سفر
قسط 15
:پھر ہم نے تھوڑی دیر اور بات کی اور پھر کال بند کر دی۔ میں نے شاور لیا اور تازہ دم ہو کر اپنے بیڈپر لیٹ گئی،۔۔۔۔ کپڑے میں نے نہی پہنے تھے۔۔۔ مجھے نہی پتا چلا کب میری آنکھ لگ گئی ۔۔۔۔۔۔ صبح جب آنکھ کھلی تو امی اور سنی ہاسپتال جانے کے لئے تیار ہو رہے تھے۔۔ ناشتہ ابھی انہوں نےنہی کیا ہوا تھا۔۔۔ میں نہا کر فریش ہوئی اور ہم سب نے مل کر ناشتہ کیا۔۔ پھر ہم تینوں ہسپتال کےلئے نکل گئے۔۔وہاں میری ساس کے کچھ اور ٹیسٹہوئے۔۔ اور ڈاکٹرز نے دوائی میں کچھ تبدیلی بھی کی میری ساس کی حالت اب کافی بہتر تھی۔۔۔ یہاں آکر بھی مجھے ڈاکٹر فواد کی یاد بہت آ رہی تھی۔ میں چاہ کر بھی اس کو بھلا نہی پا رہی تھی۔۔ پتا نہی کیوں اس کے بارے میں سوچتے ہوئے میرے دل میں کبھی بھی سیکس کے جذبات پیدا نہی ہوئے تھے۔۔ یہ شائد اس کے پیار کا اثر تھا یا کچھ اور تھا۔۔ مگر کچھ تو تھا۔۔ میرے پاس اس کا نمبر بھی تھا۔۔ میں ایک شام باہر گھوم رہی تھی وہاں ایک کپل سڑک کنارے بیٹھا بڑے ہی رومینٹک انداز میں ہاتھ میں ہاتھ پکڑے پیار سے باتیں کر رہے تھے۔۔ میرے دل میں فواد کی یادنے انگڑائی لی۔۔ میں پھر خود کو روک نہی پائی اورڈاکٹر فواد کا نمبر ڈائل کر دیا۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ کافی دفعہ بیل ہونے کے بعد بالآخر اس ہرجائی کی آواز میرے کانوں میں آئی۔۔ ھیلو۔۔۔ اس کا مخصوص دھیما لہجہ میری روح کی گہرائی میں اتر رہا تھا۔۔ جج جی کیا حال ہے ڈاکٹر صاحب آپ کا؟ میں نے سوال کیا۔۔ جی میں ٹھیک ہوں آپ کون؟ لو جی جس کی یاد میں ہم یہاں مرنے کے قریب پہنچگئے تھے اس کو ہماری آواز ہی اجنبی لگ رہی تھی۔۔ میں نے اپنا تعارف اچھے سے کروایا تو ڈاکٹر صاحب کو بھی یاد آ گیا کہ میں کون ہوں اور کہاں سے بات کر رہی ہوں۔۔۔ جی کہیے کیسے یاد فرمایا اس ناچیز کو؟ جی ڈاکٹر صاحب ایک بہت ہی گھمبیر پرابلم ہو گئی ہے میرے ساتھ۔۔ جی کیا ہوا؟فواد نے جلدی سے سیریس ہوتے لہجے میں پوچھا۔۔ میری بے اختیار ہنسی نکل گئی جسے میں نے بڑی مشکل سے کنٹرول کیا ۔۔۔۔ہوا تو کچھ نہی ۔۔ اور بہت کچھ ہوا بھی ہے۔۔۔ میں نے ہلکے سے کہہ دیا۔۔ کا مطلب مس آپ کچھ بات کلیر کریں کہ کیا بات ہے۔۔ ڈاکٹر صاحب بات کچھ ایسے ہے کہ میرے دل میں ایک درد ہے۔۔ میں نے آج فیصلہ کر لیا تھا کہ اس سے اپنے دل کا حال کہنا ہی کہنا ہے۔۔ کیسا درد ہے محترمہ ؟؟ فواد نے مجھ سے پوچھا۔۔ ڈاکٹر صاحب ایسا درد ہے جس کی دوا ممکن نہی ہے۔۔۔ میں نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔۔۔ پھر بھی کچھ بتائیں بھی۔۔ وہ اصل میں میرا دل کہیں کھو گیا ہے۔۔ اور مجھے اتنا بھی پتا ہے کہ کس نے چرایا ہے میرا دل۔۔ اتنا کہہ کر میں خاموش ہو گئی۔۔ محترمہ اگر آپ کو پتا ہے کہ کس نے یہ حرکت کی ہے تو اس کے خلاف آپ کاروائی کریں نا۔۔۔۔ فواد نے تھوڑے شوخ لہجے میں کہا۔۔ ڈاکٹر صاحب کیا کروں وہ پیارا بھی اتنا لگتا ہے کہ میں اس کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہی کر سکتی۔۔۔ ایک منٹ محترمہ اگر آپ کے پاس واٹسایپ ہے تو میں اس پر کال کرتا ہوں یہاں آپ کو کال مہنگی پڑے گی۔۔ فواد نے کہا۔۔ چلیں ٹھیک ہے میں واٹسایپ پر کال کرتی ہوں۔۔پھر میں نے واٹسایپ پر کال کر لی۔۔ جی اب بولیں اور دل کھول کر بولیں ۔۔ فواد کی چہکتی ہوئی آواز آئی۔۔۔ بولنا کیا ہے ڈاکٹر صاحب۔۔ جس بندے نے میرا دل چرایا ہے مجھے پتا ہے اس کا مگر مسلہ یہ ہے کہ میں اس کے خلاف کچھ کر بھی نہی سکتی۔۔ وہ مجھے جان سے پیارا ہے۔۔ اچھاااااااااا۔۔۔۔۔ فواد نے ایک لمبی سانس بھری۔۔ پھر تو واقعی بہت پرابلم والی بات ہے۔۔ تو آپ ایسا کریں اس سے سیدھے سبھاؤ بات کریں کہ آپ کا دل آپ کو واپسکر دے۔۔۔ ہمم۔۔۔ میں بس اتنا ہی کہہ سکی۔۔ ویسے وہ خوش نصیب ہے کون؟ کیا میں اس کا نام جان سکتا ہوں؟؟ جس نے اتنی خوبصورت لڑکی کا دل چرا لیا ہے۔۔۔۔ کیا کریں گے آپ اس کا نام جان کر؟ میں نے سوال کیا۔۔ کرنا کیا ہے۔۔ بس دل ہی دل میں اس بندے کو سراہوں گا ۔۔۔۔ کیوں آپ کیوں سراہیں گے اس کو؟؟ کیوں کہ میں تو چاہتا تھا کہ میں آپ کا دل چرا لوں۔۔ مگر وہ مجھ سے زیادہ لکی نکلا۔۔۔۔ اور پہل کر گیا۔۔۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نا رہی یہ الفاظ فواد کے منہ سے سن کر۔۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ ابھی فون سے باہر نکل کر فواد کا منہ چوم لوں مگر ہماری سب خواہشیں پوری نہی ہو سکتی۔۔ بس میں اپنا دل مسوس کر رہ گئی۔۔۔ اچھااااااا۔۔ اگر میں یہ کہوں کہ وہ آپ ہی ہیں جس نے میرا دل چرایا ہو تو پھر؟؟ اچھاااااا۔۔۔۔ تو یہ بات ہے۔۔ فواد نے گہرے لہجے میں کہا۔۔ میری جان میں تو تب سے آپ کا دیوانہ ہوں جب آپ پہلی بار میری کلینک پر آئی تھی۔۔ تو پھر آُ نے مجھ سے کہا کیوں نہی؟؟ میں نے شاکی لہجے میں کہا۔۔۔۔ میں ڈرتا تھا کہیں آپ ناراض ہی نا ہو جاؤ۔ اور میں آپ کی ناراضگی کسی بھی صورت میں گوارہ نہی کر سکتا تھا۔۔ میں تم کو کھونے کا تصور بھی نہی کر سکتا تھا۔۔۔ فواد کے لہجے میں پیار ہی پیار تھا۔۔ اور میں اس کے پیار بھرے لہجے کی بارش میں بھیگ رہی تھی۔۔ پتا ہی نہی چلا کب آنسو میری گال پر ڈھلک آئے تھے۔۔۔ میں سمجھی کہ بارشہو رہی ہے۔۔ مگر جب آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو پتا چلا یہ بارش میری آنکھوں میں ہو رہی ہے۔۔ میری خاموشی سے شائد وہ گھبرا گیا تھا۔۔ کیا ہوامیڈم؟ کچھ نہی ڈاکٹر صاحب بس آپ کی باتوں میں کھو سی گئی ہوں۔۔۔۔ ساتھ ہی میں نے شکوے کردیے۔۔ اوہ میری جان تھوڑا حاصلہ کرو۔۔۔ ابھی تو تم مجھ سے بہت دور ہو جب پاس آو گی تو جی بھر کے شکوے کر لینا۔۔۔ ہم کافی دیر ایسے ہی بات کرتے رہے۔۔ ان باتوں میں کبھی پیار کی جھلک آجاتی تھی کبھی غصہ کبھی شکوے کبھی شکائت۔۔ جب کال بند کی تو میں نے دیکھا کہ کال کا دورانیہ تین گھنٹے کا ہو چکا تھا۔۔ یہ ٹائم کیسے گزر گیا پتا بھی نہی چلا۔۔۔ یہاں لندن میں ہمیں اب کافی دن ہو گئے تھے۔ سارا لندن گھوم لیا تھا۔۔ بہت مزہ آ رہاتھا۔۔ اس سارے عرصے میں مجھے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ سنی کی آنکھوں میں میری ساس کے لئے کچھ عجیب احساسات ہیں۔ مگر شائد وہ ابھی تک اس لیئے چپ تھا کہ ڈاکٹرز نے ابھی میری ساس کو کسی قسم کی سیکس ایکٹیوٹی سے منع کیا ہوا تھا۔۔۔ پھر ایک دن ڈاکٹرز نے چیک اپ کر کے ہمیں خوش خبری دی کہ اب میری ساس بلکل ٹھیک ہیں اور اپنے شوہر کے ساتھ جسمانی تعلقات بنا سکتی ہیں۔۔ یہ بات سن کر ہماری خوشی کی کوئی انتہا نا رہی۔۔ میں بہت خوش تھی۔۔ میں نے یہ بار اپنے سسر اور شوہر کو بھی بتا دی کہ اب آنٹی بلکل ٹھیک ہیں۔۔۔ واؤ ڈارلنگ جب آپ دونوں واپس آؤ گی تو ہم ایک پارٹی کا ارینج بھی کریں گے ۔۔۔۔ نبیل نے مجھے کہا۔۔ پھر ہم تینوں شام کے بعد باہر نکل گئے آج سنی نے ہمیں باہر لنچ کروانے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔۔ واپسی پر سنی اپنے ساتھ ایک بوتل بھی لے آیا۔۔ انگلش سکاچ ۔۔۔۔ آج بارش بھی ہوئی تھی اور موسم کافی ٹھنڈا ہو رہا تھا۔۔ میں تو گھر آ کر بستر میں گھس گئی مگر میری ساس اور سنی کچن میں چلے گئے۔۔۔ میں سردی سے بہت بریطرح کانپ رہی تھی ایسے میں میرا دل کر رہا تھا کہ کسی کی بانہوں میں گھس کر سو جاؤں۔۔ مگر کس کے؟ پھر اچانک میرے ذہن میں سنی آ گیا۔۔ واہ جی بندہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں والی بات ہو گئ یہ تو۔۔ میں یہ سوچ کر اپنے بستر سے باہر نکل آئی کہ سنی کے کمرے میں جا کر اس کے ساتھ لیٹ جاتی ہوں۔۔ مگر جب میں کچن سے سامنے سے گزری تو ایک عجیب منظر میری آنکھون کے سامنے تھا۔۔۔ میری ساس اور سنی دونوں نے اپنے ہاتھوں میں شیشے نہائت ہی نفیس گلاس پکڑے ہوئے تھے اور ان دونوں کے ہونٹ آپس میں ملے ہوئے تھے۔۔۔ میں پہلے تو اندر جانے لگی مگر پھر رک گئی۔۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ اتنے دن کے انتظار کے بعد میں ساس کیسے اپنی پھدی سنی کے حوالے کرتی ہے۔۔۔ سنی اور میری ساس فرنچ کس کر رہے تھے۔۔ پھر سنی نے اپنا ایک ہاتھ میری ساس کے موٹے تازے مموں پر رکھ دیا۔۔۔ وہ اوپر اوپر سے ہیمیری ساس کے ممے دبا رہا تھا۔۔۔ پھر میری ساس نے بھی اپنا اک ہاتھ نیچے کیا اور سنی کا لن اس کی پینٹ کے اوپر سے ہی مسلنے لگی۔۔۔ کبھی میری ساس کی زبان سنی کے منہ میں جا رہی تھی کبھی سنی کی زبان میری ساس کے منہ میں دونوں ایک دوسرے کی زبانوں کا مزہ لے رہے تھے۔۔ اور اسی دوران میری سردی بھی دور ہو چکی تھی۔۔ اب اس سردی کی جگہ ایک ہلکی ہلکی گرمی نے لے لی ہوئی تھی۔۔ میں قدرے اندھیرے میں تھی اس لیئے میرے دیکھے جانے امکانات صفر تھے۔۔۔ میں کچن کے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔ پھر سنی نے آنٹی کی شرٹ کے سامنے کو بٹن کھول دیئے۔۔۔ ابھی ایک ہی بٹن کھلا تھا کہ آنٹی کے ممے باہر آنے کو بےچین ہو گئے۔۔ شرٹ تنگ ہونے کی وجہ سے بٹن کھولنے میں کافی دشواری کا سمنا کرنا پڑ رہا تھا۔۔ کیوں کہ آنٹی اپنے بٹن ایک ہاتھ سے کھول رہی تھی دوسرا ہاتھ سنیکے لن کو سہلا رہا تھا۔۔ آنٹی کے ممے کافی ابھرے ہوئے تھے۔۔ سنی نے مزید انتظار کرنے زحمت سے بچنا ہی بہتر سمجھا اور ایک ہاتھ آنٹی کے گریبان میں ڈال کر اس کو زور سے ایک دم اپنی طرفجھٹکا دیا جس سے آنٹی کی شرٹ کے سارے بٹن ایک ہی دفعہ میں ٹوٹ گئے اور آنٹی کے ممے ان کے پش اپ برا میں پھنسے ہوئے اب سنی کے سامنے تھے۔۔۔ سنی نے جب آنٹی کے دودھ سے بھرے ہوئے ممے دیکھے تو اپنے ہوش کھو بیٹھا۔۔ اس نے اپنا منہ آنٹی کے مموں میں غائب کر دیا۔۔ آنٹی نے اپنا سر پیچھے کی طرف کر کے سنی کو بھرپور موقع فراہم کیا کہ وہ آنٹی کے ممے کی خوشبو اپنے نتھنوں میں اتار لے اچھی طرح سے۔۔۔۔ سنی نے اپنا ایک ہاتھ آنٹی کی بیک پر لے جا کر ان کی برا کی ہک کھول دی اور ان کے مموں کو برا کی قید سے آزاد کر دیا۔۔۔ افففف۔۔۔۔ دودھ سے بھرے ہوئے چھلکتے ہوئے ممے اب سنی کے سامنے بلکل ننگے تھے۔۔۔۔۔۔۔ سنی نے اپنا پورا منہ کھولا اور کسی بھوکے کتے کی طرح آنٹی کے مموں پر پل پڑا۔۔۔۔ آنٹی کے منہ سے مزے کی بھری ہوئی سکسی آوازیںنکل رہی تھی۔۔ آآآہہہہہ۔۔۔ اممممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افففففف۔۔۔۔ سس سنی کھا جاؤ آج میرے ممے۔۔ بہت دن ہو گئے ان کو کسی نے کھایا نہی ہے۔۔ آج تم کھا جاؤ سارے۔۔ آآآآہہہہہہ۔۔۔۔اممممممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنی بھی آنٹی کے حکم کے مطابق ان کے ممے بھنبوڑ رہا تھا۔۔۔۔ پھر آنٹی نے اپنا پاجامہ بھی اتار دیا اور سنی کے سامنے بلکل ننگی کھڑی ہو گئی۔۔۔ سنی نے آنٹی کو کچن کی شلف پر ہی بٹھا دیا اور ان کی ٹانگیں کھول کر پھیلا دی۔۔ پھر اس نے اپنا منہ آنٹی کی پھدی کے پاس کیا اور ایک لمبا سانس لیا۔۔ میں سمجھ گئی کہ وہ آنٹی کی پھدی کی خوشبو سونگ رہا تھا۔۔۔ پھر اس نے اپنی لمبی زبان باہتنکالی اور ساری زبان آنٹی کی پھدی میں داخل کر دی۔۔ آنٹی کا جسم ایک بار کانپ اٹھا۔۔ ظاہر ہے اتنے دنوں کے بعد ان کی پھدی میں کوئی چیز گئی تھی۔۔۔ انہوں نے اپنی ٹانگیں پوری کھول دی اور سنی کا سر اپنی پھدی کے ساتھ اور زور کے ساتھ چمٹا لیا۔۔ سنی نے پھر اپنے دانتوں کے ساتھ آنٹی کی پھدی پر چھولے کو کاٹ لیا۔۔ آآآآآآہہہہ۔۔۔ ظالم!!!!!!!!!!!!!!۔۔۔۔۔۔۔ آنٹی کی سسکاری نکلی۔۔ سنی نے جی بھر کے آنٹی کی پھدی کو کھایا ۔۔ جب سنی کا سارا منہ آنٹی کے پانی سے بھر گیا تو اس نے اپنا منہ ایک بار پھر سے آنٹی کے ہونٹوں کے ساتھ ملا دیا۔۔۔۔ آنٹی نے سنی کے ہونٹ چوس کر ان کو صاف کر دیا۔۔ پھر آنٹی نیچے بیٹھ گئی اور سنی کا لن اپنے منہ میں لے کر اس کو چوپے لگانے اگی۔۔ آنٹی اپنا پورا منہ کھول کر سنی کا سارا لن اپنے منہ میں غائب کر رہی تھی اور نیچے سے سنی ککے ٹٹے اپنی مخروطی انگلیوں کے ساتھ سہلا رہی تھی۔۔ پھر آنٹی نے اپنی زبان سے سنی کے ٹٹے چاٹ لئے۔۔ سنی نے اپنی آنکھیں لزت کی وجہ سے بند کر لی اور اپنے ٹٹے جڑ سے پکڑ کر آنٹی کے منہ میں سارے داخل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔ آنٹی کے منہ میں سارے تو نہی آ رہے تھے مگر وہ کوشش کر رہی تھی کہ سنی کی یہ خواہش پوری ہو جائے۔۔ پھر سنی نے اپنا لن آنٹی کے مموں میں ڈال دیا آنٹی کے اپنے مموں میں سنی کا دبا لیا اور اوپر نیچے مموں کو حرکت دینے لگی ۔۔۔ آنٹی کے ممے خشک تھے۔۔ سنی نے اپنا بہت سارا تھوک نکال کر آنٹی کے مموں پر گرا دیا۔۔ اب سنی کا لن بڑی آسانی کے ساتھآنٹی کے مموں میں حرکت کر رہا تھا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد آنٹی کی ہمت جواب دے گئی ۔۔ سنی میری جان اب میری ہمت جواب دے گئی ہے۔۔ اور اب پھدی بھی بہت بے چین ہو رھی ہے اس کا کچھ کرو۔۔۔ آنٹی نےٹیبل پر بیٹھ کر اپنی ٹانگیں پھیلاتے ہوئے سنی سے کہا۔۔ سنی نے آنٹی کی ٹانگیں اپنے ہاتھوں میں پکڑی اور ان کو ہوا میں پھیلا کر اپنے لن کا ٹوپا آنٹی کی پھدی پر سیٹ کیا۔۔ آنٹی نے اپنی پھدی کو ہوا میں اٹھایا تاکہ لن آسانی سے اندر جا سکے۔۔ سنی نے اپنے لن دباؤ بڑھایا اور جب ٹوپا پھدی کے اندر چلا گیا تو پھر سنی رکا نہی۔۔ اس نے ایک بھرپور جھٹکا مارا اور سارا لن جڑ تک آنٹی کی پھدی میں داخل کر دیا۔۔ آنٹی کی پھدی میں کافی عرصہ سے لن نہی گیا تھا۔۔ اب وہ خاصی ٹائٹ ہو چکی تھی۔۔ اس لیئے آنٹی کی دل خراش چیخ نکل گئی۔۔ مگر سنی کے دماغ پر اس وقت صرف پھدی سوار تھی۔۔ اس نے جلدی سے آنٹی کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لئے اور اس کی چیخ کو اپنے ہونٹوں میں گائب کر دیا۔۔۔ آنٹی بھی کچھ کم نہی تھی اس نے سنی کی کمر کو اپنی ٹانگوں کے ساتھ جکڑ لیا ور اپنے دونوں بازو بھی سنی کے سینے کے گرد لپیٹ دئے اور اس طرح سنی مکمل طور پر آنٹی کی گرفت میں آگیا اب وہ چاہتے ہوئے بھی آنٹی کو جھٹکے نہی مار سکتا تھا۔۔۔۔ تھوڑٰ دیر ایسے ہی رہنے کے بعد سنی نے خود کو آنٹی کی گرفت سے آزاد کروایا اور ایک بار پھر سے لن پھدی کا کھیل شروع ہو گیا۔۔۔ آہستہ آہستہ سنی نے اپنے دھکوں کی سپیڈ میں اضافہ کر دیا اور ایک سپیڈ کے ساتھ اب وہ آنٹی کو چود رہا تھا۔۔ آنٹی کے ممے سنی کے ہر جھٹکے کے ساتھ اوپر نیچے ہو رہے تھے۔۔ اور ادھر میری پھدی کا برا حال ہو رہا تھا۔۔۔ میں چاہ رہی تھی کہ میری پھدی میں بھی لن جائے مگر میں ابھی ان دونوں کے رنگ میں بھنگ نہی ڈالنا چاہ رہی تھی۔۔۔ آآآہہہہ۔۔ ھائےےےےےےےے افففففف۔۔۔۔۔ یہ آوازیں دونوں کے منہ سے نکل رہی تھی۔۔۔ پھر اچانک ہی آنٹٰ کا جسم اکڑ گیا اور انہوں نے سنی کو اپنے ساتھ ملا لیا۔۔ سسسسنن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سسننییی۔۔۔۔ سنی میری جان۔۔ مری پھدیپھاڑ دو آج۔۔ آآآآآۃہہہ۔۔۔ میں گئی۔۔ اور اس کے ساتھ ہی آنٹٰ کے جسم نے کانپنا شروع کر دیا۔۔۔ سنی نے یہ دیکھ کر اور زور زور سے اپنا لن آنٹٰ کی پھدی میں اندرباہر کرنا شروع کر دیا۔۔۔ اور پھر آنٹی کا جسم جھٹکے کھانے کے بعد پر سکون ہو گیا۔۔۔۔ اس دوران سنی نے بھی اپنا لن تھوڑی دیر کے لئے روک لیا تھا مگر اس کا پانی ابھی نہی نکلا تھا۔۔۔۔ آنٹی نے اپنا ایک ہاتھ اپنی پھدی سے تھوڑااوپر اپنے پیٹ پر رکھ لیا تھا۔۔ کیا ہوا؟؟ سنی نے پوچھا۔۔۔ سنی آج بہت دنوں کے بعد لن لیا ہے نا تو مجھے اب درد ہو رہا ہے۔۔۔ ہممم۔۔۔۔ مگر میں تو ابھی فارغ بھی نہی ہوا۔۔ میں کیا کروں؟ سنی نے بےچارگی کے عالم میں آنٹی سے پوچھا۔۔۔ چلو خیر ہے تم ڈالو پھر سے لن۔۔۔ نہی آنٹی جی میں اتنا بھی ظالم نہی ہوں کہ اپنی خواہش کے لئے آپ کوتکلیف دوں۔۔۔۔ مگر تمھارا پانی بھی نکالنا ضروری ہے۔۔ اگر وہ نہی نکلا تو یہ اچھا نہی ہوگا۔۔۔ سنی نے ایک بار پھر سے اپنا لن آنٹی کی پھدی میں ڈال دیا مگر فوری طور پر باہر نکال لیا۔۔۔ کیوں کہ آنٹی کے منہ سے تکلیف کی وجہ سے ایک چیخ نکل گئی تھی۔۔۔ سنی نے پھر لن کو دوبارہ آنٹی کی پھدی میں ڈالنے کی کوشش نہی کی۔۔ میں دیکھ رہی تھی کہ سنی کا لن ابھی بھی بہت خطرناک حد تک اکڑا ہوا تھا۔۔۔میں نے اپنا پاجامہ اتارا ہوا تھا اور میرا ایک ہاتھ میری پھدی پرتھا اور ایک ہاتھ سےمیں اپنے ممے دبا رہی تھی۔۔۔ اچانک آنٹی کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔۔ اس سے پہلے کہ میں وہاں سے ہٹتی آنٹی کے ساتھ ساتھ سنی کی بھی مجھ پر نظر پڑ گئی۔۔ میں بہت شرمسار ہوئی مگر میری شرمساری کو دور ان دونوں کی آواز نےدور کر دای۔۔ ادھر آؤ وہاں کیا کر رہی ہو؟؟ جج جی وو وہ وہ میں۔۔۔ یہ کیا میں میں لگا رکھی ہے۔۔۔ سنی گھوم کر میرے پیچھے آیا اور میرے گانڈ کے ساتھ اپنا سخت راڈ لگا دیا۔۔ آنٹی جی۔۔ میں اس سے پہلے کہ کچھ کہہ سکتی آنٹی نے مجھے ایک دم سے پکڑ کراپنے اوپر گرا لیا اور میری گانڈ جیسے ہی پیچھے کی طرف ہوئی سنی نے اپنا لن میری پھدی میں داخل کر دیا۔۔اففففف۔۔۔۔۔۔۔ میری چیخ نکل گئی کیوں کہ سنی نے اپنا لن روکا نہی اور پورا اندر ڈال دیا تھا۔۔ میں نے اپنی انگلیاں آنٹی کے بازو میں گھسا دی۔۔ آنٹی نے مجھے ایک فرنچ کس کی اور میرے ممے اپنے ہاتھ میںلے لئے۔۔۔ مجھے بہت ہی مزہ آ رہا تھا۔ جس کو میں لفظوں میں بیان نہی کر سکتی۔۔۔ میں نے اپنی گانڈ اور پیچھے کی طرف کر دی تاکہ سنی کا لن پورا کا پورا میری پھدی میں جا سکے۔۔۔ سنی نے یہ دیکھ کر انے دھکوں کی طوفانی رفتار اور تیز کر دی۔۔۔ میری ہھدی پہلے ہی اپنا پانی نکالنے کے قریب تھی۔۔ جیسے ہی لن اس کے اندر گیا پھدی میرے اختیار سے باہر ہو گئی۔۔ میں نے جلدی سے اپنا جسم آگے کی طرف کر لیا۔۔ اس سے یہ ہوا کہ میری پھدی سے سنی کا لن باہر نکل گیا۔۔۔ کیا ہوا میری جان؟ آنٹی نے مجھے پوچھا۔۔ آنٹٰ جی وہ دراصل کافی دیر سے میں اس میں انگلی ڈال کے کھڑی تھی تو اس کا پانی نکلنے والا تھا۔۔ میں ابھی سنی کے لن کا مزہ لینا چاہ رہی ہوں اس لیئے سنی کا لن تھوڑی دیر کے لئے باہر نکال لیا ہے۔۔۔ سنی نے میرے بازو اپنے ہاتھوں میں پکڑے اور ان کوپیچھے کی طرف نوڑ دیا۔۔۔ اب صورت حال یہ تھی کہ میں جھکی تو آگے کی طرف تھی مگر میرے بازو سنی کے ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے میرا سر پیچھے کی طرف تھا اور میں آگے کی طرف نہی جا سکتی تھی۔۔ سنی نے اپنے لن کا ٹوپا میری پھدی پر رکھا اور ایک دھکے کے ساتھ سارا لن میری پھدی میں غائب کر دیا۔۔۔ اس کا لن سیدھا میری بچہ دانی میں جا کر لگا۔ جس سے ایک درد کی لہر اٹھی مگر میں کر کچھ نہی سکتی تھی۔۔۔ آگے آنٹی نے مجھے پکڑا ہوا تھا اور پیچھے سے سنی کا لن میری پھدی کی بینڈ بجا رہا تھا۔۔۔ اورمیں سنی اور ٹیبل کے درمیان پھنس گئی تھی۔۔۔ پھر میں نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا۔۔۔ اب جو ہواگا دیکھا جائے گا۔۔۔ سنی کا لن میرے اندر تباہی مچا رہا تھا۔۔۔ پھر میرا جسم بھی اکڑ گیا اور میری پھدی میں جیسے سیلاب آ گیا۔۔۔ میرا ساراجسم بہت زبردست کانپ رہا تھا۔۔۔۔ سنی نے اپنا لن باہر نکالا اور آنٹی سے کہنے لگا۔۔ دیکھا آنٹی جی میرے لن کے آگے آپ دونوں ساس بہو نہی ٹک سکی۔۔۔ آنٹی نے نیچے بیٹھ کر سنی کے لن کو ایک چما دیا اور بولی یہ لن تو ہے ہی بہت زبردست۔۔۔ میں لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔۔ جب تھوڑا سانس بحال ہوا تو سنی نے مجھے ایک بار پھر سے گھوڑی بنا لیا۔۔ میں سمجھی کہ اب پھر وہ پھدی پر وار کرے گا۔۔ مگر ایسا نہی تھا۔۔ اس نےاپنے لن کا ٹوپا اس بار میری گانڈ کے سوراخ پر رکھدیا اور اسے ہلکے ہلکے دبانے لگا۔۔ میری سانس پھر رک گئی۔۔ میں نے مدد طلب نظروں سے آنٹی کی طرف دیکھا مگر انہوں نے مسکرا کر مجھے گھوڑی بنے رہنے کا کہہ دیا۔۔۔ میں نے کہا سنی مجھے بہت درد ہوتا ہے گانڈ میں لن لینے کی وجہ سے کوئی بات نہی میں ہوں نا میری جان تمھاری یہ مشکل حل کرنے کے لئے۔۔ آنٹی نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اپنا منہ میری گانڈ کے اوپر رکھ کر میری گانڈ کے سوراخ کو چومنا اور چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔ جب وہ میری گانڈ کے سوراخ پر اپنی زبان لگاتی تو جیسے ایکمزے کی لہر میرے سارے جسم میں دوڑ جاتی۔۔۔۔ کچھ دیر ایسا کرنے کے بعد آنٹٰ نے اپنی ایک انگلی میری گانڈ میں داخل کر دی۔۔۔ میری گانڈ پر آنٹی نے کاف سارا تھوک لگایا اور سنی کو لن آگے کرنے کا اشارہ کر دیا۔۔۔ سنینے اپنے لن کے ٹوپے پر دباؤ بڑھایا اور ٹوپا میری گانڈ کے اندر داخل کر دیا۔۔ درد کی شدید لہر اٹھی مگرمیں نے اپنے زبان کو اپنے ہونٹوں کے درمیان دبا لیا۔۔۔۔ آنٹی یہ سب دیکھ رہی تھی۔۔ انی بڑے پیار پیار کے ساتھ اپنا لن میری گانڈ کے اندر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ آنٹی نے اسے کمر سو ایک دم دھکا دیا جس کی وجہ سے سنی کا لن آدھے سے زیادہ میری گانڈ کے اندر چلا گیا۔۔ میں درد کی وجہ سے بلبلا اٹھیمگر اب سنی نے مجھ پر ذرا بھی ترس نہی کھایا اور ایک اور بھرپور دھکا دیا جس سے اس کا باقی کا لن بھی میری گانڈ کے اندر چلا گیا۔۔۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ سنی نے اپنے لن کو تھوڑی دیر کے لئے روکا اور میری ننگی کمر کو بھپور طریقے سے چومنا شروع کر دیا۔۔۔جیسے جیسے وہ میری چوم رہا تھا مجھے درد میں کمی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ جب درد کافی کم ہو گئی تو پھر سنی نے اپنا لن آرام سے باہر نکالا اور پھر اندر کر دیا۔۔ اب کی بار درد کے ساتھ مزہ بھی آیا جس کا اظہار میں نے سنی کے ساتھ اپنی گانڈ ملا کر کر دیا۔۔۔ سنی سمجھ گیا ۔۔۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنی رفتار تیز کر دی۔۔ اب مجھے درد کی جگہ مزہ آ رہا تھا۔۔ میں سنی کا ساتھ پورا پورا دے رہی تھی۔۔ آآآآۃہہ۔۔۔ اااااااااوووووہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھائےےےےےےےےےےےےے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ااامممم۔۔۔۔ جاااااانننن۔۔۔۔۔ اور تیز ۔۔۔۔ یس یس یس۔۔ تیزز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ایسے ہی اپنے منہ سے آوازیں نکالرہی تھی۔۔۔۔ آنٹی کے اپنی دو انگلیاں میری پھدی میں داخل کر دیں۔۔ افففففف۔۔۔۔۔۔۔ میں مزے کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔۔۔۔ میں نے آنٹی کا ہاتھ پکڑ کر اس کو تیزی سے اپنی پھدی میں حرکت کرنی شروع کر دی۔۔۔۔ مجھے بہتمزہ آ رہا تھا۔۔۔۔ میں ایک بار پھر فارغ ہونے کے قریب پہنچ گئی مگر سنی کا ابھی دور دور تک کوئی امکان نہی تھا کہ وہ بھی فارغ ہو جائے گا۔۔۔۔ میں نے آنٹی سے کہا کہ کچھ کریں سنی کا بھی ۔۔ یہ تو مجھے مار ڈالے گا آج۔۔۔ آنٹٰ نے کہا تم فکر نہی کرو میں اس کو فارغ کرتی ہوں ابھی۔۔۔ وہ گھوم کر پیچھے گئی اور سنی کے ٹٹے اپنے منہ میں لے کر ان کو چوسنا شروع کر دیا۔۔ آآآآہہہ۔۔۔ سنی کے منہ سے بے اختیار ایک سسکی نکلی۔۔ ہر مرد کی کمزوری یہی اس کے ٹٹوں میں ہوتی ہے۔۔ مجھےاب اس بات کا یقین آ گیا تھا۔۔۔ آنٹٰ نے سنی کے ٹٹوں کو اپنی زبان سے خوب گیلا کیا اور پھر سے اپنے منہ میں لے لیا ان کو۔۔۔ اب سنی نے بھی اپنی رفتار تیز کر ی تھی۔۔ مجھ میں اب صبر ختم ہو رہا تھا۔۔۔ سسسس سنییییی۔۔۔۔۔۔ سنی۔۔ میری پھدی کا پانی پھر سے نکلنے لگا ہے۔۔۔ تمھارا کیا پروگرام ہے؟؟ میں نے گردن گھما کر سنی سے پوچھا۔۔۔ میری جاان۔۔ میرا لن بھی چھڑکاؤ کرنے کے لئے بےچین ہو رہا ہے۔۔ تو کر دو نا پلیز سنی۔۔۔۔ میر ری گانڈ میں اپنا پانی چھوڑ دو پلیز۔۔۔ میں سنی کے ترلے کرنے لگ گئی۔۔۔۔ ادھر آنٹی نے سنی کے ٹٹوں کو اپنے دانتوں سے ہلکا ہلکا کاٹ رہی تھی۔۔۔۔ جس سے سنی بھی مزے کی بلندیوں پر تھا۔۔۔۔ اس نے اپنے فارغ ہونا کا اشارہ دے دیا۔۔۔ میں نے بھیاپنی گانڈ کو ممکن حد تک کھول دیا۔۔۔ سنی کا لن پتا نہی کیسے میرے اندر باہر ہو رہا تھا ۔۔ میری گانڈ کے ساتھ ساتھ میرے پھدی میں بھی پانی کا سیلاب آ رہا تھا۔۔ میں نے اپنی تین انگلیاں اپنی پھودی میں ڈال دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
0 Comments