ads

Meri Bhabhi Meri Dulhan - Episode 4

میری بھابھی میری دلہن 


قسط نمبر 4

سچی کہانی سبق آموز


: میں نے بھابھی سے کہا ۔ مجھے آپ کے الفاظ پر یقین نہیں آرہا ۔ جویریہ نے جواب دیا ۔ تمہیں میری باتوں پر یقین نہیں آرہا نا ۔ تمہیں کچھ ایسا دکھاوں گی جیسے دیکھ کر تمہارا یقین پختہ ہوجائے گا ۔ پھر تمہیں یقین کرنا یوگا کیونکہ تم ہی وجدان کی موت کی وجہ ہو 

: جب بھابھی جویریہ نے کہا اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے 

: آور میں پھٹی نظروںبسے اسے گھورہاتھا کہ وہ یہ سب کیا کہہ رہی ہے ۔ جویریہ نے کہا ہاں زاران تمہارے ابا اور وجدان کی اس رات لڑائی کی وجہ صرف اور صرف تم تھے ۔ وہ تمہاری وجہ سے لڑ رہے تھے کیونکہ تمہارے ابا چاہتے تھے کہ تمہاری شادی خاندان کی کسی لڑکی سے ہوجائے تاکہ تم کہیں اور نہ جاو۔ لیکن وجدان نے تمہارے ابا سے کہاتھا کہ اسے ہمارے ساتھ باندھ کر نہ رکھیں ۔ اس کی اپنی زندگی ہے ۔ اسے گزار نے دو ہمیں اس پر کوئی حق نہیں ۔ تمہارے ابا نے کہا کہ نہیں ۔ میں نے کافی سالوں تک اس کے بڑے ہونے کا انتظار کیا ہے ۔ اب یہ بڑا ہوگیا ہے تو میں اسے اپنے ہاتھوں سے نہیں جانے دوں گا ۔ میں نے اسے اس لیے نہیں پالا کہ یہ اپنی مرضی کرے گا ۔ اور پھر ہمارا کوئی فایدہ نہیں رہے گا ۔یہ سب کچھ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔ اس کی باتیں سن کر مجھے پقین نہ آیا کہ یہ سب کچھ ہورہا ہے ۔ جویریہ کا یہ سب بتانے کے بعد میں نے یاد کیا کہ کیسے ابا نے مجھے اس جگہ سے اٹھا یا تھا ۔ جب مجھے میرا ماضی دھندلی جھلکیوں کی طرح یاد آنے لگے ۔ یہ بات تب کی ہے ۔ جب میں چار سال کا تھا ۔ جب میں نے اہنے سگے ماں باپ کے ساتھ ایک محل نما گھر میں رہتا تھا میری خوشیوں کی حد نہ

: تھی ۔ وہ محل نما گھر میرے سگے ابا کی محنت کا تھا ۔ سالگرہ کے دن میرے سگے ابا خوشی خوشی آئے اور میری اماں سے کہا ۔ چلو ہم اپنے بیٹے کو کہیں ۔ اچھی جگہ لے کر جاتے ہیں اماں نے یہ سنا تو بہت زیادہ خوش ہوگئی تھی ۔ ہم تینوں سیر کے لیے نکل۔گئے ۔ میں گاڈی کی پچھلی سیٹ پر تھا جبکہ میرے ماں باپ آگے تھے ۔اچانک ابا نے بتایا کہ بریک فیل ہوگئی ہیں ابا نے اماں کو گاڈی سے باہر نکلنے کو کہا تھا پر اماں ابا کو پہی کہہ رہی تھی لیکن اگلے ہی پل ایک گاڈی کسی چیز سے ٹکرا گئی تھی ۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں وجدان بھائی کے پاس تھا ۔

تینوں بھائی میرے سامنے کھڑے تھے اور مجھے کافی خوش کر رہے تھے ۔ مجھے اتنا پیار ملا کہ میں اپنے پچھلے ماں باپ کو بھول چکا تھا ۔ یہ سب لوگ مجھے سر انکھوں پر بٹھا کر رکھتے تھے ۔ میری ہربات مانی جاتی تھی ۔ ابا نے میرے ناز نخرے اٹھا ئے کہ میں انہیں اپنا باپ سمجھتا تھا ۔ لیکن جب جویریہ کی بات سن کر مجھے اپنے ماضی کی یاد آئی تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ ابا کیا چاہتے تھے ۔ کیوں چاہتے تھے ۔ کہ جویریہ کی شادی مجھ سے ہو ۔ جویریہ نے کہا کہ وجدان بھائی بھی پہی چاہتے تھے ۔ جویریہ کی بات سن کر میں نے اسے بہت سے سوالات

: سوالات کیے کہ وہ مجھے کھل کر کیوں نہیں بتا رہی وجدان بھائی کے دل میں کیا گہرا صدمہ تھا جس نے دل کا دورہ پڑنے پر مجبور کیا ۔ ابا کے منہ سے کوئی ایسی بات نکلی ہوگی جس نے وجدان بھائی کے دل پر گہرا اثر ڈالا ۔ میری بات سن کر جویریہ خاموش ہوگئی ۔ لیکن وہ اب بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی ۔ وہ ہمیشہ ایک ڈھال کی طرح میرے ساتھ رہتی تھی ۔ ایک روز تنگ اکر میں نے چیخ کر بھابھی سے کہا ۔ خبر دار آج کے بعد آپ میرے ساتھ آئی ۔ میری زندگی اپ نے جہنم بنادی ہے ۔ جویریہ نے جواب دیا ۔ میں ایسا بالکل نہیں کروں گی ۔ کیونکہ آپ کی زندگی کو خطرہ ہے ۔ جب میں نے پوچھا کہ کس سے خطرہ ہے ۔ یہ سن کر میری روح فنا ہوگئی ۔ میں جویریہ کو حیرات سے دیکھ رہاتھا ۔ اور بولا آپ ہوش میں تو ہو ۔ یہ کیسی باتیں کر رہی ہو ۔ جویریہ نے روم کا دروازہ بند کیا اور میرے سامنے ایک لال رنگ کی پو ٹلی لے کر آئی وہ میرے سامنے رکھی اور بولی تھی کہ یہ پوٹلی میری نہیں بلکہ تمہارے بھائی وجدان کی ہے ۔ اس میں تمہیں تمہارے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے اس میں وجدان کا خط ہے جو تمہرے نام لکھا ہے ۔ اور مجھے سے پہی کہا تھا کہ ضرورت پڑنے پر اگر میں پہاں نہ ہوا یا کہیں بھی

: تو تم یہ خط زاران کو دے دینا تاکہ وہ سمجھ جائے کہ جو اس کے اپنے لگتے ہیں وہ در اصل سے میں اس کے اپنے نہیں ہیں میں نے جیسے ہی اس کی باتیں سنی تو میری روح فنا ہوگئی تھی ۔ میں نے جلدی سے وہ خط کھولا تھا اسے پڑھتے ساتھ میرے پیروں تلے زمیں نکل گئی تھی.


جاری ہے


Post a Comment

0 Comments