ads

Safar - Episode 11

سفر

قسط 11



اس سے پہلے کہ وہ کمرے ساے باہر جاتی مولوی نے ایک بار پھر قابو کر لیا۔۔۔ مولوی نے میری ساس کے منہ پر تین چار کافی زور دار تھپڑ مار دئے ۔۔ اور سنگین لہجے میں بولا کتیا چپ چاپ اپنی گانڈ میں یہ لن لے لو ورنہ تمھارا وہ حشر کروں گا چلنا پھرنا بھول جاؤ گی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں صرف سفاکی ہی سفاکی تھی جس کو دیکھ کر میری ساس اور میںہم دونوں ہی سہم گئی۔۔ اب مجھ میں اتنی ہمت بھی نہی ہو رہی تھی کہ میں اندر جا کر کچھ مدد ہی کر دوں۔۔ مولوی کے ارادے اور اس کا لن دیکھ کر ہی مجھے پسینے آ رہے تھے۔۔ اس نے زبردستی ساس کو گھوڑی بنایا اور پھر گانڈ کے سوراخ پر بھوکے شکاری کی مانند پل پڑا۔۔ وہ بار بار اپنی زبان گانڈ کے سوراخ میں داخل کر رہا تھا ۔۔ ویسے تو میری ساس کی گانڈ کنواری نہی تھی مگر مولوی کا ڈنڈا دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے آج میری ساس کی گانڈ سہی معنوں میں پھٹ جائے گی۔۔۔ مجھے اپنی ساس پر ترس آ رہا تھا مگر میں اس کی کوئی بھی مدد کرنے سے قاصر تھی۔۔۔مولوی صاحب پھر ایک کام کریں پلیز۔۔ میری ساس نے التجا بھرے لہجے میں مولوی سے کہا۔۔۔ ھممم بولو ۔۔۔ آپ میری گانڈ کے سوراخ پر بہت ساراتیل لگا لیں۔۔۔ اور ایک ہی جھٹکے میں اندر کر دینا۔۔ آہستہ آہستہ اندر کرنے سے مجھے زیادہ تکلیف ہوگی۔۔ ٹھیک ہے۔۔ مولوی آخر کار مان گیا۔۔ مگر مسلہ یہ تھا کہ کمرے میں تیل نام کی کوئی چیز نہی تھی۔۔۔ مجبوراََ میری ساس نے مجھے آواز دی۔۔ مرتی کیا نا کرتی، مجھے اندر جانا ہی پڑا۔۔۔۔۔ میری ساس نے مجھ سے کہا کہ بیٹی تیل لا دو مجھے۔۔۔ مولوینے میری طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں میرے لیئے ہوس ہی ہوس تھی جس کو دیکھ کر میری سٹی گم ہو گئی۔۔۔ میں تو کسی بھی حال میں مولویکو پھدی دینے والی نہی تھی۔۔ میں جلدی سے اپنےے کمرے میں آئی اور تیل کی شیشی لے کر واپس ان لوگوں کے پاس آ گئی۔۔۔ مولوی نے میرے ہاتھ سے تیل لے کر مجھے اپنے سینے سے لگانے کی کوشش کی مگر میں پہلے ہی محتاط تھی۔۔ فوراََ میںنے اپنا آپ اس سے چھڑوا لیا۔۔ اس سے پہلے کہ میں واپس کمرے ساے باہر جاتی میری ساس نے مجھے آواز دے کر روک لیا۔۔ بیٹی ایک کام کرو۔۔ جی امی جی کیا کام کروں؟؟ میں نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔۔ کان میں میری بات سنو۔۔ میں اپنی ننگی لیٹی ہوئی ساس کے منہ کے قریب اپنا منہ کیا تو میری ساس نے مجھے کہا کہ بیٹی تم دیکھ رہی ہویہ مولوی اس وقت جانور بنا ہوا ہے اور آج یہ میری پھدی اور گانڈ پھاڑ کے رکھ دے گا۔۔مجھے آج بچا سکتی ہو تو وہ صرف تم ہو۔۔ انہوں نے بڑی التجا کے ساتھ مجھے کہا۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنی ساس کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔ اچھا تو آپ بتائیں میں کیا کر سکتی ہوں آپ کے لیئے۔۔۔ میری ساس نے مجھے سمجھایا کہ مجھے کرنا کیا ہے۔۔ میں نے حامی بھر لی۔۔ مولوی کی آواز آئی اگر آپ دونوں گشتیوں کی بات چیت ختم ہو گئی ہو تو میں آگے کام کروں؟؟ لفظ گشتی سے میری جسم میں آگ لگ گئی۔۔ میں نے ایک قہر آلود نگاہ اس پر ڈالی اور صوفے پر سے اٹھ کر ایک سائڈ پر ہوکر بیٹھ گئی۔۔۔ مولوی نے تیل کی شیشی سے تیل نکالا اور میری ساس کی گانڈ پر بھر بھر کے تیل لگایا۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولا میری بلبل میرے لن پر تیل تم لگاؤ گی۔ میں نے انکار میں سر ہلایا تو وہ کمینہ کہنے لگا کہ چلو ٹھیک ہے نہ لگاؤ تیل۔ میں ایسے ہی تمھاری ساس کی گانڈ میں اپنا لوڑا ڈالنے لگا ہوں اب جتنی بھی اس کو تکلیف ہوگی اس کی ذمہ دار تم ہوگی۔۔۔ اس کے خطرناک ارادے دیکھ کر جلدی سے میری ساس بولی پلیز بیٹی اس کمینے کی بات مان لو۔۔ میں نے چار و ناچار تیل کی شیشی ہاتھ میں لے کر بہت سارا تیل اپنی ہتھیلی پر انڈیل لیا۔۔ مولوی نے اپنا لن میرے سامنے کر دیا۔۔۔ ایک دفعہ تو میرا جی چاہا کہ میں بھی ایک چوپا لگا کر دیکھتی ہوں کیسا سواد ہے اس کا۔۔ مگر پھر اس خیال کو ترک کر دیا۔۔۔میں نے ہتھیلی کا سارا تیل لن کے ٹوپے سے لے کر اس کی جڑ تک خوب اچھی طرح سے مل دیا۔۔ جب میں اس کے لن کو تیل لگا رہی تھی تو مولوی کی آنکھیں بند ہو گئی۔۔ اس کا ایک ہاتھ میرے بالوں کے ساتھ کھیلنے لگ گیا۔۔ مجھے بھی مزہ آنے لگا۔ مگر میں نے یہ بات ظاہر نہی ہونے دی۔۔ میں چاہتی تھی کہ کسی طرح سے یہ مولوی آج ہمارے گھر سے چلا جائے۔۔۔۔ مگر جو انسان سوچتا ہے ضروری نہی کہ وہ سب ویسا ہو بھی جائے۔۔۔۔ چل اب اپنی گشتی ساس کا سر پکڑ کے رکھو۔۔ اگر یہ آگے کی طرف ہوئی تو اس کو چھوڑ کر میں نے تمھاری گانڈ میں اپنا لن گھسا دینا ہے۔۔ کیونکہ مجھے آج گانڈ لینی ہے۔۔ اب وہ تمھاری ساس کی ہو یا تمھاری ۔۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہی پڑتا۔۔۔اس کی یہ بات سن کر میں اندر تک لرز گئی۔۔۔۔ نن نا بابا نا مجھے اپنی پھدی نہی پھڑوانی۔۔۔ مولوی نے اپنے لن کا ٹوپا میری ساس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کے ہلکا سا دھکا دیا جس سے لن اندر تو نہی گیا مگر میری ساس کی ہلکی سی آہ نکلگئی۔۔۔ میں نے اپنی ساس کے منہ پر اپنا ہاتھ مضبوطی سے رکھا اور مولوی سے کہا اب آپ ایک دم سے سارا لن اس کی گانڈ میں داخل کر دیں۔۔ اتنا سننا تھا کہ مولوی جو پہلے ہی تیار تھا اس نے ایک بھرپور جھٹکا مارا اور سارے کا سارا لن گانڈ میں گھسا دیا۔۔۔ میری ساس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس کی دلخراش چیخ میرے ہاتھوں کے دباؤ کی وجہسے اس کے گلے میں ہی گھٹ گئی۔۔ جب پورا لن گانڈ کے اندر چلا گیا تو مولوی نے اپنا سارا جسم میری ساس کے اوپر گرا لیا اور اس کو کمر پر کسنگ کرنے لگا۔۔ تھوڑی دیر ایسے ہی رہنے کے بعد میری ساس کی حالت تھوڑی سی بہتر ہوئی۔۔ جب مولوی کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا تو وہ واپس اٹھا اوردھیرے سے اپنا لن باہر نکالا اور پھر ایک جھٹکے کے ساتھ پورا لن اندر ڈال دیا۔۔۔ یہ آدمی ہے یا جانور۔۔۔ بلکل بے رحم آدمی ہے یہ تو۔۔۔ میں نے سوچا۔۔ پھر دھیرے دھیرے مولوی نے اپنی رفتار میں اضافہ کر دیا۔۔ اور میری ساس کو ابھی بھی درد ہو رہی تھی۔۔ مگر وہ مجبور تھی کہیں جا بھی نہیسکتی تھی۔۔ جب مولوی کی رفتار میں ایک اعتدال آ گیا تو میں نے وہی کرنے کا سوچا جو میری ساس نے مجھے کہا تھا۔۔ میں غیر محسوس طریقے سے اپنی جگہ سے اٹھی اور مولوی کے بلکل پیچھے پہنچ گئی۔۔۔ پہلے تو میں بری طرح سے ڈر رہی تھی۔۔ مگر پھر اپنی ساس کا خیال آتے ہی میں نے مولوی کو پیچھے سے جپھی ڈال دی۔۔ اب مولوی کے منہ سے آآآآآآآہہہہہہہ۔۔ اووووہہہہہہ۔۔۔۔ ہااا ہا اہ ہا اہا اہاااااااااا۔۔۔۔ اس قسم کی اوازیں نکل رہی تھی اور وہ دھنا دھن میری ساس کی گاند مار رہا تھا۔۔۔ مولویکی کمر کے ساتھ میں لگی ہوئی تھی اور اسے اس کا بھی مزہ آ رہا تھا۔۔۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ پیچھے کر کے مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔۔ میں رفتہ رفتہ مولوی کو اس کی گردن سے کس کرتی ہوئی نیچے کی طرف آنا شروع ہوئی۔۔ اور نیچے آتے آتے میں نے مولوی کو زور زور سے ہلتے ہوئے ٹٹے اپنی منہ میں لے کر ان کو چوپے لگانے لگ گئی۔۔۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ مولوی اب فل جوش اور سرور میں آ گیا تھا۔۔ اب میری ساس بھی انپی گانڈ کھول کھول کہ مولوی کا لن پورا اپنی گانڈ میں لے رہی تھی۔۔۔ میری پھدی میں جو آگ لگی تھی وہ بھی تیز ہو گئی۔۔۔ اچانک میری ساس کا جسم پھر سے اکڑ گیا۔۔۔ اور اس نے گالیوں بکتے ہوئے اپنی پھدی کا پانی ایک بار پھر نکال دیا۔۔۔۔ مولوی تھوڑی دیر کے لئے رک گیا۔۔ میری ساس نڈھال ہو کر آگے کی طرف گر گئی۔۔۔۔ ایسا کرنے سے مولوی کا لن بھی میری ساس کی گانڈ سے باہر نکل گیا۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ موٹے لن ک اوپر خون لگا ہوا ہے۔۔۔ میرا سارا جسم کانپ گیا۔۔۔ مگر اس سے پہلے کہ میں اپنی ساس کو سنبھالتی مولوی نے ہاتھ بڑھا کر میری قمیض کو ایک جھٹکے کے ساتھ میرے جسم سے پھاڑ کر الگ کر دیا۔۔۔ کتے کی بچی تو کدھر جا رہی ہے۔۔۔۔ اس نے مجھے ایک اور جھٹکا دیا اور میری ساس کے برابر میں ہی گرا دیا۔۔۔ میری پھدی توپہلے سے ہی بہت ذیادہ گیلی ہو رہی تھی۔۔۔ اور دل بھی کر رہا تھا کہ اب اس آگ کو لن سے بجھالوں۔۔۔ مولوی نے میری ٹانگیں ہوا میں اوپر اٹھا دی۔۔۔ شلوار میری پہلے ہی اتری ہوئی تھی ۔۔ میری پھدیکو دیکھ کر مولوی پھر سے بے قابو ہو گیا اور اس نے میری پھدی کو دیوانہ وار چوسنا شروع کر دیا۔۔ میں لذت کی دنیا میں پہنچ چکی تھی۔۔۔ پھر میرا جسم بھی اچانک اکڑ گیا اور میری ٹانگیں زور زور سےکانپنے لگ گئ

میری پھدی کا پانی نکل چکا تھا۔۔۔۔ مگر اب مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے مولوی اب میری پھدی کا پھدا بنانے والا ہے۔۔۔ جس کو سوچ کر ہی میری جان نکل رہی تھی۔۔ میرے ذہن میں ایک بات بجلی کی تیزی کے ساتھ کوندی ۔۔ میں نے فورا" اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔ میں نے جلدی سے لیٹے لیٹے اپنی پوزیشن تبدیل کی اور اپنا منہ مولوی کی ٹانگوں کی طرف کر کے اس کے ٹٹے اپنے منہ میں ڈال لئے اس سے پہلے کہ مولوی کچھ سمجھ پاتا میں نے اس کو کمر سے پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا۔۔ اس سے یہ ہوا کہ اس کا منہ میری پھدی کے بلک اوپر آ گیا۔۔ ایک ہاتھ سے میں اس کے لن کو مالش کر رہی تھی اور دوسرے ہاتھ کے ساتھ میں نے اس کے ٹٹے سنبھالے ہوئے تھے۔۔۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد مولوی کی ہمت جواب دے گئی۔۔اور اس کے منہسے امم اہہ ہہ اااااااا۔۔ اوووووو۔۔۔ ھاااااااااا۔۔ جیسی آوازیں نکلنا شروع ہو گئی۔۔۔ پھر اس نے ایک دم سے اپنا لن میری منہ میں ڈال دیا۔۔ بڑی مشک سے مجھے سانس آ رہی تھی۔۔۔ مگر یہ تکلیف کا مرحلہ زیادہ لمبا نہی تھا۔۔ مولوی کے لن سے تازہ اور گرم منیکی دھار نکل کر میرے منہ کے اندر ہی گر گئی۔۔ جسےمیں نے باہر نلاکنے کی کوشش کی مگر ایسا نا کر سکی کیونکہ مولوی کے لن کا ٹوپا میرے منہ کو بند کئیے ہوئے تھا۔۔ جب وہ اپنی ساری منی نکال چکا تو نڈھال ہو کر ایسے ہی لیٹا رہا۔۔ میں نے ہمت کر کے اس کالن اپنے منہ سے باہر نکالا اور اس کا پانی بھی اپنے منہ سے نکال دیا۔۔ مگر کچھ کچھ پانی میرے منہ میں بھی رہ گیا۔۔ اس کا پانی بھی بہت مزے کا تھا۔۔۔ جب ہمت تھوڑی بحال ہوئی تو وہ میرے اوپر سے اٹھ گیا۔۔ میری ساس ابھی تک بے سدھ پڑی ہوئی تھی اسے کچھ ہوش نہی تھا۔۔۔ ہم نے کپڑے پہنے اور آنٹی کو آواز دی تو کوئی جوابنہ آیا ۔۔ اب میں اور مولوی پریشان ہو گئے۔۔۔ میں نے اپنی ساس کے گال تھپتھپائے مگر وہ بلکل بےہوش تھی۔۔۔ میں نے جلدی سے ان کے چہرے پرپانی کے چھینٹے مارے مگر کوئی اثر نا ہوا۔۔ اب مولوی اور میں سہی معنوں میں گھبرا گئے تھے۔ اگر آنٹی کو کچھ ہوجاتا تو پھر خیر نہی تھی۔۔ میرے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھی۔۔ مولوی نے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور یہ کہتا ہوا غائب ہو گیا کہ اگر ڈاکٹر کی ضرورت پڑی تو مجھے بتا دینا میں کچھ کر دو گا۔۔ میرا دل کررہا تھا کہ مولوی کو ابھی کےابھی قتل کر دوں۔۔۔ مگر میں نے اس سے صرف اتنا کہا کہ ابھی وہ چلا جائے۔۔۔ وہ گولی کی سی تیزی کے ساتھ ہمارے گھر سے نکل گیا۔۔ میں نے دیکھاکہ آنٹی کی سانس ٹھیک نہی چل رہی۔۔ میں نے جیسے تیسے ان کو کپڑے پہنائے اور پھر گھبرائی ہوئی آواز میں نبیل اور انپے سسر کو فون کر دیا ۔۔ وہ ایک منٹ کے اند اندر گھر آ گئے۔۔ مگر شکر تھا کہ ان کے آنے تک میری ساس کو ہوش آ گیا تھا۔۔ مگر وہ مسلسل رو رہی تھی۔۔ اس کا سارا جسم درد کر رہا تھا اور چلا نہی جا رہا تھا۔۔۔۔۔ انکل اور نبیل نے پوچھاکہ اسے کیا ہوا ہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ساری بات بتا دی ۔۔۔ نبیل نے میری ساس کو دو تین گولیاں دی کھانے کے لئے اور انکل کو لے کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔۔ میں بہت ڈر گئی تھی۔۔ پھر میرے سسر نے مجھے آواز دے کربلایا۔۔۔ میں اپنی ساس کا جسم دبا رہی تھی۔۔ ان سے تو ٹھیک سے ہلا بھی نہی جا رہا تھا۔۔ اس کمینے مولوی نے میری ساس کا حشر نشر کر دیا تھا۔۔۔ مجھے بہت رونا آ رہا تھا اپنی ساس کی یہ حالت دیکھ کر۔۔ میں جب نبیل لوگوں کے سامنے گئی تو میرے آنسو خود بخود ہی نکل آئے۔۔ میں بہت زیادہ شرمندہ ہو رہی تھی۔ انکل نے مجھے اپنے ساتھ لگایا اور کہنے لگے کہ اس میں تمھاری تو کوئی غلطی نہی تھی۔۔۔تم پریشان نا ہو جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔۔۔اب دعا کرو تمھاری آنٹی کو کچھ ناہو۔۔ مولوی کو گھر بلانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔۔ مجھے اگر پہلے پتا ہوتا تو میں کچھ کر بھی لیتا ہم لوگ لگے تو ہوئے تھے اس کا حل ڈھونڈنے میں۔۔ میں زور زور سے رونا شروع ہو گئی۔۔ پھر نبیل نے مجھے اپنے ساتھ گلے لگا لیا اور تسلی دیتے ہوئے بولے ۔۔ میری جان اب رونا بند کرو۔۔ ہم تم کو تو قصور وار نہی بنا رہے نا۔۔۔ کچھ دیر ایسے ہی رونے کے بعد دل کو ڈھارس ہوئی ۔۔ اس دوران انکل کسی کے ساتھ فون پر بات کر رہے تھے۔۔ پھر وہ آنٹی کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔۔۔:میری پھدی کا پانی نکل چکا تھا۔۔۔۔ مگر اب مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے مولوی اب میری پھدی کا پھدا بنانے والا ہے۔۔۔ جس کو سوچ کر ہی میری جان نکل رہی تھی۔۔ میرے ذہن میں ایک بات بجلی کی تیزی کے ساتھ کوندی ۔۔ میں نے فورا" اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔ میں نے جلدی سے لیٹے لیٹے اپنی پوزیشن تبدیل کی اور اپنا منہ مولوی کی ٹانگوں کی طرف کر کے اس کے ٹٹے اپنے منہ میں ڈال لئے اس سے پہلے کہ مولوی کچھ سمجھ پاتا میں نے اس کو کمر سے پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا۔۔ اس سے یہ ہوا کہ اس کا منہ میری پھدی کے بلک اوپر آ گیا۔۔ ایک ہاتھ سے میں اس کے لن کو مالش کر رہی تھی اور دوسرے ہاتھ کے ساتھ میں نے اس کے ٹٹے سنبھالے ہوئے تھے۔۔۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد مولوی کی ہمت جواب دے گئی۔۔اور اس کے منہسے امم اہہ ہہ اااااااا۔۔ اوووووو۔۔۔ ھاااااااااا۔۔ جیسی آوازیں نکلنا شروع ہو گئی۔۔۔ پھر اس نے ایک دم سے اپنا لن میری منہ میں ڈال دیا۔۔ بڑی مشک سے مجھے سانس آ رہی تھی۔۔۔ مگر یہ تکلیف کا مرحلہ زیادہ لمبا نہی تھا۔۔ مولوی کے لن سے تازہ اور گرم منیکی دھار نکل کر میرے منہ کے اندر ہی گر گئی۔۔ جسےمیں نے باہر نلاکنے کی کوشش کی مگر ایسا نا کر سکی کیونکہ مولوی کے لن کا ٹوپا میرے منہ کو بند کئیے ہوئے تھا۔۔ جب وہ اپنی ساری منی نکال چکا تو نڈھال ہو کر ایسے ہی لیٹا رہا۔۔ میں نے ہمت کر کے اس کالن اپنے منہ سے باہر نکالا اور اس کا پانی بھی اپنے منہ سے نکال دیا۔۔ مگر کچھ کچھ پانی میرے منہ میں بھی رہ گیا۔۔ اس کا پانی بھی بہت مزے کا تھا۔۔۔ جب ہمت تھوڑی بحال ہوئی تو وہ میرے اوپر سے اٹھ گیا۔۔ میری ساس ابھی تک بے سدھ پڑی ہوئی تھی اسے کچھ ہوش نہی تھا۔۔۔ ہم نے کپڑے پہنے اور آنٹی کو آواز دی تو کوئی جوابنہ آیا ۔۔ اب میں اور مولوی پریشان ہو گئے۔۔۔ میں نے اپنی ساس کے گال تھپتھپائے مگر وہ بلکل بےہوش تھی۔۔۔ میں نے جلدی سے ان کے چہرے پرپانی کے چھینٹے مارے مگر کوئی اثر نا ہوا۔۔ اب مولوی اور میں سہی معنوں میں گھبرا گئے تھے۔ اگر آنٹی کو کچھ ہوجاتا تو پھر خیر نہی تھی۔۔ میرے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھی۔۔ مولوی نے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور یہ کہتا ہوا غائب ہو گیا کہ اگر ڈاکٹر کی ضرورت پڑی تو مجھے بتا دینا میں کچھ کر دو گا۔۔ میرا دل کررہا تھا کہ مولوی کو ابھی کےابھی قتل کر دوں۔۔۔ مگر میں نے اس سے صرف اتنا کہا کہ ابھی وہ چلا جائے۔۔۔ وہ گولی کی سی تیزی کے ساتھ ہمارے گھر سے نکل گیا۔۔ میں نے دیکھاکہ آنٹی کی سانس ٹھیک نہی چل رہی۔۔ میں نے جیسے تیسے ان کو کپڑے پہنائے اور پھر گھبرائی ہوئی آواز میں نبیل اور انپے سسر کو فون کر دیا ۔۔ وہ ایک منٹ کے اند اندر گھر آ گئے۔۔ مگر شکر تھا کہ ان کے آنے تک میری ساس کو ہوش آ گیا تھا۔۔ مگر وہ مسلسل رو رہی تھی۔۔ اس کا سارا جسم درد کر رہا تھا اور چلا نہی جا رہا تھا۔۔۔۔۔ انکل اور نبیل نے پوچھاکہ اسے کیا ہوا ہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ساری بات بتا دی ۔۔۔ نبیل نے میری ساس کو دو تین گولیاں دی کھانے کے لئے اور انکل کو لے کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔۔ میں بہت ڈر گئی تھی۔۔ پھر میرے سسر نے مجھے آواز دے کربلایا۔۔۔ میں اپنی ساس کا جسم دبا رہی تھی۔۔ ان سے تو ٹھیک سے ہلا بھی نہی جا رہا تھا۔۔ اس کمینے مولوی نے میری ساس کا حشر نشر کر دیا تھا۔۔۔ مجھے بہت رونا آ رہا تھا اپنی ساس کی یہ حالت دیکھ کر۔۔ میں جب نبیل لوگوں کے سامنے گئی تو میرے آنسو خود بخود ہی نکل آئے۔۔ میں بہت زیادہ شرمندہ ہو رہی تھی۔ انکل نے مجھے اپنے ساتھ لگایا اور کہنے لگے کہ اس میں تمھاری تو کوئی غلطی نہی تھی۔۔۔تم پریشان نا ہو جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔۔۔اب دعا کرو تمھاری آنٹی کو کچھ ناہو۔۔ مولوی کو گھر بلانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔۔ مجھے اگر پہلے پتا ہوتا تو میں کچھ کر بھی لیتا ہم لوگ لگے تو ہوئے تھے اس کا حل ڈھونڈنے میں۔۔ میں زور زور سے رونا شروع ہو گئی۔۔ پھر نبیل نے مجھے اپنے ساتھ گلے لگا لیا اور تسلی دیتے ہوئے بولے ۔۔ میری جان اب رونا بند کرو۔۔ ہم تم کو تو قصور وار نہی بنا رہے نا۔۔۔ کچھ دیر ایسے ہی رونے کے بعد دل کو ڈھارس ہوئی ۔۔ اس دوران انکل کسی کے ساتھ فون پر بات کر رہے تھے۔۔ پھر وہ آنٹی کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔۔۔شام تک آنٹی حالت کچھ بہتر ہو گئی تھی۔۔۔رات کے کھانے میں آنٹی نے تو کچھ خاص کھایا نہی تھا بھوک کسی کو بھی نا تھی۔۔ہم سب بس چپ کر کے کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ آنٹی کا سوچ سوچ کے سردرد کر رہا تھا۔۔۔ اور رہ رہ کر اس حرام کے بچے مولوی پر غصہ آ رہا تھا۔۔ گھر ایک عجیب طرح کی افسردگی چھائی ہوئی تھی۔۔۔ میں ٹیبل سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔ صبح تک آنٹی کی طبیعت کافی ٹھیک تھی۔ میں نے ان کے کمرے میں ان کا حال احوال پوچھنے گئی تو میرے سسر ان کی پھدی اور گاند پر کوئی دوا لگا رھے تھے۔۔ میں واپس آنے لگی تو میرے سسر نے مجھے روک لیا۔۔ جی ابو ۔۔ میں نے پوچھا۔۔ بیٹا میں نے یہ پوچھنا تھا کہ تمھارے ساتھ تو اس مولوی کے بچے نے کچھ نہی کیا نا؟؟؟ نہی ابو میں نے خود کو بڑی مشکل سے بچایا تھا اس حرامی سے۔۔ جیسے وہ آنٹی کے ساتھ کر رہا تھا اگر میں ہوتی تو شائد مر چکی ہوتی۔۔ میں نے اپنے بازو کو ناپتے ہوے انکل سے کہا کہ اس کا اتنا بڑا تو لن تھا۔۔ میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ آنٹی نے یہ اپنے اندر لے کیسے لیا۔۔۔۔ میری بچی یہ واقعی اس کی ہمت ہے اس کی جگہ کوئی اور عورت ہوتی تو مر جاتی۔۔۔ میرے سسر بولے۔۔ زندگی کے دن اسی طرح سے گزرتے رہے۔۔۔ ہم واپس اپنی روٹین لائف میں آ چکے تھے۔۔ مگر آنٹی کے اندر زخم بنے ہوئے تھے جو ابھی ٹھیک نہی ہوئے تھے۔۔ ڈاکٹر کا علاج تو چل رہا تھا مگر کوئی خاص فرق نہی پڑ رہا تھا۔۔۔ ایک دن میں آنٹی کو لےکر ڈاکٹر فواد کے پاس گئی۔ ڈاکٹر کو کچھ بات بتائی اور کچھ نا بتائی۔ یہ شکر ہے کہ ڈاکٹر فواد کے پاس ایک لیڈی ڈاکٹر بھی تھی ہم الگ کمرے میں چلے گئے وہاں جا کر اس لیڈی ڈاکٹر نے میری ساس کا چیک اپ کیا۔ ظاہر ہے یہ چیک اپ شلوار اتار کے کیا گیا۔۔ جب اس ڈاکٹر نے میری ساس کے نیچے دیکھا تو ایک دم سے حیران ہو کر بولی۔۔ یہ کیا ہوا ہے آپ کے ساتھ؟ اور کس نے کیا ہے یہ سب؟ بس جی کیا بتاؤں ایک حادثہ ہوا تھا۔۔ اصل میں ہمارے گھر میں کچھ دن پہلے ہمارے گھر میں ڈاکو آ گئے تھے۔۔ اور انہوں نے میری عزت لوٹ لی۔۔۔ وہ بندے بھی تین چار تھے۔۔ اور میں اکیلی تھی۔۔ اس لیئے یہ حال ہو گیا تھا۔ہممم اس نے ایک ہنکارہ بھرا۔۔ اور پھر میری ساس کی پھدی کھول کے اندر تک چیک کیا۔۔ تھوڑی دیر بعد اس نے چیک اپ مکمل کر کے ان کو کچھ دوا دے دی۔۔ پھر ہم باہر آ کر ڈاکٹر کے پاس بیٹھ گئے۔تھوڑی دیر بعد اس نے چیک اپ مکمل کر کے ان کو کچھ دوا دے دی۔۔ پھر ہم باہر آ کر ڈاکٹر کے پاس بیٹھ گئے۔ میرے سامنے ہی میرا محبوب بیٹھا ہوا تھا اور میں اس کو بڑی پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی مگر وہ ہمیشہ کی طرح بے پروا بیٹھا ہوا تھا۔ جیسے اس کو اس بات سے کوئی غرض نہی کہ میں کون ہوں اور یہاں کیوں بیٹھی ہوئی ہوں۔۔ میرا دل ایک عجیب لے پر دھڑک رہا تھا میں نے سنا تھا کہ جذبے سچے ہوں تو دوسرے بندے تک دل کی لہریں پہنچ جاتی ہیں۔۔ میرے جذبے سچے تھے۔۔ مگر شائد ان میں ابھی وہ تڑپ پیدا نہی ہوئی تھی جس سے اس ظالم کو بھی احساس ہوتا۔۔ ایک دو بار فواد نے میری طرف دیکھا اور دیکھ کر مسکرا دیا۔۔ میرے دل کی دنیا اتھل پتھل ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد ہم اٹھ گئے۔۔ جب میں نے اپنے قدم دروازے کی طرف بڑھائے تو ڈاکٹر نے ایک دم سے مجھے آواز دی۔۔ نوشی جی بات سنیں۔۔ میرے قدم جہاں تھے وہی رک گئے۔۔ میں واپس مڑی تو انہوں نے مجھے اپنا کارڈ دیتے ہوئے کہا اگر کوئی پرابلم ہو تو مجھے اس نمبر پر فون کر لینا ۔ میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ کارڈ لیا اور اپنی ساس کے ساتھ کلینک سے باہر نکل آئے۔۔ کچھ دن بعد نبیل گھر آئے تو مجھے کچھ پریشان لگ رہے تھے۔۔میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ انسپکٹر منیر کا فون آیا تھا وہ امی سے ملنا چاہ رہا ہے۔ مگر امی کی تو طبیعت ہی ٹھیک نہی ہے۔ آپ نے پوچھا نہی کہ وہ امی سے کیوں ملنا چاہتا ہے؟ ۔۔۔ پوچھا تھا کہہ رہا تھا کہ مجھے ضروری بات کرنی ہے۔ ہمم۔۔ میں نے ہنکارا بھرا۔ چلیں آپ صبح آنٹی سے بات کر کے انسپکٹر کو گھر بلا لینا۔۔ اگر آنٹی نے ملنا ہوا تو ٹھیک ورنہ سہولت کے ساتھ منیر کوانکار کر دیں گے۔۔ کیا خیال ہے آپ کا؟ ہم۔ کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔۔ صبح آنٹی نے نبیل سے کہا کہ وہ منیر کو آج آنے کا کہہ دے دیکھتی ہوں کہ اس نے کیابات کرنی ہے۔۔ میرے ذہن میں پتا نہی کیوں یہ بات گھوم رہی تھی کہ منیر پھدی کا طلبگار ہوگا۔۔۔ دوسرے ہی دن انسپکٹر منیر ہمارے گھر میں بیٹھا ہوا تھا ۔۔ سنائیں جی اب تو پ کو وہ مولوی تنگ تو نہی کرتا نا؟ منیر نے آنٹی سے پوچھا۔۔ جی نہی جیفی الحال تو اس نے ہمیں تنگ نہی کیا مگر ہو سکتاہے کچھ دن تک وہ پھر سے تنگ کرنا شروع کر دے۔۔ ہا ہاہاہاہاہا۔۔ منیر نے ایک قہقہا لگایا اور کہنے لگا جناب مجھے لگتا نہی کہ اب وہ آپ کو دوبارا تنگ کرے گا۔۔ آنٹی نے منیر کی طرف دیکھا ور بولی آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں ؟؟ منیر بولا جناب میں پولیس والا ہوں مجھے سب کچھ تو نہی مگر کچھ کچھ ضرور پتا ہوتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے اور کیا ہوا ہے۔۔۔اس نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔۔ کک کی مطلب؟ آنٹی نے ہکلاتے ہوئے منیر سے پوچھا۔۔ دیکھیں جی سیدھی سی بات بتاتا ہوں آپ کو۔۔ میں بات کو گھما کہ نہی کرتا۔۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کچھ دن پہلے وہ مولوی یہاں آیا تھا۔ اور اس کا منہ آپ نے کیسے بند کیا ہےمیں یہ بھی جانتا ہوں۔۔ اور اب میں چاہتا ہوں کہ آپ میرا بھی منہ بند کر دیں۔۔ورنا یہ بات تو آپ بہت اچھے سے جانتی ہیں کہ ابھی صرف مولوی چپ ہوا ہے۔۔ اس کی تنظیم نہی چپ ہوئی۔۔ اور اس کی تنظیم میں کتنے آدمی ہیں اور وہ کس طرح کے ہیں یہ میں آپ سے بہتر جانتا ہوں۔ اس لئے۔۔۔۔۔۔۔ اتنا کہہ کر وہ چپ کر گیا۔ اس کی آنکھوں میں شیطانیت صاف نظر آ رہی تھی۔۔ آنٹی کچھ تذبذب تھی۔۔ منیر صاحب میں آپ کے لئے کیا کر سکتی ہوں؟ اگر آپ کو یہ پتا ہےکہ مولوی اس دن ہمارے گھر آیا تھا تو آپ کو یہ بھی پتا ہوگا کہ اس نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔۔ اورمیں ابھی تک ٹھیک نہی ہوئی ہوں۔ میں ابھی آپ کے کسی کام نہی آ سکتی۔۔ بہتر ہے آپ کچھ دن صبرکر لیں۔۔آنٹی چار و ناچار بات کر رہی تھی۔۔ اوہ نہی جی۔۔ صبر والی تو اب کوئی بات نہی ہے۔ دیکھیں نامیں نے کل یا پھر پرسوں سے دوسرے تھانے میں شفٹ ہو جانا ہے میری ٹرانسفر ہو گئی ہے۔ اور میں نہی چاہتا کہ میرے بعد میرے تھانے والے بھی آپکو تنگ کرنا شروع کر دیں۔ اس لئے جو بھی ہونا ہے آج ہی ہوگا۔۔آنٹی کی آنکھوں میں بے پناہ خوف تھا۔۔ میں سمجھ سکتی تھی کہ پرابلم کیا ہے۔ پھر میں نے اپنے طور پر ایک فیصلہ کیا اور اندر کمرے میں چلی گئی جہاں وہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ میرے جاتے ہی منیر چپ کر گیا۔۔ مگر میں دیکھرہی تھی کہ اب اس کی نظریں میرے جسم میں گڑھی ہوئی ہیں۔۔ جسے میں نے محسوس کیا تھا۔۔ مگر میں ابھی اس کے سامنے کھلنا نہی چاہتی تھی۔ میرے ذہن میں یہ بات چل رہی تھی کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ بعد میں یہ دوبارہ نہی آئےگا اپنی پیاس بجھانے کے لئے۔۔ میں نے آنٹی سے کہا کہ ذرا باہر آ کر میری بات سنیں ۔۔ وہ میرے ساتھ باہر آ گئی۔ اور آتے ہی بولی اب اس کمینے کو کیسے راضی کرنا ہے۔۔ یہ تو آج یسے نہی جانے والا۔۔ میں آنٹی کی بات سن کے اپنے دل کی بات بتا دی۔ آنٹی کہنے لگی کہ کیا ذہن میں چل رہا ہے تمھارے۔۔؟؟ میں نے کہا آنٹی جی میں بھی اس گھر کی بیٹی ہوں اور میں یہ برداشت نہی کر سکتی کہ آپ کو کوئی ایسے تکلیف پہنچائے۔۔ میری بات پور ہونے سے پہلے ہی میری ساس بول پڑی اس کا مطلب ہے کہ تم اپنے آپ کو منیر کے سامنے پیش کرنے کی سوچ رہی ہو؟ آنٹی کے لہے میں حیرانگی تھی۔۔ جی آنٹی جی آپ ٹھیک سمجھی ہیں۔۔ مگر میں اس منیر کا کوئی پکا حل ڈھونڈ رہی ہوں۔۔ آپ جائیں تھوڑی دیراس کے پاس بیٹھیں ۔ میں اتنی دیر میں کچھ کرتی ہوں۔۔ آج جو ہوگا دیکھا جائے گا۔۔ آنٹی نے میرا ماتھا چوما اور اندر چلی گئی۔۔ میں جلدی سے اپنے بیڈروم میں آئی اور ویب کیم نکال کے اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ جوڑا اور کیمرے کو ایسی جگہ رکھا جہاں سے کیمرےکی رینج میں میرا بیڈ تو آجائے مگر منیر یا کسی کو بھی وہ کیمرا نظر نا آئے۔۔ میرے ذہن میں ایک ڈرامائی پلان چل رہا تھا۔۔



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments