تراس یا تشنگی
قسط 41
اگلےدن ناشتہ کی ٹیبل پر نواز کی امی مجھ سے کہنے لیگں ۔۔۔۔ بیٹا دھیان رکھنا ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں عادل تمہیں لینے آئے گا اس لیئے تم تیار رہنا۔۔۔۔ نواز کی امی کے منہ سے عادل کا نام سنتے ہی میں نے بے اختیار ثریا کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ اور اس کی امی سے کہنے لگی ۔۔۔۔ خالہ میں نے یاد رکھنا ہے یا۔۔۔۔تو خالہ میری بات کا مطلب سمجھ کر کہنے لگی۔۔۔۔ چل شیطان میں تم سے ہی بات کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔ ادھر خالہ کے منہ سے عادل کا نام سن کر پتہ نہیں کیوں میرے جسم میں ۔۔۔۔ کچھ انجان سی لہریں اُٹھنے لگیں۔۔اور میرے اندر کی وہ تراس جسے میں نے اتنے عرصہ سے دبا کر رکھا ہوا تھا ۔۔۔ پھر سے سر اُٹھانے لگی۔۔۔۔۔۔ اور عادل کے بارے میں سوچتے ہوئے نا چاہتے ہوئے بھی ۔۔۔۔۔۔ جانے کیوں مجھے ۔۔۔۔اس کا لن کہاں سے یاد آ گیا۔۔۔۔اور اس کے لن کا تصور کرتے ہی۔۔۔۔۔ یک بیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے اندر اُسی تراس کی ایک بڑی سی لہر اُٹھی۔۔۔۔۔۔۔ جو میرے پورے بدن میں پھرتی ہوئی۔۔۔۔ عین میری پھدی کے پاس آ کر رُک گئی۔۔۔۔۔ رک کیا گئی۔۔۔ بلکہ میری چوت میں سرائیت کر گئی۔۔اور تراس کی یہ لہر میری چوت کے اندر سماتے ہی نیچے سے مجھے گیلا کر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر میں ایک دم سے گھبرا گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔اور چوری چوری نواز کی امی اور اس کی بہنوں کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔ کہ کہیں انہوں نے میری چوری تو نہیں پکڑ لی؟۔۔۔ لیکن جب میں نے غور کیا تو دیکھا کہ وہ لوگ میرے ( اندر کے) حال سے بے خبر ۔۔۔۔۔۔۔۔ حیلے بہانے سے عادل کا نام لے لے کر ۔۔۔ ثریا کو چھیڑے جا رہیں تھیں ۔۔۔۔شاید وہ یہ بات نہیں جانتی تھیں کہ عادل کے نام سے ۔۔۔ ثریا کا حال تو جو ہونا تھا سو ہونا تھا ۔۔۔لیکن اس نام کے نام کی تکرار کی وجہ سے میری دو ٹانگوں کے بیچ والے سنگھم کی ۔۔۔۔ حالت بہت خراب ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔
ناشتے کے بعد ابھی میں تیار ہی ہو رہی تھی کہ عادل آ دھمکا۔۔۔۔۔ اور نواز کی امی وغیرہ سے ملنے کے بعد ۔۔۔وہ سیدھا میرے کمرے میں آیا ۔۔۔جہاں میں ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی اپنے بالوں کو سنوار رہی تھی۔۔۔ میری دھج دیکھ کر ۔۔۔ایک لمحے کواس کا منہ کھلا رہ گیا ۔۔۔۔۔اور وہ ادھر ادھر دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔۔۔ اگر اجازت ہو تو باجی آپ سے ایک بات کہوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں نے اپنے کھلے بالوں کو فائینل ٹچ دیتے ہوئے بڑی بے تکلفی سے کہا ۔۔۔۔ اس میں اجازت لینے والی کون سی بات ہے یار ۔۔ تم نے جو کہنا ہے کھل کر کہو ۔۔۔ میری بے تکلفی کو دیکھ کر وہ کِھل سا گیا اور میری طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔باجی آپ سچ کہہ رہی ہو نا ؟ ۔۔۔۔ تو میں ۔ ۔ نے اس سے کہا۔۔۔۔ اس میں جھوٹ کی کون سی بات ہے؟ اس پر وہ بولا ۔۔۔۔۔۔ باجی۔۔۔ باجی شادی کے بعد آپ پہلے سے بھی زیادہ خوب صورت ۔۔۔اور ۔۔۔۔ پیاری ہو گئیں ہیں۔۔۔۔ تو میں نے اس کو آنکھیں نکالتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہو ا کہ شادی سے پہلے میں بڑی بد صورت اور پیاری نہیں تھی ؟ میر ی بات سن کر وہ گھبراہٹ بھرے انداز میں کہنے لگا۔۔۔۔ نہ نہیں باجی ۔۔۔میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ۔۔۔کہ۔۔۔ پھر اس نے ڈریسنگ کے شیشے سے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ اسکی مثال ایسے ہے باجی ۔۔۔۔۔کہ جیسے شادی سے پہلے آپ ایک نو خیز کلی تھی تو شادی کے بعد۔۔اب آپ اس نو خیز کلی سے ایک شاندار پھول بن گئی ہو۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔ اوئے ۔۔۔عادل کے بچے یہ تم نے اتنی گہری بات کہاں سے سیکھی؟۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر خود ہی معنی خیز لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا اچھا تو تم کو یہ باتیں ثریا نے سکھائی ہوں گی۔۔ثریا کا نام سن کر وہ تھوڑا شرما سا گیا ۔۔۔۔اور پھر کہنے لگا ۔۔۔ نہیں باجی یہ بات ثریا نے نہیں سکھائی ۔۔۔بلکہ ایک انڈین فلم کا ڈائیلاگ ہے جو آپ پر بلکل فٹ آتا ہے۔۔۔۔۔ اسی اثنا میں کمرے کا دروازہ کھلا اور ۔۔۔۔میں نے دیکھا کہ نواز کی امی کمرے میں داخل ہو رہی تھیں ۔۔۔۔ ان کے ساتھ ایک کام والی خاتون بھی تھی کہ جس کے ہاتھ میں ٹرے تھی اور اس ٹرے میں عادل کے لیئے کولڈ ڈرنگ کا گلاس پڑا تھا ۔۔اندر داخل ہوتے ہی نواز کی امی کہنے لگی ۔۔۔ بیٹی آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئی ۔۔۔ تو میں نے ڈریسنگ سے اُٹھتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔جی میں ریڈی ہوں۔۔۔۔ میری بات سن کر عادل نے بھی جلدی سے کولڈ ڈرنگ کا گلاس پیا ۔۔۔اور ۔۔۔۔میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔چلیں باجی؟ تو اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی نواز کی امی عادل کو مخاطب کر کے کہنے لگیں۔۔۔۔۔بیٹا زرا دھیان سے جانا۔کہ ہماری اس چڑیا میں نواز کی جان بند ہے ۔۔۔۔ تو عادل کہنے لگا ۔۔ فکر نہ کریں خالہ میں بڑی احتیاط سے جاؤں گا ۔۔۔اور جب میں عادل کے ساتھ نکلی۔۔۔۔ تو ہمیں وداع کرنے نواز کی امی بھی گیٹ تک آئیں ۔اور ایک دفعہ پھر چڑیا والی اپنی بات دھرائی۔۔۔۔۔۔عادل نے اچھا جی کہا اور ۔۔۔ بائیک سٹارٹ کر کے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔ اور میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔۔۔عادل نے بائیک سٹارٹ کیا اور چلنے لگا تو ایک بار پھر سے نواز کی امی نے اس سےنصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا بڑی احتیاط سے چلنا ۔۔۔ادھر عادل کے پیچھے بیٹھتے ہی ۔۔۔ میری حالت کچھ عجیب سی ہو گئی تھی۔۔۔۔ اور میرے اندر ایک ہلچل سی مچ گئی تھی۔۔۔۔اور ۔۔۔ میرے دبانے کے باوجود بھی پتہ نہیں کیوں تراس کی ۔۔۔۔۔۔لہریں ۔۔۔ میرے اندر کیوں گردش کرنے کرنے لگیں تھیں ۔۔۔ادھر نواز کی گلی کا موڑ مڑتے ہی عادل نے ایک زبردست بریک لگائی۔۔۔۔ اور میں جو اس کے پیچھے ایک فاصلے پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔ بریک لگنے کی وجہ سے پھسل کر ۔۔۔اس کے ساتھ لگ گئی لیکن اس کے کندھے پر ہاتھ رکھنے کی وجہ سے میرا وجود اس کے وجود سے ٹچ نہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔ بریک لگانے کے بعد اس نے پیچھے مُڑ کر میری طرف دیکھا اور بولا۔۔۔ سوری باجی۔۔۔ میں نے بھی اس بات کو در گزر کر دیا۔۔۔ لیکن جب بار بار اس نے بریکیں لگانا شروع کر دیں ۔۔۔۔ تو میں اس کی بات سمجھ گئی۔۔۔۔۔۔ اور اس کی بات سمجھتے ۔۔۔۔ ہی میرا دل۔۔۔ دھک دھک کرنے لگا۔۔۔اور میرے اندر کچھ کچھ ہونے لگا۔۔۔اورپھر کافی دیر تک میں ایک کشمکش میں مبتلا رہی ۔۔۔۔ پھر اندر ہی اندر میں نے ایک فیصلہ کیا اور ۔۔۔ پرُسکون سی ہو گئی۔۔۔۔۔ اس لیئے اگلی دفعہ جب اس نے بریک لگائی تو میں نے اس کے کندھے سے ہاتھ ہٹایا ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی چھاتیوں کو اس کی پشت سے جوڑ لیا۔۔۔اس کی سینے پر رکھتے ہوئے اس کے کان میں بولی۔۔۔۔۔ اب بریک نہ لگانا ۔۔۔ اور اسکی بائیک کے بیک شیشے میں دیکھا تو میری بات سن کر عادل کی سانولی رنگت میں ایک رنگ سا آ گیا تھا۔۔۔۔۔اور پھر واقعی اس نے گھر تک کوئی بریک نہ لگائی اور اپنی پشت پر میرے بھاری مموں کے دباؤ کو انجوائے کرتا رہا۔۔۔۔ بائیک چلاتے ہوئے جیسے ہی اس کا محلہ شروع ہوا ۔۔۔تو اس نے پیچھے مُڑ کر میری طرف دیکھا ۔۔۔اور بولا۔۔ باجی ہماری گلی آ گئی ہے۔۔۔دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ تھا کہ میں اس کی پشت پر رکھے اپنے مموں کو ہٹاؤں اور دوبارہ سے اسی طرح نارمل ہو کر بیٹھ جاؤں۔۔۔۔۔ اور میں نے ایسے ہی کیا۔۔۔۔۔ اسکے گھر پہنچ کر بائیک سے اترتے ہوئے یونہی میں نے اس کی پینٹ کی درمیان نظر ڈالی ۔۔۔تو ۔۔۔وہ ایک طرف سے تھوڑی ابھری ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میرے مموں کی گرمی کی وجہ سے اس کا لن۔۔کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر ۔۔۔میرے نیچے ۔۔ جلنے والی ہلکی آگ کی آنچ کچھ تیز ہو گئی۔۔۔۔ لیکن میں نے اس پر کچھ ظاہر نہیں کیا۔۔۔ عادل کے گھر پہنچتے ہی اس کی بہنوں اور امی نے مجھے بڑا وی آئی پی۔۔۔ پروٹوکول دیا۔۔۔۔ اور میری بڑی خدمت کی۔۔۔ان کے ساتھ عادل بھی بیٹھا رہا ۔۔۔ اورمیں نے نوٹ کیا کہ وہ چوری چوری بڑی گرسنہ نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ میں اس کی نظروں کا مطلب خوب سمجھتی تھی ۔۔۔ لیکن۔۔۔۔بوجہ ۔۔۔اسے نظر انداز کر رہی تھی۔۔لیکن جلد ہی میں اس کی نظروں کی تاب نہ لاسکی ۔۔۔۔اور کچھ اپنے نیچے والے پورشن کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں بھی ۔۔۔کبھی کبھی نظر بچا کر اس کی طرف دیکھ بھی لیتی تھی۔۔۔۔۔ مجھے اس کی بہنوں کا بھی ڈر تھا۔۔۔ اس لیئے ایک دوسرے کی طرف گرسنہ نظروں سے دیکھنے والا کام ہم بڑی ہی احتیاط اور۔خاموشی سے کر رہے تھے۔۔۔ پھر وہ اُٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔ اور کافی دیر بعد جس وقت وہ واپس ہماری محفل میں آیا تو اس وقت تک اس کی بڑی بہن اور امی کچن میں جا چکیں تھیں ۔۔۔اور اس وقت میرے پاس صرف اس کی دو بہنیں بیٹھی تھیں۔۔۔۔ عادل نے ہمارے پاس آ کر پہلے تو حالات کا جائزہ لیا۔۔۔ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ چلیں باجی میں آپ کو اپنی سٹڈی دکھاتا ہوں۔۔۔۔اس کی بات سن کر اس کی بہنیں بولیں۔۔۔۔ چلیں باجی ہم بھی چلتی ہیں۔۔۔۔ تو ان کو اُٹھتے دیکھ کر عادل کہنے لگا۔۔۔۔خبردار اگر تم میں سے کسی نے میری سٹڈی میں قدم بھی رکھا تو ۔۔۔۔ میرے ساتھ صرف ہما باجی ہی جا رہیں ہیں ۔۔۔۔اس پر اس کی بہنوں نے اصرار کیا تو اتنے میں عادل کی امی ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی اور بولیں یہ کس بات پر جھگڑا چل رہا ہے ۔۔تو عادل کہنے لگا۔۔۔۔۔ امی میں ہما باجی کو اپنی سٹڈی دکھانے لے جا رہا تھا ۔۔۔ تو ساتھ یہ دو چڑیلیں بھی چلنے کو تیار ہو گئیں ہیں ۔۔۔ لیکن میں ان کو ہر گز نہیں لے جاؤں گا۔اس پر اس کی بہنوں نے بھی بولنا شروع کر دیا ۔۔تو ان سب کی باتیں سن کر آخرِکار ۔ ۔۔۔۔اس کی امی کہنے لگیں ۔۔۔اچھا بابا ۔۔۔ نہیں جائیں گی یہ تمھارے ساتھ۔۔۔جاؤ جلدی سے باجی کو اپنی سٹڈی دکھا لاؤ۔۔۔۔۔
اپنی امی کی بات سن کر عادل نے اپنی دونوں بہنوں کا منہ چڑایا ۔۔اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔ چلیں باجی۔۔۔۔۔۔ میں اُٹھ کر اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔۔۔عادل کے ساتھ چلتے ہوئے پتہ نہیں کیوں میرا دل ۔۔۔ دھڑکنے لگا تھا۔اور میری چوت پھڑکنے لگی تھی ۔۔۔جبکہ میرے آگے چلتا ہوا عادل بڑا پر جوش سا لگ رہا تھا۔۔۔ ڈرائینگ روم سے باہر آ کر اس نے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔اور کہنے لگا کہ اس کی سٹڈی اوپر ہے۔۔اور سیڑھیاں چڑھ کر ہم چلتے ہوئے عادل کے سٹڈی روم میں پہنچ گئے ۔۔۔۔ عادل کا سٹڈی روم ایسا ہی تھا کہ جیسا کہ لڑکوں کا ہوا کرتا ہے ۔۔ کمرے میں جگہ جگہ کتابیں بکھری پڑیں تھیں ۔۔۔۔ اور ایک عجیب بے ترتیبی سی جھلک رہی تھی۔۔۔ میں اس کے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی۔۔۔۔ کہ اس نے مجھے ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔اور پھر وہ خود میرے سامنے دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔اور میرے ساتھ باتیں کرنے لگا۔۔۔ پھر باتوں باتوں میں اس نے بظاہر۔۔۔۔۔ چونک کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ یاد ہے باجی جب میں آپ کے گھر آیا تھا تو آپ نے مجھ سے آئیس کریم منگوا کر کھائی تھی۔۔۔ پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔۔۔ میں آپ کے لیئے آئیس کریم لایا ہوں ۔۔۔۔دوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔عادل کی بات سن کر مجھ پر ایک دم سے ہوس سوار ہو گئی ۔۔۔۔ اور جو میں نے اتنی دیر سے اپنے اندر دبا کر رکھی ہوئی تھی ۔۔۔وہ شہوت ۔۔۔ میرے اوپر چھانے لگی۔۔۔۔ خود عادل کی حالت بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔۔۔۔۔ میری طرف دیکھتے ہوئے وہ بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیررہا تھا۔۔۔۔۔۔۔پھر وہ اٹھتے ہوئے بولا ۔ ۔۔۔ باجی میں ابھی آیا۔۔۔اور کچھ ہی دیر بعد وہ آئیس کریم لا کر کانپتے ہاتھوں سے مجھے پکڑاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔ باجی یہ ۔۔۔یہ آئیس کریم ویسے ہی کھانا ۔۔جیسے اس دن کھائی تھی۔۔۔ اس کی بات ختم ہونے تک شہوت مجھ پر پوری طرح ۔۔ سوار ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔اور میں نے بڑی گرم نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔ فکر نہ کرو عادل ویسے ہی نہیں اس سے بڑھ کر کھاؤں گی۔۔۔۔پھر میں نے آئیس کریم کا ریپر ہٹایا ۔۔۔اور آنکھیں بند کرکے تصور میں عادل کا موٹا اور لمبا لن لاتے ہوئے ۔۔۔ اپنی زبان باہر نکالی۔۔۔۔اور بڑی بے تابی سے۔۔اوپر سے نیچے تک اس پر اپنی زبان پھیرنے لگی۔۔۔آئیس کریم چاٹتے چاٹتے پھر ۔۔۔۔ میرے تصور میں اس کا موٹا سا ٹوپا آ گیا ۔۔۔اور یہ تصور آتے ہی نے آئیس کریم چاٹنا چھوڑ دی اور اس کے ساتھ ہی میں نےاپنے دونوں ہونٹوں کو گول دائیرے کی شکل میں بنایا ۔۔۔اور عادل کے ٹوپے کا تصور کرتے ہوئے۔۔خود بخود میرے منہ سے ایک سسکی نکل گئی ۔۔۔۔اُوں۔۔۔ اور پھر میں نے آئیس کریم کو اپنے منہ میں لےلیا۔۔اور اس کو چوسنے لگی۔۔
جاری ہے