تراس یا تشنگی
قسط 43
اس وقت چوری پکڑے جانے کے ڈر سے میری جان پر بنی ہوئی تھی اور میں نواز کی امی کی ایک ایک حرکت کو بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ تبھی انہوں نے اپنے لب ہلائے اور سرگوشی میں مجھے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ میں بظاہر تو نارمل لیکن اندر سے میں سخت گھبرائی ہوئی تھی پھر بھی میں نے اپنا نارمل سا چہرہ بنایا اور ان کے پاس چلی گئی۔۔۔ جیسے ہی میں ان کے قریب پہنچی۔۔۔ انہوں نے ایک نظر ادھر ادھر دیکھا اور پھر میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ بیٹی تم نے شلوار اُلٹی پہنی ہوئی ہے۔۔ پھر وہ تیزی سے کہنی لگیں جلدی سے واش روم میں جاؤ شلوار کو سیدھا کر کے پہن لو۔۔۔ اپنی ساس کے منہ سے یہ بات سن کر میں نے ایک گہری سانس لی اور اپنی شلوار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ وہ خالہ اصل میں ۔۔۔ تو وہ بڑے ہموار لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔ ان باتوں کو چھوڑو۔کہ اکثر میرے ساتھ بھی ایسا ہو جاتا ہے ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ کوئی دیکھ۔۔ تم جلدی سے جاؤ اور شلوار کو سیدھا کر کے پہن لو۔۔۔۔ میرے خیال میں ان بے چاری کے سان و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان کی ہو چکی بہو نے۔۔۔ ابھی ابھی ان کے ہونے والے داماد سے چوت مروائی ہے۔۔۔ اور وہ جلدی کی وجہ سے اپنی شلوار کو اُلٹا پہن کر آ گئی تھی۔۔۔ اس کے بر عکس وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ زور کا پیشاب لگنے کی وجہ سے شاید تھوڑا سا پیشاب میری شلوار میں نکل گیا ہو گا اس لیئے میں نے شلوار کو اتار کر اس کی پیشاب والی جگہ کو دھویا ۔۔۔ اور پھر غلطی سے اسے اُلٹا پہن کر باہر نکل آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ساس کی بات سن کر میں نے شکر کا کلمہ پڑھا اور ان کے کہنے پر تیزی سے واش میں گھس گئی ۔۔۔اور شلوار کو سیدھا پہن کر باہر نکل آئی ۔۔۔۔۔ میرے واش روم سے نکلتے ہی ساسو ماں مجھے دروازے کے پاس ہی کھڑی ملی۔۔میرے خیال میں انہیں بھی زوروں کا پیشاب لگا ہو گا تبھی تو میرے واش روم سے نکلتے ہی وہ تیزی سے اندر داخل ہو گئی تھی۔۔۔ ایک ہفتے کے بعد اگلے ویک اینڈ پر نواز مجھے لینے کے لیئے بہالپور ا ٓ گیا تھا۔۔۔۔ لیکن اس دوران ۔۔۔۔ میں عادل کے لن کو نہ صرف یہ کہ خوب انجوائے کر چکی تھی۔ بلکہ اس سے مزید دو دفعہ اور بھی چوت مروا چکی تھی اور عادل کےسیکس کر کے میں بڑی فریش اور ہلکی ہو گئی تھی اسی لیئے جس دن نواز مجھے لینے آیا تھا تو اس رات میں نے نواز کے ساتھ نہ صرف یہ کہ بڑا ہی پر جوش سیکس کیا تھا بلکہ اسے بہت زیادہ مزہ بھی دیا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر نواز بہت خوش ہوا ۔۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔ کیا بات ہے ۔۔۔ ہما جی۔۔۔۔آج تو تم کمال کر رہی ہو؟ تو میں نے اسے بڑے ہی لاڈ سے جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ ۔۔۔ آپ ایک ہفتے کے بعد جو ملے ہو۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگا۔۔۔۔ اچھا اچھا۔۔۔۔ یہ سب جدائی کی وجہ سے ہو رہا ہے تو میں نے اس کے لن پر جمپ مارتے ہوئے کہا کہ۔۔۔۔ جی میری جان ۔۔۔یہ سب تمہاری جدائی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔۔اور پھر اسے مزید چڑھاتے ہوئے بولی ۔۔ میں تمہارے بنا میں بہت اداس تھی جان۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بولا۔۔۔ قسم لے لو ہما ۔۔ تمہارے بغیر میں بھی بہت اداس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اگلے دن ہم لاہور واپس آ گئے اور پھر سے روٹین کی لائف شروع ہو گئی۔۔۔ اسی طرح دن گزرتے رہے۔۔۔اور یہ بہا ولپور سے واپس آنے کے تین چار ماہ بعد کی بات ہے کہ ۔۔۔۔ کہ ایک دن نواز جب آفس سے واپس آئے تو وہ کچھ پریشان سے لگ رہے تھے۔۔۔ ان کا چہرہ دیکھ کر میں فوراً ہی بھانپ گئی کہ آج کچھ گڑ بڑ ہے۔۔۔اس لیئے ان سے پوچھنے لگی کہ کیا ہوا ۔نواز۔۔۔۔ سب خیر تو ہے ناں۔۔؟ تو وہ میر ی طرف دیکھ کر بولے ۔۔۔۔ ہاں خیر ہی ہے ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا تم کہہ رہے ہو خیر ہی ہے۔۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔۔۔ لیکن کا کیا مطلب؟؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔۔ ہما ۔۔۔ خیر اس لیئے کہا کہ میری پرموشن ہو گئی ہے ۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ تشویش والی بات یہ ہے کہ ابھی لاہور میں کوئی پوسٹ خالی نہیں۔۔۔ اس لیئے عارضی طور پر میری پوسٹنگ راولپنڈی میں ہو گئی ہے ۔۔پھر خود ہی کہنے لگا ۔۔۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔۔۔ راولپنڈی میں ہم صرف دو ماہ رہیں گے۔۔۔ اور پھر دو ماہ کے بعد میرے عہدے کے مطابق یہاں سیٹ خالی ہو جائے گی تو میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو وہ کہنے لگا وہ ایسے میری جان کہ دو ماہ بعد میری سیٹ والا بندہ ۔۔۔ ریٹائیرڈ ہو رہا ہے۔ تو اس کے ریٹائیرڈ ہوتے ہی میں بیک ٹو پویلین ہو جاؤں گا ۔ نواز کی پرموشن کی بات سن کر میں بڑی خوش ہوئی اور اسے اپنے گلے سے لگا کر مبارک باد دی ۔۔۔ پھر ایک خیال کے آتے ہی میں نے اس سے پوچھا ۔۔ کہ پھر تو نواز راولپنڈی جانے کے لیئے ہمیں یہ فلیٹ چھوڑنا پڑے گا ؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ ایسی بات نہیں ہے میری جان ۔۔۔ہم اس فلیٹ کو نہیں چھوڑ رہے۔بلکہ یہ فلیٹ اور ہمارا سامان سب کچھ یہیں رہے گا ۔۔ نواز کی بات سن کر میں بڑی حیران ہوئی اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر جانو ہم ساتھ کیا لے کر جائیں گے ؟؟ میری بات سن کر اس نے میرا ماتھا چوما ۔۔۔ اور کہنے لگا ۔۔۔دھیرج مسز دوست نواز خان دھیرج۔۔۔ پھر بڑے پیار سے کہنے لگا ۔۔۔ چونکہ ہم نے دو ماہ بعد ہی واپس آ جا نا ہے تو اس لیئے میں نے پروگرام بنایا ہے کہ ہم اس فلیٹ کا کرایہ بھی بھرتے رہیں گے اور ۔۔رہی یہ بات کہ ہم لوگ راولپنڈی میں کیا لے کر جائیں گے ؟ تو میری جان پنڈی میں ہم صرف پہننے کے کپڑے ہی لے کر جائیں گے ۔۔ اس کی بات سن کر میں نے کچھ کہنے کے لیئے اپنا منہ کھولا ہی تھا کہ اس نے مجھے چپ رہنے کا اشارہ کرتے ہو کہا۔۔۔ کہ ایک منٹ میری بات مکمل ہونے دو۔۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ میرا ایک کولیگ ہے وہی یار ۔۔۔عدنان خان جو ایک دفعہ ہمارے گھر بھی آیا تھا۔۔۔ اس کا بڑا بھائی پنڈی میں رہتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے بھائی سے مکان کے لیئے بات کی تھی ۔۔۔اور چونکہ ہمیں مکان صرف دو ماہ کے لیئے چاہیئے ہے اس لیئے اس کے بھائی نے کہا کہ کہ دو ماہ کے لیئے وہ اپنی اوپر والی منزل کو خالی کر دے گا اور ہمیں بطور مہمان اپنے گھر میں ٹھہرائے گا۔۔ ۔۔۔ لیکن میں نے اس کی یہ بات گوارہ نہ کی ۔۔اور اس سے کہا ہے کہ ہم اس کے گھر میں رہیں گے ضرور لیکن ہم رہنے کے پیسے دیں گے ۔۔۔ پہلے تو انہوں نے منع کر دیا تھا لیکن پھر میرے اصرار پر وہ اس بات کے لیئے راضی ہو گیا ہے۔ ۔۔۔چنانچہ اب ہم ان کے گھر میں بطور پے انگ گیسٹ رہیں گے ۔۔۔ تو میں نے نواز سے کہا کھانا بھی وہی لوگ دیں گے؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ اس کے بھائی نے تو بڑا زور لگایا تھا ۔۔ لیکن میں نے منع کر دیا ہے ۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر نواز کہنے لگا سو جان جی تیار ہو جاؤ ابھی ہم لوگ آپ کے اماں کے گھر جا رہے ہیں دو ماہ کے لیئے ہماری گاڑی وہیں پارک ہو گی تو میں نے نواز سے کہا۔۔۔ کہ گاڑی کے بغیر پنڈی میں آپ آفس کیسے جاؤ گے؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ میری جان اب تمھارا ۔۔۔ میاں ایک بڑا افسر بن گیا ہے ۔۔۔ اس لیئے پنڈی میں پِک اینڈ ڈراپ کمپنی کی طرف سے ہو گا۔۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔کہ اب تیاری کر کہ ہم نے جانا بھی ہے۔۔۔ اماں کے گھر گاڑی چھوڑ کے اگلے رو ز ہم لوگ بزریعہ ڈائیو پنڈی کے لیئے روانہ ہو گئے ۔۔ ڈائیو کے اڈے پر عدنان کا بھائی معہ بیگم ہمیں لینے کے لیئے آئے ہوئے تھے۔۔۔انہوں نے ہمیں وہاں سے پِک کیا اور اپنے گھر آر –آے بازار جو کہ پنڈی کینٹ کے ایریا میں واقع تھا لے کر آ گئے ۔۔۔ نواز کےد وست عدنان کے بڑے بھائی کا نام احسان تھا اور ان کا صدر میں کاروں کا اپنا شو روم تھا۔۔۔۔ احسان ایک مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے اور رنگ ان کا سانولا اور عمر چالیس پینتالس سال کے قریب ہو گی ۔۔ احسان کے برعکس اس کی بیگم کہ جس کا نام حنا بیگم تھا ۔ 35/ 36 سال کی ایک بہت خوب صورت سی خاتون تھی ۔۔ ویسے تو میاں بیوی دونوں ہی بڑے اچھے اخلاق کے مالک تھے ۔۔۔ لیکن میں نے محسوس کیا تھا کہ میاں کے بر عکس اس کی بیوی حنا بیگم میں ناز نخرہ تھوڑا زیادہ پایا جاتا تھا ۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارا اوپر والا پورشن تھا ۔اور چونکہ احسان صاحب نے یہ مکان اپنے رہنے کے لیئے یہ مکان بنایا تھا اور اسے بناتے وقت ان کے زہن میں اوپر والا پورشن کرائے پر دینے کا کوئی پلان نہ تھا ۔۔۔۔ اس لیئے ان کا مکان ایسے ڈیزائن میں بنا تھا کہ ۔۔اوپر والے پوشن میں جانے کے لیئے ۔۔ان کے صحن سے ہو کر جانا پڑتا تھا ۔ انہوں نے اس کا نقشہ کچھ ایسے ڈیزائن کیا تھا کہ ان کی ساری توجہ نیچے والے پورشن پر تھی ۔چنانچہ نیچے والے پورشن کا صحن بہت بڑا تھا ۔۔۔جس کی وجہ سے اوپر والے پورشن کا چھت محدود ہو گیا ۔۔کیونکہ ان لوگوں اپنے صحن کے اوپر والی جگہ خالی چھوڑی تھی ۔
۔۔اوپر کے پورشن میں ان کے تین کمرے تھے ایک کمرے میں انہوں نے اپنا سامان رکھ کر اسے تالا لگایا ہوا تھا- جبکہ باقی کے دو کمرے انہوں نے ہمارے استعمال کے لیئے کھلے چھوڑے تھے ۔۔۔ ان کمروں سے تھوڑا ہٹ کر کچن واقع تھا ۔ پھر کچن اور کمروں کے آگے چھوٹا سا برآمدہ تھا اور اس چھوٹے سے برآمدے کے آگے ایک چھوٹا سا صحن تھا اور اس سے آگے ریلنگ لگی ہوئی تھی ۔۔۔ اور اس ریلنگ پر کھڑے ہو کر نیچے سے ان کا سارا صحن اور خاص کر کچن اور ڈرائینگ ڈائینگ کا کچھ حصہ بڑا صاف نظر آتا تھا ۔یہ تو تھی ہمارے اس گھر کی صورتِ حال کہ جہاں آ کر ہم اترے تھے۔۔۔یہاں آنے کے بعد مجھے کچھ خاص سیٹنگ تو کرنا نہیں پڑی کہ ہر چیز پہلے سے ہی موجود تھی۔۔ لیکن پھر بھی لاہور سے پنڈی آنے کے ایک دو ہفتے بعدمیں تھوڑی اپ سیٹ رہی کیونکہ مجھے اپنا لاہور بہت یاد آرہا تھا۔۔۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ میں اس ماحول کی عادی ہو گئی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی حنا بیگم کے ساتھ علک سلیک ہوتی ہوئی بات چیت سے اچھی خاصی دوستی میں تبدیل ہو گئی ۔اور اب وہ میرے لیئے حنا باجی اور اس کے میاں احسان بھائی تھے۔۔اس کے بر عکس دوسری طرف ۔ یہاں آ کر نواز کچھ زیادہ ہی مصروف ہو گیا تھا۔۔۔۔ صبع آفس کی گاڑی اسے لینے کے لیئے آتی تھی اور بعض اوقات رات گئے تک وہ گھر واپس لوٹتا تھا۔۔میں جب بھی اس سے لیٹ آنے کی بات کرتی تو وہ یہ کہتا تھا کہ کیا کروں یار ۔۔۔۔ آفس میں کام ہی اتنا ہوتا ہے کہ خود میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں؟۔۔۔ پھر وہ منت بھرے انداز میں مجھ سے کہتا کہ ۔۔۔۔ ہما ۔۔۔ پلیززززززز ۔۔۔ بس دو ماہ ہی کی تو بات ہے پھر ہم لاہور جا کر ہم خوب انجوائے کریں گےاور میں اس کی ان باتوں سے خود کو تسلی دینے کی کوشش کرتی رہتی تھی ۔۔ یہاں آ کر نواز کی یہ پکی روٹین بن گئی تھی کہ آفس سے گھر آتے ہی وہ کھانا کر میرے ساتھ تھوڑی سی گپ شپ لگاتے اور پھر سونے کے لیئے جیسے ہی وہ بستر پر لیٹتے تو پھراگلی صبع ہی ان کی آنکھ کھلتی تھی ۔۔اور اس دوران میں۔۔۔نواز کے پاس لیٹے ہوئے بعض اوقات رات گئے تک جاگتی رہتی تھی۔۔۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں ایک سیکسی لڑکی ہوں ۔۔اور میرے جسم کو سیکس کی بڑی شدید طلب ہوتی تھی لیکن ۔۔۔ میرے جزبات سے بے خبر نواز ۔۔ ۔ ۔۔ اپنے دفتر ی کاموں میں اس قدر بزی تھا کہ یہاں آ کر اس نے بس ایک دفعہ ہی میرے ساتھ سیکس کیا تھا ۔۔۔ جبکہ میری پھدی روزانہ ہی لن کی ڈیمانڈ کرتی تھی ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود بھی میں نے جیسے تیسے خود پر قاپو پایا ہوا تھا ۔۔۔۔
یہاں آ کر میرا روزانہ کا معمول تھا کہ ۔۔۔ میں صبع ا ُٹھ کر ناشتہ وغیرہ بناتی تھی پھر ہم دونوں اکھٹے ناشتے کرتے تھے اس دوران آفس سے نواز کی گاڑی آ جاتی تھی اور میں نواز کو الوداع کرنے دروازے تک آتی تھی ۔ ۔۔ نواز کو وداع کرنے کے بعد چونکہ میرے پاس کرنے کو اور کوئی کام نہیں ہوتا تھا اور اس کے ساتھ ۔۔۔چونکہ عموماً میں رات کی جاگی ہوئی بھی ہوتی تھی اس لیئے نواز کو وداع کرنے کے بعد میں اوپر جا کر سو جایا کرتی تھی۔اور پھر دوپہر کو اُٹھ کر حنا باجی کی طرف چلی جایا کرتی تھی۔۔۔ اور شام تک ہم دونوں گپیاں لگایا کرتی تھیں ۔۔اور نواز کے آنے سے کچھ دیر پہلے میں اوپر آ جاتی تھی اور اس کے لیئے رات کے کھانے کا بندوبست کرتی تھی ۔۔۔۔ایک دن کی بات ہے کہ نواز کو رُخصت کرنے کے بعد میں نے بستر پر دراز ہوئی لیکن کروٹیں بدلنے کے باجود بھی جب مجھے نیند نہ آئی تو میں بستر سے اُٹھ بیٹھی ۔۔۔ اور سوچا چلواپنے اور نواز کےکچھ سوٹ ہی استری کر دیتی ہوں یہ سوچ کر میں نے اپنے اور نواز کے کپڑے لیئے اور انہیں استری کرنے لگی۔۔ کچھ ہی دیر بعد مجھے نیچے سے ہلکی آواز میں کچھ ۔۔۔۔ " ایسی ویسی" آوازیں سنائی دیں ۔۔۔۔ پہلے تو میں نے ان آوازوں کو اپنا وہم سمجھا ۔۔ ۔۔۔ لیکن پھر جب حنا باجی نے کچھ اونچی آواز میں سسکی لی تو میرے کان کھڑے ہو گئے اور میں سب کام چھوڑ کر دبے پاؤں اپنے صحن کی طرف چلی گئی اور ۔۔ ریلنگ پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے لگی ۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ حنا باجی اپنی ٹانگیں کھول کر عین ڈائینگ ٹیبل پر جھکی ہوئی تھی ۔۔۔ اور اس کے پیچھے احسان بھائی کھڑے ہو کر ان کو چود رہا تھا۔۔۔چونکہ ان دونوں کی پشت میری طرف تھی اس لیئے میں دیکھے جانے کے ڈر سے بے نیاز ہو کر ان کا چودائی سین دیکھنے لگی۔۔۔
ان کی چدائی کو دیکھتے ہوئے جلد ہی میں نے محسوس کر لیا کہ اس وقت احسان بھائی کے آخری جھٹکے چل رہے ہیں ۔ ابھی میں اس بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ ۔۔حنا باجی نے اچانک ہی ۔ بڑی اونچی آواز میں سسکیاں لینا شروع کر دیں ۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ سسکیاں لینے کے ساتھ ساتھ وہ ۔۔۔ احسان بھائی پر بھی بہت برس رہی تھی ۔۔۔ میں نے کان لگا کر سنا تو وہ احسان سے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔ ہوس کی بھی حد ہوتی ہے احسان ۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔۔ اتنے برس ہو گئے شادی کو اور تم کو ابھی بھی روز پھدی چاہیئے ہوتی ہے ۔۔۔ حنا باجی نے ابھی اتنا ہی کہا تھا ۔۔۔ کہ احسان بھائی نے پیچھے سے ایک بڑی سی اوہ۔۔۔۔ کی اور بولے حنا ۔۔میں۔۔۔۔ میں چھوٹ رہا ہوں اور پھر اپنے لن کو تیزی سے ان آؤٹ کرنے لگے۔۔۔ اسی دوران میں نے حنا باجی کی آواز سنی وہ احسان سے کہہ رہی تھی۔۔۔ جلدی چھوٹ حرامی جلدی چھوٹ ۔۔۔اور حنا باجی کی اسی بات کے ساتھ ہی احسان بھائی نے دو تین مزید گھسے مارے اور پھر وہ حنا کی چوت میں ہی چھوٹ گئے۔۔۔ حنا کی چوت میں لن ڈالے کچھ دیر تک تو ۔ احسان ۔۔ اپنے سانس درست کرتا رہا پھر حنا باجی نے اپنا ایک ہاتھ پیچھے کی طرف کیا ۔۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ایک کپڑا پکڑا ہوا تھا ۔۔۔ جو انہوں نے احسان بھائی کو پکڑایا اور کہنے لگیں ۔۔۔ جلدی سے اپنا گند صاف کرو۔۔۔ ۔ ۔۔۔ اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔۔۔ احسان بھائی نے ان کے ہاتھ سے وہ کپڑا پکڑا ۔۔۔۔ اور تھوڑا پیچھے ہو کرحنا باجی کی چوت کو اچھی طرح سے صاف کر کے جیسے ہی کپڑا رکھا ۔۔ حنا باجی نے ڈائینگ ٹیبل سے اپنا سر اُٹھایا اور پھر انہوں نے نیچے جھک کر اپنی شلوار پکڑی اور ننگی ہی تیزی سے اندر کی طرف چلی گئی میرے خیال وہ واش روم میں گئی ہو گئی۔۔۔۔ جیسے ہی حنا باجی ۔۔۔۔ واش روم کی طرف گئی ۔۔۔ احسان بھائی نے بھی اپنی پیٹھ موڑی ۔۔۔۔اور اب میرے سامنے ۔۔۔۔۔ ان کا فرنٹ آ گیا تھا۔۔۔ اور خود بخود میری نظر ۔۔۔ احسان بھائی کے لن کی طرف چلی گئی۔۔۔اور جیسے ہی میری نگاہ ان کے لن پر پڑی تو ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔اسے دیکھ کر میرے اور میری چوت ۔۔۔۔ دونوں کے ہوش اُڑ گئے ۔۔۔ وہ اس لیئے کہ احسان بھائی کا لن تھا ہی بڑا لمبا موٹا اور اتنا شاندار کہ ۔۔اسے دیکھ کر خود بخود میری چوت سے پانی ٹپکنا شروع ہو گیا ۔۔۔ ادھر حنا باجی کے اندر اپنی منی چھوڑ کر بھی احسان بھائی کا لن ابھی تک ویسے کا ویسا ہی کھڑا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں جو اتنے دنوں سے چدئی نہیں تھی۔۔۔ ان کا لن دیکھ کر میری تو حالت ہی عجیب ہوگئی ۔۔۔اور میں ان کا لن دیکھ دیکھ کر بے قابو ہونے لگی ۔۔۔ لیکن پھر میں بھی بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا ۔۔۔
جاری ہے