ads

Meri Bhabhi Meri Dulhan - Episode 3

میری بھابھی میری دلہن 


قسط نمبر 3

سچی کہانی ۔سبق اموز 


آب میں تمہاری بھابھی نہیں تمہاری بیوی ہوں ۔ اور تمہارا پورا خیال رکھوں گی ۔ سمجھے تم ۔

: اس کاجواب سن کر مجھے کوفت ہونے لگی .میں نے جلدی سے اپنا تکیہ اٹھایا اور صوفے پر جابیٹھا اگلے دن جب میری آنکھ کھلی تو میں نے بیڈ پر نظر ڈالی جہاں میرا لباس تیار تھا ۔ آج ولیمہ تھا ۔میں نے دیکھا کہ جویریہ میرے جوتے پالش کر رہی تھی ۔اسے ایسا کرتے دیکھ کر میں فورا تڑپ کر اٹھا میں نے اس کے ہاتھ سے پولش لی دور جاکر پھینک دی پھر انگلی دکھاکر کہا دیکھو جویریہ ۔میں نے آپ کی بہت عزت کی ہے اور آگے بھی آپ کی عزت کرنا چاہتا ہوں ۔مگر آپ یہ سب کیوں کر رہی ہو ۔ کیا آپ میرے بھائی جان کی محبت کو بھلا دیا ہے میرے بھائی جان نے آپ پر جان لٹائی تھی ۔ پلیز میرے بھائی کی روح کو تکلیف نہ پہنچاو ۔ کم از کم اس کی محبت کے لیے تو یہ سب مت کرو میرے بھائی کی قبر کی میٹی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی ۔ میں اور بہت زیادہ پریشان تھا میری باتوں کا بھابھی پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ اور میں سمجھ نہیں پارہا تھا ۔ کہ وہ یہ سب کیوں کر رہی ہے ۔ ولیما کے بعد بھی جویریہ ویسے ہی میرے ساتھ بیٹی رہی ۔ یمیشہ میرے ساتھ کھانا کھاتی ۔ اور ہر وقت میرے ساتھ رہتی جب مجھے فرحین کا خیال آیا تو میں نے گاڈی نکالی اور اس کے پاس جانے لگا لیکن 

اچانک بھابھی جویریہ نے مجھے

: روک لیا بھابھی نے کہا ۔ زاران تم اکیلے نہیں جاوں گے میں تمہارے ساتھ جاوں گی ۔ اس کی بات سن کر میں نے حیرت سے اسے دیکھا اور غصے سے بولا کیا ضروت ہے آپ کیوں نہیں چاہتیں کہ میں آرام سے سکون کی سانس لے سکوں ابا نے بھی جویریہ کو روکا کہ اگر یہ باہر جانا چاہتا ہے تو اسے جانے دو جویریہ نے ابا کو انکار کیا .. نہیں ابا میں اس کے

: ساتھ جاوں گی ۔ ابا نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا لیکن بھابھی اپنی بات پر قایم تھی ۔وہ میرے پیچھے پیچھے آتی رہی ۔ جب نے ایک بار غصے سے اپنا ہاتھ سٹیرنگ وئیل پر مارا تو وہ زخمی ہوگیا ۔ بھابھی نے میرا ہاتھ پکڑلیا اور میں نے اس کا ہاتھ جھٹک کر واپس اندر چلاگیا . لیکن وہ پھر بھی میرے پیچھے پیچھے آئی ۔ میں نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کی لیکن جویریہ بھابھی میرے ساتھ کمرے میں اگئی ۔ وہ میرے زخم پر مرہم لگا رہی تھی ۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی تکلیف کیوں برداشت کر رہی ہے ۔ جہاں کبھی میں جاتا ہو بھابھی جویریہ میرے ساتھ سائے کی طرح چلی آتی ۔ پہاں تک کہ جب میں چھت پر گیا تا کہ گہری سانس لے سکوں اور دل کو سکون پہنچا سکوں ۔ تو وہاں بھی جویریہ میرے ساتھ تھی ۔ ایک روز ملازمہ کمرے میں کھانا لے کر آئی ۔ جب میں کھانا کھانے لگا تو اچانک بھابھی نے کھانے کا ایک نوالہ پہلے خود لے لیا ۔ اس حرکت پر میرا غصہ پھٹ گیا ۔ میں نے اسے بازو سے پکڑ کر کہا ۔ اب بتائیں آپ نے اب حد پار کر دی ہے ۔ آپ چاہتی کیا ہو ۔ جویریہ آنسو بہانے لگی ۔ کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ میں نے اسے تکلیف 

پہنچائی ہے میں نے فورا اپنے ہاتھ پیچے

: پیچھے کیے اور کہا ۔ میں نے آپ کو اذیت دی میں معزرت خواہ ہوں ۔ جب وہ رو کر بولی کہ میں نے تم سے صرف نکاح کیا ۔ اگر میں نے کوئی غلطی کی ہے ۔ تو پلیز معاف کردو پر مجھے اس طرح سزا نہ دو ۔ جویریہ نے کہا ۔ میں جو سب کر رہی ہوں ۔ وجدان بھی وہی کرتا تھا ۔ اگر تمہیں لگتا ہے ۔ کہ میں وجدان کو دھوکا دے رہی ہوں ۔ اگر ایسا لگتا ہے تو ایسا نہیں ہے ۔وجدان میری زندگی میں تھا لیکن اب وہ چلاگیا ہے ۔ میرا نکاح تم سے ہوا ہے ۔ اور میں تمہاری بیوی ہوں

۔ میں تمہارے

: ساتھ جو کر رہی ہو اس کے پیچھے کوئی بری نیت نہیں ہے ۔ اس کی باتیں سن کر مجھے حیرت ہوئی کہ وہ کتنی آرام سے یہ سب کہہ رہی تھی ۔ میں نے کہا ۔ جویریہ یہ اب کیا ہوگیا ہے ۔ اخر اپ کو کیا ہوگیا ہے میری اپنی زندگی تھی ۔ میں آپ پر اتنا غصہ نہیں ہوں جتنا اس بات پر ہوں کہ اپ نے مجھ سے نکاح کے لیے رضامندی دی تھی ۔ اگر اپ نے وہ نہ کیا ہوتا تو آج میں اپنی زندگی میں بہت خوش ہوتا ۔ میں نے آپ کو ہمیشہ عزت دی اور آج بھی عزت دیتا ہوں میں نے بھی نہیں سوچا کہ آپ مجھ سے نکاح کے لیے راضی ہوجاوگی ۔ آپ نے یہ سب کیوں کیا ۔ مجھے جواب چاہیے ۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے اس نے نظریں چرالیں اور مجھے اچانک خیال ایا کہ شاید ابا نے اسے دھمکی دی تھی یا مجبور کیا تھا ۔ جویریہ کی خاموشی کا مطلب میں سمجھ گیا تھا ۔ میں ابھی بھی یقین نہیں کرپارہاتھا کہ یہ سب کچھ ہورہاتھا ۔ میں بے چینی سے چکر کاٹنے لگا میں نے صبر وتحمل کےساتھ جویریہ کو اپنے ساتھ بٹھایا اور کہا ۔ جویریہ ۔ پلیز ساری بات بتاو ۔ میرے ابا نے آپ سے کیا کہا کہ آپ نے مجھ سے نکاح کے لیے رضامندی ظاہر کی ۔ بھابھی نے کہا ہاں یہ۔بات سچ ہے دراصل 

تمہاری ابا نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر

: یہاں رہنا ہے توتم سے نکاح کرنا ہوگا ۔ میں بہت مجبور تھی وہ نہیں چاہتے تھے کہ تمہارے نکاح خاندان سے باہر ہو ۔ وہ چاہتے تھے کہ بس تمہارا نکاح خاندان کے اندر ہی رہے ۔ لیکن یہ وجہ نہیں تھی جس کی وجہ سے میں نے تم سے نکاح کیا ۔تمہارے ابا کی اور وجہ سے چاہتے تھے ۔ کہ میں تمہارے نکاح میں رہوں ۔ لیکن ایک سچائی اور بھی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ تمہارے بھائی وجدان بھی پہی چاہتے تھے کہ اگر خدا نخواستہ زندگی میں ایسا موڑ آگیا کہ وہ ہم سے بچھڑ جائیں تو پھر میں تمہارے ساتھ رہوں ۔ میں ہر موڑ پر تمہارا ساتھ دوں ۔ تمہیں کبھی بھی الگ مت سمجھوں وہ پہی چاہتے تھے ۔ اسی لیے ان کی خواہش کی خاطر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ تم سے نکاح کرلوں گی ۔ تمہارے ابا کو نہیں پتہ کہ وجدان یہ چاہتے تھے ۔ بھابھی جویریہ کی باتیں سن کر میرے ذہن کے لیے یہ باتیں قبول کرنا مشکل ہورہا تھا ۔ کہ وجدان بھائی ایسی باتیں کہیں گے ۔ میں نے کہا ۔ مجھے آپ کے الفاظ پر یقین نہیں آرہا ۔ جویریہ نے جواب دیا ۔ تمہیں میری باتوں پر یقین نہیں آرہا نا ۔ تمہیں کچھ ایسا دکھاوں گی جیسے دیکھ کر تمہارا یقین پختہ ہوجائے گا ۔ پھر تمہیں یقین کرنا یوگا کیونکہ تم ہی وجدان کی موت کی وجہ ہو جب بھابھی جویریہ نے کہا اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے میرے پاوں تلے سے زمین نکل گئی


 جاری ہے 



Post a Comment

0 Comments