ads

Meri Bhabhi Meri Dulhan - Episode 2

میری بھابھی میری دلہن


قسط نمبر 2


سچی کہانی سبق اموز کہانی

 

 ۔ جب میں نے فرحین کو وہ گفٹ دیا ۔ تو اس نے کہا مجھے یہ تحفہ نہیں چاہیے ۔میں چاہتی ہوں کہ تم ہمارے رشتے کی بات اپنے ابا سے کرو ۔ اور پھر مجھے یہ تحفہ دو ۔ تب میں اسے قبول کروں گی ۔ اب مجھے مزید برداشت نہیں ہورہا ۔ کب تک تمہارے نام پر بیٹی رہوں گی ۔ امید ہے کہ تم میری بات کا مطلب سمجھوگے کہ خلد از خلد ہماری شادی ہو جائے ۔ اس کی بات سن کر میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی

: گھبراہٹ کےمارے میں فورا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ فرحین نے پوچھا ۔ کیا ہوا ہے ۔ سب ٹھیک تو ہے میں نے کہا . دراصل میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ مجھے جلدی گھر جانا ہوگا ۔ یہ کہہ کر میں فورا وہاں سے نکل گیا لیکن کب تک میں اس سے بھاگتا ۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ سب کیا چل رہاہے ۔ میں نے خود کو ایک کمرے میں بند رکھا اور سوچنے لگا کہ کیا ہورہا ہے . مجھے وجدان بھائی کا خیال آیا ۔ جنہوں نے مجھے بچپن میں کھلایا تھا میں ان سے کافی چھوٹا تھا ۔ بھابھی سے بھی بہت چھوٹا . مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ بھابھی نے مجھ سے شادی کا کہا ہے وہ چاہتی تو انکار کرسکتی تھی ۔ اور ابا کو بتاسکتی تھی کہ وہ کسی اور سے شادی کرے گی مگر بھابھی نے ایسا نہیں کیا ۔ تو کیا وہ مجھ سے محبت کرتی ہے ۔ میرے بھائی بھابھی پر جان لٹاتے تھے ان کی مجبت کی داستان الگ تھی میرے بھائی نے سب کے خلاف جاکر فیصلہ کیا کہ وہ جویریہ سے شادی کریں گے ۔ اور ان کی محبت اتنی گہری تھی کہ باوجود اولاد نہ ہونے کے انہوں نے دوسری شادی نہیں کی ۔ کیا جویریہ نے میرے بھائی کی محبت قبول نہیں کی تھی یہ سوچتے ہوئے مجھے بھابھی کے وجود سے گھن ارہی تھی مجھے ان سے شکوہ تھا اب: میں دل ہی دل میں بھائی کو یاد کررہا تھا جیسے میں ان سے کہہ رہاہوں ۔ بھائی یہ دیکھیں اپ کی بیوی نے کیا کیا ۔ جنہیں میں اپنی ماں کی جیسی سمجھتا تھا انہوں نے اس دن مجھ سے کتنی عجیب بات کردی کہ اب میرا دل ہی نہیں کر رہا میں ان کی انکھوں میں کیسے دیکھوں ۔ یہ سوچتے ہی مجھے خیال آیا کہ مجھے وجدان بھائی کی قبر پر جانا چاہیے ۔ جب میں وہاں پہنچا تو بھابھی بھی بھائی جان کی قبر پر حاضری دے رہی تھی ۔ بھابھی کو یہ حرکت کر تے دیکھ کر میں ایک دم ٹھٹک گیا ۔ اگر بھابھی مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہیں تو وہ وجدان بھائی کی قبر پر کیوں آئی ہیں ۔ وہ بہت زیادہ رورہی تھی پھوٹ پھوٹ کر جیسے کچھ بوجھ کم کرنا چاہتی ہو وہ وجدان کی قبر پر یہی کہہ رہی تھی ۔کہ مجھے معاف کردو مگر میں کیا کروں میں مجبور ہو ں یہ سب سن کر میں نے فورا بھابھی کو بلایا جب بھابھی نے مجھے دیکھا تو ان کے چہرے کی ہوائیں اڑ گئی اور وہ فورا اٹھ کھڑی ہوئیں ۔ انہوں نے کہا تم کیا کر رہے ہو ۔ کیوں چپ ہو ۔ میں نے بھابھی سے کہا بھابھی میں جان گیا ہو کہ جو کچھ آپ کر رہی ہیں ۔ وہ مجبوری کے تحت کر رہی ہیں ۔ ابھی بھی موقع ہے سچ سچ بتائیں کہ اپ یہ سب کیوں کر رہی ہیں اور کیوں مجھ

: سے نکاح کرنا چاہتی ہیں ۔ بھابھی نے جواب دیا ۔ دیکھو زاران میں یہ نکاح اس لیے کر رہی ہوں تاکہ میں تمہاری خاندان کے ساتھ رہ سکوں دل سے ہی میں تمہیں قبول کرنا چاہتی ہوں ۔ میں تمہارا اتنا خیال رکھتی تھی ۔ اور اب میں شادی کے بعد بھی تمہارا خیال رکھنا چاہتی ہوں ۔ یہ سن کر میں نے بھابھی سے اپنا رخ موڑ لیا ۔ مجھے یقین نہیں آرہاتھا کہ وہ ایسی باتیں کررہی ہیں ۔ وہ فورا وہاں سے چلی گئی ۔ جب میں بھائی کی قبر کو گھور رہاتھا ۔ تو ایسا لگ رہا تھا جیسے قبر کی مٹی اڑ مجھے کہہ رہی ہو کہ جو میرے دل میں ہے وہی کرو ۔ پر دماغ نے کہا کہ فرحین کو کیسے بھول سکتے ہو یہ سوچتے ہوئے میں نے زندگی کے ایک نئے مرحلے میں قدم رکھ رہا تھا ۔ میرے نکاح کا دن آپہنچا تھا اور میرے دونوں بھائی مجھے تیار کرہے تھے ۔جب میں نیچے آیا تو بھابھی بھی میرے نام کی دلہن بن کر سجی ہوئی بیٹھی تھی ۔ اس کے جہرے پر کوئی شکن نہیں تھی ۔ وہ بالکل مطمئن اور خوش نظر آرہی تھی ۔ ابو بھابھی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسکرارہے تھے اور نہ جانے کس قسم کی داد دے رہے تھے ۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا ۔ کہ یہ سب حقیقت میں ہورہا ہے ۔ پھر کچھ دیر بعد نکاح خواں وہاں پہنچا اور نکاح پڑھایا

: میرا بھابھی سے نکاح ہوگیا ۔ رات کے آخری پہر میں اس کمرے میں جانے سے کترا رہاتھا جو میرے نام پر تھا میں جانتا تھا کہ جب میں چھوٹا تھا ۔ تو میرے کمرے میں کسی کوجا نے کی ایجازت نہیں تھی ۔ لیکن میں صرف بھابھی کو ہی آنے کی اجازت دیتا تھا 

یہ سوچ کر مجھے وحشت ہورہی تھی میں کمرے کو دیکھ رہا تھا جس کا دروازہ بند تھا اور میری بھابھی میرے نام کی دلہن بیٹی تھی ۔ میں اپنے بڑے بھائی کی روح کو کیا جواب دوں ۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں نے ان کی محبت کو تکلیف پہنچائی ہے ۔ لیکن مجھ سے زیادہ ان کی اہنی بیوی نے انہیں تکلیف دی تھی ۔ میں بھابھی سے سب سوالات کرنا چاہتا تھا اج تک میں نے انہیں عزت دی تھی اور چاہتا تھا کہ ساری زندگی ان کی عزت دوں ۔مگر انہوں نے جو فیصلہ کیا تھا اس سے میرے دل میؓ ان کے لیے عزت کم ہوگئی تھی 


 مجھے فرحین کا بھی خیال آرہا تھا ۔ اور مجھے احساس ہورہاتھا کہ میں نے اسے دھوکہ دیا ہے جب اسے پتہ چلے گا ۔ کہ میں نے اپنی زندگی کی اور ڈور کسی اور کو تہمادی تو وہ کیا رد عمل دکھائے گی یہ سوچتے ہوئے میرے ذہن میں اچانک خیال آیا کہ میں ابھی جاکر بھابھی کو طلاق دے دوں ۔جب اتنے میں اماں میرے پاس آئیں میں نے انہیں کہا

: میں نے انہیں کہا اماں میں بھابھی کےپاس نہیں۔جاوں گا اماں نے مجھے ایک چپٹ لگائی اور کہا وہ تمہاری بھابھی نہیں اب تمہاری بیوی ہے جنتا جلدی اس بات کو قبول کروں گے اتنا ہی بہتر ہوگا ۔ سمجھ گئے جاو اور یہ دودھ لے جاو یہ تمہارے لیے ہے ۔ ضرور پینا ۔ اماں نے مجھے دودھ کا گلاس دیدیا ۔ میں نے دودھ کا گلاس پکڑکر تیزی سے اندر جانے کا فیصلہ کرلیا تھا کہ جویریہ کوطلاق دوں گا۔ میں اس کا نام لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کررہاتھا ۔ لیکن اب میں مجبور تھا میں نے دووازہ کھٹکھٹائی بغیراندر جانے کی زحمت کی ۔ اور دیکھا کہ جویریہ فریش ہورہی تھی ۔ اسے خوش دیکھ کر میرے چہرے پر غصہ اگیا میں نے دودھ کا گلاس سائڈ پر رکھ دیا اور میرے دماغ میں غصہ بھرا ہوا تھا جویریہ کو دیکھ میری نسیں تن گئی تھیں ۔ اور میں نے چکر کاٹ رہاتھا جو کچھ بھی ہو جویریہ کا چہرہ بالکل مطمئن تھا ۔ وہ دودھ کے گلاس کو دیکھ کر میرے پاس ائی غصے اور جزبات کےملے جلے تاثرات کی وجہ سے مجھے پانی کی طلب ہوئی تھی پر روم میں صرف دودھ ہی موجود تھا تب میں نے دودھ کا گلاس تھام لیا پر اس سے پہلے کہ میں دودھ کا گلاس اپنے ہونٹ سے لگاتا جب بھابھی نے گلاس کو میرے ہاتھ سے کھینچ

: کر فورا فرش پر پھینک دیا میں اس کی اس حرکت کو نوٹ کر رہاتھا ۔اور مجھے شدید غصہ آیا میں نے جویریہ سے کہا بھابھی یہ کیا حرکت ہے ۔ آپ نے یہ کیوں کیا ۔ پہلے ہی کم ہے اور اپ نے ایک نیا ڈرامہ شروع کردیا ہے جویریہ نے جواب دیا جو میں نے کیا ہے وہ سوچ سمجھ کر کیا ہے ۔ تم بالکل نہیں سمجھوں گے ۔ اور ہاں اب میں تمہاری بھابھی نہیں تمہاری بیوی ہوں ۔ اور تمہارا پورا خیال رکھوں گی ۔سمجھےتم ۔۔ 



جاری ہے


Post a Comment

0 Comments