زندگی کے رنگ
قسط نمبر 09
میں چاچی کی بات سن کر ایک بار تو شاک میں آ گیا ۔ اور پھر چپ کر کے وہاں سے چلا گیا کہ میرے پاس کوئی بات یا جواب نہیں تھا اپنی صفائی میں
پھر میں ایک میڈیکل سٹور پر گیا اور درد اور مانع حمل کی گولیاں لا کر رخسانہ کو دی کہ یہ کھا لو ۔ اور جب اس نے میرے سامنے گولیاں کھا لیں تو میں واپس چھت پر چلا گیا ۔ مگر میں ابھی تک یہ سوچ رہا تھا کہ چاچی کو کیسے پتہ چلا اور کیا کسی اور کو بھی پتہ تو نہیں چلا ۔
کچھ دیر بعد رخسانہ اوپر آئی ۔ تو میں نے اس کو سیدھے طریقے سے نہیں بلایا ۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اس نے چاچی کو بتا دیا ہے ۔ جب اس نے بار بار موڈ ٹھیک کرنے کا کہا تو میں نے اس کو پوچھا کہ میں تو تمھیں چودنے نہیں آیا تھا ۔ تم خود چدوانے آئی تھی ۔ پھر چاچی کو کیوں بتایا
میری ایک ہی طرف دار تھی ۔ تم نے اسے بھی میرے خلاف کر دیا ۔ پہلے تو چپ رہی ۔ پھر اس نے جب یہ بتایا کہ رات کو جب میں چھت سے اتر رہی تھی تو چاچی نے مجھے دیکھا تھا اور صبع مجھ سے نہ بیٹھا جا رہا تھا نہ اٹھا تو چاچی کو شک پڑ گیا
انہوں نے جب بہت غصے سے پوچھا اور یہ کہا کہ وہ تم سے بات کرتی ہیں تو میں نے سب بتا دیا ۔
ابھی یہ بات کر رہے تھے کہ چاچی اور آصفہ بھی چھت پر آ گئے ۔ اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے ۔ مگر میرے دماغ میں بہت سے سوال تھے ۔ جن کا جواب میں رخسانہ سے لینے کا سوچ چکا تھا کہ جیسے ہی موقع ملا پوچھوں گا اور شام کو پارک جانے کا پروگرام فائنل کیا۔
پھر چاچی نے مجھے گوشت لانے کا کہا کہ وہ سالن بنا لے ۔ امی کے واپس آنے سے پہلے تو میں بازار چلا گیا۔ 4 بجے تک گھر والے بھابی اور بھائی کو لیکر آ گئے ۔ پر میں ان کو سلام کرنے نہیں گیا ۔
مجھے کئی بار پیغام بھی بھیجا گیا مگر میں نے کوئی رسپانس نہیں دیا ۔ اور شام کو 7 بجے میں گھر والوں نے کھانا لگا دیا ۔ تو بھی میں نیچے نہیں گیا ۔ اور جب چاچی نے کہا کہ چلنا ہے پارک یا نہیں تو میں نے کہا کہ چاچو سے گاڑی کی چابی لے کر باہر آ جائیں ۔ اور خود نیچے چلا گیا ۔
پارک جا کر جب مجھے موقع ملا تو میں نے رخسانہ سے پوچھا کہ چلو چاچی نے رات نیچے جاتے دیکھ لیا تو تم نے ان کو کیوں بتایا کہ میں نے چودا ہے
وہ بولی کہ صبع جب کمر میں بہت درد ہو رہی تھی تو چاچی نے ڈانٹ کر پوچھا اور یہ بھی کہا کہ وہ تمھارے کان کھنچتی ہیں تو میں ڈر گئی کہ ابھی کل اتنا بڑا واقعہ ہوا ہے اس لیے بتا دیا ۔ مگر بقول اس کے کہ اس نے سارا الزام اپنے سر لے لیا ہے ۔ اور چاچی کو بتا دیا کہ کیسے کزن نے اس کو چودا اور اب اس سے رہا نہیں جا رہا تھا ۔ اس لیے وہ خود مجھ سے چدوانے پر راضی تھی
میں نے کہا کہ چاچی نے مجھے جانور بن جانے کا کیوں کہا ۔ تو وہ بولی کہ رات تو تمھیں پتہ نہیں کیا جنون تھا کہ تم نے میری حالت بری کر دی ۔ میری کوئی بات نہیں سنی نہ ہی میرے رونے کا تم پر کوئی اثر ہوا ۔ حتی کہ چودنے کے بعد میں نے تم سے بات کرنی چاہی پر تم نے جواب تک نہیں دیا ۔ پتہ نہیں کل تمھیں کیا ہوا تھا ۔
پھر اس نے بتایا کہ جب تم نے میری ٹانگیں موڑ کر کندھوں سے لگا کر چودنا شروع کیا تو ایسا نہیں لگا رہا تھا کہ تم میری پھدی چود رہے ہو ۔ تم تو ایسے جھٹکے دے رہے تھے کہ میری چیخیں میں نے کیسے کنڑول کی میں ہی جانتی ہوں ۔ مجھے تو لگا تھا کہ آج تم میری کمر توڑ دو گئے ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کل کا سارا غصہ تم نے مجھ پر نکال دیا ہے ۔
میں شرمندگی کے مارے کچھ بھی بول نہ سکا ۔ کہ جو وہ بتا رہی تھی اس سے تو مجھے لگا کہ میں نے حیوان بن کر چودا ہے اسے
میں نے اس سے معذرت کی ۔ کہ سچ مجھے ان باتوں کا احساس نہیں ہوا
تو اس نے کہا کہ اس کے دل میں کوئی بات نہیں تو مجھے کچھ سکون ہوا ۔ پھر ہم بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔
میں نے اب مذاق شروع کر دیا کہ اچھا اتنا چودا ۔ کہ جاب کی چیخیں نکل رہی تھیں ۔ تو اس نے جب یہ کہا کہ تم نے مجھے تقریبا 15 منٹ چودا ہے تو میں خود حیران رہ گیا کہ میرا ٹائم تو 9 سے 10 منٹ ہے ۔
پھر ہم ایک دوسرے سے مذاق کرتے رہے ۔ اور میں نے کہا کہ آج کا موڈ ہے تو اس نے کان پکڑ کر کہا توبہ کرو ۔ اب تو نہ ممکن ہے ۔ اور چاچی بھی نے وارننگ دی ہے
پھر اس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں جب بھی گاؤں آؤں گا تو اس سے ملوں گا
میں نے وعدہ تو کرلیا پر شرارت سے پوچھا کہ آؤں گا تو چودنے دو گی۔ اس نے بھی شرارت سمجھتے ہوئے کہا کہ اگر کل رات کی طرح چودنا ہے تو بلکل نہیں ۔ پھر ہم دونوں ہنس پڑے
اتنے میں چاچی اور آصفہ اور بچے بھی جھولوں سے واپس آگئے ۔ اور آئس کریم مانگنے لگے تو میں نے صاف انکار کر دیا کہ سردیوں کے دن ہیں ۔ آئس کریم نہیں ملے گی ۔ اور اگلے دن کا وعدہ کیا کہ تم لوگوں کو سپیشل جھولوں پر لیکر جاؤں گا تو وہ سب خوش ہو گے ۔ کہ چلو ٹھیک ہے
جب گھر کر نکلنے لگے تو چاچی نے مجھے روک کر پوچھا کہ ناراض نہ ہو تو ایک بات پوچھوں ۔ میں نے کہا اب آپ بھی ایسے بات کرو گی تو وہ بولی کہ بات ہی ایسی ہے ۔ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا کہ آپ کو ہر حقوق ہے ۔ آپ پوچھو ۔ تو وہ بولی کہ اگر جو 2 دن سے تم رخسانہ سے کر رہے ہو اس کا کوئی رزلٹ نکل آیا تو
میں نے کہا بے فکر رہیں ۔ میں اس کو دوائی کھلوا چکا ہوں
تو انہوں نے بھی جیسے سکون کا سانس لیا
لیکن اس دوران آصفہ نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی وہ مجھ سے نظریں ملا پا رہی تھی ۔ میں بھی کوشش کر رہا تھا کہ اس کو اگنور کروں۔ پر جب بھی نظریں ملتیں ۔ تو میں نے نوٹ کیا کہ وہ میری طرف دیکھ رہی ہوتی تھی ۔ اور میری نظر اس کی طرف جیسے ہی جاتی وہ منہ دوسری طرف کر لیتی
گھر آ کر ہم چاروں نے چھت پر چائے پی ۔ اور جب جانے لگے تو میں نے شرارت سے چاچی کے سامنے رخسانہ کا ہاتھ پکڑ لیا کہ تم تو رک جاؤ ۔ اسوقت تک آصفہ برتن لیکر نیچے چلی گئی تھی
تو چاچی نے میری کمر پر تھپڑ مارا اور رخسانہ کو لیکر نیچے چلی گئی۔
اگلے دن مجھے جب کسی نے اٹھایا تو میں سمجھا کہ رخسانہ ہو گی ۔ اس لیے اس کا ہاتھ پکڑ کر میں نے کھینچا تو جو میرے اوپر گری وہ آصفہ تھی ۔
میں شرمندہ ہو گیا ۔ اور سوری بول کر اٹھ گیا ۔ اور تیار ہو کر ناشتے کے لیے امی ابو کے کمرے میں پہنچ گیا
ناشتے پر وہ ہوا جس کی مجھے زندگی میں امید نہیں تھی ۔
جیسے ہی میں ناشتے کے لیےپہنچا تو امی نے مجھے سنانا شروع کر دی کہ وقت مل گیا نواب صاحب کو ۔ تو زندگی میں پہلی بار میں نے والد صاحب کو غصے میں دیکھا ۔ کہ انہوں نے سخت اور اونچی آواز میں کہا کہ جو بات ہو گی ناشتے کے بعد ہو گی اب کوئی کچھ نہ بولے ۔ تو سب چپ کر گئے
پر میں بہت حیران تھا کہ یہ سب کیا ہوا ۔ اور کیا واقعی میں نے والد صاحب کو ایسے بولتے سنا ہے ۔
ناشتے پر ہم گھر والوں کے ساتھ میری دونوں ممانیاں اور ان کے بچوں کے ساتھ میرے ایک عدد ماموں ، چاچو اور چاچی کے ساتھ ان کے بچے ، نانا ابو تھے ۔
ناشتے کے بعد میں اٹھا جانے لگا تو ابو نے کہا کوئی نہیں جائے گا ان کو بات کرنی ہے ۔
تو میں بھی چپ کر کے بیٹھ گیا کہ ان کے لہجے میں پہلی بار غصہ تھا جس نے مجھے ایک سکون دیا کہ اب شاید میری زندگی میں بھی کچھ بہتری ہو جائے گی ۔
ناشتہ کرکے جب سب بیٹھے تو ابو نے مجھے اور بڑے بھائی کو اپنے پاس بلایا ۔ اور بھائی سے پوچھا کہ تم نے کل اسے تھپڑ کیوں مارا ۔ تو بھائی نے کہا کہ لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ کھانے کے لیے نہیں دے رہا اگر کوئی دوبارہ کچھ مانگتا تو یہ انکار کر دیتا
مجھے تو آگ لگ گئی ۔ میں جب بولنے لگا تو والد صاحب نے ڈانٹ کر چپ کروا دیا کہ جب تجھ سے بات کروں تو جواب دینا
پھر ابو نے دوبارہ بھائی سے پوچھا کہ تجھے کس نے شکایت لگائی ۔ تو بھائی نے کہا کہ مہمان کہہ رہے تھے ۔ تو ابو نے پھر پوچھا کس نے کہا تھا ۔
بھائی بولا اب یاد نہیں ۔ تو ابو بولے اتنے مہمان تو نہیں تھے کہ تجھے یاد نہ ہو ۔ ہمارے خاندان والے تھے ۔ تیرے سسرال والے تھے چند دوست تھے سب کے ۔
اس پر بھائی چپ کر گیا ۔ لیکن دوسرا بھائی بولا کہ آپ بھائی سے پوچھ رہیں ہیں ۔ اس سے نواب سے کیوں نہیں پوچھتے ، جس کے کچھ زیادہ ہی پر نکل آئیں ہیں ۔ پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے ۔
بس یہ سننا تھا کہ میرا دماغ خراب ہو گیا ۔ اور میں تو ویسے بھی پھٹنے کو تیار تھا ۔ میں نے کہا بلکل میں نواب ہو گیا ہوں ۔ اور بھائی کیا بتائے گا میں بتاتا ہوں کہ ان کی سالی نے شکایت لگائی تھی ۔ اور کیا شکایت تھی کہ مجھے بوتل نہیں دے رہے ۔
اس نے 3 بوتلیں ضائع کر دی تھیں ایک ایک گھونٹ لیکر کہ یہ نہیں پہنی وہ نہیں پہنی پہلے کوک کی ۔ پھر سپرائٹ اور پھر فانٹا ۔ اور جب دوبارہ اس نے کوک مانگی تو میری شاگرد نے بس اتنا کہہ دیا کہ آپ کے پاس موجود ہے وہ ہی پی لیں ۔ رزق ضائع نہ کریں تو کیا گناہ کر دیا تھا اس نے ۔
کہ وہ روتی ہوئی آپ کے پاس پہنچ گئی ۔ اور آپ نے نہ بات پوچھی اور نہ کچھ اور آ کر مجھے مارا ۔ کیونکہ آپ تو ویسے ہی جلتے ہو مجھ سے ۔ میری کامیابیوں سے ۔ میری ترقی سے
بچپن سے لیکر آج تک آپ لوگوں نے مجھے مارنے کے سوا کیا کیا ہے ۔ اور آپ کو تو ویسے بھی دنیا جہان پر یقین ہے سوائے میرے
تو گھر میں جیسے ہنگامہ ہو گیا ۔ دونوں بڑے بھائی مجھے مارنے کے لیے اٹھے تو میں بھی کھڑا ہو گیا ۔ کہ آج ان کو بتاؤں گا کہ میں صرف بڑوں کی عزت میں ان سے مار کھا لیتا تھا ۔
میرے تیور دیکھ کر تیسرا بھائی جس کو بچپن سے دیکھتا آیا تھا کہ وہ بیچ میں آگیا ۔
اور مجھے چاچو نے پکڑ لیا ۔ بڑے بھائی نے کہا تم ماروں گے ہمیں ۔ ہمت اور اوقات ہے تمھاری ۔
تو میں نے کہا باپ سے کہو اپنی قسم سے آزاد کر دے ۔ ابھی بتاتا ہوں کہ تم 2 تو کیا تمھارے جیسے 4 بھی 5 منٹ سے زیادہ کی مار نہیں ۔ اور عملی مظاہرہ تم دیکھ چکے کئی بار
تو ان کی بولتی جیسے بند ہو گئی ۔
اج وہ بات بھی میں نے کھول دی جس کا جواب چاچی نے کئی بار مجھ سے مانگا تھا کہ تم ان کو جواب کیوں نہیں دیتے ۔
مجھے یاد ہے کہ نہ جانے کون لڑکی تھی جس نے شکایت لگائی تھی 2 سال پہلے کہ ظفر اس کو تنگ کرتا ہے اس کا پیچھا کرتا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ
تو ان دونوں نے مجھے سوئے ہوئے کو پکڑ کر پانی والے پائپ سے مارا تھا ۔ جس پر میرا جسم نیلوں سے بھر گیا تھا اور میں کئی دن تک چاچی کے پاس جا کر رہا تھا ۔
دوسرا بھائی بولا کہ تمھیں اپنی نوکری کا مان ہے ۔ یہ ہم سب کی وجہ سے ہے ۔ تو میں ہنس پڑا کہ واقعی ۔
جاری ہے
0 Comments