تراس یا تشنگی
قسط 20
وہ جو کوئی بھی تھا۔۔۔ وہ مجھے گھسیٹتے ہوئے عظمیٰ باجی کے مین گیٹ کی طرف لے گیا ۔۔اور وہاں پہنچتے ساتھ ہی وہ اپنی کرخت آواز میں ۔۔میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔خبردار اگر تم نے کوئی حرکت کی تو۔۔۔!!!!!!!!!۔۔ اس کے بعد اس نے مجھے اپنے سامنے کھڑا کیا اور دانت پیستے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔ خانہ خراب کا بچہ۔۔۔ انار خان کے ہوتے ہوئے تم نے اس محلے میں چوری کی جرات کیسے کی؟ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے منہ پر لپٹی ہوئی چادر کو کھینچ کر نیچے کر لیا۔۔۔ اور ۔۔پھر جیسے ہی اس کی نگاہ میرے چہرے پر پڑی ۔۔۔وہ۔۔۔ ایک دم پریشان ہو گیا ۔۔۔ اور مجھے دیکھ کر حیرت بھرے لہجے میں کہےے لگا۔۔۔ ۔۔۔ہما ۔۔۔ میم صاحب آآآآآآپ ۔۔؟؟؟؟؟؟ آپ ادھر کیا کر رہی تھی؟؟ ۔۔ یہ ہمارےمحلے کا سیکورٹی گارڈ تھا ۔انار خان ۔۔جس کے سامنے میں اس وقت مجرم کی طرح سر جھکائے کھڑی تھی۔۔۔حقیقتاً وہ مجھے اس حلیئے میں دیکھ کر اچھا خاصہ خاصہ پریشان ہو گیا تھا ۔۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ میرے اس عمل کو کیا نام دے؟؟ ۔وہ کچھ دیر تک تو۔۔۔سوچتا رہا پھر ۔ تنگ آ کر وہ مجھے سے بڑی سختی سے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ آخری دفعہ پوچھ رہا ہوں ۔۔۔سچ سچ بتاؤ کہ تم ادھر کیا کرنے آئی تھی؟ ۔۔ اور کھڑکی سے لگی کیا کر رہی تھی؟ مجھے پر اس وقت اس قدر گھبراہٹ اور شرمندگی طاری تھی کہ میں نے اس کے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔۔۔اس لیئے میں۔۔ اس کے سامنے مجرموں کی طرح سر جھکائے چپ چاپ کھڑی رہی اس نے چند سیکنڈ تک میرے جواب کا انتظار کیا پھر اس نے مجھے بازو سے پکڑا اور عظمیٰ کی کھڑکی کے پاس لے گیا ۔۔۔اور میرے ساتھ ہی کھڑے ہو کر کھڑکی کی دوسری طرف دیکھنے لگا۔۔۔ اس وقت وہاں کی صورتِ حال یہ تھی کہ عظمٰی باجی باہر کے حالات سے بے خبر ۔۔۔گھوڑی بنی ہوئی تھی اور بھا اس کو پیچھے سے چود رہا تھا۔۔۔۔ اور اتفاق ایسا تھا کہ دونوں کے چہرے دوسرے طرف( ہمارے بر عکس دوسری سائیڈ پر) ہونے کی وجہ سے انار خان ان کو ٹھیک سے نہ پہچان نہ سکا۔( یا اگر اس نے پہچان بھی لیئے تھے تو اس نے مجھ پر کچھ ظاہر نہ کیا تھا)۔۔کھڑکی سے لگ کر اس نے بس ایک جھلک ہی ان کی دیکھی اور پھر اس نے مجھے بازو سے پکڑا ۔۔۔ اور پہلےکی طرح کھڑکی سے دور لے جا کر بڑے غصے میں کہنے لگا اچھا تو تم یہ گندہ سین دیکھ رہی تھی ۔؟ اور کہنے لگا اپنی عمر دیکھو اور کام دیکھو ۔۔۔ ۔۔۔تم کو ایسی چیزیں دیکھتے ہوئے شرم نہیں آتی ۔۔۔ ؟ اُس ٹائم وہ بڑے غصے میں لگ رہا تھا ۔۔۔ پھر پتہ نہیں اس کو کیا ہوا کہ اس نے دوبارہ مجھے بازو سے پکڑا اور کہنے لگا۔۔۔صبر کر ۔۔۔۔ میں تمھارے کرتوت میاں صاحب (ابا) کو بتاتا ہوں ۔۔ ابا کو نام سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے اور میں نے بڑی پریشانی سے کہا ۔۔۔ پلیزززززز ۔۔ خان صاحب ایسا نہ کریں۔۔ ۔۔۔ تو وہ اسی درشت لہجے میں کہنے لگا۔۔۔۔ دیکھو تمھارا ۔۔والد کس قدر شریف آدمی ہے اسی طرح تمہار والدہ اور گھر کا دوسرا لوگ کتنے اچھے ہیں اور ایک تم۔۔ہو کہ لڑکی ہو کر بھی۔۔۔ اس کے بعد اس نے اپنا فقرہ ادھورا چھوڑا اور ۔۔۔مجھے بازو سے پکڑ کر کہنے لگا ۔۔۔تم ابھی میرے چلو ۔۔۔ میں تمھارے والد کو سب حقیقت بتاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔اورمجھے پکڑ کر اپنے ساتھ زبردستی لے جانے لگا۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت میری حالت غیر ہو رہی تھی ۔۔۔ اور مجھے گھر کےساتھ ساتھ اب۔۔۔ عظمیٰ باجی کے گھر کا بھی ڈر لگنا شروع ہو گیا تھا ۔۔۔ کیونکہ میر ے اندازے کے مطابق اس وقت تک بھا کو عظمیٰ باجی کی چدائی سے فارغ ہو جانا چاہیئے تھا ۔۔۔ پھر میں سوچنے لگی کہ اگر اوپر سے بھا ۔بھی آ گیا تو۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟ یہ سوچ کر میری تو جان ہی نکل گئی اور میں نے بڑے ہی عاجزانہ لہجے میں خان صاحب سے درخواست کی کہ خان صاحب پلیزززززززززز۔۔ مجھے چھوڑ دیں آ ئیندہ میں ایسا کام کبھی نہیں کروں گی۔۔۔ میرا لہجہ اتنا عاجزانہ تھا کہ چلتے چلتے خان وہیں رُک گیا ۔۔ اور بازو سے پکڑے پکڑے دوبارہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔مجھے گیٹ کی اوڑھ میں لے گیا ۔۔ یہاں آ کر اس نے میرا بازو چھوڑا ۔۔ اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگا۔۔ اگر تم کہتی ہو تو ٹھیک ہے۔۔۔ ہم تم کو تمھار ا گھر نہیں لے جاتا ۔۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔۔ لیکن بدلے میں تم ہم کو کیا دے گا؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔ آپ جتنے پیسے کہتے ہیں میں دینے کو تیار ہوں ۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر ۔۔۔ پراسرا ر لہجے میں بولا۔۔۔۔ اور اگر ہم تم سے ۔۔۔ پیسے نہ لینا چاہوں تو۔۔؟ خان صاحب کی یہ بات سُن کر میں تھوڑی سی پریشان ہو گئی اور خان صاحب کی طرف منہ کر کے بولی ۔۔وہ۔۔۔۔۔ وہ۔۔ خان صاحب پھر آپ کیا چاہتے ہو؟۔۔آپ کو جو چاہیئے میں دوں گی۔۔ تو وہ بدستور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنےلگا۔۔۔ سوچ لو۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا جی میں نے سوچ لیا ہے ۔۔ آپ بس اپنی ڈیمانڈ بتاؤ؟ ۔۔ میری بات سُن کر اس نے بڑ ی ہی گہری نظروں سے میری طرف دیکھا ۔۔اور اپنی بڑی بڑی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔ اس بات پہ چپ رہنے کے لیئے تم نے ہم کو خوش کرنا ہو گا ۔۔۔۔ ۔۔۔ خان کے منہ سے نکلی ہوئی یہ بات میرے بلکل بھی پلے نہ پڑی اور میں نےاس سے کہا ۔۔۔ آپ کو کیسے خوش کرنا ہو گا؟؟۔۔۔ ۔۔۔ تو پہلی دفعہ میں نے خان کی آنکھوں میں ناچتی ہوئی ننگی ہوس دیکھی ۔۔۔اس نے میری طرف بھوکی نظروں سے دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئےکہنے لگا۔۔۔ویسے ہی خوش کرنا ہو گا جیسا کہ ۔۔۔ (اس نے کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) وہ بی بی لوگ ۔۔۔اپنے دوست کو خوش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ خان کی بات سُن کر میرے سارے بدن میں سنسنی سی پھیل گئی ۔۔۔ اور پھر پتہ نہیں کہاں سے اچانک ۔۔ ایک دم۔۔۔۔سے بہت ساری شہوت میرے من میں اترآئی۔۔۔ جو فوراً ہی میرے سارے بدن میں پھیل گئی۔۔۔ اور ۔۔اس کے ساتھ ہی خان سے چُدنے کی مجھ میں شدید خواہش پیدا ہو گئی۔۔۔ اوریہ خواہش اس قدر شدید تھی ۔۔کہ لمحے کے ہزراویں حصے میں ۔۔میری چوت ۔ نیچے سے گیلی ہونا شروع ہو گئی ۔۔۔ لیکن میں نے اپنی اس حالت کی بھنک خان صاحب کو نہ پڑنے دی ۔۔۔۔ اور بظاہر بڑی شدید حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس سے بولی ۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہو ؟ آپ ہوش میں تو ہو۔۔۔۔ تو میری بات سُن کر اس نے دوبارہ سے میرا بازو پکڑا اور کہنے لگا۔۔۔ خوچہ ٹھیک ہے۔۔۔ اگر تمھارا مرضی نہیں ہے تو کوئی بات نہیں ۔۔۔ لیکن ہم تمھارے والد کو یہ بات ضرور بتائے گا۔۔۔۔ اور مجھے لیکر چلنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ یہاں میں نے پھر تھوڑا سا ڈرامہ کیا ۔اور اس سے کہنے لگی دیکھو خان آپ کو جتنے پیسے چاہیئں میں دینے کے تیار ہوں ۔۔۔ لیکن۔۔پلیزززز۔۔۔۔۔۔ جبکہ اندر سے دل تو میرا یہی چاہ رہا تھا کہ ۔۔۔۔ یہ بندہ ابھی کے ابھی میرے اندر اپنا لن ڈال دے ۔۔۔ لیکن ظاہر ہے میں اس کو اپنی اندرونی حالت کا کسی صورت بھی نہیں بتا سکتی تھی۔۔۔ ۔دوسری طرف خان مجھے بازو سے پکڑ کر جب تھوڑا دور لے گیا تو۔۔ پھر میں نے سوچا یہی وہ وقت ہے ۔۔۔اور یہ سوچ کر میں خان کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ایک دم رُک گئی ۔۔۔ اور ۔۔سوچنے کی اداکاری کرنے لگی۔۔۔اور کچھ سوچنے کے بعد میں نے ۔۔ اس کے سامنے ایسا شو کیا کہ جیسے میں یہ کام انتہائی ۔۔۔۔ مجبوری کے عالم میں کر رہی ہوں اور اپنا سر جھکا کر اس سے کہنے لگی ۔وہ خان صاحب۔۔وہ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ میری رضا مندی جاننے کو بے تاب تھا اور لیئے جب میں سر جھکائے ۔۔وہ وہ ۔کی گردان ۔ کرنے لگی ۔۔تو ان نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرا چہرہ اوپر کیا ۔۔۔۔اور اپنی ہوس بھری نظریں مجھ پر گاڑتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ جلدی بولو ۔۔۔ ہم کو اور بھی کام ہیں ۔۔۔ تو میں نے ہارے ہوئے جواری کی طرح ۔۔۔ مرے ہو ئے لہجے میں اس سے کہا ۔۔۔ اس کے علاوہ کچھ اور بات۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ کوئی مجبوری نہیں ہے بی بی جی۔۔۔۔۔۔ اگر تم نہیں کرنا چاہتی تو تمھارا مرضی۔۔ ہم تم کو مجبور نہیں کرے گا ۔۔۔ پھر مجھے دھمکی لگاتے ہوئے کہنے لگا ۔۔ ہم سب مہمانوں کے سامنے تمہارا یہ بات بتائے گا۔۔ ۔۔۔اور ایک دفعہ پھر مجھے گھسیٹنے لگا۔۔۔۔۔آخر تھک ہار (بظاہر) کر میں نے خان کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ۔۔ آپ مجھے کہاں لے جائیں گے۔۔ ؟ میری بات سُن کر خان کی باچھیں کھل گئیں اور بولا ۔۔۔ ہمارے کمرےمیں چلو ۔۔۔ تو میں نے ڈرتے ہوئے کہا کہ آپ کے گھر ؟؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگا۔۔ڈرنے کا کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ تم ۔۔ ہمارا ساتھ ہمارے کمرے میں ۔چلو۔۔۔ ۔۔۔ اس وقت سب سے محفوظ جگہ وہی ہے۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہ بنا کوئی بات کیئے مجھے اپنے ساتھ لے جانے لگا۔۔۔ اور سارے راستے ۔۔ میرے جزبات ۔ اپنے ساتھ ہونے والے اس اچانک سیکس کے بارے میں سوچ سوچ کر بے قابو ہوتے جا رہے تھے ۔۔اور نیچے میری پھدی پر چیونٹیاں سی رینگ رہیں تھیں ۔۔۔اور ۔گرم تو میں بہت پہلے عظمیٰ باجی کا سین دیکھ کر پہلے سے ہی ہو چکی تھی ۔۔ پھر اپنے ساتھ ۔۔سیکس کا خیال آتے ہی میرے زہن میں ۔۔۔ خان کا لن گھوم گیا ۔۔۔اور میں سوچنے لگی ۔۔۔ کہ پتہ نہیں اس کا لن کتنا بڑا ۔اور کتنا موٹا ۔۔ہو گا۔۔۔۔ اور جوں جوں میں خان کے لن کے بارے میں سوچتی جا رہی تھی توں توں ۔۔۔۔۔ میں اندر ہی اندرمزید گرم ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔ خان کے لن کے بارے میں سوچتے سوچتے ۔۔۔ مجھے پھر سے عظمیٰ باجی یاد آگئی ۔۔۔ عظمیٰ باجی کا یاد آنا تھا کہ ۔۔ میرے زہن میں عظمیٰ باجی کا بھا سے کیا گیا سیکس سین ایک دفعہ پھر گھوم گیا ۔۔اور عظمیٰ کی پھدی اور بھا کے لن کا سوچتے ہی ۔۔۔۔ میری چوت ۔۔۔گرم سے گرم تر ہونے لگی۔۔۔۔ اس طرح ۔۔۔۔ خان کے گھر تک پہنچتے ۔۔ پہنچتے ۔۔۔میری پھدی مکمل طور پر بھیگ چکی تھی۔۔اور مجھ سے ۔کھل بند ہو ہو کر ۔۔خان کے لن کا تقاضہ کر رہی تھی۔۔۔۔۔ انار خان سکیورٹی گاڑد جسے ہم سب خان صاحب ہی کہتے تھے علاقہ غیر سے اس کا تعلق تھا اور ۔ہمارے محلے میں ہی رہتا تھا اور اسے رہنے کےلیئے ۔۔ ہمارے ہی محلے ہی کے ایک شخص جوکہ وکیل تھا ۔۔۔ نے اس کو اپنی کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر کا ایک کمرہ دیا ہوا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ اور یہ سرونٹ کوارٹر ان وکیل صاحب کے گھر کے عین پیچھے واقعہ تھا۔اور اس سرونٹ کوارٹر تک پہنچنے کے لیئے ایک لمبی سی راہداری سے گزرنا پڑتا تھا۔جو کہ انہوں نے نوکروں کی آمد و رفت کے لیئے ایک بنائی ہوئی تھی ۔۔۔ اور یہ راہداری چونکہ وکیل صاحب کے بیڈ روم کے پاس سے گزرتی تھی۔۔اور وہاں سے گزرنے والے ہر فرد کو وہ لوگ اندر سے باآسانی آتے جاتے دیکھ سکتے تھے۔۔۔۔چنانچہ عظمیٰ باجی کے گھر سے چلتے ہوئے جب ہم دونوں وکیل صاحب کے گھر کے پاس پہنچے تو دیکھا ۔۔۔ کہ وکیل صاحب کے گھر کی ساری لائٹیں آن تھیں ۔۔ جن کو دیکھ کر میں پریشان ہو گئی اور خان کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ لیکن میں نے خان صاحب کے چہرے پر کسی قسم کی پریشانی کے آثار نہ دیکھے۔۔۔ وہ وکیل کے گھر کے پاس جا کر رُک گیا اور مجھے ایک طرف کر کے کہنے لگا میں اندر جا کر ان کا مین سوئچ آف کروں گا ۔۔۔۔ اور جیسے ہی اندھیرا ہو ۔۔۔ تم نے گیٹ کے ساتھ والی راہداری سے ہوتے ہوئے سامنے کے پہلے کمرے میں چلے جانا ہے۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔ جیسا ہی تم گیٹ کراس کرو گے میں مین سوئچ کو آن کر دوں گا ۔۔۔ ۔۔۔اس لیئے تم نے جتنی جلدی ہو سکے اندھیرا ہوتے ہی تیزی سے اندر جانا ہے۔۔۔یہ کہہ کر وہ وکیل صاحب کے گھر جانے لگا۔ اور جاتے جاتے ۔۔۔ اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور دبی دبی۔۔۔۔ آواز میں کہنے لگا۔۔۔۔ اور اگر تم نے بھاگنے کی کوشش کی تو۔۔۔ پھر تیرا خیر نہیں۔۔۔۔ اب میں اس کو کیا بتاتی کہ میں خود اس سے چدنے کو تیار ہوں ۔۔ ورنہ بھاگنا ہوتا ۔۔۔۔ تو میں کب کی بھاگ چکی ہوتی ۔۔۔لیکن اس کی بات سُن کر میں چپ رہی ۔۔ وہ کچھ دیر تو میری طرف دیکھتا رہا ۔۔۔پھر وکیل صاحب کے گھر میں داخل ہو گیا ۔۔۔
جاری ہے