ads

Zindagi ke Rang - Episode 7

زندگی کے رنگ 

قسط نمبر 07



بستر کی چادر بہت گیلی تھی ۔ اس لیے میں نے اس کو اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔ اور جب میں نے چادر کو اکٹھا کیا تو نیچے گدا بھی کچھ گیلا تھا ۔ اس لیے میں نے اکٹھی کی ہوئی چادر کو سیٹ کر کے گدے پر بچایا اور سونے کے لیے لیٹ گیا ۔ اور کافی دیر تک سوچتا رہا کہ یہ سب کیا ہے ۔ 

رخسانہ کا بار بار میرے قریب آنا ۔ مجھ سے چدوانا ۔ اور اس کو درد تو ہونا پر خون کا قطرہ تک نہ نکلنا ۔ حتی کہ میرے لن پر بھی خون کا نشان تک نہ ہونا میری سمجھ سے باہر تھا ۔

میں کافی دیر تک ان ہی باتوں میں الجھا رہا ۔ اور آخر کار کسی بھی نتیجے پر پہنچے بنا سو گیا ۔ 

اگلے دن میں صبح جلدی نہ اٹھ سکا کہ ایک تو میں سارا دن کا تھکا ہوا تھا دوسرا رات کو سیکس کرنے کے بعد جسم کچھ نرم ہوا اور پھر دیر رات تک جاگتے رہنے کی وجہ سے سویا ہوا تھا ۔ 

اگلے دن میری آنکھ کسی کے بری طرح ہلانے پر کھلی ۔ دیکھا تو رخسانہ اور میری ایک دور کی رشتے دار جس کا نام آصفہ تھا اور جو کہ رشتے میں میری خالہ لگتی میری چارپائی کے ساتھ کھڑی تھیں ۔ آصفہ نے اسی سال میڑک کیا تھا ۔ اور آج کل کیا کر رہی تھی مجھے کچھ معلوم نہیں تھا 

میں نے پوچھا تم نے ایسے کیوں اٹھایا تو رخسانہ بہت آہستہ سے بولی موڈ تو کسی اور طریقے سے اٹھانے کا تھا ۔ مگر مجبوری کی وجہ سے ایسے اٹھایا

تو دوسری بولی ۔ کیا کہا ۔ تو رخسانہ نے کہا کچھ نہیں ۔ اور وہ دونوں مجھے کہہ کر نیچے چلی گئیں کہ مجھے میری والدہ نے بلایا ہے 

میں جب اٹھا تو دیکھا کہ کافی دن نکل چکا تھا ۔ میں نے گھڑی اٹھا کر دیکھا تو اس وقت ساڑھے آٹھ ہو چکے تھے 

میں نیچے گیا تو دیکھا کہ دونوں واش روم خالی تھے ۔ میں نے اپنی الماری کھول کر اس میں سے اپنے کپڑے نکالے اور نہانے چلا گیا ۔ نہانے کے لیے میں نے پانی والی موٹر چلائی کہ تازی پانی نیم گرم ہوتا تھا ۔

بدقسمتی یہ ہوئی کہ جب میں ایک واش روم میں گیا تو دوسرے میں رخسانہ گھس گئی۔ 

جس کو کسی اور نے تو نہیں پر میری اسی چاچی نے جس سے میری دوستی تھی نے نوٹ کیا ۔ کیوں کہ ہم دونوں میں بہت دوستی اور قریبی تعلق تھا ۔ کہ ہم ہر بات ایک دوسرے سے کر لیتے تھے

جب میں باہر نکلا تو اس نے مجھے کافی تنگ کیا ۔ جب میں اپنی والدہ کے پاس پہنچا تو انہوں نے غصے سے کہا نواب صاحب سب کام آپ کے ذمے ہیں ۔ اور جناب کی نیند پوری نہیں ہو رہی ۔ 

میں نے ان کو یقین دلایا کہ میرے ذمے لگے تمام کام با احسن پورے ہوں گے ۔ 

مگر میرے 2 بھائی جو وہاں موجود تھے نے ماں کو گرم کرنے کا کام جاری رکھا تو میں غصے میں گھر سے باہر آ گیا کیونکہ میں ماحول خراب نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ 

اور گھر سے نکل کر قصائی کی دوکان کی طرف چل پڑا ۔ کیونکہ ان دنوں ون ڈش پارٹی کی اجازت تھی ۔ اس لیے ہم نے قیمے والے نان اور بوتل بطور ولیمے کے کھانے کے رکھے تھے 

میں اپنے ایک دوست کے پاس گیا ۔ جو قصائی تھا اور اس نے ہیں ایک نان والی دوکان والے سے میرے لیے سب طے کر رکھا تھا ۔ اور میں نے اس کو 30 کلو قیمے کا کہہ رکھا تھا ۔ جب میں اس کے پاس گیا تو اس نے پہلے سے پیاز اور سبز مرچیں قیمے والی مشین سے پیس کر رکھی ہوئی تھیں ۔ اور گوشت کو ویسے ہی رکھا ہوا تھا ۔ اور میرا انتظار کر رہا تھا ۔

میں نے گوشت کو چیک کیا اور اس کو دوبارہ کہا کہ چربی بلکل نہیں ہونی چاہیے تاکہ نان کا ذائقہ لاجواب ہو ۔ اور اس نے کہا کہ تم اس کی فکر نہ کرو ۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اس نے پوچھا کہ چائے پینی ہے 

میں نے گالی دے کر کہا کہ ابھی تک ناشتہ نہیں کیا تو اس نے بھی مجھے جواب میں گالیاں دئیں اور پھر اپنے بھائی کو کہا اور نان چنے اور چائے منگوائی ۔ 

اور جب تک ناشتہ آتا اس نے گوشت کو صاف کرنا شروع کر دیا ۔ اور پھر درمیان میں ناشتہ کیا ۔ اور پھر سے اپنے کام پر لگ گیا ۔ جب کہ میں اس سے گپ شپ لگاتا رہا اور ہنسی مذاق چلتا رہا

پھر ایک گھنٹہ وہاں گزار کر میں وہاں سے گھر ایا ۔ اس دوران اس نے قیمہ بنا کر نان والے کو بھیج دیا کہ پورے 12 بجے نان لگانا شروع کر دے ۔ تاکہ نان وقت پر گھر پہنچ سکے ۔ کیونکہ اس کے ذمے تھا کہ پورے ایک بجے نان گھر پہنچنے چاہیے ۔ 

گھر سے موٹر سائیکل لی اور بوتلوں کے لیے ایجنسی پر گیا ۔ اس کا بندوبست میرے کزن ڈاکٹر وسیم نے کیا تھا ۔ اور بوتلیں لیکر گھر آ گیا ۔ 

میں نے گھر پہنچ کر بوتلیں دھونے کا کام شروع کر دیا ۔ میرے اپنے بھائیوں میں سے کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا ۔ نہ کسی کزن کو انے دیا ۔ 

کچھ دیر میں رخسانہ ، اور آصفہ بھی میرے ساتھ لگ گئی ۔ کچھ دیر میں چاچی بھی ہمارے ساتھ لگ گئی ۔ بوتلیں دھو کر ایک بڑے ٹب میں لگا کر میں نے وقت دیکھا تو 12 بج گئے تھے

میں نے اپنے کپڑے بدل لیے ۔ اور برف کا کر بوتلوں والے ٹب میں ڈال کر اپنے سارے کام پورے کر دیے اور ماں کو بتا دیا کہ سب کام ہو گئے ہیں 

پر میرا موڈ بہت خراب تھا ۔ لیکن ماں پر ظاہر نہیں کیا ۔ 

ماں نے کہا کہ تم اپنی ٹیم بنا لو ۔ کھانا بھی تم نے ہی بانٹنا ہے ۔ تو ۔ میں نے جی کہا ۔ اور چھت پر چلا گیا جہاں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا ۔ ایک طرف لیڈیز اور دوسری طرف مردوں کے لیے انتظام تھا ۔ کہ اندازہ تھا کہ 150 تک لوگ آئیں گے ۔ 

مگر میں نے 360 بوتلوں اور 200 نان کا انتظام کیا تھا 

اتنے میں میری چاچی اوپر آئیں اور اس نے کہا کہ نیچے تمھاری شاگرد آئی ہیں ۔ 

میں نیچے گیا تو دیکھا کہ فرزانہ ، مسرت اور ان کے ساتھ فرزانہ کہ کزن اور ہونے والی بھابی بھی آئی تھی کہ جس پر میرا دل بھی آیا ہوا تھا ۔ اور چودنے کا پروگرام بھی 

تھا ۔ 

میں نے پہلے ہی سب چیزیں اوپر پہنچا دی تھیں ۔ کہ مجھے معلوم تھا کہ سب کچھ میرے ہی زمہ آئے گا 

خیر کھانا لگ گیا ۔ میرے ساتھ لیڈیز میں فرزانہ ، مسرت ، رخسانہ اور چچی مدد کر رہی تھیں ۔ جبکہ جینٹس میں قصائی اور دوسرا دوست خرم تھا ۔ اور 2 شاگرد بھی مدد کر رہے تھے ۔ 

سب کو میں نے کہا کہ جو بھی جتنا بھی مانگے دے دینا 

کھانا جاری تھا سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کہ میرے بھائی جس کی شادی تھی ۔ میرا پاس ایا اور مجھے تھپڑ مار دیا ۔ اور مجھ پر چلانے لگا ۔ میں ایسے جیسے مر گیا تھا کہ تمام خاندان کے بیچ میں اور پھر شاگرد بھی تھے 

مجھے اس کے بولنے کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ بس دل کر رہا تھا سب چھوڑ کر کہیں دور چلا جاؤں ۔ جہاں مجھے کوئی نہ جانتا ہو ۔ 

اتنے میں میری والدہ بھی آگئی ۔ اور بھائی کو چپ کروا کر ساتھ لے گئیں ۔ اور میری چاچی نے مجھے سنبھالا ۔ اور لیکر قناعت کے پیچھے میری چارپائی پر لے گئیں ۔ اس کے ساتھ رخسانہ بھی تھی 

میں بس چپ چاپ لیٹ گیا ۔ اور چاچی کو صرف اتنا کہا کہ آپ لوگ کھانے کو دیکھ لو ۔ 

تو وہ رخسانہ کو لیکر چلی گئی اور میں جیسے ماضی اور حال کے بیچ پھنس گیا



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments