Taraas ya tishnagi - Episode 19

تراس یا تشنگی 

قسط 19 



جوتا چھپائی کی رسم کے بعد ۔۔۔جلد ہی اماں نے عطیہ باجی کے گھر والوں کے مشورے سے اس ہلے گلے کو ختم کیا اور پھر کچھ ہی دیر بعد عطیہ بھابھی کی رُخصتی کا وقت بھی آ گیا اور پھر ۔۔۔ عطیہ بھابھی کو ۔۔۔ لیکر کر لاہور کی طرف چل پڑے۔۔۔

        اس دفعہ کار میں فائق بھائی ۔۔۔ بھابھی اور اماں ابا تھے ۔۔ جبکہ میں ۔۔۔ کوسٹر میں عظمیٰ باجی کے ساتھ بیٹھی تھی۔اور ہم سارے راستے میں نواز کے بارے میں ہی گفتگو کرتے رہے۔۔ رات گئے تک ہم گھر پہنچے اور میں اور میری کزنز عطیہ بھابھی کو چھیڑتے ہوئے ان کے حجلئہ عروسی میں لے گئیں اور ۔ کزنز کے ساتھ ساتھ میں نے خاص طور پر عظمیٰ باجی کو اپنے ساتھ رکھا ۔۔۔ وہ بے چاری سمجھتی رہی کہ میں ایسا اس کی محبت میں کر رہی ہوں ۔۔ جبکہ میں تو ان کو اپنے ساتھ اس لیئے رکھ رہی تھی کہ جیسے ہی یہ جائیں تو مجھے پتہ چل جائے کیونکہ اتنے رش میں اگر یہ میرے ساتھ نہ ہوتیں تو مجھے ان کے جانے کی خبر مشکل سے ہی ملنی تھی۔۔۔۔۔ ہم لوگوں کو عطیہ بھابھی کے پاس بیٹھے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اماں کمرے میں داخل ہو گئیں اور ہم کو ڈانٹ کر بولیں ۔۔ چلو کڑیو۔۔۔ کمرے خالی کرو ۔۔ کہ عطیہ بیٹی نے آرام کرنا ہو گا۔۔۔ اماں کی بات سن کر ایک آنٹی بڑی حیرانی سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔ آج کی رات بھی دلہن آرام کرے گی ؟اور اس بات پر ایک بھر پور قہقہہ پڑا ۔۔۔اورعطیہ بھابھی بے چاری کھسیانی ہو گئی۔۔۔ اور ہم لوگ ان کے کمرے سے باہر آ گئے ۔۔ باہر آتے ہی عظمیٰ باجی نے ایک توبہ شکن انگڑائی لی اور اماں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔اچھا باجی اب مجھے اجازت دیں۔۔ عظمٰی باجی کی انگڑائی دیکھ کر اماں کہنے لگیں ۔۔۔ سہاگ رات تو عطیہ نے منانی ہے لیکن انگڑائیاں تم لیئے جا رہی ہو ۔۔۔۔ اماں کے منہ سے سہاگ رات کا نام سنتے ہی عظمیٰ باجی نے ایک اور توبہ شکن انگڑائی لی ۔۔۔۔اور پھر کہنے لگی۔۔ارے باجی ۔۔۔ یہ وہ والی انگڑائی نہیں بلکہ تھکن والی انگڑائی ہے ۔۔ اور پھر اس کے بعد وہ اماں سے گلے ملیں اور پھر وہاں سے جانے لگیں تو اتنے میں بھا میدا وہاں پہنچ گیا اس کے ہاتھ میں باجی کا بیگ تھا ۔۔۔......اور آتے ساتھ ہی اس نے عظمیٰ باجی کو مخاطب کر کے کہا ۔۔۔یہ بیگ آپ کا ہے نا۔۔؟تو عظمیٰ باجی نے بھا کی طرف کر کہا تھیک یو حمید ۔۔۔ لاؤ یہ بیگ مجھے دے دو۔۔۔اور باجی کی بات سُن کر بھا آگے بڑھا اور باجی کے ہاتھ میں بیگ دیتے ہوئے ہولے سے کہنے لگا ۔۔۔ مین گیٹ لاک نہ کرنا ۔۔۔ تو عظمیٰ باجی نے سر ہلاتے ہوئے کہا ٹھیک ہے ۔۔۔ اور پھر وہ بیگ ہاتھ میں لئے وہاں سے چلی گئیں ۔۔۔

عظمیٰ باجی کے جاتے ہی میں بھی اپنے کمرے میں گئی اور ۔۔ الماری سے ایک دوسرا ڈریس نکالا اور واش روم کی طرف دیکھا تو حسبِ معمول ہاؤ س فل تھا چونکہ مجھے بہت جلدی تھی اس لیئے میں وہاں سے ایک دوسرے کمرے میں چلی گئی اتفاق سے اس کا واش روم خالی تھا ۔۔ میں فٹو فٹ وہاں گھسی اور جلدی جلدی کپڑے بدل کے باہر آ گئی۔اور اپنے کمرے میں کپڑے رکھتے ہوئے اچانک مجھے ایک خیال آیا اور۔۔پھر میں نے الماری سی سے ایک بڑی سی کالی چادر لی اور اس کو اوڑھ کر باہر آ گئی ۔۔۔ اور اس کے بعد میں نے بھا کو دیکھنے کے لیئے کہ آیا بھا ابھی وہیں ہے یا چلا گیا ہے ایک چکر مردانے کا لگایا ۔۔ دیکھا تو بھا میدا ۔۔ وہاں بیٹھا تھا ۔۔۔ لیکن اس کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ کسی بھی وقت اُٹھ سکتا ہے چنانچہ وہاں سے تسلی کے بعد میں بڑے آرام سے وہاں سے نکلی اور ۔۔۔ کن اکھیوں سے اپنی گلی کا جائزہ لیتے ہوئے ۔۔۔ بظاہر بڑے اعتماد کے ساتھ عظمیٰ باجی کے گھر کے پاس رک گئی اور مین گیٹ کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو حسبِ توقع وہ کھلا ہوا تھا ۔۔۔ گیٹ میں داخل ہوتے ہوئے میں نے ایک نظر پھر اپنی گلی میں ڈالی تو ساری گلی سنسان تھی ۔۔۔ اور میں گیٹ کے اندر داخل ہو گئی۔۔

 اندر داخل ہو کر دیکھا تو ۔۔عظمیٰ باجی کا سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔ یہاں تک کہ مین گیٹ کے پاس والی لائیٹ بھی آف تھی ۔۔۔ اور میں اس کی وجہ سمجھ گئی تھی۔۔باجی نے تو یہ لا ئیٹس بھا میدے کی وجہ سے آف کیں تھیں ۔۔۔ اور اس اندھیرے کا فائدہ بھا سے پہلے میں اُٹھا رہی تھی۔۔۔ ۔۔۔ ۔چونکہ عظمیٰ باجی کے گھر میں ہمارا آنا جانا لگا رہتا تھااس لیئے اندھیرے میں مجھے باجی کاکمرہ تلاش کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔۔۔۔عظمیٰ باجی کاکمرہ برآمدے کے آخر میں کارنر والا کمرہ تھا ۔۔۔ اس کی ایک کھڑکی مین گیٹ کی طرف جبکہ دوسری کھڑکی ۔۔۔ ان کے لان کی طرف کھلتی تھی ۔۔۔ اور مجھے یہ دونوں کھڑکیاں چیک کرنی تھی۔۔۔ سب سے پہلے میں لان کی طرف گئی اور دیکھا تو باجی کہ یہ کھڑکیاں بند تھیں ۔۔۔۔ میں تھوڑا مایوس ہوئی۔۔۔ اور پھر میں نے میں گیٹ کی طرف کھلنے والی کھڑکی کو دیکھنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔ لان والی کھڑکی بظاہر تو بند تھی ۔۔۔ لیکن اس کے ایک کونے سے روشنی باہر آ رہی تھی ۔۔۔ میں نےنزدیک جا کر اس کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ کھڑکی کی کا وہ حصہ کہ جس سے روشنی باہر آ رہی تھی ۔۔۔ ٹوٹا ہوا تھا ۔۔۔ اور وہ اتنی تھوڑی جگہ سے ٹوٹا تھا کہ میں نے جب اس میں سے اندر جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی تو سامنے باجی کا ڈریسنگ ہی نظر آیا ۔۔۔۔ جہاں سے باجی کے پلنگ کا نظارہ کچھ صاف نہ دکھائی دے رہا تھا ۔ہاں اگر اسی کھڑکی کا دوسرا کونہ کھلا ہوتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اچانک میرے زہن میں ایک آئیڈیا آیا ۔۔۔ اور میں نے اس آئیڈئے پر تھوڑا سوچا ۔۔۔۔اور پھر ۔۔ اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔ لیکن فیصلے پر عمل کے لیئے پہلے باجی کی لوکیشن جاننا ضروری تھا۔۔۔ اس لیئے میں نے ایک چکر باجی کے صحن کا لگایا تو مجھے کچن سے ۔۔گھرررر۔گھررررررررر۔۔۔ کی سی آواز سنائی دی۔۔۔ یہ جوسر ۔۔۔ کی آواز ہے ۔۔۔اور میں سمجھ گئی کہ باجی ۔۔اپنے اور ۔ بھا کے لیئے جوس بنا رہی ہے۔۔۔ یہ دیکھتے ہی میں وہاں سے بھاگتی ہوئی۔۔۔ باجی کی ٹوٹی کھڑکی کے دوسرے کونے کی طرف گئی ۔۔۔۔۔اپنے ہاتھوں پر چادر ۔۔۔ کی دو تین تہیں لگائیں ۔۔۔۔ اور پھر بڑی ۔۔۔ احتیاط سے اس کھڑکی کے شیشے پر اپنے ہاتھ میں پکڑے پتھر سے ہلکی سی ضرب لگائی۔۔۔اس کھڑکی کا شیشہ پہلے ہی کافی کریک تھا۔۔۔ اس لیئے ۔۔دو تین ضربوں کے بعد ۔۔۔وہ تھوڑا اور کریک ہو گیا۔۔ ۔۔اب میں نے پتھر نیچے رکھا اور اس کو پکڑ کر ۔۔تھوڑا سا زور لگایا تو۔۔۔کھڑکی وہ حصہ ۔۔ ٹوٹ کر میرے ہاتھوں میں آ گیا ۔۔۔لیکن مسلہ یہ ہوا ۔۔کہ باجی کی کھڑکی کا شیشہ میرے اندازے سے کچھ زیادہ ہی ٹوٹ گیا تھا ۔۔۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا ۔۔۔ اپنے ۔۔ ہاتھوں پر چادر لپیٹنے کی وجہ سے میرے ہاتھ شیشے کی زخم لگنے سے محفوظ رہے ۔۔

سو میں نے اس شیشے کو بڑی احتیاط کے ساتھ نیچے رکھا ۔۔ ۔اور کمرے میں جھانک کر دیکھا تو ۔۔۔ میری توقع کے عین مطابق ۔۔۔ یہاں سے باجی کا پلنگ صاف دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔اور پلنگ پاس ہونے کی وجہ سے میں ان کی باتیں بھی آسانی سے سن سکتی تھی۔۔ سارا جائزہ لینے کے بعد میں نیچے بیٹھ گئی۔۔۔اور انتظار کرنے لگی ۔۔۔ جلد ہی کمرے سے مجھے عظمیٰ باجی کےگنگنانے کی آواز سنائی دی۔۔۔ اور پھر میں نے دھیرے دھیرے سر اُٹھا کر دیکھا تو۔۔۔ باجی جگ اور گلاس ایک تپائی پر رکھ رہی تھی۔۔۔۔۔اس کے بعد عظمیٰ باجی ڈریسنگ کے پاس گئی اور اپنا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔۔ اتنےمیں باہر آہٹ کی آواز سنائی دی۔۔۔آہٹ کی آواز سن کر عظمیٰ باجی چونک گئی ۔۔۔ اور میری طرح اس کی نظریں بھی دروازے کی طرف اُٹھ گئیں تھیں ۔۔۔ جیسے ہی ہماری نظریں دروازے پر پڑیں۔۔۔تو میں نے دیکھا کہ دروازے پر بھا میدا کھڑا تھا ۔۔۔اور اس کے ہاتھ میں ۔۔۔ سرخ گلاب تھا۔۔۔ جو اس نے بڑی ادا سے عظمیٰ باجی کو دیا ۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔۔عظمیٰ جی۔۔۔۔ یہ آپ کے لیئے ۔۔۔۔۔ باجی نے بھا کے ہاتھ سے گلاب کا پھول لیا ۔۔۔اور پھر وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ گئے۔۔۔۔ اور کسنگ کرنے لگا۔۔پھر میں نے دیکھا کہ وہ دونوں پریمیوں کی طرح کسنگ کرتے کرتے پلنگ کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔۔ اور پھر پلنگ کے پاس پہنچ کر۔۔۔ وہ دونوں رُک گئے ۔۔۔اور باجی کہنے لگی۔۔۔ حمید آپ اتنی لیٹ کیوں آئے ہو؟ تو بھا نے بڑے رومیٹک لہجے میں کہا ۔۔۔ سوری ۔۔عظمیٰ جی۔۔ میں تھوڑا لیٹ تو ہوں ۔۔۔ لیکن آپ کی ساری کسر نکال دوں گا ۔۔۔اور ایک بار پھر باجی کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا دیئے ۔۔۔ اور باجی کو اپنے قریب کر لیا۔۔۔ اب وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بری طرح آپس میں لپٹے ہوئے تھے بھا کی ٹانگیں ۔۔ باجی کی رانوں کے ساتھ ملی ہوئیں تھیں ۔۔۔ اور ۔۔ میں نے دیکھا ۔۔۔ کہ باجی اپنی ایک ٹانگ اُٹھا کر ۔۔۔ بھا کے لن پر مساج کر رہی تھی۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ دونوں طرف آگ لگی ہوئی تھی۔۔۔۔اور ان کے یہ سین دیکھ کر میری پھدی نے بھی جلنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ اور پھر خود بخود میرا ہاتھ ۔۔۔ شلوار کے اندر چلا گیا۔۔۔۔ اور میں ان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی انگلیوں سے اپنی پھدی پر مساج شروع کردیا ۔۔۔۔

ادھر کچھ دیر تک وہ ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ کر اپنی زبانوں کو لڑاتے رہے۔۔۔ پھر بھا نے۔۔۔ عظمیٰ باجی کو گھومنے کو کہا ۔۔۔ اور ۔۔۔ عظمٰی باجی نے ایسے ہی کیا۔۔۔۔ اب عظمیٰ باجی کی پشت بھا کی طرف تھی ۔۔۔ بھا آگے بڑھا اور اس نے پیچھے سے عظمیٰ باجی کو دبوچ لیا۔۔۔اور اپنے ہونٹ باجی کی گردن پر رکھ دیئے۔۔ باجی کے منہ سے ایک سسکی سی نکلی۔۔۔۔اُف ف ف ف۔۔اور اس کے ساتھ ہی باجی نے اپنی گانڈ کو بھا کے لن کے ساتھ جوڑ دیا۔۔۔ اور اپنی گانڈ کو بھا کے لن پر آہستہ آہستہ رگڑنے لگی۔۔۔۔ ادھر بھا ۔۔ کی زبان عظمیٰ باجی کی گردن سے ہوتی ہوئی اب ان کی کانوں کی لو تک آن پہنچی تھی۔۔۔۔ اور ۔۔بھا کے اس عمل سے عظمیٰ باجی ہولے ہولے کراہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔بھا کچھ دیر تک عظمیٰ باجی کی گردن ۔۔۔ کان کی پچھلی سائیڈ اور اس کے آس پاس کے ایریا میں باجی کو کسنگ کرتا رہا ۔۔اپنی زبان کو پھیرتا رہا ۔۔۔ جیسے جیسے بھا کی زبان ۔۔۔ باجی کی گردن پر پھرتی ۔۔ویسے ویسے ۔۔عظمٰی کی گانڈ ۔۔۔ بھا کے ساتھ جُڑتی جاتی تھی۔۔۔ اس کے بعد ایک دن باجی واپس گھومی اور ایک بار پھر باجی نے اپنا منہ بھا کے منہ کے ساتھ جوڑ دیا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی عظمیٰ باجی کا ایک ہاتھ رینگتا ہوا ۔۔۔۔ بھاکے لن کی طرف چلا گیا ۔۔۔اور اس نے پینٹ کے اوپر سے ہی بھا کا پھولا ہو ا۔۔۔ لن پکڑ لیا ۔۔اور اسے دبانے لگی۔۔۔۔

پہلے کی نسبت ان کی یہ کسنگ بڑی شارٹ رہی۔۔۔ اور جلد ہی دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ۔۔۔ پھر عظمیٰ باجی پلنگ کے کنارے پر بیٹھ گئی ۔۔۔ اور بھا کی پیٹ کی زپ کھولنے لگی۔۔۔۔ اور پھر اس نے زپ کھول کر بھا کا لن پینٹ سے باہر نکلا ۔۔۔۔ اور اسے اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مسلنے لگی ۔۔۔۔اور بھا سے بولی۔۔۔ حمید تمھارا لن بڑا ٹھوس اور لوئے کی طرح سخت ہے ۔۔۔۔۔تو بھا کہنے لگا۔۔۔۔۔ آپ کو اچھا لگا۔۔۔۔ تو باجی نے نشیلی آواز میں جواب دیا۔۔۔۔ بہت ۔۔۔۔تو بھا کہنے لگا۔۔۔۔ تو اس پڑ ۔۔ایک کس تو کڑیں۔۔۔۔ تو عظمیٰ باجی نے بھا کا لن دباتے ہوئے بھا کی طرف دیکھا ۔۔۔۔اور مست آواز میں بولی۔۔۔۔ بس کس ہی کروں؟؟۔۔۔ یا۔۔۔۔۔تو بھا کہنے لگا۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ کس کے ساتھ ساتھ۔۔۔۔ تھوڑا ۔۔۔ منہ میں بھی لے لیں۔۔۔۔بھا کی بات سن کر عظمیٰ نے پھر ۔۔بھا کی طرف دیکھا ۔۔۔۔اور بولی۔۔۔ کتنا منہ میں لوں ۔؟؟؟؟۔۔ تو بھا ۔۔ بھی مست لہجے میں کہنے لگا۔۔۔ جتنا لے سکتی ہو۔۔۔ تب عظمیٰ اپنا منہ بھا کے لن کے قریب لے گئی۔۔۔۔ اور اس کے ٹوپے پر ایک کس کر دیا۔۔۔۔ پھر اس نے اپنی زبان نکالی ۔۔۔۔اور ۔بھا کے ٹھوس لن کے ارد گرد پھیرنے لگی۔۔۔۔ عظمیٰ کو اپنے لن پر زبان پھیرتے ہوئے دیکھ کر بھا کے منہ سے۔۔۔ کراہیں نکلنا ۔۔۔شروع ہو گئیں تھیں ۔۔۔ اوہ۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔عظمیٰ نے ایک نظر بھا کو کراہتے ہوئے دیکھا اور پھر اس کا لن اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔ اور اسے چوسنے لگی۔۔۔۔ تھوڑی دیر لن چوسنے کے بعد اس نے لن کو اپنے منہ سے نکالا ۔۔۔اور اس کے چاروں طرف اپنی زبان پھیرنے لگی۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ عظمیٰ نےاپنی لمبی زبان سے بھا کے لن کولپیٹ لیا تھا ۔۔۔اور پھر اچانک بھا کے ٹوپے سے مزی کا ایک موٹا سا قطرہ نکلا۔۔۔۔ جسے عظمیٰ نے اپنی زبان سے چاٹ لیا۔۔۔اور بھا کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ مزے کا تھا۔۔۔۔۔ اس کے بعد عظمیٰ پلنگ سے اُٹھی۔۔۔۔۔اور بھا کو اشارہ کیا ۔۔تو بھا جھٹ سے اپنے کپڑے اتارنے لگا۔۔۔ادھر عظمیٰ نے بھی فوراً اپنی ساڑھی اتار دی تھی۔۔۔۔ اور اب ان دونوں کے جسموں پر کپڑے نام کی کوئی چیز نہ تھی۔۔۔۔دونوں بڑے غور سے ایک دوسرے کے ننگے جسموں کو دیکھ رہے تھے اور میں نے دیکھا کہ عظمیٰ باجی کا شفاف اور تراشا ہوابدن دیکھ کر بھا کا لن بار بار اوپر کو اُٹھ رہا تھا۔۔۔پھر بھا ۔۔عظمیٰ کی طرف بڑھا اور ان کے دونوں مموں کو پکڑ کر ۔۔دبانے لگا۔۔۔ اس کے بعد اس نے اپنے منہ سے زبان نکالی اور پہلے تو عظمیٰ کی زبان سے اپنی زبان لڑائی ۔۔۔ پھر وہ نیچے جھک گیا ۔۔۔اور عظمیٰ کے نپلز کو باری باری چوسنے لگا۔۔۔۔ کچھ دیر بعد ہی عظمیٰ کے منہ سی ہلکی ہلکی سسکیوں کی آوازیں ۔۔سنائی دینے لگیں ۔۔۔آہ۔۔۔اُف۔۔۔۔۔ میرے دودھ ۔۔چوسو۔۔۔۔ اور چوسوونا۔۔۔۔ عظمیٰ باجی کے ممے چوستے چوستے رات کی طرح بھا نے ان پر کا ٹ لیا۔۔۔تو عظمیٰ تڑپ کر بولی۔۔۔۔ دانتوں سے تو نہ کاٹو نہ پلیزززززززززززز۔۔۔۔۔پھر بھا نے ۔۔۔ ان کے نپلز چوسے تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ہاں ایسے حمید دددد۔۔۔ میری جان ایسے ۔۔۔۔ اور کافی دیر تک بھا عظمیٰ باجی کے ممے چوستا رہا ۔۔۔۔

اس کے بعد اس نے عظمی ٰ باجی کو پلنگ کے کنارہ پر لیٹنے کو کہا۔۔۔۔اور خود نیچے فرش پر بیٹھ گیا۔۔۔ عظمیٰ باجی پلنگ پر لیٹی اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی دونوں ٹانگیں آخری حد تک کھول دیں۔۔۔ جس سے عظمیٰ باجی کی چوت نمایاں ہو کر سامنے آ گئی۔۔۔۔عظمیٰ باجی کی چوت کی لکیر خاصی لمبی اور پھدی ۔۔ ساتھ لگی ہوئی تھی یعنی کہ میری طرح ان کی پھدی ابھری ہوئی نہ تھی۔۔۔۔ اور عظمیٰ باجی کی پھدی کے ہونٹ تھوڑے لٹکے ہوئے تھے اور باہر کو نکلے ہوئے تھے ۔جبکہ ان کی پھدی پر کالے رنگ کے چھوٹے چھوٹے بال بھی تھے۔۔۔اور باجی کی چوت کا دانہ۔۔۔ خاصہ موٹا اور رنگ اس کا براؤن تھا ۔۔۔۔اور ۔۔اس وقت خاصہ پھولا ہوا تھا۔۔۔ اور عظمیٰ باجی کی پھدی کی لیکر سے پانی رس رہا تھا۔۔۔ کچھ دیر تک بھا ۔۔بڑے غور سے سے عظمیٰ کی چوت کا جائزہ لیتا رہا۔۔۔۔ پھر ۔۔۔ عظمیٰ نے سر اُٹھا کر ۔۔ بھا سے کہا۔۔۔۔ حمید ۔۔۔ کیا کر رہے ہو؟ تو بھا کہنے لگا ۔۔۔وہ عظمیٰ جی میں اپ کی چوت کا نظاڑہ کر رہا ہوں ۔۔تو عظمیٰ باجی ۔۔۔اٹھلا کر بولی ۔۔۔۔ کیسی لگی میری چوت؟ تو بھا نے کہا ۔۔۔۔ چومنے کو جی کرتا ہے تو عظمیٰ کہنے لگی۔۔۔۔ چوم نا ۔۔۔ منع کس نے کیا ہے۔۔۔ عظمیٰ باجی کی بات سُن کر بھا نے اپنی موٹی زبان کو اپنے منہ سے باہر نکالا اور ۔۔۔ پھر پھر اس کو عظمیٰ کی تپتی ہوئی چوت کے نرم ہونٹوں پر رکھ دیا۔۔۔۔اور اسے چاٹنے لگا۔۔۔۔۔عظمیٰ نے جیسے ہی بھا کی موٹی زبان کو اپنی چوت کے لبوں پر محسوس کیا ۔۔۔وہ ۔۔۔ ہلکی سی کراہی۔۔۔۔ ہائے۔۔۔اور پھر بھا سے بولی۔۔۔۔ حمید ۔اب ۔۔ میرے دانے کو چوس۔۔۔۔ ہائے میرا دانہ۔۔۔اور عظمیٰ کی بات سُن کر بھا نے باجی کے موٹے سے دانے کو اپنی دونوں ہونٹوں میں پکڑا ۔۔۔۔اور پھر اسے چوسنے لگا۔۔اس کے ساتھ ہی بھا نے بڑی آہستگی سے اپنی دو انگلیاں ۔۔۔ عظمیٰ کی چوت میں گھسا دیں ۔۔۔۔ عظمیٰ نے مزے سے ایک بار پھر سسکنا شروع کر دیا۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ بھا کو ہدایت بھی دیتی رہی۔۔۔ جیسے ۔۔اب دانے کو چھوڑ ۔۔۔ میری چوت کے ہونٹوں کو اپنے منہ میں لے ۔۔۔یس یس۔۔۔۔ایسے ہاں ایسے۔۔۔ اپنی انگلیاں کو میری پھدی سے نکالو ۔۔اور زبان کو لن بنا کر ۔۔۔۔ میری چوت کی دیواروں کو چاٹو۔۔۔۔یس ۔۔۔یس۔۔۔۔ اور چاٹو۔۔۔چاٹ ٹ۔۔۔ٹ حرامزدے اور چاٹ۔۔۔آہ۔۔۔ آوہ۔۔۔۔۔ حمیدددددددددددددددددددد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی عظمیٰ کے جسم نے ایک جھٹکا کھایا اور اس کی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔۔۔۔

 عظمیٰ باجی کی چوت اچھی طرح چاٹنے کے بعد بھا اوپر اُٹھا۔۔۔۔۔ اور عظمیٰ کے پا س پلنگ پر چلا گیا۔۔۔۔ عظمیٰ نے بھا کو اپنے پاس آتے دیکھا تو وہ بھی پلنگ سے اُٹھی اور ۔۔۔۔ جیسے ہی بھا اس کے پاس پہنچا تو اس نے بھا کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور ایک بار پھر چوپا لگانے لگی۔۔۔۔ کچھ دیر تک ایسے کرنے کے بعد وہ سیدھی لیٹ گئی اور خود ہی اپنی ٹانگوں کو اُٹھا کر بولی۔۔۔۔ حمید ۔۔۔۔چود مجھے۔۔۔۔۔۔ اور بھا نے عظمیٰ کی بات سنی اور وہ ان کی دونوں ٹانگوں کے درمیان آ گیا ۔۔۔اور پھر انہوں نے عظمیٰ کی دونوں ٹانگوں کو اُٹھا کر اپنے کندھے پر رکھا ۔۔۔ عظمیٰ کے چوپے کی وجہ سے بھا کا لن پہلے ہی گیلا ہو چکا تھا اس لیئے بھا نے لن کے ہیڈ کو گیلا نہیں کیا کہ وہاں پہلے سے ہی عظمیٰ کا تھوک لگا ہوا تھا۔۔۔ اور پھر بھا نے اپنا لن عظمیٰ کی چوت کے ہونٹوں پر رکھا ۔۔۔تو عظمیٰ بولی۔۔۔۔۔ حرامزدے ۔۔۔۔ میرے اند ر ڈال نا۔۔۔۔۔ بھا نے ایک نظر عظمیٰ کی طرف دیکھا ۔۔۔اور پھر اس نے اپنے جسم کو ہلکا سا پش کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بھا کا لن عظمیٰ کی چوت میں اتر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی بھا کا لن عظمیٰ کی چوت میں گھسا۔۔۔اس نے ۔۔۔۔ سسکی کی اور بولی۔۔۔۔ ایسے ڈال نا۔۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگی۔۔۔ حمید ۔۔۔۔ میری پھدی مارو۔۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔ گھسے ۔۔زور دار ررررررررر ۔۔۔۔ہوں ۔۔اور بھا میدے نے عظمیٰ کی گرم باتیں سنیں تو وہ بھی مست ہو گیا اور پھر اس لن کو عظمیٰ کی چوت میں ڈال کر کہا۔۔۔ 

عظمیٰ جی ۔۔۔۔گھسوں کے لیئے تیاڑ ہو جاؤ۔۔۔ اور پھر بھا نے عظمیٰ کی چوت میں پاور فل گھسے مارنے لگا۔۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا اور سنا کہ عظمیٰ باجی کے کمرے سے دھپ دھپ دھپ کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔۔۔۔ ادھر عظمیٰ اپنے عروج پر تھی اور وہ چوت مرواتے ہوئے چلا رہی تھی۔۔۔۔ سالے ۔۔۔چود مجھے۔۔۔۔اور چود ۔۔۔۔ میری پھدی ماررررررررر۔۔۔۔۔۔۔اور مارررررر۔۔۔۔ اور جیسے جیسے بھا کی دھکوں میں شدت آتی جاتی تھی عظمیٰ کی سسکیوں اورآہوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب عظمیٰ با ر بار ایک ہی بات کہے جا رہی تھی ۔۔۔ مجھے چود و۔۔۔مجھے چودووووووووووووووووووووو۔۔۔۔۔۔۔بلاشبہ عظمیٰ باجی بڑی ہی ہاٹ لیڈی تھی ۔۔ بھا کے اتنے طاقتور گھسوں کو وہ بڑے شوق سے برداشت کر کے بھا کو مزید مارنے کے لیئے ابھارتی تھی اور کہتی تھی ۔۔۔چودو ،۔۔۔ مجھے چودووووو۔۔۔۔اور میں اپنی پھدی کو مسلتے ہوئے بھا اور عظمیٰ کے یہ گرم سین بڑے شوق سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اور اسی دوران میری چوت نے ایک دو دفعہ پانی بھی چھوڑا تھا ۔۔۔ لیکن بھا اور عظمیٰ باجی کی چودائی اتنی ہاٹ تھی ۔۔۔ کہ میری پھدی پھر سے گرم ہو رہی تھی۔۔۔ کمرے کے اندر بھا عظمیٰ باجی کی پھدی کی پٹائی کر رہا تھا ۔۔۔اور باہر مین اپنی پھدی کو مسل رہی تھی ۔۔۔۔ میں اندر کا منظر دیکھنے میں محو تھی کہ اچانک مجھے اپنےاطراف سے سرسراہٹ کی آواز سنائی دی۔۔۔ یہ آواز میں نے سنی ضرور ۔۔۔ لیکن ۔۔۔اند رکا منظر دیکھنے کے شوق میں ۔۔۔۔ میں نےا سے نظر انداز کر دیا ۔۔اور اندر کا چودائی سین دیکھنے لگی۔۔ پھر اس کے بعد مجھے اسی سرسراہٹ کی آواز ۔۔تھوڑی نزدیک سے آتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔یہ آواز سن کر میں چونک پڑی ۔۔۔۔ اور کن اکھیوں سے اپنے آس پاس کا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔ میں ابھی آس پاس کا جائزہ لے ہی رہی تھی ۔۔۔۔ ایک دفعہ پھر مجھے اسی سرسراہٹ کی آواز محسوس ہوئی۔۔ یقیناً ۔۔ میرے آس پاس کوئی تھا۔۔کون ہو سکتا ہے ؟؟؟۔ یہ سوچ کر میں ایک دم چوکنی ہو گئی اور بڑے غور سے آس پاس کا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے اسی آواز کی سمت کا تعین کیا اور ۔۔آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔ پھر اچانک اسی سرسراہٹ کی آواز ۔۔ عین میرے پیچھے سے آئی ۔۔۔اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کرتی ۔۔۔۔ ایک ہاتھ آگے بڑھا ۔۔۔ اور اس نے بڑی سختی سے میرے منہ کو دبا لیا ۔ میں نے مزاحمت کرنے کی بڑی کوشش کی ۔۔ لیکن اس ہاتھ کی گرفت اتنی مضبوط تھی ۔۔۔ کہ میں مچل کر رہ گئی ۔۔۔ کسی نے مجھے بری طرح قابو کر لیا۔تھا۔۔مجھے قابو کرنے کے بعد ۔۔ وہ مجھے گھسیٹ کو دوسری طرف لے گیا۔۔۔ یہ کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟ ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی۔۔۔۔ کہ پھر ۔اس کے بعد ۔چراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



جاری ہے

*

Post a Comment (0)