ads

Momina aur Sana - Episode 32

میمونہ اور ثناء

قسط 32




میں ابھی بیڈ میں تھا کہ میری حور نے ناشتہ تیار کیا۔۔۔ مجھے بڑے پیار سے جگایا۔۔۔ وہ مجھ سے ہمیشہ فاصلہ رکھتی۔۔۔ وہ بلا وجہ کس نہیں کرتی تھی۔۔ بس جب وہ میرے پہلو سے چمٹتی تو جھے معلوم ہو جاتا کہ اسے مجھ پہ پیار آ رہا ہے۔۔ وہ مختلف تھی۔۔۔ وہ عام لڑکی نہ تھی۔۔۔ میں بے حد خوش قسمت تھا۔۔۔ میری زندگی نے ایک نئی کروٹ لی تھی۔۔۔ تین دن ایک خواب کی طرح گزر گئے۔۔۔ اس میں نہ تو نخرہ تھا نہ ہی وہ نخرہ کو پسند کرتی تھی۔۔ وہ بہت سادہ تھی۔۔۔ اس نے میرے ٹھاٹھ باٹھ پر کسی حیرت کا اظہار نہ کیا تھا۔۔۔ اس نے ابھی تک کوئی الماری کھول کر نہ دیکھی تھی کیونکہ اس میں تجسس نہیں تھا۔۔۔ میری جو چیز جہاں پڑی تھی اس کو سلیقے سے اس نے رکھ تو دیا تھا لیکن کھول کر نہٰں دیکھا تھا۔۔۔ کچھ خطوط میل باکس میں آئے تھے وہ بڑۓ سلیقے سے لیٹر بکٹ میں ڈال کر میری سائڈ ٹیبل پر پڑے تھے اور اس نے صرف اتنا کہا تھا کہ دیکھ لیں کوئی ضروری ڈاک نہ ہو۔۔۔ میں حیران تھا۔۔۔ وہ آئی اور چھا گئی۔۔وہ حور تھی۔۔۔ وہ کیا تھی۔۔۔ اسے خود پر کتنا کنٹرول تھا۔۔۔ اتنا کہ میں بھی اب اس کے کنٹرول میں تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں کی اداسی ختم ہو چی تھی۔۔۔ اس کے لہجے میں اطمنان اور اعتماد بھر گیا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔۔۔ ہم اکٹھے بیٹھ کر چائے پی رہے تھے۔۔۔ مجھے خیال بھی نہ آیا کہ میں تو کافی پیا کرتا تھا چائے میں نے زندگی میں کبھی نہیں پی۔۔۔ لیکن آج والی چائے کتنی مزے کی تھی۔۔۔ وہ بولی اوہو احمد! سوری۔۔ میں بولا کیوں؟۔۔۔ کہنے لگی آپ تو کافی پیتے ہیں نا؟۔۔۔ میں بولا کہ آج امرت پی رہا ہوں۔۔۔۔ ہنس کر بولی: میں کافی لاتی ہوں۔۔۔ میں نے کہا کہ نہیں جو تم پیو گی وہی میں پیوں گا جو تم پلاؤ گی وہی میں پیوں گا۔۔۔ کہنے لگی کہ آج میں آپ کی پسند کا کھان بناؤں؟ میں نے کہا وہ کیا؟ بولی: بھنڈی اور قیمہ۔۔۔۔۔ میں نے کہا کہ تمہیں کس نے بتایا؟۔۔۔۔ کہنے لگی کہ میرے دل نے۔۔۔۔ میں نے کہا کتنا سچا اور صاف دل ہے تمہارا کہ میرے دل کو پڑھ لیا۔۔۔۔ کہتی کہ اپنے وعدے پورے کرنا۔۔۔ میں نے کہا کون سے؟ کہنے لگی کہ ملیحہ کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ بھی پورا کرنا۔۔۔۔ میں جھینپ گیا۔۔۔ میں نے کہا کہ اب نہیں۔۔۔ کہنے لگی کہ نہیں ہمارے خاندانوں میں رواج نہیں کہ کسی کا دل توڑیں اور وعدہ نہ پورا کریں۔۔۔ آپ یہ وعدہ ضرور پورا کیجیے گا۔۔۔ میری ریکوئسٹ ہے۔۔۔ میں بولا تمہیں پتہ ہے کہ تم اپنے شوہر سے کیا کہہ رہی ہو؟ اس نے کہا کہ یہ وعدہ میرا شوہر بننے سے پہلے آپ نے کیا تھا اس نے مجھے بتا دیا تھا۔۔۔ اس لیے یہ وعدہ پورا کرنا اور اگر اب کوئی کسی سے وعدہ کریں تو بے شک کر لینا مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا لیکن اگر ایسا وعدہ کسی سے نہ کریں تو مجھے خوشی ہو گی۔۔۔۔ مجھ پر حیرت کا ایک اور پیاڑ ٹوٹ پڑا۔۔۔ بولی کہ اگر آپ ہمارے خاندانوں والی پارٹی میں شامل ہونا چاہیں تو میں منع نہٰں کروں گی بلکہ میں وعدے کے مطابق خود بھی شامل ہوا کروں گی۔۔۔ لیکن وہاں چونکہ سب کی اپنی مرضی ہوتی ہے اس لیے کوئی چدوائے یا نہ چدوائے کسی کو اعتراض کی اجازت نہیں ہوتی اس لیے میں صرف آپ کے ساتھ یہ کر سکوں گی لیکن آپ کو کبھی نہیں روکوں گی کہ آپ کسی کے ساتھ نہ کریں۔۔۔۔ میں خاموش تھا۔۔۔ میری سٹی گم ہو چکی تھی۔۔۔ وہ کم عمر نو خیز گرم لڑکی مجھے لاجواب کر رہی تھی۔۔۔ اس نے سب خاندانوں کو پہلے سے ہی لاجواب کر رکھا تھا۔۔۔۔ اس نے کہا کہ آپ جانتے ہیں میری سیل کس نے توڑی تھی؟ میں چپ رہا۔۔۔۔ بولی کہ میرے ابو نے۔۔۔ جب میں سات سال کی تھی۔۔۔۔ تب سے اس پارٹی میں جاتی لیکن وعدے پورے کرتے رہی اور خاموشی سے ہر ایک سے چدتی رہی۔۔۔ میرے بھیا اور سب انکلز نے مجھے جی بھر کر چودا جیسے ہر عورت وہاں چدتی ہے۔۔۔ سب میرا منہ پھاڑتے تھے اپنے ہتھیار اندر ڈال کر اور نہیں مزہ آتا تھا۔۔۔ وہاں بولنا منع ہے اور کرنا وہی جو سب کر رہے ہیں۔۔۔ لیکن اگر کوئی نہ کرنا چاہے تو زبردستی کی اجازت نہیں۔۔۔میں سن رہا تھا۔۔۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ اس کو سینے سے لگا لوں لیکن ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ وہ یہ سب کچھ کرتی رہی تھی لیکن وہ اس سب سے مُبرا تھی۔۔۔وہ گندی نہیں تھی۔۔۔ وہ میلی نہیں تھی۔۔۔ بولی۔۔۔ ہمت کریں۔۔۔۔ مجھے سینے سے لگا لیں۔۔۔ میں حیران رہ گیا کہ وہ میرا ذہن، میرے دل و دماغ کو پڑھ رہی تھی۔۔۔ میں نے ہمت کی اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور بے تحاشا اسے چومنے لگا۔۔۔ فری! میری فری! تم نے مجھے اسیر کر لیا ہے۔۔۔۔ تم میری جان ہو ۔۔۔ میرے کان میں اس کی آواز آئی۔۔۔ میں نے دس سال کی عمر میں آپ کو خواب میں دیکھا تھا۔۔۔ اور جب پرسوں رات اس پارٹی میں آئی اور آپ کو دیکھا تو میں بہت اداس ہوئی کہ یہ تو وہی انسان ہے جو میرا ہے اور میں نے اسے آٹھ سال قبل خواب میں دیکھا اور کئی بار بعد میں بھی خواب میں دیکھا تھا میں ہر نماز میں دعا بھی کیا کرتی تھی کہ کب یہ شخص آئے گا اور مجھے اپنی عزت بنائے گا۔۔۔ اس دن میں اس لیے اداس تھی کہ شاید آپ مجھے ایسی پارٹی کی وجہ سے قبول نہ کریں اسی لیے آپ سے کہا تھا کہ دو تین دن آپ کے ساتھ اکیلے رہنا چاہتی ہوں تا کہ آپ کو یہ سب بتا کر قائل کر سکوں۔۔۔ امی ابو کو میں نے پارٹی مٰں کھانا کھاتے ہوئے بتا دیا تھا کہ یہ دیکھیں یہ وہی شخص ہے جو میرا ہے۔۔۔۔ اس کے ثبوت کے طورپر میں ایک چیز آپ کو دکھانا چاہتی ہوں۔۔۔ اس نے اپنا بیگ کھولا اور ایک نہایت قیمتی سونے کا فریم نکالا اور اس کو کو میرے سامنے کیا جسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ اس میں میری تصویر لگی ہوئی تھی جس پر چار سال پہلے کی تاریخ پڑی ہوئی تھی اور وہ تصویر پنسل ورک تھی۔۔۔ میرے کچھ بھی بولنے سے پہلے وہ بولی کہ جب کثرت سے میں نے آپ کو خواب میں دیکھا تو سوچا کہ میں آپ کی تصویر بناؤں۔۔۔ اس کے لیے میں نے پنسل ورک کا آرٹ سیکھا۔۔ میں نے ایک سال میں یہ تصویر مکمل کی اور یہ تصویر میرے ابا نے سونے کے فریم میں لگوا کر میرے کمرے میں میرے سرہانے رکھوا دی تھی۔۔۔ میری فیملی مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔۔۔ جب میں نے امی اور ابو کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ ہم بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ وہی شخص ہے جس کی تصویر تم نے بنائی ہوئی ہے۔۔۔۔لیکن وہ بھی پریشان تھے کہ کیسے وہ تمہیں قبول کرے گا۔۔۔ میں نے کہا کہ میری دعائیں کبھی ضائع نہیں جائیں گی۔۔۔۔ میں کتنی خوش قسمت ہوں کہ آج میں آپ کی قدموں کی زینت ہوں۔۔۔ میں تڑپ اٹھا۔۔۔۔ نہیں فری! تم میرے سر کا تاج ہو۔۔۔ تم میرے پاؤں کی زینت نہیں بلکہ میری عزت ہو۔۔۔ تم واقعی معصوم ہو۔۔۔


تین دن رات ہم نے بدن کی لذت بھی لی لیکن روح کی پیاس زیادہ بجھائی۔۔۔ میں نے اپنے والدین کو بہت یاد کیا۔۔۔


فری! تمہارا پاسپورٹ بنا ہوا ہے؟ ۔۔۔ نہیں۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ کل بنوا لیتے ہیں چار دن میں بن کر آ جائے گا۔۔۔ بولی: امی ابو کی قبر پر لے جانا چاہتے ہیں نا؟ میں بولا: تمہیں تو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔۔۔ بولی کہ آپ کے ابو کی شکل اس طرح کی تھی۔۔۔ آپ کی امی جان ایسی تھیں۔۔۔ اور آپ کی بہن کی شکل ایسی تھی۔۔۔ مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹنا بند ہو گئے تھے۔۔۔ وہ سو فیصد سچی تھی۔۔۔ اس کی محبت سچی تھی۔۔۔ مجھے اس سے عقیدت ہو گئی تھی۔۔۔۔


شادی کا تیسرا دن تھا ۔۔۔میں نے ہمت کی اور اسے پکڑ لیا اور پھر سب کچھ اس کے اندر نچوڑنے تک اسے نہیں چھوڑا۔۔۔ اس کے بعد بھی اسے چومتا رہا۔۔۔ اس کے ہونٹ۔۔۔ اس کی چھاتیاں۔۔۔ اس کا انگ انگ۔۔۔ میرے ہونٹوں نے مسخر کر لیا تھا۔۔۔ میں بجا فخر کر رہا تھا۔۔۔۔۔


علی الصبح پاسپورٹ آفس ۔۔۔ کاغذ جمع کروائے۔۔۔ ای میل کر کے یو ایس اے ایمبیسی سے انٹرویو کی تاریخ لی۔۔۔ فائل تیار کی۔۔۔ رات بھر بیٹھا رہا۔۔۔۔ وہ مجھے کافی پلاتی رہی۔۔۔۔ ہم بہت کم بات کرتے تھے۔۔۔ بولی۔۔۔ صاحب! آپ آرام سے یہ کام کر لیں۔۔۔ میں بولا۔۔۔ میں پچھلے دس سال سے اماں ابا کی قبر پر نہیں گیا۔۔۔ اب دس دن بھی دور نہٰں رہ پاؤں گا۔۔۔ تم ساتھ ہو گی تو میں وہاں سے زندہ واپس آسکوں گا۔۔۔۔


صبح میرے کان میں بولی۔۔۔ صاحب! تین دن ہو گئے اور والدین سے تین دن کا وعدہ کیا تھا۔۔۔ چلیں؟


میں بولا چلو۔۔۔ اسی طرح ٹراؤزر شرٹ میں نکل کھڑا ہوا۔۔۔ کیری بیگ ساتھ رکھ لیا اورملازم بہت خوش تھے۔۔۔ ہم دونوں کو دیکھتے تو پھولے نہ سماتے۔۔۔


اس کے گھر پہلی بار جا رہا تھا۔۔۔ رستے سے فروٹ۔۔۔ سب کے لیے تحائف لیے اس کی بڑی بہن نائلہ کے خاص تحائف لیے ۔۔۔ اس کی ماما اور بابا کے لیے بھی قیمتی تحائف خریدے۔۔۔ وہ کسی بات پر کچھ نہ کہتی نہ اس نے کہا نہ لیں اور نہ اس نے کہا کہ لیں۔۔۔ میں اس کی ہر ایک ادا پر حیران ہوتا تھا کہ یہ کیسی لڑکی ہے میری کسی بات میں دخل اندازی نہیں کرتی۔۔۔ بس اس کی آنکھوں کا اطمنان اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھ کر میں خوش ہو رہا تھا اور لگ رہا تھا کہ میں جو کر رہا ہوں اس پر وہ خوش ہے۔۔ اور مجھے اس کی خوشی میں خوشی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔


جب اس کے بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچا تو میں حیران رہ گیا۔۔۔۔۔ اس کا گھر کتنا عالی شان تھا۔۔۔ میں نے سوچا بھی نہ تھا۔۔۔۔مجھے اس سے بھی زیادہ حیرت ہوئی۔۔۔ گھر کے اندر جا کر دیکھا تو اور بھی حیران ہوا۔۔۔ ہر طرف نفاست۔۔۔ قیمتی اشیا۔۔ ڈیکوریشن۔۔۔ فانوس۔۔ ایک ایک چیز چن کر لگائی گئی تھی۔۔۔ وہ تو میرے بازو سے لپٹی ہوئی تھی۔۔۔ گھر کے بڑے گیٹ پر سبھی جمع تھے۔۔۔ گلی محلے کے لوگ بھی گلابوں کے ہار لیے کھڑے تھے۔۔۔ پتیاں نچھاور کی جا رہی تھیں۔۔۔ میں حیران تھا۔۔۔ اندر تک گلاب ہی گلاب تھے۔۔۔ صندل اور لبان اندر بھی جل رہے تھے۔۔۔ اندر سے ڈھولکی کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔ لاؤنج لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ ایک طرف ضیافت کی میزیں سجی ہوئی تھیں۔۔ سنہری دسترخوان۔۔۔ خواب کا منظر تھا۔۔۔ پارٹی میں شامل ہونے والے سبھی خاندان جمع تھے۔۔ ہمارے قدموں میں تحائف کا ڈھیر لگ گیا۔۔۔۔ میری کار میں سے تحائف ملازموں نے نکالے اور لا کر اندر رکھ دیئے جنہیں دیکھ کر میں شرمندہ ہو رہا تھا۔۔۔ فری کو کچھ ہوش نہ تھا بس وہ میرے بازو کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔۔۔ سب سے پہلے اس کے بابا نے اسے سینے سے لگایا اور پیار کیا۔۔ ماما اور نائلہ اور بھائی واجد بھی آ کر اسے چمٹ گئے۔۔ ایک طلسماتی مسکراہٹ والی میری فری سب کو بہت احترام سے مل رہی تھی۔۔۔ اس کی چال میں ایک سادگی اور وقار تھا۔۔۔ اس کے ملنے میں ایک جاذبیت تھی۔۔۔ سبھی لوگ میرے صدقے واری جا رہے تھے۔۔ سر شمائلہ بہن اور ان کے بچے بھی میری بلائیں لے رہے تھے۔۔۔ کسی کو دیکھ مجھے ایسا نہیں لگا کہ کوئی حسد میں مبتلا ہو۔۔۔۔میرے لیے خواب ناک منظر تھا۔۔۔میرا دل نہیں کر رہا تھا کہ فری ایک پل کے لیے بھی میری نظروں سے اوجھل ہو لیکن ماما اسے اندر لے گئیں۔۔۔ فریحہ اور ملیحہ میرے ساتھ چمٹ گئیں اور پیار کرنے لگیں۔۔۔ میں نے بھی ان کو پیار کیا اور اس سے پہلے کہ میں انہیں کچھ کہتا انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا۔۔ میں حیران تھا کہ وہ میرا اس بات پر شکریہ ادا کر رہی تھیں کہ میں نے اور فرخندہ نے شادی کر لی۔۔۔۔


کوئی آدھے گھنٹے بعد لاؤنج میں فری ک لایا گیا۔۔۔ میں تو اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا۔۔۔ ایسی سجائی گئی دلہن۔۔۔ پھر بھی وہ سادگی کا ایک حسین پیکر نظر آئی۔۔۔۔ اس کی نذر اتاری گئی۔۔۔ میں ابھی تک عام سے ٹراؤزز شرٹ میں تھا۔۔۔ مجھے واجد اور بابا نے کہا آپ اندر آئیں۔۔ میں اندر گیا تو مجھے کہا گیا کہ یہ کپڑے اور شیروانی پہن لیں۔۔۔ میں حیران رہ گیا کہ سونے کے کا اور بٹنوں والی شیروانی اور بہت اعلیٰ کپڑے۔۔۔ میں نے جا کر غسل کیا اور دس منٹ میں کپڑے وغیرہ پہن کر باہر آ گیا۔۔۔ میں فری کے ساتھ بٹھایا گیا۔۔۔۔ فری میرے بازو سے چمٹ گئی۔۔۔۔ میری آنکھوں میں یہ سب پیار دیکھ کر آنسو تیر رہے تھے۔۔۔ سارا محلہ کھانے پر بلایا گیا تھا۔۔۔ سب لگ ہمارے سروں سے وار کر پیسے ہمارے قدموں میں رکھ رہے تھے اور مجھے بتایا گیا کہ یہ صدقہ دیا جائے گا۔۔۔


تھوڑی دیر بعد نائلہ نے کہا کہ بہنوئی صاحب لاگ دیں۔۔۔ میں نے بٹوہ نکالا اور اس کے حوالے کر دیا۔۔۔ میں نے کہا کہ سب کچھ آپ لوگوں کا ہی ہے۔۔۔ نائلہ نے کہا کہ نہیں میں صرف ایک صد ایک روپیہ لوں گی۔۔۔ میں نے کہا کہ جو چاہے لے لو کیونکہ جو تحفہ تم لوگوں نے مجھے دیا ہے وہ دنیا جہان کی دولتوں سے زیادہ قیمتی ہے۔۔۔ مجھے تو حور مل مل گئی مجھے دنیا کی کوئی طلب نہیں رہی۔۔۔


ہنگامہ چلتا رہا۔۔۔ سب نے کھانا کھایا۔۔ ہمیں بھی کھانا پیش کیا گیا۔۔۔ کیا اعلیٰ مزے کا کھانا تھا۔۔۔ ماما نے کہا کہ ہمارا رواج ہے کہ کھانے کا پہلا لقمہ دلہن دولہا کے منہ میں ڈالتی ہے اور پھر دلہا دلہن کے منہ میں اور پھر وہ دنوں اپنا اپنا کھاتے ہیں۔۔۔ فری نے میرے منہ میں لقمہ ڈالا اور میں نے اس کے منہ میں اور پھر ہم نے مناسب سا کھانا سب کے ساتھ مل کر کھایا۔۔۔۔ مجھ سے تو کچھ کھایا نہیں جا رہا تھا کیونکہ میں اپنی حور کے چہرے سے نظریں ہی نہیں ہٹا پا رہا تھا۔۔۔ میرا ذہن اس کے اعلیٰ اخلاق میں کھویا ہوا تھا اور میری آنکھیں اس کے حسین و جمیل چہرے اور سراپے کا طواف کر رہی تھیں۔۔۔۔


سب مہمان کھانا کھا کر تحائف عطا کر کے چلے گئے۔۔۔ اب فریحہ، ملیحہ اور شمائلہ ان کا بھائی اور بابا رہ گئے تھے۔۔۔ ملیحہ مجھ پر نچھاور ہوئی جا رہی تھی۔۔۔ فری نے ملیحہ سے کو بلایا اور کہا کہ میں نے صاحب کو کہہ دیا ہے کہ وہ تم سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کریں اور وہ کریں گے۔۔۔ میں خود کرواؤں گی اس لیے میری گڑیا پریشان نہ ہونا۔۔۔ اور اس کا منہ چوم لیا۔۔۔۔ ملیحہ نے کہا کہ باجی مجھے پتہ ہے کہ آپ وعدہ کی کتنی پاس داری کرتی اور کرواتی ہیں لیکن مجھے کوئی فکر نہیں بلکہ مجھے تو اس بات کی خوشی ہے کہ انکل اور آپ کی شادی ہو گئی ہے۔۔۔۔۔


میں نے سب کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میرے لیے سب سے قیمتی تحفہ فری ہے۔۔۔ اب شمائلہ لوگ بھی چلے گئے۔۔ گھر کے افراد بچے تھے۔۔۔ ہمیں بیڈ روم میں لے جایا گیا۔۔۔ میں تو دیکھ کر ہی پریشان ہو گیا۔۔۔بہت اعلیٰ قسم کا دبیز فرنیچر ۔۔۔ چنیوٹ سے بنوایا گیا اعلیٰ کاریگری والا لکڑی کا جہازی سائز کا بیڈ۔۔۔ اس پر نہایت اعلیٰ میرون رنگ کی بیڈ شیٹ۔۔۔ بہت خوب صورت اور قیمتی مسہری۔۔۔سجا ہوا کمرہ کسی جنت سے کم کا نظارہ پیش نہیں کر رہا تھااور میری حور کو اس بیڈ پر بٹھا دیا گیا۔۔۔۔ اب گھر کے افراد تھے۔۔۔ لائٹ بالکل ڈم کر دی گئی جسیے اس دن پارٹی میں کی گئی تھی۔۔۔ نائلہ اور ماما نے فری کو زیورات اور بھاری بھرکم کپڑوں سے آزاد کرنا شروع کیا۔۔۔ میں اور فری کے بابا اور واجد بھائی سائڈ والے صوفے پر بیٹھے تھے۔۔۔ پھر جب فری کے جسم پر کوئی کپڑا نہ رہ گیا تو نائلہ میری طرف آئی اور کہنے لگی کہ بہنوئی صاحب آ جائیں اب آپ کی مدد کریں۔۔ اور پھر میرے بھی کپڑے اتارے گئے۔۔۔ اس کے بعد نائلہ نے مجھے کسنگ شروع کی اور ماما اور بابا آپس میں کسنگ کرنے لگے۔۔۔ واجد فری کے بال سہلانے لگا لیکن اس نے فری کے ساتھ کوئی حرکت نہ کی۔۔۔ نائلہ کے منہ میں میرا لوڑا تھا اور فری دیکھ رہی تھی۔۔۔ پھر واجد نائلہ کی چوت چاٹنے لگا اور میں فری کو کسنگ کرنے لگا۔۔ فری میرا ساتھ دینے لگی۔۔۔ اب میرا لن تیار تھا۔۔۔ ماما نے سب سے پہلے میرے اوپر بیٹھ کر اپنی ٹائٹ پھدی میں میرا لن لیا اور ادھر بابا نے نائلہ کی چوت میں اپنا لوڑا گھسا دیا۔۔۔ واجد کا لوڑا اپنی ماما کے منہ میں تھا۔۔۔۔ پھر واجد نے اپنا لن نائلہ کے منہ میں دیا۔۔۔ فری کے ممے میرے ہاتھوں میں تھے اور منہ میں منہ تھا۔۔۔۔ مجھے لگا کہ فری کی پھدیا سے پانی نکل رہا ہے تو میں نے ماما سے کہا کہ تھوڑا مجھے وقت دیں۔۔۔ ماما اوپر سے اٹھیں تو میں نے فری کی پیاری سی پھدیا میں لن ڈال دیا۔۔۔ اور خوب چودنے لگا۔۔۔ تین دن میں پہلی بار میں پورے جوش کے ساتھ فری کو چود رہا تھا۔۔۔ میرے علاوہ فری کو کسی نے ٹچ نہیں کیا تھا۔۔۔۔ نہ فری نے کسی کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ میں فری کے منہ میں منہ ڈالے اس کو مشنری پوزیشن میں چود رہا تھا ادھر نالہ کو اس کے بابا چود رہے تھے اور واجد اپنی ماما کی چوت میں گھسا بیٹھا تھا۔۔۔۔ ایک ہی بیڈ پر خاندانی چدائی جاری تھی۔۔۔ فری پہلی بار کھل کر مجھ سے چوت مروا رہی تھی۔۔۔ میں نے اتنی زور سے اس کی چوت مارنا شروع کی کہ جلد ہی اس کی بڑے بڑے ریشمی بالوں والی چوت سے پانی کے فوارے چھوٹ گئے ۔۔۔ نائلہ اور اس کی ماما کی چیخیں تو بہت زبردست شہوت پیدا کر رہی تھیں لیکن فری کی آواز ایک بار بھی میں نے نہیں سنی تھی۔۔۔ فری ڈسچارج ہو گئی تو سکون سے آنکھیں بند کر کے لیٹ گئی۔۔۔ نائلہ نے مجھے کہا کہ بہنوئی صاحب آ جائیں میرے پاس ابھی فری کو آرام کرنے دیں۔ میں اٹھا اور نالہ کی گانڈ کا سوراخ خالی دیکھ کر اس میں لوڑا گھسا دیا اور زور شور سے چدائی شروع کر دی۔۔۔ اب نائلہ کی گانڈ اور چوت دونوں میں ایک ایک لوڑا تھا۔۔۔۔ کوئی دس منٹ کے بعد آواز آئی کہ داماد جی ادھر بھی نظرِ کرم کر دیں۔۔۔ میں نے ایک فرمانبردار داماد کی طرح سالی کی گانڈ سے لوڑا نکالا اور ساس صاحبہ کی گانڈ میں ڈال دیا کیونکہ ان کی چوت میں ان کا بیٹا گھسا بیٹھا تھا۔۔۔ رات اسی طرح تقریباً دو گھنٹے یہ فیملی گروپ سیکس چلتا رہا اور فری سوئی رہی۔۔ اس کو کسی نے تنگ نہیں کیا۔۔۔ پھر دو گھنٹے بعد وہ چاروں لوگ کہنے لگے کہ اب ہم چلتے ہیں لیکن نائلہ آپ کے ساتھ ہی سوئے گی۔۔۔ میں کہا کہ ٹھیک ہے۔۔۔۔ بابا ، ماما اور بھائی واجد چلے گئے اور میں اور نائلہ نے چدائی کا کام جاری رکھا۔۔۔۔ کوئی ایک گھنٹے بعد فری جاگی اور ہمیں دیکھ کر کہنے لگی کہ ابھی تک آپ لوگ لگے ہوئے ہیں ۔۔۔ میں نے فری سے کہا کہ بس کر دیں تو وہ بولی نہیں لگے رہیں جب تک آپ کا دل کرے۔۔۔ تو میں نے نائلہ کو مزید آدھا گھنٹہ چودا اور پھر اس کی گانڈ میں ڈسچارج ہو گیا اور وہیں دونوں لیٹ کر سو گئے۔۔۔۔



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments