ads

Momina aur Sana - Episode 30

میمونہ اور ثناء

قسط 30




کمرے میں آتے ہی فرخندہ مجھ سے لپٹ کر رونے لگی میں اور بھی پریشان ہو گیا۔۔ فرخندہ مجھ سے لپٹے لپٹے مجھے بیڈ کی طرف لے گئی اور بیڈ پر لیٹنے کو کہا۔۔ میں اس کے ساتھ بیڈ پر لیٹ گیا اور وہ مجھ سے لپٹ کر آنکھیں بند کر کے گہری سانسیں لینے لگی۔ مجھے اس کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ خیر میں نے خود کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔۔۔ وہ مجھ سے لپٹ کر کسنگ بھی نہیں کر رہی تھی نہ کچھ اور بس خود کو میرے اندر سمیٹ رہی تھی۔ میں بھی اسے کچھ نہیں کر رہا تھا بس اپنے ساتھ لپٹا کر اس کے کالے سیاہ لمبے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا اور کچھ ہی دیر میں وہ گہری نیند کی آغوش میں چلی گئی۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں سمجھ پایا لیکن میں نے فرخندہ کی نیند خراب نہ کرنے کا سوچا اور اپنی آںکھیں بند کر لیں۔۔۔ مجھے بھی اندازہ نہیں ہوا کہ کب میں نیند کی آغوش میں چلا گیا۔۔۔ صبح جب میں جاگا تو فرخندہ ایک معصوم سی پری کی صورت میرے ساتھ لپٹی بے خبر سو رہی تھی۔۔۔ میں نے اسے جگانا مناسب نہ سمجھا اس لیے اس کے ساتھ چمٹ کر اس کی بھولی اور معصوم صورت دیکھتا رہا۔۔۔ اس کا چہرہ بے حد معصوم تھا۔۔۔ اگر اس کو سیکس کی پیاس تھی تو اس نے رات کو میرے ساتھ سیکس کیوں نہ کیا؟ اس نے تو مجھ سے کسنگ بھی نہیں کی تھی۔۔۔ اس نے کپڑے تک نہ اتارے تھے۔۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ سیکس کی بھوکی نہیں اسے پیار چاہیے۔۔ مجھے اس پر بے حد پیار آ رہا تھا۔۔ رات کو بھی پارٹٰ میں اس نے عین سیکس کرتے ہوئے خود کو سب سے الگ کر لیا تھا اور پھر اس کے بعد کسی کے ساتھ سیکس نہیں کیا تھا۔۔۔ میں اس پر حیران تو تھا ہی مطمئن بھی تھا کہ اسے ساتھ لے جاؤں گا اور دو تین دن میں وہ خود ہی اپنی پرابلم مجھ سے شیئر کرے گی۔۔۔ ابھی میں یہ سب کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ فرخندہ کی لمبی پلکیں ہلیں اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔۔ مجھے جاگتے دیکھ کر مسکرائی اور میرے گال پر ایک بوسہ دیتے ہوئے بولی کہ ٹھینکیو ویری مچ! آپ کو پتہ ہے کہ آج کتنے عرصے بعد میں اس طرح سکون کی نیند سوئی ہوں ورنہ ہمیشہ درندے مجھے ساری ساری رات نوچتے رہتے ہیں جن میں میرا باپ اور بھائی بھی شامل ہیں۔۔۔ میں نے اسے کہا کہ فرخندہ! میرے دل میں تمہاری عزت پیدا ہو چکی ہے اور میں جان گیا ہوں کہ تم واقعی معصوم ہو اور میری یہ عادت ہے کہ کوئی لڑکی جب تک میرے ساتھ چدائی کا کھیل نہ کھیلنا چاہے میں اسے تنگ نہیں کرتا بے شک وہ میرے ساتھ سو ہی کیوں نہ رہی ہو۔۔۔ میں تو رات بھر کروٹ بھی نہیں بدلی مبادا تمہاری نیند خراب ہو جائے۔ میری پیاری تمہارا شکریہ کہ تم اس دنیا میں رہتی ہو لیکن اس دنیا کی نہیں ہو۔۔۔ تم بہت اچھی ہو معصوم ہو۔۔۔ اب اگر مزید آرام کرنا ہے تو کر لو اور اگر چلنا چاہتی ہو تیار ہو جاؤ ہم نکلتے ہیں کیونکہ میں تمہیں وہاں لے جانا چاہتا ہوں جہاں صرف میں اور تم ہوں تا کہ تم سکن کی نیند سو سکو اور میں تمہاری نیند کی حفاظت کر سکوں۔۔۔۔ فرخندہ کہنے لگی کہ ابھی نہیں۔۔۔ ابھی مجھے اپنے ساتھ چمٹائے رکھیے کیونکہ کل میں نے آپ کو دیکھتے ہی سمجھ لیا تھا کہ آپ بھی کسی اور دنیا سے ہیں لیکن اس دنیا میں پھنس گئے ہیں اسی لیے میں اداس ہو گئی تھی کہ آپ کیوں اس دنیا میں آ گئے ہیں لیکن مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر آپ ایسی پارٹیوں میں شامل ہونا چاہیں۔۔۔ میں نے کہا کہ اس موضوع کو چھوڑ دو اور بس اپنی بات کرو۔۔۔ تقریباً گھنٹہ بھر لیٹنے کے باوجود اس نے مجھے سوائے ایک بار گال پر بوسہ دینے کے کچھ نہیں کیا بس میرے ساتھ چمٹی رہی۔۔۔ پھر کہنے لگی چلیں؟


ہم تیاری کر کے باہر نکلے۔۔ باہر شمائلہ اکیلی تھی کیونکہ بچے سکول اور سر یونیورسٹی جا چکے تھے۔۔۔ شمائلہ ہم دونوں کو گلے لگ کر ملی اور فرخندہ سے بہت پیار کیا۔۔ فرخندہ نے بھی اس کی بہت عزت کی اور پیار کیا۔۔ شمائلہ نے مسکرا کر مجھے بھی گلے لگایا اور کہنے لگی کہ بھائی! ہماری فرخندہ بیٹی کا آپ بہت اچھے سے خیال رکھ سکتے ہیں اس لیے کسی کو بھی آپ کے ساتھ بھیجنے پر اعتراض نہیں ہے۔۔۔ میں نے سوچا کہ میں نے تمہاری بئٹی فریحہ کا بھی خیال رکھا تھا اور اس کی سیل توڑی تھی جس کا تم لوگوں کو علم بھی نہیں ہے۔۔۔۔ میں بولا کہ بے شک شمائلہ بہن! جب ہم واپس آئیں گے تو فرخندہ کی سب اداسی دور ہو چکی ہو گی اور آپ فکر نہ کریں۔۔


ہم نکلے تو معصوم سی فرخندہ گو اپنی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی لیکن وہ میرے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔۔ میں نے شمائلہ سے کہہ کر اس کے لیے جوس اور اپنے لیے کافی بنوا لی اور یوں ہم عازمِ سفر ہوئے۔۔ لاہور کے قریب پہنچ کر میں نے فرخندہ سے پوچھا کہ کھانا کیا کھاؤ گی؟ وہ کہنے لگی کہ میں خود کھانا تیار کروں گی۔ گھر میں کیا کیا ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ ہر قسم کا گوشت اور دو تین قسم کی سبزی ہر وقت گھر میں موجود ہوتی ہیں اور پھر فون کر کے اپنے خانساماں سے پوچھا کہ کون کون سی سبزی اس وقت گھر میں موجود ہے؟ اس نے بتایا کہ بھنڈی۔ آلو۔۔ شملہ۔۔ گوبھی۔۔ مٹر اور گاجریں موجود ہیں۔۔۔ فرخندہ نے مجھے اشارہ کیا کہ بس ٹھیک ہے اور پوچنے لگی کہ قیمہ ہو گا؟ تو میں بولا ہاں قیمہ تینوں قسم کا ہر وقت گھر میں موجود ہوتا ہے اور کباب بھی۔ میں نے خانساماں سے کہا کہ تم کچھ نہ پکانا اور اگلے تین دن کے لیے تمہیں آنے کی ضرورت بھی نہیں اور فون بند کر دیا۔۔۔۔تھوڑی دیر میں ہم گھر پہنچ گئے اور پورچ میں کار کھڑی کر کے ہم اوپر چلے گئے۔۔۔ گھر خوشبو سے مہکا ہوا اور سلیقے سے سجا ہوا تھا کیونکہ میں موجود ہوں یا نہ ہوں صفائی روزانہ کی جاتی تھی۔۔۔ فرخندہ نے آنکھیں بند کر میرے سینے پر سر رکھ دیا اور ہم کافی دیر اسی طرح کھڑے رہے۔۔۔ فرخندہ گہرے اور اطمنان بخش سانس لے رہی تھی اور مجھے عجیب سا سکون مل رہا تھا۔۔۔ گھر داخل ہوتے ہیں میں نے کہا کہ میں تو سب سے پہلے گرم باتھ لوں گا تا کہ تھکاوٹ اترے اور پھر ہم مارکیٹ جائیں گے تمہارے لیے شاپنگ کریں گے۔۔۔ وہ کہنے لگی کہ اسے کوئی چیز نہیں چاہیے۔۔ میں نے کہا کہ نہیں مجھے تمہارے لیے کچھ خاص چیزیں لینی ہیں اور یہ سرپرائز ہے۔۔۔ وہ کہنے لگی کہ جو آپ کی خوشی۔۔۔ میں نے کہا کہ پھر جلدی سے اپنے بیگ میں سے کوئی تازہ کپڑے نکالو اور نہا کر فریش ہو جاؤ تا کہ ہم مارکیٹ جا سکیں۔۔۔ ہم دونوں باتھ ٹب میں گھس گئے جہاں ہم نے ایک دوسرے کو مل مل کر نہلایا لیکن نہانے کے دوران بھی اس نے میرے ساتھ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کی جس سے مجھے بہت حیرت ہوئی اور اس سے زیادہ حیرت مجھے اس بات پر ہوئی کہ میرا لوڑا بڑے آرام سے بیٹھا رہا اور اس میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی۔۔ جس سے میں سمجھ گیا کہ پیار والی زندگی کتنی پرسکون ہوتی جبکہ سیکس والی زندگی انتہائی بے سکونی والی ہوتی ہے۔۔۔کوئی ایک گھنٹے کے بعد ہم تیار ہو کر کار میں بیٹھے مارکیٹ جا رہے تھے۔۔۔ مارکیٹ سے میں نے اس کے لیے سرخ رنگ کا ایک قیمتی دلہن والا لباس خریدا۔۔۔ دو تین نارمل سوٹ لیے ایک نائیٹی لی۔۔۔ دو جوتے لیے۔۔ جوتوں سے میچنگ دو ہینڈ بیگ اور پھر ہم جیولری کی دکان پر گئے وہاں سے اس کے لیے انگوٹھی۔۔ ہار اور ٹاپس لیے۔۔۔ اس نے مجھے کچھ نہیں پوچھا نہ کوئی بات کی بس چپ چاپ مسکراتی رہی اور میری طرف دیکھتی رہی۔۔۔ ہم جس دکان پر جاتے دکان دار کہتے کہ یہ خریدیں اور یہ خریدیں۔۔ جیولر کے پاس گئے تو وہ ایک بہت ہی بزرگ انسان تھے ۔۔ جبہم نے شاپنگ مکمل کی تو انہوں نے فرخندہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ بیٹی جاؤ اللہ تمہیں سکھ نصیب کرے اور ایک ڈبہ دے کر کہا کہ یہ میری طرف سے تمہارے لیے تحفہ ہے۔۔ وہ تحفہ دیتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔ فرخندہ بے ساختہ رونے لگی اور اس بزرگ کے ساتھ لپٹ گئی۔۔۔ مجھ پر آج حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے۔۔۔ میں دل میں بہت خوش ہو رہا تھا جیسے مجھے قارون کا خزانہ مل گیا ہو۔۔۔۔میں اپنی خوش نصیبی پر فخر کر رہا تھا کہ مجھے فرخندہ جیسے لڑکی مل گئی ہے۔۔۔ اور اب میں اپنے کیے ہوئے فیصلہ پر سو فیصد مطمئن تھا جس کا سرپرائز میں ابھی فرخندہ اور اس کی فیملی کو دینے جا رہا تھا۔۔۔۔ 



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments