کر چومنے لگ گیا اور میرے بالوں

کو اپنی انگلیوں سے سنوارنے لگا ۔ من ت چاہتا تھا وقت ٹہر جائے اور میں یوں ہی پیجے

کے گلے لگی رہوں مگر ڈر بھی تھا کہ کہیں ساس کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے اواز دے اور مجھے نہ پا کر کہیں باھر ہی نہ آجائے ، اگزچہ اس کا امکان کم ہی تھا پھر بھی میں

کوئی رسک لینا نہ چاھتی تھی ۔ میں پیجے کی باہوں کے دائرے سے نکلی اور اس کا ہاتھ پکڑ کے کُھرلی ( مویشیوں کو چارہ ڈالنے کے لئے بنی ہوئی جگہ ) پر ہی ہم دونوں ٹک گئے

دو چار باتیں اور حال احوال لینے کے میں اپنے تجسس کو دور کرنے کے لئے بولی ۔

میں ، پیجے ، کل پینو آئی تھی

پیجا ، پینو کون

میں ، پروین میری سہیلی

پیجا ، اوہ شیدے کی بہن

میں ، ہاں وہی کل ہمارے ہاں مامی( میری ساس) سے ملنے کے لئے آئی تھی

پیجا، اچھا تو پھر

میں ، اڑیا وہ تو اپنے بھائی کی بڑی تعریف کرہی تھی ۔

پیجا ، اچھا بہن جو ہے اس کی ، ویسے شیدا ل کا بُرا نہیں بس زبان کا تکھا ہے

میں ۔ وہ کہہ رہی تھی أس کے بھائی نے ڈبل ایم اے کیا ہوا ہے

پیجا ، ہاں وہ پڑھائی میں توشروع سے تیز ہے اور پرائیویٹ پڑھتا بھی رہتا ہے اور آج کل

تو اس کے سر پر ایک اور بھوت سوار ہے

میں ، ہیں کیسا بُھوت ؟

پیجا ، وہ کہتا ہے کہ اس علاقے میں ایک ایسا تعلیمی ادارہ بنانا چاہتا ہے جس کا تعلیمی

میعار ان پرائیویٹ سکولوں سے اچھا ہو ۔ اورغریب والدین کے بچوں کے لئے فیس برائے نام

ہو ۔

میں ، واہ بہت اچھا پروگرام ہے أس کا یہ تو اگر ایسا ہو جائے اس علاقے کا کم از کم اک مسلہ تو حل ہو جائے

پیجا ، ناممکن لگتا ہے ایسا ہونا ، یہ تبھی ممکن ہے جب مستقل مزاجی سے یہ کام کیا جائے

اور سرمایہ بھی کافی ہو ۔

میں ، ہاں صخیح ہے غیر مستقل مزاج لوگ ایسے پروجیکٹ نہیں بنا سکتے مگر پینو

تو بڑی پُر أمید ہے اور پُر جوش بھی

پیجا ، اچھا ہے ویسے پرویں پانجویں تک میری کلاس فیلو تھی اور وہ لائق بھی بہت تھی

میں ، اچھا ، یہ تو بڑی اچھی بات ہے ، اب بھی دوستی ہے اس سے تمہاری یا نہیں

پیجا ، نہیں سیمو ، کیسی بات کرتی ہو ،

میں ، ارے اتنی سوھنی تو ہے وہ تعلیم یافتہ روشن مزاج بھی

پیجا ، وہ تو صحیح ہے جب بھی ہم لڑکے لڑکیوں کے بارے بات کرتے ہیں تو سب کی

ایک ہی رائے کہ سیمو کے بعد پینو کا نمبر ہے باقی سب لڑکیوں کے نمبر بعد میں آتے

ہیں ، اور پیجا مجھے چومنے لگا ، میں نے اس کے گلے میں اپنی باہیں ڈالیں اور اس کی

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہا اور اب سیمو سب سے سوہنے گبھرو پیجے کی یار ہے

یہ کہتے ہوئے میں نے پیجے پر بوسوں کی برش کردی ۔

پیجا ، صحیح ہے مگر سچ یہ ہے کہ ہم سب سے سوھنا گبھرو شیدا ہی ہے پھر

میرا نمبر ہے ۔ ویسے شیدا آج کل اسی تعلیمی مسلے پرہی سوچتا رہتا ہے ۔ پچھلے ہفتہ

مُجھے سب سے الگ کر کے کہنے لگا ، پیجا تم اگر بی ایڈ کر لو تو اس شرط پر تم کو

اپنے ادارے میں کام دے سکتا ہوں اگر تم مزید تعلیم جاری رکھنے کا وعہدہ کرو تو

میں ، اچھا تو تم نے کیا بولا

پیجا، میں نے کیا بولنا تھا ، شہر پئے نہیں چکے پہلے ہی آگئے

میں نے کچھ بولنا مناسب نہ سمجھا اور پرویز سے کہا میں جب رسوئی میں پہنچ

جاؤں تو تم ہولے سے کھسک لینا اورایک ہفتہ اسی ٹام ملنے کا پروگرام بنا کر میں رسوئی

میں آگئی اور وہاں سے ساس ماں کے کے کمرے میں جھانکا تو وہ وظیفے میں مشغول تھیں۔

میں اپنے کمرے میں آئی اور فریش ہو کر اپنے بیڈ پر لیٹی تو مسکراھٹ میرے لبوں پر

کھیل رہی تھی اور بہت خوش اور مطمئین تھی ، پیجے کے باتوں سے مجھے تسلی ہو گئی

کہ غبدالرشید کچھ کر گذرے گا ۔ سچ تو یہ کہ شروع میں جب پیجے نے میرے بارے اس کے

ریمارک بتائے تو مجھے بہت غصہ آیا ۔ پھر جب بار باار اس کے ریمارک یاد آتے گئے میرے غصہ میں کمی آتی گئی اور پھر وہی ریمارک مجھے اچھے لگنے لگے ، پھر جب پیجے نے نادانستگی میں اس کے لمبے ہتھیار کی بات کی تو میرا من کوئ کھجڑی بنانے لگا

اپنے خاوند سے تو بے وفائی کر ہی چُکی تھی پیجے سے چُدوا کر اور اب شرم و حیا بھی

أتر گئی تھی تو میں سوچنے لگتی کہ کیا کروں کہ شیدے کے ساتھ سونے کا موقع مل سکے ۔

مگر پینو نے جب اپنے بھائے کے خیالات سے آگاہ کیا تو شیدے کے لئے دل میں اچھے جذبات

کا بھی اضافہ ہوگیا اور پیجے کی باتوں سے ظاھر ہوا کہ شیدا بُرا نہیں دل کا اچھا

اور اب مجھے یقین ہو چلا تھا کہ من کا سچا اور دُھن کا بھی پکا ہوگا یعنی مستقل مزاجی

سے وہ اپنے پروگرام کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچائے گا

شیدے کے خیالوں میں کھوئی میں نیند کی وادی میں داخل ہو گئی




جاری ہے

*

Post a Comment (0)