زندگی کے رنگ
قسط نمبر 08
میں کافی دیر تک ایسے ہی لیٹا رہا ۔ میرے کانوں میں بے شمار آوازیں آ رہی تھیں ۔ پر کوئی بھی آواز سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ کافی دیر تک میں لیٹا رہا ۔
اس دوران بھائی کا ولیمہ خراب ہو گیا ۔ کیونکہ میرے جاتے ہیں سب لوگ جو کھانا دینے کا کام کر رہے تھے بے دلی سے کام کرنے لگے
کہاں ہنسی مذاق چل رہا تھا ۔ اور کہاں سارا ماحول خراب ہو گیا ۔ ولیمہ ختم ہو گیا تو میرے سٹوڈنٹس اور سب لوگ کھانا لیکر میرے پاس ا گئے کہ انہوں نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا تھا ۔ اور ان کی وجہ سے نہ صرف میں نے بلکے سب نے تھوڑا بہت کھایا
اور پھر چاچی نے مجھے اپنے پاس کرکے صرف اتنا کہا کہ اب بس ۔ اس بار میں بھائی سے بات کروں گی ۔ لیکن ابھی تم اٹھ جاؤ ۔ اور ہمارے ساتھ لگو کہ دل بھی بہل جائے گا اور کسی کو مزید بات کرنے کا موقع نہیں ملے گا ۔
تو ہم لوگ اٹھ کر واپس آگئے ۔ تمام چیزیں اکھٹی کرنے کے بعد میں نے رخسانہ سے کہا کہ چائے بنا کر لاؤ ۔ اور اپنے ایک سٹوڈنٹ کو دودھ لینے بھیجا
اور جو کھانا بچ گیا تھا پروگرام کے مطابق صاف کھانا مسجد میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو بھجوا دیا اور جو نان آدھے کھائے ہوئے تھے کو کاٹ چھانٹ کر رات کے کھانے کے لیے رکھ لیا
اس دوران مجھے چاچی نے بتایا کہ بھائی کی سالی نے بھائی کو کہا تھا کہ اس نے بوتل مانگی تو اسکو کہا گیا کہ اور بوتل نہیں ملے گی ۔ جس پر اس نے اپنی بہن جو میری بھابی بن کر آئی تھی سے شکایت لگا کر کہا تو بھائی صاحب نے مجھے آکر تھپڑ مارا کہ اس کی ایک دن کی بیوی کا موڈ خراب ہو گیا تھا ۔
خیر چائے پی کر ہم سب اوپر بیٹھے رہے اور گپ شپ کرتے رہے ۔ چاچی کو کئی بار بلایا گیا پر اس نے صاف منع کر دیا ۔ کہ وہ مجھے بھائی اور بیٹے سے زیادہ پیار کرتی تھی ۔ اور ہم دوستوں کی طرح رہتے تھے ۔ اور مجھے نظر آ رہا تھا کہ آج بڑا پھڈا ہو گا
سب سٹوڈنٹس اپنے اپنے گھر چلے گے ۔ لیکن میرا موڈ اچھا ہو گیا تھا ۔ کہ میری فطرت ایسی تھی کہ میں کسی سے بھی زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکتا تھا اور نہ ہی مجھے غصہ رہتا پر ۔ جس کا فایدہ ہمیشہ میرے بھائیوں نے اٹھایا تھا ۔ پر یہ تھا کہ میں اپنے اندر ہی جلتا رہتا تھا
لیکن آج میں بھی گھر والوں سے بات کرنا چاہتا تھا ۔
لیکن بھائی صاحب چلے گے اپنے سسرال اور مجھے انتظار کرنا پڑا ۔
میں بھی پھر گھر سے نکل گیا اور
جیسے ہی شام کے 7 بجے گھر آیا تو چاچی ، رخسانہ اور آصفہ نے مجھے مجبور کیا کہ ہم لوگ باہر چلیں ۔
میں چاچا کی گاڑی لیکر ان کو گھومانے لے گیا ۔ اور رات 12بجے کھانا کھا کر واپس آئے تو کچھ سو رہے تھے ۔ اور زیادہ تر مہمان جا چکے تھے
میں بھی اوپر چھت پر چلا گیا مگر جانے سے پہلے چاچی کو کہا کہ اگر ایک کپ چائے مل جائے گی تو مہربانی ہو گی ۔ اور چھت پر جا کر بستر پر لیٹ گیا ۔ کچھ ہی دیر بعد رخسانہ چائے لیکر ا گئی ۔ اور ہم باتیں کرنے لگے ۔
میں نے اس سے پوچھا رات کو جو ہوا وہ کیا تھا ۔ تو اس نے کہا کہ ہم نے اپنے خالہ یعنی میری ممانی سے ہمیشہ یہ ہی سنا تھا کہ میں بہت بد تمیز ہوں وغیرہ وغیرہ
تو وہ بس مجھ سے دل لگی کر رہی تھی ۔ اور پھر مجھ پر دل ا گیا کہ اس نے جو کچھ میرے بارے میں سنا تھا میں اس سے بلکل مختلف تھا ۔ اور یہ کہ کل چدائی اس لیے ہو گئی کہ وہ سیکس کی پیاسی تھی اور جب میں نے کہا تو اس کو لگا کہ اچھا موقع ہے کیونکہ اس کو لگا تھا کہ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا ۔ اس کے چچا زاد کزن نے جس سے وہ پیار کرتی ہے نے اس کو 3 بار چودا تھا ۔ اور اب 7 ماہ سے وہ آرمی کی ٹریننگ کے لیے گیا ہوا ہے ۔ اور اس دوران وہ سیکس نہیں کر سکے ۔ تو جب میں نے کہا تو بس اس کی پیاس اتنی بڑھ گئی ۔ کہ وہ خود چل کر آ گئی ۔ دوسرا یہ کہ وہی کزن اب اس کا منگیتر ہے ۔ اور 4 یا 5 مینے بعد اس کی شادی اس سے ہونے والی ہے ۔
میں نے پوچھا پر جب تمھاری اس سے شادی ہونے والی ہے تو پھر سیکس کیوں کر لیا ۔
تو وہ بولی کہ ایک دن بس مذاق مذاق میں اتنے گرم ہو گئے کہ اس نے مجھے چود ڈالا۔ اور پھر تو اس نے جب موقع ملتا تو کبھی ممے چوستا تو کبھی کچھ ۔
پر چودنے کا موقع صرف 2 بار ہی ملا ۔
میں نے پوچھا آج کا پروگرام کیا ہے تو وہ بولی ۔ بس ایک بار برتن رکھ کر آتی ہوں جیسے ہی موقع ملتا ہے ۔ ابھی ہم باتیں کر رہے تھے کہ چاچی بھی چائے کا کپ لیکر اوپر آگئی ۔ اور ہم دوپہر والے واقع پر بات کرتے رہے ۔
پھر وہ دونوں نیچے چلے گئیں ۔ اور میں بستر پر لیٹ کر اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے لگا ۔
کہ بچپن سے ہی میرے بڑے بھائیوں نے میرے ساتھ کیا سلوک رکھا ۔ اور کیسے ہر جگہ ہر موقع پر مجھے ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا ۔
اب تو *** کے فضل سے میری سرکاری نوکری تھی ۔ اور میرے بھائیوں نے نہ تو آپنی تعلیم پوری کی تھی نہ ان کے پاس کوئی اچھی جاب تھی ۔
میں اپنے ماضی میں کھوتا چلا گیا ۔ کہ کیسے جب میں چھوٹا تو نہ صرف یہ ہی بھائی بلکے اس سے چھوٹا بھی میرے ساتھ کیا کچھ کرتے تھے
مجھے وہ دن یاد آ رہا تھا کہ وہ جس کی آج شادی تھی ۔ اپنے چسکے کے لیے ہمارے ہمسائے میں رہنے والی میری ہم عمر لڑکی کو ننگا کر کے اوپر مجھے ننگا کر کے لٹا دیتا تھا
اگر میں کچھ کہتا تھا تو مجھے کسی نہ کسی بہانے سے مارتا تھا ۔
کبھی اگر کوئی میری جھوٹی شکایت لگاتا تو بھی مجھے ہی مار پڑتی کہ وہ سچ بول رہا ہے تم جھوٹے ہو
میں ان ہی سوچوں میں گم تھا ۔ نہ مجھے سردی کی فکر تھی نہ احساس
نہ جانے کتنا وقت گزر گیا تھا مجھے یہ سب سوچتے اور سب کچھ میرے سامنے ایسے تھا جیسے وہ ابھی ہو رہا تھا ، کہ کوئی میرے ساتھ آکر لیٹ گیا ۔ اور جب مجھے احساس ہوا تو میں نے چونک کر دیکھا تو وہ رخسانہ تھی ۔
میں اس کو دیکھ رہا تھا تو وہ بولی وقت کم ہے پلیز جلدی کرو نہ مگر میں اس کو دیکھتا رہا تو پہلے تو اس نے کمبل کو اوپر کیا ۔ پھر وہ کافی دیر اس کے اندر ہلتی رہی ۔ اچانک اس نے میری شلوار کا ناڑا کھول کر اس کو اتار دیا ۔
اور میری شرٹ بھی اتار دی ۔ اور میرے اوپر آگئی ۔ تو مجھے پتہ چلا کہ وہ بلکل ننگی ہے ۔ اور اس نے مجھے کسنگ کرنا شروع کر دی ۔ اس کا سینہ میرے سینے پر تھا اور میری بلکل مردہ لن کے اوپر اس کی پھدی تھی
کچھ دیر میں مجھے بھی سیکس کا بخار چڑھ گیا ۔ تو میں نے اس کو گھوما کر نیچے کیا اور اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنا شروع کر دیا ۔
اور اپنے ہاتھوں سے اس کے مموں کو پکڑ کر دبانا شروع کر دیا ۔ اس کی سانسیں تیز ہونے لگیں ۔ اور میرا لن بھی اکڑنے لگا ۔ اور کچھ ہی دیر میں فل کھڑا ہو کر اس کی پھدی پر ٹچ ہونے لگا
جو کہ اب گیلی ہو چکی تھی ۔ کچھ دیر ایسے ہی کسنگ کرنے کے بعد میں نے اس کے ہونٹوں کو چھوڑ دیا اور اس کی گردن پر زبان سے مالش کرنے لگا
جیسے ہی میں نے اس کی گردن پر زبان پھیری وہ تڑپ گئی ۔ اور اس کے منہ سے بے اختیار سسکی نکل گئی ۔ اور اس نے اپنے ہاتھ میری کمر پر رگڑنا شروع کر دیے ۔
میں اب آہستہ آہستہ نیچے جانے لگا ۔ اور اس کی گردن کے بعد اس کے سینے پر اپنی زبان پھیرتا ہوا مموں پر پہنچ گیا ۔ اور ایک ممے کو منہ لیکر چوسنے لگا ۔
پہلے تو میں نے ممے کا تھوڑا سا حصہ منہ میں لیا ۔ اور اس کی نیپل پر اپنی زبان پھیرنا شروع کر دی ۔ آج کل کی نسبت اس کی نیپل زیادہ سخت تھی ۔ اور وہ بھی زیادہ گرم نظر آ رہی تھی ۔ کچھ دیر بعد اس کا سارا مما منہ میں لیکر اس کو ہونٹوں سے دبانے لگا اور دوسرے کو ہاتھ سے دبا رہا تھا تو کبھی نیپل کو انگلیوں میں لیکر مسلتا ۔ اچانک اس کے منہ سے درد بھری آہ نکلی ۔ اور ساتھ ہی وہ بولی یار آہستہ
تو میں نے اس کے ممے کو چھوڑ دیا ۔ اور دوسرے کو منہ میں لے لیا اور کافی دیر کھیلنے کے بعد دوبارہ اوپر ہونا شروع ہو گیا ۔
ہونٹوں پر پہنچ کر دوبارہ اس کو کسنگ کرنا شروع کر دی
اس کی گرم سانسوں کے ساتھ اس کے منہ سے ایک عجیب سے مہک کا احساس ہونے لگا جو کہ پہلے نہیں تھا ۔
یہ مہک بہت اچھی لگ رہی تھی ۔ اتنے میں رخسانہ نے میرے لن کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنی پھدی پر ملنا شروع کر دیا ۔ جو کہ بہت زیادہ گیلی ہو چکی تھی
کچھ دیر بعد اس نے لن کو پھدی کو سوراخ پر رکھا تو میں نے پورے زور کا جھٹکا دیا تو لن پھسلتا ہوا پورے کا پورا اس کی پھدی میں چلا گیا ۔ اس کے منہ سے بے اختیار ایک چیخ نکل گئی ۔
مگر میں رکا نہیں ۔ پتہ نہیں مجھ پر پھر سے کیسا جنون طاری ہو گیا ۔ اور میں اس کو پوری طاقت سے جھٹکے دینے لگا
اس وقت مجھے مزے لینے کی بجائے صرف اس کو چودنے کا تھا ۔ نہ جانے اب جب بھی سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ میں اس پر اپنا غصہ نکال رہا تھا ۔
پہلے تو وہ انجوائے کرتی رہی ۔ مگر میرے مسلسل 3 سے 4 منٹ کی چدائی کے بعد وہ جب فارغ ہوگئی تو بھی میں رکنے کی بجائے اس کو چودتا رہا ۔
مجھے کوئی احساس نہیں تھا ۔ یہ سب اس نے اگلے دن جب ہم بچوں کو پارک لیکر گئے تو اس نے بتایا ۔
اس نے کئی بار مجھے رکنے کا کہا پر میں نے رکنے کی بجائے کچھ دیر بعد اس کی ٹانگیں اٹھا کر اوپر کر کے اس کے کندھے پر لگا کر اس کو مزید طاقت سے چودنے لگا ۔
کچھ دیر بعد بقول اس کے وہ پھر سے گرم ہوگئی ۔ مگر مزید 4 منٹ کی چدائی کے بعد وہ ایک بار پھر سے فارغ ہوگئی
کیونکہ ٹانگیں موڑ کر اوپر کرنے سے میرے ہر جھٹکے پر لن اس کی بچہ دانی سے جا کر ٹکراتا ۔ جس کی وجہ وہ بہت مزا لے رہی تھی ۔ اور اس لیے وہ نہ صرف دوبارہ گرم ہو گئی بلکے فارغ بھی ہو گئی ۔
مگر میں مسلسل اس کو چودتا رہا ۔ اب اس کی ٹانگوں اور کمر میں درد شروع ہو چکا تھا پر میں اس کو چودتا رہا ۔
بقول اس کے کے اس نے کئی بار مجھے ٹانگیں چھوڑنے کا کہا حتی کہ درد سے اس کی آنکھوں سے آنسو شروع ہو گئے ۔ پر مجھے کوئی احساس نہیں تھا ۔
میں بس اس کو چودے جا رہا تھا حتی کہ میں اس کے اندر ہی فارغ ہو گیا ۔ اور فارغ ہونے کے بعد میں نے اس کی ٹانگیں چھوڑئیں ۔ اور اس کے اوپر سے ہٹ کر لیٹ گیا ۔ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ وہ کب میرے پاس سے اٹھی اور کپڑے پہن کر نیچے گئی ۔ اور کب میں ویسے ہی ننگا سو گیا ۔
اگلے دن کسی نے بھی مجھے نہ اٹھایا ۔ حتی کہ میری آنکھ خود کھلی ۔ اور میں نے دیکھا کہ میں
الف ننگا سو رہا تھا ۔ تو مجھے یاد آیا کہ رات میں نے رخسانہ کو پھر سے چودا ۔ پر کیسے اور کتنا ۔ مجھے کچھ بھی یاد نہیں آ رہا تھا ۔
میں نے جلدی سے کپڑے پہنے اور نیچے چلا گیا ۔ جہاں چاچی نے مجھے کہا کہ منہ ہاتھ دھو لو اور پھر ناشتہ کرتے ہیں ۔ کہ وہ اور رخسانہ اور آصفہ میرا نتظار کر رہیں تھیں ۔
میں جلدی سے نہا کر آ گیا ۔ ناشتہ کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ آصفہ مجھ سے نظریں چرا رہی تھی جب کہ رخسانہ بھی ٹھیک نہیں ۔ کہ اس سے بیٹھا نہیں جا رہا تھا
میرے پوچھنے پر کہ رخسانہ تم ٹھیک تو ہو چاچی نے مجھے غصے سے کہا کہ چپ کرکے ناشتہ کرو ۔ پہلے ہی دیر ہوگئی ہے ۔
میں نے کہا کہ مجھے اٹھا دیتی۔ تو اس نے کہا کہ آصفہ کو بھیجا تو تھا ۔ پر صاحب نشے کر کے سوئے تھے کہ اٹھے ہی نہیں
تو میں نے چونک کر آصفہ کو دیکھا ۔ تو وہ جو مجھے دیکھ رہی تھی نے فورا نظریں پھیر لیں
تو مجھے جھٹکا لگا کہ کیا اس نے مجھے ننگا سویا دیکھ لیا ہے ۔
ناشتہ کرکے مجھے پتہ چلا کہ گھر والے بھائی اور بھابی کو لینے جا چکے ہیں ۔ ہم ہی گھر پر تھے یا میرے بوڑھے نانا اور ممانی اور ان کے بچے تھے
مجھے دکھ تو لگا پر میں نے کچھ نہ کہا ۔ اور ناشتہ کرکے اپنے کمرے میں گیا ۔ کپڑے بدلے ۔ اور ان کے ساتھ باتیں کرنے لگا ۔
اور شام کو باہر گھومنے جانے کا پروگرام بنانے لگے ۔ کہ میں نے محسوس کیا کہ رخسانہ کو زیادہ درد ہو رہا تھا ۔
میرے پوچھنے کی دیر تھی کہ چاچی نے کہا کہ مجھے پتہ ہے تم طاقت ور ہو ۔ پہلے تو غلط کام کیا پھر جانور بن جانا ۔ شرم تو نہیں آتی ہو گی تمھیں مجھے تو جھٹکا لگا کہ چاچی کو کس نے بتایا
جاری ہے
0 Comments