ads

Safar - Episode 17

سفر

قسط 17



جاتے تھے آج میں نے ارادہ کیا ہوا تھا کہ لن منہ میں نہی لینا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔ مگر مجھے کیا پتا تھا۔۔ جیسے ہی دوچار دفعہ انہوں نے اپنا لن میرے ہاتھوں میں آگے پیچھے کیا ان کی منینکل گئی۔۔۔۔ پھر میں نے بہت کوشش کی کہ لن کھڑا ہو سکے مگر نہی ہوا۔۔ پھر میں نے ان کا لن اپنے منہ میں لے کر چوپے بھی لگائے مگر کوئی طریقہ کامیاب نہ ہو سکا اور مجھے پھر راتکو یہ ادھورا ہی چھوڑ کر سو گئے۔۔ میں نے تمھارا دیا ہوا ربڑ کالن پھدی میں لے لے کر اپنی پیاس بجھائی مگر تم جانتی ہو کہ مرد کا لن جتنی پیاس بجھا سکتا ہے وہ کام یہ ربڑ کا لن کر ہی نہی سکتا۔۔۔ میں کیا کروں چھوٹی ۔۔۔ اتنا کہہ کر باجی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔۔ میں نے ان کو تسلی دی اور سوچنے لگ گئی کہ میں اس مسئلہ میں باجی کی کیا مدد کر سکتی ہوں۔۔ شام تک سوچ سوچ کر میرا دوران خون کم ہو گیا۔ میں اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی آنٹی مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔۔ جی ہاں اسی دشمنِ جاں کے پاس جس کو دیکھے ہوئے مدت ہو گئی تھی۔۔ فواد مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔۔۔ پہلے تو اس نے میرا چیک اپ کر کے مجھے دوا دی پھر اس کے بعد گلے شکوے لے کر بیٹھ گیا۔۔ اسے سب سے زیادہ شکائت اس بات ہر تھی کہ میں نے اسے اپنے دل کے خیالات پہلے کیوں نہی بتائے تھے۔۔ جب میں نے اس کو اپنی ساری مجبوریاں بتائی تو وہ کسی حد تک مطمئن ہو گیا۔۔ پھر ہمارے گھر جانے کا ٹائمہو گیا۔۔ جیسے ہی میں نے اس سے اجازت مانگی اس نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا اور ایکپیار بھری کس میرے ہونٹوں پر جڑ دی۔۔ اس کے ہونٹوں کی مٹھاس میں نے اپنی زبان سے چکھ لی۔۔ ہماری آج کی ملاقات زیادہ لمبی نہی ہو سکتی تھی کیوں کہ اس کے پاس مریضوں کا کافی رش تھا۔۔ میں اس کے ہونٹوں کے نشے میں گم گھر آ گئی۔۔ دوسرے دن اتوار تھی۔۔ میں ابھی اپنے بستر پر ہی تھی کہ میرے فون کی بیل ہوئی میں نے کسلمندی سے آنکھیں کھولی تو سامنے سکرین پر ڈاکٹر فواد کا نمبر آ رہا تھا۔۔۔میری طبیعت خوش ہو گئی اس کا نمبر دیکھ کر۔۔۔ وہ ملنا چاہ رہا تھا۔۔۔ او کے جہاں کہتے ہو مین آ جاتی ہوں مجھے کوئی مسئلہ نہی ہے۔۔ میں نے فواد کو جواب دیا۔۔ امم۔۔ ایسا کرو پھر تم تیار ہو کر مجھے بتاؤ میں تم کو گھر سے ہی پک کر لیتا ہوں اور کسی ریسٹورنٹ میں جا کر کچھ دیر گپ لگاتے ہیں اور ساتھ ہی ناشتہ بھی کر لیتے ہیں۔۔ ہمم۔۔ میں نے سوچ کر اسے ہاں بول دیا اور خود واشروم میں گھس گئی۔۔ آج میں نے اپنے جسم کیسپیشل قسم کی صفائی کی تھی۔۔ مجھے پوری امید تھی کہ آج فواد میرے جسم کی ڈیمانڈ ضرور کرے گا۔۔۔ میں تیار ہو رہی تھی کی آنٹی میرے کمرے میں آ گئی مجھے ایسے تیار ہوتے دیکھ کر مجھے کہنے لگی۔۔۔ اوے ہوئے۔۔ آج لگتا ہے کسی غریب کی جان نکالنے جا رہی ہے ہماری دلہن بیٹی۔۔ کون ہے وہ خوش قسمت؟ آنٹی نے سیٹی بجاتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔۔ ہی ہی ہی ہی ۔ میں ہنس دی ۔۔ ماں جی وہ کوئی اور نہی ڈاکٹ فواد ہے ۔۔ آج اس کے ساتھ میریملاقات ہے۔۔۔ اچھاااااااااا۔۔۔۔۔ آنٹی نے معنی خیز انداز میں سر ہلایا اور میری گال پر ایک کس کر کے کہنے لگی خیال رکھنا کہیں ایسا نا ہو کہ ڈاکٹر صاحب اپنے گھر کا راستہ ہی نا بھول جائے۔۔ میں بس مسکرا کر رہ گئی۔۔۔ ابھی میں تیار ہوئی ہی تھی کہ فواد کا فون آ گیا میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو وہ ہمارے گھر کے سامنے ہی اپنی کار میں بیٹھا میرا انتظار کر رہا تھا۔۔ میں جلدی سے نیچے آئی ۔۔ کار میں بیٹھتے ہوئے اچاننک میرے ذہن میں آیا کہ کیوں نا میں ارسلان بھائی کا مسئلہ بھی فواد کے ساتھ ڈسکس کر لوں۔۔ یہ خیال آتے ہی مجھے جیسے ایک سکون سا ہو گیا۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ یہ کوئی نا کوئی حل نکال لیں گے۔۔ راستے میں ہم ہلکی پھلکی باتیں کرتے ہوئے کب ہوٹل پہنچے پتا ہی نہی چلا۔۔۔ میں اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی تھی مجھے فواد نے کاندھے سے پکڑ کر ہلایا۔۔ کیا بات ہے گڑیا۔۔ اس کا ایسے گڑیاکہنا مجھے بہت اچھا لگا۔۔۔ میں نہال ہی تو ہو گئی اس کی اس ادا پر۔۔ کک کچھ نہی یار بس ویسےہی۔۔ کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاؤ۔۔ وہ مجھ سے بڑے پیار سے پوچھ رہا تھا اور میں بس اس کی آنکھوں میں کھائی ہوئی تھی۔۔ وہ بار بار اپنا ہاتھ میرے سامنے لہرا کر مجھے اسی دنیا میں واپس لے کر آتا۔۔ جب میں کافی دیر تک بھی واپس اپنے ہواس میں نہی آئی تو وہ جھنجلا اٹھا۔۔ دیکھو اگرتم کو میرے ساتھ ایسے آنا اچھا نہی لگ رہا تو بھی بتا دو میں تم کو زبردستی نہو روکوں گا۔۔۔۔ وہ کچھ روٹھ سا گیا تھا۔۔ ارے نن نہی نہی ۔۔ ایسی بات نہی ہے فواد۔۔ جو بات ہے پریشانی کی وہ میں ابھی تم کو بتاتی ہوں ۔۔ مگر تم ابھی اپنا موڈ ٹھیک کرو پلیز۔۔ ایسے بلکل بھی اچھے نہی لگ رہے ہو۔۔۔ اچھا چلو پہلے اپنی پرابلم بتاؤ ۔۔ وہ بھی ضد پر اڑ گیا تھا۔۔۔ اچھا بابا بتاتی ہوں میں کہیں بھاگی جا رہی ہوں کیا۔۔۔ چلو اب بتاؤ بھی۔۔ وہ بھی ایس ٹلنے والا نہی تھا مجھ سے جب تک پوچھ نہی لیتا ا نے چین سے نہی بیٹھنا تھا۔۔۔ میں نے ایک لمبا سانس لیا اور پھر فواد کوسب بتا دیا کہ میری باجی اور اس کے ہسبنڈ کے ساتھکیا پرابلم چل رہی ہے۔۔۔ بس!!!!!!!!!! اتنی سی پرابلم کے لئے تم اتنی زیادہ پریشان ہو رہی تھی۔۔ میں سامجھ پتا نہی کتنی بڑی پرابلم ہو گی۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔ وہ میری بات سن کر ہنس دیا اور ہونکوں کی طرح اس کا منہ تکے جا رہی تھی۔۔۔ ارے یار میں تمھارے بہنوئی کا لن ایسے ٹائٹ کر دو گا کہ ساری ساری رات اس کا بیٹھا نہی کرے گا۔۔۔ اور جب تک تمھاری بہن تین چار دفعہ فارغ نہی ہو جاتی وہ فارغ نہی ہوا کرے گا۔۔۔ اچھا!!!!۔۔۔ میں نے اپنا لہجہ معنی خیز کر کے کہا۔۔۔ جی جناب اور اگویسے اتنا یقین آپ جناب کو کیسے ہے؟ اگر تم کو یقین نہی ہے تو میں تم کو اس کا تجربہ بھی کروا سکتا ہوں۔۔۔ فوادنے میری طرف جھک کر بڑے رازدار انداز میں کہا۔۔۔ اچھا!!!!!!!!۔۔میں نے معنی خیز انداز میں کہا ۔ تو جناب خود پر بڑا اعتماد ہے آپ کو؟۔ کہیں ایسا نا ہو کہ پہلے ٹیسٹ میں ہی جناب فیل ہو جائیں۔۔ آزمائش شرط ہے ۔۔ فواد چہک کر بولا۔۔اچھا تو ٹھیک ہے مگر چیک کہاں کرنا ہے؟ میں نے اپنی بھنوئیں اچکاتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔۔امممم ایسا کرتے ہیں میرے اسی ہوٹل میں کمرہ لے لیتے ہیں اور ادھر ہی چیک کر لیتے ہیں۔۔۔ چلیں ٹھیک ہے۔ میں نے ہامی بھر لی۔۔ فواد ٹیبل سے اٹھا اور کاؤنٹر پر جا کر کمرہ بک کروانے لگا۔۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا اس کے منہ پر خوشی کی جگہ مایوسی تھی۔۔ میرے پوچھنے پر بتانے لگا کہ ادھر کوئی کمرہ فارغ نہی ہے اور ہمیں کہیں اور جانا پڑے گا۔۔ فواد کی بھوکی نظریں میرے سینے کا طواف بار بار کر رہی تھی اور میں اس بات کو اچھے سے جانتی تھی ۔۔ میں نے بھی اسے روکا نہی اور ایسے ہی اس کو انجوائے کرنے دیا۔۔۔ اب پھر کیا کرنا ہے؟؟ میںنے پوچھا۔۔ کچھ کرتا ہوں۔۔۔ اچانک میں بولی ڈاکٹر صاحب آپ کے کلینک کے بارے میں کیا خیال ہے؟ْْ وہاںتو آج کوئی بھی نہی ہوگا نا؟؟ میں نے ایک نقطہ سجھایا۔۔۔ ارےےےےے واؤؤؤؤؤ۔۔ یہ بات تو میرے ذہن میں آئی ہی نہی تھی۔۔۔ کیا بات ہے نوشی جی۔۔ تم تو کمال ذہن کی مالک ہو۔۔۔ ہی ہی ہی ہی ۔۔۔ میں کھی کھی کر کے ہنس دی۔۔۔ ہم ہوٹل سے اٹھے اور فواد کے کلینک کی طرف رخ کر دیا۔۔۔۔۔ کار میں بیٹھ کر میں نے اپنی شرٹ کے اوپر والے دو بٹن کھول دئیے جس سے میرا کالا کلر کا برا صاف نظرآنے لگا۔۔۔ اور میرے مموں کی لکیر فواد کو پاگل کرنے کے کافی تھی۔۔۔ افففف۔۔۔ نوشی جی کیوں میری جان نکالنے پر تلی ہوئی ہیں آپ آج۔۔۔ فواد رومانٹک انداز میں بولا۔۔۔ میں آپ کی جان نکال نہی رہی بلکہ آپ میں جان ڈال رہی ہوں ۔۔۔ ہاہاہاہاہا۔۔ فواد کھلکھلا کر ہنس دیا۔۔۔ چلیں ابھی آپ جان نکال لو بعد میں میںَ نکال لوں گا تمھاری جان۔۔ ہائیں؟؟ وہ کیسے؟؟ میں حیران ہو کر بولی۔۔ ہاہاہاہا۔۔ ڈارلنگ تم ایک بار کلینک تو پہنچ لو پھر بتاتا ہوں۔۔اہو!!!!!!!!! مجھے تو اب خیال آیا ہے کہ جناب کیسے میری جان نکال سکتے ہیں۔ میں نے ایک دم چونک کر کہا۔۔ کیا مطلب میں سمجھا نہی۔۔ فواد سٹپٹا کر بولا۔۔۔ وہ ایسے حضور کہ آپ جناب تو ڈاکٹر ہیں۔۔۔ میں نے مزے لیتے ہوئے جواب دیا۔۔ ہاں تو؟؟؟ فواد ابھی تک الجھا ہوا تھا۔۔۔ تو میرے بدھو عاشق صاحب آپ کوئی گولی شولی کھا کر بھی میری جان نکالنے کا پورا انتظام کر سکتے ہیں۔۔ نا بابا مجھے نہی جانا آپ کے ساتھ ۔۔۔ میں نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر فواد کو چڑایا۔۔ ارےےےےےے۔۔۔ یہ کس کنجر نے تم سے کہہ دیا کہ میں ایسا کوئی بھی ارادہ رکھتا ہوں۔۔۔ فواد نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا۔۔۔ میری امی نےکہا ہے ایسا۔۔۔ میں نے اپنی ہنسی کو کنٹرول کرتے ہوئے فواد سے کہا۔۔۔ ہائیں؟؟؟؟؟ یہ تم اپنی امی کو بھی بتا کر آئی ہو کہ تم میرے ساتھ میرے کلینک پر جا رہی ہو۔۔۔ فواد جھنجھلا گیا۔۔ ہاہاہاہااہا۔۔۔ میں زور زور سے ہنسنے لگ گئی۔۔۔ میری ہنسی نہی رک رہی تھی۔۔ جب میں ہنس ہنس کر بے حا ہو گئی تو مجھے فواد کا پھولا اور الجھن ذدہ چہرہ نظر آیا۔۔۔ اس کو دیکھ کر ایک بار پھر میری ہنسی چھوٹگئی۔۔۔ فواد نے چار سڑک کے ایک طرف روک دی اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔ ارے بابا کیا ہو گیا ہے تم کو۔۔ میں کیوں اپنی امی کو بتا کر آنے لگی یہ سب کچھ۔۔ میں نے بڑی مشکل سےاپنی ہنسی روک کر کہا۔۔ تو پھر؟؟ فواد نے الجھتے ہوئے سوال کیا۔۔۔افففف خدایا ایک تو آپ کو مذاق بھی سمجھانا پڑ جاتا ہے۔ اچھا چلو اب سمجھاؤ میں ابھی تک الجھا ہوا ہوں تمھاری باتوں سے۔۔۔ ارے یار سیدھی سی بات ہے آپ ڈاکٹر ہو اور آپ کے پاس تو ہر قسم کی گولی ہو سکتی ہےاور آج آپ اس کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔۔۔میں نے وضاحت کی تو فواد کھسیانا ہو کر رہ گیا۔۔ ہاہااہاہاہا۔۔ واقعی یہ تو سامنے کی بات تھی جو مجھے سمجھ جانی چاہئے تھی مگر تمھارا جادو ہی ایسا ہے کہ میرے حواس ہی کام نہی کر رہے تھے۔۔ ہاہاہاہا۔۔ فواد مجھے بہت معصوم سا لگ رہا تھا یہ بات کرتے ہوئے ۔۔ اور اس پر مجھے ڈھیروں ڈھیر پیار آ رہا تھا۔۔ مجھ سے رہا نہی گیا اور میں نے آگے ہو کر فواد کا گال چوم لیا۔۔۔۔ ارے ارے ارےےے۔۔۔ بس بس بس ۔۔ فواد نے احتجاج کرتے ہوئے کہا۔۔۔ میں ایک بار پھر ہنس دی۔۔۔ اسی دوران ہم کلینک پہنچ گئے ۔۔۔ فواد نے اپنا سپیشل کمرہ کھلوایا اور ملازم کو کولڈ ڈرنک لینے بھیج دیا۔۔۔ کولڈ ڈرنک آنے تک ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔۔۔ اس کا یہ کمرہ بہت ہی نفاست سے سجایا گیاتھا۔۔ میں تعریف کئے بنا نہ رہ سکی۔۔۔ اچھا تو یہ کمرہ اسی مقصد کے لئے بنایا ہوا ہے جناب نے۔۔ ہے نا؟؟؟ میری شرارت کی رگ ایک بار پھر پھڑک اٹھی ۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔ ارے نہی یار ایسی کوئی بات نہیہے یہ کمرہ میں نے اس لئیے بنوایا ہے کہ جب کبھی کام سے تھک جاؤں تو یہاں آ کر آرام کر لیتا ہوں ۔۔۔ فواد نے جواب دیا۔۔ اچھا۔۔۔ اور ساتھ تھکاوٹ اتار بھی لیتے ہوں گے ۔۔ ہے نا؟؟؟؟ میں نے ایک بار پھر سوال کر دیا۔۔۔ یار تھکاوٹ لوڑا اتارنی تھی تم آج سے پہلے کبھی ملی ہی نہی تھی جو میں تھکاوٹ اتارتا۔۔۔۔ اچھا جی اس کا مطلب ہے کہ ارادے پہلے ہی ٹھیک نہی تھے تمھارے۔۔۔ میں نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔ اس سے پہلے کہ فواد کچھ کہتا ملازم کولڈ ڈرنک لے کرآ گیا۔۔۔ کمرے میں اے سی لگا ہوا تھا کافی پر سکون ماحول تھا۔۔ میں ریلیکس ہو کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔ فواد میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔۔ وہ جیسے ہی قریب آیا اس کی مسحور کن خوشبو میرے نتھنوں میں اتر گئی۔ میں نے ایک لمبا سانس لیا اور اس کی خوشبو کو اپنے اندر اتار لیا۔۔۔پتا نہی کیوں میری آنکھوں میں نمی آ گئی۔۔ گو کہ ابھی اس کے پاس بیٹھی ہوئیتھی مگر اس کی جدائی کا غم ابھی سے میرے کلیجے کو کاٹ رہا تھا۔۔۔ کیا بات ہے میری جان؟؟ فواد نے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بڑےپیار سے پوچھا۔۔۔ کچھ نہی جان بس ویسے ہی آنکھ میں کچھ پڑ گیا ہے شائد۔۔۔ میں بات کو ٹال گئی ۔۔ میں نہی چاہتی تھی کہ فواد کو میری اس کمزوری کا ذرا سا بھی احساس ہو۔۔ فواد نے میری ران پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ میں نے اس کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش بھی نہی کی اور ایسے ہی اس کے ہاتھ کو رہنے دیا۔۔۔۔ میرا جسم اب ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔۔۔ یہ میرا پہلا تجربہ نہی تھا سیکس کا مگر پتا نہی کیوں فواد کے ساتھ میری فیلنگز کچھ اور تھی۔۔۔ میں نے اسے کبھی سیکس کے انداز میں نہی سوچا تھا۔۔ میں اسے پیار کرتی تھی اور دل جان سے کرتی تھی۔۔۔ اور میری یہ خواہش بلکل بھی نہی تھی کہ وہ بھی مجھے ایسے ہی چاہے۔۔۔میری بس اتنی سی خواہش تھی کہ وہ میرے سامنے رہے ۔۔۔ مجھے اور کچھ نہی چاہئے تھا۔۔۔ فواد کا دوسرا ہاتھ میرے سینے پر رینگ رہا تھا۔۔ میںنے اس کی طرف اپنے ہونٹ کر دیئے ۔۔ جن کو اس نے بڑے پیار کے ساتھ اپنے ہونٹوں میں قید کر لیا اور میرے ہونٹوں کو ایسے چوس رہا تھا جیسے یہ بہت ہی نازک کانچ کے ہیں جو ذرا سی ٹھوکر سے ٹوٹ جائیں گے۔۔ میں اس کا پورا ساتھ دے رہی تھی۔۔ میں نے اپنی زبان نکال کر اس کے ہونٹوں کا پھیرنے لگی۔۔۔ فواد نے میری زبان کو اپنے منہ میں لے لیا اور اتنے انوکھے انداز سے اس کو چوس رہا تھا کہ مجھے آج تک ایسا مزہ نہی ملا تھا جیسا اب مل رہا تھا۔۔۔۔ میں آہستہ آہستہ جوش میں آ رہا تھی۔۔۔۔ مگر میں نے ابھی تک اس کا لن نہی پکڑا تھا۔۔۔ پھر فواد نے میری گردن کو پکڑا اور مجھے اپنی گود میں گرا لیا اور میرے ہونٹوں کو دیوانہ وار چومنے چاٹنے لگ گیا۔۔ کبھی اس کی زبان میرے ہونٹوں کو ٹچ کرتی کبھی وہ میری زبان کو اپنے منہ میں لے کر چوستا۔۔۔ پھر اس نے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی۔۔ میں اس کی زبان کو جتنا ممکن تھا اپنے منہ کے اندر لے گئی اور ایسے چوسنے لگی جیسے کوئی بچہ بت دنوں سے بھوکا ہو اور اس کو آج جا کر کہیں مدت بعد دودھ ملا ہو پینے کے لئے۔۔ میں اس کی زبانکی مٹھاس اپنی روح میں اتار رہی تھی۔۔۔ اور میرا دل کر رہا تھا کہ ایسے ہی یہ وقت رک جائے اور میں کبھی بھی فواد کے ہونٹوں سے الگ نہ ہوں۔۔۔۔ پھر فواد نے میری شرٹ کے بٹن کھول دئے اور میرے ممے اپنے سامنے ننگے کر لئے۔۔ میرے بھرے بھرے ممے دیکھ کر فواد کی رال ٹپک پڑی۔۔۔۔ وہ براکے اوپر سے ہی ان کو دبانا شروع ہو گیا۔۔ میں آج خود سے کچھ بھی کرنے کے موڈ میں نہی تھی۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ فواد خود ہی سب کچھ کرے۔۔۔ مجھے ننگا بھی وہی کرے اور جو بھی کرنا ہے مجھے خود سے نہ کرنا پڑے۔۔۔ میں آج سچ میں اس کی غلام بنی ہوئی تھی۔۔ وہ آج مجھے جو کچھ کہتا میں نے کرنا تھا اور بلا چوں چراں کرنا تھا۔۔ میں آج اپنے دلبر جانی کو خوش کرنے کے لئے آئی تھی نہ کہ خود خوش ہونے آئی تھی۔۔۔ آج اس کا ٹائم تھا۔۔ بعد میں جب دوبارہ ملیں گے تو میں بھی اپنی ساری خواہشیں پوری کر لوں گی اس پر۔۔فواد میرے مموں کو اتنی زور سے دبایا کہ میری چیخ نکل گئی مگر میں نے اپنی چیخ کو اپنے منہ میں ہی دبالیا۔۔۔ میں نہی چاہتی تھی کہ میرا محبوب ڈسٹرب ہو یا وہ اپنا کام روک دے۔۔۔ مجے درد سے زیادہ مزہ آ رہا تھا۔۔ میں نے اپنا سینا تان لیا۔۔ یہ دیکھ کر فواد اوربے قابو ہو گیا اور اس نے اپنا ہاتھ میرے برا کے اندر ڈال دیا۔۔۔ میں نے اسے کہا جان اگر برا تنگ کر رہا ہے تو اسے اتار کیوں نہی دیتے ہو؟ نہی جان تمھارے ممے برا میں اتنے قیامت خیز لگ رہے ہیں تو باہر نکل کر قیامت ہی ڈھا دیں گے۔۔۔ فواد نے میرا ایک نپل اپنی دونوں انگلیوں میں لے کر اس کو ہلکا سا مسل دیا۔۔۔ اففففف۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مزے کی لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔۔۔ میری شرٹ ابھی تک میرے جسم پر ہی تھی۔۔ میں نے اوپر ہو کر افواد کو اپنی شرٹ اتارنے کا کہا۔۔۔اس نے بنا کچھ کہے میری شرٹ میرے جسم سے الگ کر دی۔۔ اور اپنی شرٹ بھی اتار دی۔۔ اب میرے سامنے فواد کا بالوں بھرا سینہ تھا۔۔ میں نے بے اختیار اپنے ہونٹ اس کے سینے سے لگا دیئے۔۔ اس کے سینے سے بڑی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔۔۔ میں اس کی خوشبو سونگ ہی تھی اور مدہوش ہو رہی تھی۔۔ پھر فواد نے میری کمر پر اپنا ہاتھ کر کے میری برا کا ہک کھول دیا۔۔ میرے ممے ایک دم سے آزاد ہو گئے تھے اور فواد نے جلدی سے اپنا منہ میرے موٹے موٹے مموں پر رکھ دیا۔۔ وہ میرے مموں کو بھنبھوڑ رہا تھا اور میں مزے کی نئی دنیا سے متعارف ہو رہی تھی۔۔ میرے انگ انگ میں مزے کی لہر دوڑ رہی تھی۔۔۔ میں نے فواد کا سر اپنے مموں کے ساتھ دبا دیا۔۔ پہلے تو فواد بڑے پیارکے ساتھ ممے چوستا رہا پھر اس نے اچانک میرے نپل پر اپنے دانت بڑی بے رحمی سے گاڑھ دئے۔۔۔ میری جان نکل گئی۔۔ میں نے بہت کوشش کی مگر پھر بھی میری چیخ نکل ہی گئی۔۔ پتا نہی کیا بات تھی جو بھی میرے ممو چوستا وہ بے قابو ہوجاتا۔۔۔ آآآآآآآہہہہہہ۔۔۔ آرام سے میری جان یہ تمھارے ہی ہیں۔۔ میں نے فواد کو روکتے ہوئے کہا۔۔۔ مگر وہ کہاں رکنے والا تھا۔۔۔۔ جان تمھارے ممے اتنے مزے دار ہیں کہ میں خود کو روک نہی پایا اور میرا دل کر رہا ہے کہ میں تمھارے مموں کو کھا جاؤں۔۔ تو کھا جاؤ نا میری جان کسی نے روکا تھوڑی ہے۔۔۔ میں نے شہوت بھری آواز میں کہا۔۔۔ اس نے اتنا سننا تھا او:کیا مطلب تم کو پتا تھا سب کچھ؟ میں نے ہکلاتے ہوئے سنی سے پوچھا۔۔۔ جی جناب میں سپیشل تم دونوں کو ادھر لے کر آیا ہی اسی مقصد کے لئے تھا۔۔۔ اور آج جو تمھاری ویڈیو انٹرنیٹ پر براہ راست دکھائی گئی ہے تو اس سے میری چینل کو بہت زیادہ پذیرائی ملی ہے ۔۔۔ سنی مجھے بتا رہا تھا اور میں ہونکوں کی طرح منہ پھاڑے آنکھیں کھولے اس کی شکل تکے جا رہی تھی۔۔۔دوسرے دن ہم لوگ جہاز میں بیٹھ کر پاکستان واپس آ گئے۔۔۔ واپس آکر کچھ دن آرام سے گزر گئے کوئی خاص واقع نہی ہوا جو قابل ذکر ہو۔۔۔ پھر ایک دن میرے بہنوئی ہمارے گھر آئے۔۔۔ اور میری بہن ہمارےگھر آئی شام کو جب ہم چائے پی رہے تھے تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ کچھ پریشان ہے۔۔ میں نے پوچھا تو وہ بات ٹال گئی۔۔۔ رات کے کھانے کے بعد میں نے پھر بات چھیڑ دی۔۔۔۔ پہلے تو وہ ٹال مٹول کرتی رہی مگر میں بھی اپنی ضد پر قائم رہی ۔۔ آخر کار اسے ہار ماننی ہی پڑی۔۔ یار کیا بتاؤں۔۔ تمھارے بہنوئی صاحب نے بہت تنگ کیا ہوا ہے۔۔۔ کیوں کیا ہوا ہے؟ کیا کہہ رہے ہیں وہ؟؟ کہہ نہی رہے۔۔ مگر کر بھی کچھ نہی رہے۔۔ رات کو میں تڑپتی رہتی ہوں اور وہ کرتے کچھ نہی۔۔ میں باجی کا منہ تک رہی تھی۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ میں انکو پاس ننگی ہو کر بھی لیٹی رہوں تو بھی ان کا لن کھڑا نہی ہوتا۔۔ اگر ہو بھی جائے تو میری پھدی کا پانی نکالے بغیر ہی یہ اپنا پانی نکال دیتے ہیں اور پھر لاکھ کوشش کر لو ان کا کھڑا نہی ہوتا اور پھر یہ سو جاتے ہیں۔۔۔ اب اس وجہ سے میرے جسم میں درد رہتا ہے اور طبیعت بھی خراب رہتیہے۔۔۔ ہممم۔۔ میں نے ایک ہنکارہ بھرا۔۔۔ پھر باجی بولی میں نے دوسرے طریقے بھی اپناکر دیکھے ہی مگر کوئی خاص فائدہ نہی ہوا۔۔۔ مثلاََ کیا طریقے کر کے دیکھے ہیں؟ میں نے باجی سے پوچھا۔۔۔ مثلاََ کھیرا او لمبے بینگن بھی اپنی پھدی میں ڈال ڈال کر دیکھا ہے مگر میری آگ ہے کہ ٹھنڈی ہونے کا نام ہی نہی لے رہی۔۔ میری آگ بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔میں کیا کروں کچھ سمجھ نہی آتا۔۔ باجی بات کرتے کرتے جذباتی ہو گئی اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔ میں ایک لڑکی تھی۔۔ میں چاہ کر بھی کچھ نہی کر سکتی تھی اپنی باجی کے لئے۔۔ باجی یہمسئلہ کب سے ہو رہا ہے؟ میں نے باجی سے پوچھا۔۔یہ پچھلے چھ ماہ سے ایسا ہو رہا ہے۔۔۔ میںنے کافی دفعہ کہا کہ کسی ڈاکٹر کو چیک کروائیں مگر یہ سنتے ہی نہی ہیں۔۔۔ آخر مئلہ کیا ہے یہ کیوں نہی جاتے کسی ڈاکٹر کے پاس؟ میں نے پوچھا۔۔ پتا نہی یار ان کا کیا مسئلہ ہے۔۔ شائد یہ اپنی مردانگی پر کوئی حرف نہی برداشت کر سکتے۔۔ میںتو اب تھک گئی ہوں۔۔۔ میں باجی کی بات سن کر کافی پریشان ہو گئی تھی یہ مسئلہ واقعی کافی بڑا مسئلہ تھا۔۔ مگر میں کیا کر سکتی تھی؟ کچھ بھی نہی۔۔ میں جب رات کو اپنے بیڈ پر سونے کے لئے لیٹی تو بھی میرے ذہن میں باجی کا روتا ہوا چہرہ آ رہا تھا۔۔ میں ساری رات کروٹیں بدلتی رہیمگر نیند تھی کہ آنکھوں سے جیسے روٹھ گئی تھی۔۔۔نبیل نے مجھے پوچھا بھی مگر میں طبیعت خرابی کا بہانا بنا کر چپ کر گئی۔۔ نبیل نے بھی مجھے ڈسٹرب کرنا مناسب نہی سمجھا۔۔۔ صبح ہوئی تو میری آنکھیں سوجی ہوئی تھی اور جسم بہت درد کر رہا تھا۔۔ سر میں شدید درد تھا مجھ سے اٹھا نہی جا رہا تھا۔۔ نبیل اور انکل کو ناشتہ کروا کر آنٹی نے آفس بھیج دیا میرے پاس باجی آئی وہ بھی پریشان تھی کہ مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ پھر مجھے باجی نے بتایا کہ آج ان کے شوہر ان کو لینے آ رہے ہیں۔۔۔۔ہمم۔۔ میں نے پر خیال انداز میں سر ہلا دیا۔۔۔ پھر اٹھ کر میں نے نہا کر کپڑے بدلے اور ناشتہ کرنے کے بعد گھر کے کاموںمیں لگ گئی دن کیسے گزرا پتہ ہی نہی چلا۔۔۔ شام ہوئی تو ارسلان بھائی ) باجی کے شوہر( بھی آگئے۔۔۔ وہ شکل سے کافی تھکے ہوئے لگ رہے تھے۔۔ میری نظر نا چاہتے ہوئے بھی ان کی پینٹ میں کوئی ابھار ڈھونڈ رہی تھی جس میں ظاہر ہے مجھے ناکامی ہی ہوئی ۔۔۔ میں کچھ میں گئی اور اشارے سے باجی کو اپنے پاس بلا لیا۔۔۔ میں نے ان سے کہا کہ اب آپ میں اور ہم گھر والوں میں کوئی پردہ تو رہا نہی آپ جائیں اور بھائی کے سامنے اپنا دوپٹہ اتار کر اپنے مموں کا نظارہ کروائیں ان کو۔۔ شائد ان کی ٹانگوں کے درمیان کوئی ہلچل پیدا ہو جائے۔۔۔ ابھی میں اپنی بات مکمل بھی نہ کر پائی تھی کہ باجی بول پڑی۔۔ کچھ نہی ہو گا چھوٹی۔۔ میں یہ سب کچھ کافی دفعہ کر چکی ہوں ۔۔ میں نے تم کو کل بھی بتایا تھا کہ میں ان کے سامنے ننگی بھی لیٹ جاؤں تو ان کا لن کھڑا نہی ہوتا۔۔ باجی میرے کہنے پر ایک بار کر کے تو دیکھیں شائد کچھ فرق پڑ جائے آج۔۔۔ باجی مایوسی کے ساتھ نفی میں سر ہلا کر کچن سے باہر چلی گئی۔۔ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔۔۔ میں باجی کے لئے کچھ کرنا چاہ رہی تھی مگر کیا کروں کچھ سمجھ نہی آ رہا تھا۔۔۔۔ رات کا کھانا کھا کر وہ لوگ جانے لگے تو میری ساس نے ان دونوں میاں بیوی کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ رکے نہی اور اپنے گھر چلے گئے۔۔ دوسرے دن میں نے باجی کو فون کر کے پوچھا کہ رات کیسی گزری ہے تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔۔ میں نے تسلی دیاور ان سے کہا کہ مجھے تفصیل میں بتائیں کہ کیاہوا ہے۔۔ تھوڑی دیر رونے کے بعد وہ بولی کہ رات کو جب ہم گھر آئے تو میں نہا کر واشروم سے بنا کپڑے پہنے ہی باہر آ گئی کہ شائد ان کو کچھ خیالآ جائے ۔۔ یہ مجھے دیکھ کر اٹھے اور مجھے کسنگ کرنے لگ گئے۔۔۔ میں تو پہلے ہی گرم تھی ان کا لوڑا بھی گرم ہونے لگ گیا۔۔۔ جب وہ میری ٹانگوں کے ساتھ ٹچ ہوا تو مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی کہ آج میری پیاس بجھ جائے گی۔۔۔ یہ میرے ممے چوس رہے تھے ۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ میں نے جوش میں آ کر ان کا لن اپنے ہاتھ میںپکڑ لیا۔۔ جیسے ہی مین نے ان کا لن اپنے ہاتھ میں لیا انہوں نے اپنے لن کو میرے ہاتھ میں آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔۔ اب مجھے کیا پتا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ میں جب لن منہ میں لے کر چوپے لگاتی تھی تو یہ فارغ ہوجاتے تھے آج میں نے ارادہ کیا ہوا تھا کہ لن منہ میں نہی لینا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔ مگر مجھے کیا پتا تھا۔۔ جیسے ہی دوچار دفعہ انہوں نے اپنا لن میرے ہاتھوں میں آگے پیچھے کیا ان کی منینکل گئی۔۔۔۔ پھر میں نے بہت کوشش کی کہ لن کھڑا ہو سکے مگر نہی ہوا۔۔ پھر میں نے ان کا لن اپنے منہ میں لے کر چوپے بھی لگائے مگر کوئی طریقہ کامیاب نہ ہو سکا اور مجھے پھر راتکو یہ ادھورا ہی چھوڑ کر سو گئے۔۔ میں نے تمھارا دیا ہوا ربڑ کالن پھدی میں لے لے کر اپنی پیاس بجھائی مگر تم جانتی ہو کہ مرد کا لن جتنی پیاس بجھا سکتا ہے وہ کام یہ ربڑ کا لن کر ہی نہی سکتا۔۔۔ میں کیا کروں چھوٹی ۔۔۔ اتنا کہہ کر باجی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔۔ میں نے ان کو تسلی دی اور سوچنے لگ گئی کہ میں اس مسئلہ میں باجی کی کیا مدد کر سکتی ہوں۔۔ شام تک سوچ سوچ کر میرا دوران خون کم ہو گیا۔ میں اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی آنٹی مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔۔ جی ہاں اسی دشمنِ جاں کے پاس جس کو دیکھے ہوئے مدت ہو گئی تھی۔۔ فواد مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔۔۔ پہلے تو اس نے میرا چیک اپ کر کے مجھے دوا دی پھر اس کے بعد گلے شکوے لے کر بیٹھ گیا۔۔ اسے سب سے زیادہ شکائت اس بات ہر تھی کہ میں نے اسے اپنے دل کے خیالات پہلے کیوں نہی بتائے تھے۔۔ جب میں نے اس کو اپنی ساری مجبوریاں بتائی تو وہ کسی حد تک مطمئن ہو گیا۔۔ پھر ہمارے گھر جانے کا ٹائم ہو گیا۔۔ جیسے ہی میں نے اس سے اجازت مانگی اس نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا اور ایک پیار بھری کس میرے ہونٹوں پر جڑ دی۔۔ اس کے ہونٹوں کی مٹھاس میں نے اپنی زبان سے چکھ لی۔۔ ہماری آج کی ملاقات زیادہ لمبی نہی ہو سکتی تھی کیوں کہ اس کے پاس مریضوں کا کافی رش تھا۔۔ میں اس کے ہونٹوں کے نشے میں گم گھر آ گئی۔۔ دوسرے دن اتوار تھی۔۔ میں ابھی اپنے بستر پر ہی تھی کہ میرے فون کی بیل ہوئی میں نے کسلمندی سے آنکھیں کھولی تو سامنے سکرین پر ڈاکٹر فواد کا نمبر آ رہا تھا۔۔۔میری طبیعت خوش ہو گئی اس کا نمبر دیکھ کر۔۔۔ وہ ملنا چاہ رہا تھا۔۔۔ او کے جہاں کہتے ہو مین آ جاتی ہوں مجھے کوئی مسئلہ نہی ہے۔۔ میں نے فواد کو جواب دیا۔۔ امم۔۔ ایسا کرو پھر تم تیار ہو کر مجھے بتاؤ میں تم کو گھر سے ہی پک کر لیتا ہوں اور کسی ریسٹورنٹ میں جا کر کچھ دیر گپ لگاتے ہیں اور ساتھ ہی ناشتہ بھی کر لیتے ہیں۔۔ ہمم۔۔ میں نے سوچ کر اسے ہاں بول دیا اور خود واشروم میں گھس گئی۔۔ آج میں نے اپنے جسم کیسپیشل قسم کی صفائی کی تھی۔۔ مجھے پوری امید تھی کہ آج فواد میرے جسم کی ڈیمانڈ ضرور کرے گا۔۔۔ میں تیار ہو رہی تھی کی آنٹی میرے کمرے میں آ گئی مجھے ایسے تیار ہوتے دیکھ کر مجھے کہنے لگی۔۔۔ اوے ہوئے۔۔ آج لگتا ہے کسی غریب کی جان نکالنے جا رہی ہے ہماری دلہن بیٹی۔۔ کون ہے وہ خوش قسمت؟ آنٹی نے سیٹی بجاتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔۔ ہی ہی ہی ہی ۔ میں ہنس دی ۔۔ ماں جی وہ کوئی اور نہی ڈاکٹ فواد ہے ۔۔ آج اس کے ساتھ میریملاقات ہے۔۔۔ اچھاااااااااا۔۔۔۔۔ آنٹی نے معنی خیز انداز میں سر ہلایا اور میری گال پر ایک کس کر کے کہنے لگی خیال رکھنا کہیں ایسا نا ہو کہ ڈاکٹر صاحب اپنے گھر کا راستہ ہی نا بھول جائے۔۔ میں بس مسکرا کر رہ گئی۔۔۔ ابھی میں تیار ہوئی ہی تھی کہ فواد کا فون آ گیا میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو وہ ہمارے گھر کے سامنے ہی اپنی کار میں بیٹھا میرا انتظار کر رہا تھا۔۔ میں جلدی سے نیچے آئی ۔۔ کار میں بیٹھتے ہوئے اچاننک میرے ذہن میں آیا کہ کیوں نا میں ارسلان بھائی کا مسئلہ بھی فواد کے ساتھ ڈسکس کر لوں۔۔ یہ خیال آتے ہی مجھے جیسے ایک سکون سا ہو گیا۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ یہ کوئی نا کوئی حل نکال لیں گے۔۔ راستے میں ہم ہلکی پھلکی باتیں کرتے ہوئے کب ہوٹل پہنچے پتا ہی نہی چلا۔۔۔ میں اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی تھی مجھے فواد نے کاندھے سے پکڑ کر ہلایا۔۔ کیا بات ہے گڑیا۔۔ اس کا ایسے گڑیاکہنا مجھے بہت اچھا لگا۔۔۔ میں نہال ہی تو ہو گئی اس کی اس ادا پر۔۔ کک کچھ نہی یار بس ویسےہی۔۔ کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاؤ۔۔ وہ مجھ سے بڑے پیار سے پوچھ رہا تھا اور میں بس اس کی آنکھوں میں کھائی ہوئی تھی۔۔ وہ بار بار اپنا ہاتھ میرے سامنے لہرا کر مجھے اسی دنیا میں واپس لے کر آتا۔۔ جب میں کافی دیر تک بھی واپس اپنے ہواس میں نہی آئی تو وہ جھنجلا اٹھا۔۔ دیکھو اگرتم کو میرے ساتھ ایسے آنا اچھا نہی لگ رہا تو بھی بتا دو میں تم کو زبردستی نہو روکوں گا۔۔۔۔ وہ کچھ روٹھ سا گیا تھا۔۔ ارے نن نہی نہی ۔۔ ایسی بات نہی ہے فواد۔۔ جو بات ہے پریشانی کی وہ میں ابھی تم کو بتاتی ہوں ۔۔ مگر تم ابھی اپنا موڈ ٹھیک کرو پلیز۔۔ ایسے بلکل بھی اچھے نہی لگ رہے ہو۔۔۔ اچھا چلو پہلے اپنی پرابلم بتاؤ ۔۔ وہ بھی ضد پر اڑ گیا تھا۔۔۔ اچھا بابا بتاتی ہوں میں کہیں بھاگی جا رہی ہوں کیا۔۔۔ چلو اب بتاؤ بھی۔۔ وہ بھی ایس ٹلنے والا نہی تھا مجھ سے جب تک پوچھ نہی لیتا ا نے چین سے نہی بیٹھنا تھا۔۔۔ میں نے ایک لمبا سانس لیا اور پھر فواد کوسب بتا دیا کہ میری باجی اور اس کے ہسبنڈ کے ساتھکیا پرابلم چل رہی ہے۔۔۔ بس!!!!!!!!!! اتنی سی پرابلم کے لئے تم اتنی زیادہ پریشان ہو رہی تھی۔۔ میں سامجھ پتا نہی کتنی بڑی پرابلم ہو گی۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔ وہ میری بات سن کر ہنس دیا اور ہونکوں کی طرح اس کا منہ تکے جا رہی تھی۔۔۔ ارے یار میں تمھارے بہنوئی کا لن ایسے ٹائٹ کر دو گا کہ ساری ساری رات اس کا بیٹھا نہی کرے گا۔۔۔ اور جب تک تمھاری بہن تین چار دفعہ فارغ نہی ہو جاتی وہ فارغ نہی ہوا کرے گا۔۔۔ اچھا!!!!۔۔۔ میں نے اپنا لہجہ معنی خیز کر کے کہا۔۔۔ جی جناب اور اگویسے اتنا یقین آپ جناب کو کیسے ہے؟ اگر تم کو یقین نہی ہے تو میں تم کو اس کا تجربہ بھی کروا سکتا ہوں۔۔۔ فوادنے میری طرف جھک کر بڑے رازدار انداز میں کہا۔۔۔ اچھا!!!!!!!!۔۔میں نے معنی خیز انداز میں کہا ۔ تو جناب خود پر بڑا اعتماد ہے آپ کو؟۔ کہیں ایسا نا ہو کہ پہلے ٹیسٹ میں ہی جناب فیل ہو جائیں۔۔ آزمائش شرط ہے ۔۔ فواد چہک کر بولا۔۔اچھا تو ٹھیک ہے مگر چیک کہاں کرنا ہے؟ میں نے اپنی بھنوئیں اچکاتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔۔امممم ایسا کرتے ہیں میرے اسی ہوٹل میں کمرہ لے لیتے ہیں اور ادھر ہی چیک کر لیتے ہیں۔۔۔ چلیں ٹھیک ہے۔ میں نے ہامی بھر لی۔۔ فواد ٹیبل سے اٹھا اور کاؤنٹر پر جا کر کمرہ بک کروانے لگا۔۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا اس کے منہ پر خوشی کی جگہ مایوسی تھی۔۔ میرے پوچھنے پر بتانے لگا کہ ادھر کوئی کمرہ فارغ نہی ہے اور ہمیں کہیں اور جانا پڑے گا۔۔ فواد کی بھوکی نظریں میرے سینے کا طواف بار بار کر رہی تھی اور میں اس بات کو اچھے سے جانتی تھی ۔۔ میں نے بھی اسے روکا نہی اور ایسے ہی اس کو انجوائے کرنے دیا۔۔۔ اب پھر کیا کرنا ہے؟؟ میںنے پوچھا۔۔ کچھ کرتا ہوں۔۔۔ اچانک میں بولی ڈاکٹر صاحب آپ کے کلینک کے بارے میں کیا خیال ہے؟ْْ وہاںتو آج کوئی بھی نہی ہوگا نا؟؟ میں نے ایک نقطہ سجھایا۔۔۔ ارےےےےے واؤؤؤؤؤ۔۔ یہ بات تو میرے ذہن میں آئی ہی نہی تھی۔۔۔ کیا بات ہے نوشی جی۔۔ تم تو کمال ذہن کی مالک ہو۔۔۔ ہی ہی ہی ہی ۔۔۔ میں کھی کھی کر کے ہنس دی۔۔۔ ہم ہوٹل سے اٹھے اور فواد کے کلینک کی طرف رخ کر دیا۔۔۔۔۔ کار میں بیٹھ کر میں نے اپنی شرٹ کے اوپر والے دو بٹن کھول دئیے جس سے میرا کالا کلر کا برا صاف نظرآنے لگا۔۔۔ اور میرے مموں کی لکیر فواد کو پاگل کرنے کے کافی تھی۔۔۔ افففف۔۔۔ نوشی جی کیوں میری جان نکالنے پر تلی ہوئی ہیں آپ آج۔۔۔ فواد رومانٹک انداز میں بولا۔۔۔ میں آپ کی جان نکال نہی رہی بلکہ آپ میں جان ڈال رہی ہوں ۔۔۔ ہاہاہاہاہا۔۔ فواد کھلکھلا کر ہنس دیا۔۔۔ چلیں ابھی آپ جان نکال لو بعد میں میںَ نکال لوں گا تمھاری جان۔۔ ہائیں؟؟ وہ کیسے؟؟ میں حیران ہو کر بولی۔۔ ہاہاہاہا۔۔ ڈارلنگ تم ایک بار کلینک تو پہنچ لو پھر بتاتا ہوں۔۔اہو!!!!!!!!! مجھے تو اب خیال آیا ہے کہ جناب کیسے میری جان نکال سکتے ہیں۔ میں نے ایک دم چونک کر کہا۔۔ کیا مطلب میں سمجھا نہی۔۔ فواد سٹپٹا کر بولا۔۔۔ وہ ایسے حضور کہ آپ جناب تو ڈاکٹر ہیں۔۔۔ میں نے مزے لیتے ہوئے جواب دیا۔۔ ہاں تو؟؟؟ فواد ابھی تک الجھا ہوا تھا۔۔۔ تو میرے بدھو عاشق صاحب آپ کوئی گولی شولی کھا کر بھی میری جان نکالنے کا پورا انتظام کر سکتے ہیں۔۔ نا بابا مجھے نہی جانا آپ کے ساتھ ۔۔۔ میں نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر فواد کو چڑایا۔۔ ارےےےےےے۔۔۔ یہ کس کنجر نے تم سے کہہ دیا کہ میں ایسا کوئی بھی ارادہ رکھتا ہوں۔۔۔ فواد نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا۔۔۔ میری امی نےکہا ہے ایسا۔۔۔ میں نے اپنی ہنسی کو کنٹرول کرتے ہوئے فواد سے کہا۔۔۔ ہائیں؟؟؟؟؟ 

یہ تم اپنی امی کو بھی بتا کر آئی ہو کہ تم میرے ساتھ میرے کلینک پر جا رہی ہو۔۔۔ فواد جھنجھلا گیا۔۔ ہاہاہاہااہا۔۔۔ میں زور زور سے ہنسنے لگ گئی۔۔۔ میری ہنسی نہی رک رہی تھی۔۔ جب میں ہنس ہنس کر بے حا ہو گئی تو مجھے فواد کا پھولا اور الجھن ذدہ چہرہ نظر آیا۔۔۔ اس کو دیکھ کر ایک بار پھر میری ہنسی چھوٹگئی۔۔۔ فواد نے چار سڑک کے ایک طرف روک دی اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔ ارے بابا کیا ہو گیا ہے تم کو۔۔ میں کیوں اپنی امی کو بتا کر آنے لگی یہ سب کچھ۔۔ میں نے بڑی مشکل سےاپنی ہنسی روک کر کہا۔۔ تو پھر؟؟ فواد نے الجھتے ہوئے سوال کیا۔۔۔افففف خدایا ایک تو آپ کو مذاق بھی سمجھانا پڑ جاتا ہے۔ اچھا چلو اب سمجھاؤ میں ابھی تک الجھا ہوا ہوں تمھاری باتوں سے۔۔۔ ارے یار سیدھی سی بات ہے آپ ڈاکٹر ہو اور آپ کے پاس تو ہر قسم کی گولی ہو سکتی ہےاور آج آپ اس کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔۔۔میں نے وضاحت کی تو فواد کھسیانا ہو کر رہ گیا۔۔ ہاہااہاہاہا۔۔ واقعی یہ تو سامنے کی بات تھی جو مجھے سمجھ جانی چاہئے تھی مگر تمھارا جادو ہی ایسا ہے کہ میرے حواس ہی کام نہی کر رہے تھے۔۔ ہاہاہاہا۔۔ فواد مجھے بہت معصوم سا لگ رہا تھا یہ بات کرتے ہوئے ۔۔ اور اس پر مجھے ڈھیروں ڈھیر پیار آ رہا تھا۔۔ مجھ سے رہا نہی گیا اور میں نے آگے ہو کر فواد کا گال چوم لیا۔۔۔۔ ارے ارے ارےےے۔۔۔ بس بس بس ۔۔ فواد نے احتجاج کرتے ہوئے کہا۔۔۔ میں ایک بار پھر ہنس دی۔۔۔ اسی دوران ہم کلینک پہنچ گئے ۔۔۔ فواد نے اپنا سپیشل کمرہ کھلوایا اور ملازم کو کولڈ ڈرنک لینے بھیج دیا۔۔۔ کولڈ ڈرنک آنے تک ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔۔۔ اس کا یہ کمرہ بہت ہی نفاست سے سجایا گیاتھا۔۔ میں تعریف کئے بنا نہ رہ سکی۔۔۔ اچھا تو یہ کمرہ اسی مقصد کے لئے بنایا ہوا ہے جناب نے۔۔ ہے نا؟؟؟ میری شرارت کی رگ ایک بار پھر پھڑک اٹھی ۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔ ارے نہی یار ایسی کوئی بات نہیہے یہ کمرہ میں نے اس لئیے بنوایا ہے کہ جب کبھی کام سے تھک جاؤں تو یہاں آ کر آرام کر لیتا ہوں ۔۔۔ فواد نے جواب دیا۔۔ اچھا۔۔۔ اور ساتھ تھکاوٹ اتار بھی لیتے ہوں گے ۔۔ ہے نا؟؟؟؟ میں نے ایک بار پھر سوال کر دیا۔۔۔ یار تھکاوٹ لوڑا اتارنی تھی تم آج سے پہلے کبھی ملی ہی نہی تھی جو میں تھکاوٹ اتارتا۔۔۔۔ اچھا جی اس کا مطلب ہے کہ ارادے پہلے ہی ٹھیک نہی تھے تمھارے۔۔۔ میں نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔ اس سے پہلے کہ فواد کچھ کہتا ملازم کولڈ ڈرنک لے کرآ گیا۔۔۔ کمرے میں اے سی لگا ہوا تھا کافی پر سکون ماحول تھا۔۔ میں ریلیکس ہو کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔ فواد میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔۔ وہ جیسے ہی قریب آیا اس کی مسحور کن خوشبو میرے نتھنوں میں اتر گئی۔ میں نے ایک لمبا سانس لیا اور اس کی خوشبو کو اپنے اندر اتار لیا۔۔۔پتا نہی کیوں میری آنکھوں میں نمی آ گئی۔۔ گو کہ ابھی اس کے پاس بیٹھی ہوئیتھی مگر اس کی جدائی کا غم ابھی سے میرے کلیجے کو کاٹ رہا تھا۔۔۔ کیا بات ہے میری جان؟؟ فواد نے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بڑےپیار سے پوچھا۔۔۔ کچھ نہی جان بس ویسے ہی آنکھ میں کچھ پڑ گیا ہے شائد۔۔۔ میں بات کو ٹال گئی ۔۔ میں نہی چاہتی تھی کہ فواد کو میری اس کمزوری کا ذرا سا بھی احساس ہو۔۔ فواد نے میری ران پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ میں نے اس کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش بھی نہی کی اور ایسے ہی اس کے ہاتھ کو رہنے دیا۔۔۔۔ میرا جسم اب ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔۔۔ یہ میرا پہلا تجربہ نہی تھا سیکس کا مگر پتا نہی کیوں فواد کے ساتھ میری فیلنگز کچھ اور تھی۔۔۔ میں نے اسے کبھی سیکس کے انداز میں نہی سوچا تھا۔۔ میں اسے پیار کرتی تھی اور دل جان سے کرتی تھی۔۔۔ اور میری یہ خواہش بلکل بھی نہی تھی کہ وہ بھی مجھے ایسے ہی چاہے۔۔۔میری بس اتنی سی خواہش تھی کہ وہ میرے سامنے رہے ۔۔۔ مجھے اور کچھ نہی چاہئے تھا۔۔۔ فواد کا دوسرا ہاتھ میرے سینے پر رینگ رہا تھا۔۔ میںنے اس کی طرف اپنے ہونٹ کر دیئے ۔۔ جن کو اس نے بڑے پیار کے ساتھ اپنے ہونٹوں میں قید کر لیا اور میرے ہونٹوں کو ایسے چوس رہا تھا جیسے یہ بہت ہی نازک کانچ کے ہیں جو ذرا سی ٹھوکر سے ٹوٹ جائیں گے۔۔ میں اس کا پورا ساتھ دے رہی تھی۔۔ میں نے اپنی زبان نکال کر اس کے ہونٹوں کا پھیرنے لگی۔۔۔ فواد نے میری زبان کو اپنے منہ میں لے لیا اور اتنے انوکھے انداز سے اس کو چوس رہا تھا کہ مجھے آج تک ایسا مزہ نہی ملا تھا جیسا اب مل رہا تھا۔۔۔۔ میں آہستہ آہستہ جوش میں آ رہا تھی۔۔۔۔ مگر میں نے ابھی تک اس کا لن نہی پکڑا تھا۔۔۔ پھر فواد نے میری گردن کو پکڑا اور مجھے اپنی گود میں گرا لیا اور میرے ہونٹوں کو دیوانہ وار چومنے چاٹنے لگ گیا۔۔ کبھی اس کی زبان میرے ہونٹوں کو ٹچ کرتی کبھی وہ میری زبان کو اپنے منہ میں لے کر چوستا۔۔۔ پھر اس نے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی۔۔ میں اس کی زبان کو جتنا ممکن تھا اپنے منہ کے اندر لے گئی اور ایسے چوسنے لگی جیسے کوئی بچہ بت دنوں سے بھوکا ہو اور اس کو آج جا کر کہیں مدت بعد دودھ ملا ہو پینے کے لئے۔۔ میں اس کی زبانکی مٹھاس اپنی روح میں اتار رہی تھی۔۔۔ اور میرا دل کر رہا تھا کہ ایسے ہی یہ وقت رک جائے اور میں کبھی بھی فواد کے ہونٹوں سے الگ نہ ہوں۔۔۔۔ پھر فواد نے میری شرٹ کے بٹن کھول دئے اور میرے ممے اپنے سامنے ننگے کر لئے۔۔ میرے بھرے بھرے ممے دیکھ کر فواد کی رال ٹپک پڑی۔۔۔۔ وہ براکے اوپر سے ہی ان کو دبانا شروع ہو گیا۔۔ میں آج خود سے کچھ بھی کرنے کے موڈ میں نہی تھی۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ فواد خود ہی سب کچھ کرے۔۔۔ مجھے ننگا بھی وہی کرے اور جو بھی کرنا ہے مجھے خود سے نہ کرنا پڑے۔۔۔ میں آج سچ میں اس کی غلام بنی ہوئی تھی۔۔ وہ آج مجھے جو کچھ کہتا میں نے کرنا تھا اور بلا چوں چراں کرنا تھا۔۔ میں آج اپنے دلبر جانی کو خوش کرنے کے لئے آئی تھی نہ کہ خود خوش ہونے آئی تھی۔۔۔ آج اس کا ٹائم تھا۔۔ بعد میں جب دوبارہ ملیں گے تو میں بھی اپنی ساری خواہشیں پوری کر لوں گی اس پر۔۔فواد میرے مموں کو اتنی زور سے دبایا کہ میری چیخ نکل گئی مگر میں نے اپنی چیخ کو اپنے منہ میں ہی دبالیا۔۔۔ میں نہی چاہتی تھی کہ میرا محبوب ڈسٹرب ہو یا وہ اپنا کام روک دے۔۔۔ مجے درد سے زیادہ مزہ آ رہا تھا۔۔ میں نے اپنا سینا تان لیا۔۔ یہ دیکھ کر فواد اوربے قابو ہو گیا اور اس نے اپنا ہاتھ میرے برا کے اندر ڈال دیا۔۔۔ میں نے اسے کہا جان اگر برا تنگ کر رہا ہے تو اسے اتار کیوں نہی دیتے ہو؟ نہی جان تمھارے ممے برا میں اتنے قیامت خیز لگ رہے ہیں تو باہر نکل کر قیامت ہی ڈھا دیں گے۔۔۔ فواد نے میرا ایک نپل اپنی دونوں انگلیوں میں لے کر اس کو ہلکا سا مسل دیا۔۔۔ اففففف۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مزے کی لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔۔۔ میری شرٹ ابھی تک میرے جسم پر ہی تھی۔۔ میں نے اوپر ہو کر افواد کو اپنی شرٹ اتارنے کا کہا۔۔۔اس نے بنا کچھ کہے میری شرٹ میرے جسم سے الگ کر دی۔۔ اور اپنی شرٹ بھی اتار دی۔۔ اب میرے سامنے فواد کا بالوں بھرا سینہ تھا۔۔ میں نے بے اختیار اپنے ہونٹ اس کے سینے سے لگا دیئے۔۔ اس کے سینے سے بڑی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔۔۔ میں اس کی خوشبو سونگ ہی تھی اور مدہوش ہو رہی تھی۔۔ پھر فواد نے میری کمر پر اپنا ہاتھ کر کے میری برا کا ہک کھول دیا۔۔ میرے ممے ایک دم سے آزاد ہو گئے تھے اور فواد نے جلدی سے اپنا منہ میرے موٹے موٹے مموں پر رکھ دیا۔۔ وہ میرے مموں کو بھنبھوڑ رہا تھا اور میں مزے کی نئی دنیا سے متعارف ہو رہی تھی۔۔ میرے انگ انگ میں مزے کی لہر دوڑ رہی تھی۔۔۔ میں نے فواد کا سر اپنے مموں کے ساتھ دبا دیا۔۔ پہلے تو فواد بڑے پیارکے ساتھ ممے چوستا رہا پھر اس نے اچانک میرے نپل پر اپنے دانت بڑی بے رحمی سے گاڑھ دئے۔۔۔ میری جان نکل گئی۔۔ میں نے بہت کوشش کی مگر پھر بھی میری چیخ نکل ہی گئی۔۔ پتا نہی کیا بات تھی جو بھی میرے ممو چوستا وہ بے قابو ہوجاتا۔۔۔ آآآآآآآہہہہہہ۔۔۔ آرام سے میری جان یہ تمھارے ہی ہیں۔۔ میں نے فواد کو روکتے ہوئے کہا۔۔۔ مگر وہ کہاں رکنے والا تھا۔۔۔۔ جان تمھارے ممے اتنے مزے دار ہیں کہ میں خود کو روک نہی پایا اور میرا دل کر رہا ہے کہ میں تمھارے مموں کو کھا جاؤں۔۔ تو کھا جاؤ نا میری جان کسی نے روکا تھوڑی ہے۔۔۔ میں نے شہوت بھری آواز میں کہا۔۔۔ اس نے اتنا سننا تھا



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments